سائنس اسلام کے دربار میں!
(DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi)
اﷲ ربُّ العزت کی اس وسیع و عریض
کائنات میں اس کی قدرت کی نشانیاں ہر شو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی ’قرآنِ
مجید‘ جہاں بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور فطعی ضابطۂ حیات ہے، وہاں اس
کائناتِ ہست و بود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی انسان کو الو ہی ضابطۂ
حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔’قرآنِ مجید‘ خارجی کا ئنات کے ساتھ
ساتھ نفسِ انسانی کے دروں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دلاتا ہے اور دونوں
عوالم میں قوانینِ قدرتِ الٰہیہ کی یکسانی میں غوروفکر کے بعد اپنے خالق کے
حضور سر بسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں
فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر
غور و فکر کرنا ہوگا۔
اسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ انسان کو آفاق و أنفس کی
گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا
کہ دنیا کی اجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکام اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی
صدی کے اندر دنیا تھر کی امامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہریاور دیکھتے ہی
دیکھتے اس نے دنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل موشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے
فطری علوم کو تجربے (experiment)کی بناید عطا کی۔
اسلام دین فطرت ہے ۔اس کا ہر ضابطہ دنیوی و اخروی حکمتوں کو سمیٹے ہوئے ہے
۔کو ئی عمل کوئی حکم کوئی ادا کسی نہ کسی منفعت کا منبع ضرور ہوتی ہے ۔سائنسی
علوم کے فروغ میں اسلامی تعلیمات اور مسلمان سائنسدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
سائنس اور قرآن میں نہ صرف مطابقت ہے بلکہ قرآن جابجا اپنے قاری کو سائنسی
علوم حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
انسان نے ہمیشہ سے فطرت ، تخلیق کے اس عظیم منصوبے میں اسکی اپنی حیثیت اور
خود زندگی کا مقصد سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سچ کی اس تلاش میں صدیوں کی مدت
میں اور مختلف تہذیبوں نے منظم مذہب کو زندگی کی شکل دی۔ اور بڑی حد تک (انسانی)تاریخ
کا راستہ متعین کیا ہے۔ قرآن جو مذہب اسلام کا اہم ذریعہ ہے مسلمانوں کا
عقیدہ ہے کہ یہ مکمل طور پر کلام الہٰی ہے مسلمان اس بات پر یقین کرتے ہیں۔
کہ قرآن میں تمام انسانیت کے لئے ہدایت موجود ہے۔ چونکہ قرآن کے پیغام کو
ہر دور کے لئے مانا جاتا ہے اس لیے یہ ہر زمانے کے متعلق ہونا چاہیے۔
تمام تہذیبوں میں ادب اور شاعری انسانی اظہار اور تخلیق کا ہتھیار رہی ہیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کو اب ایک خاص مقام
حاصل ہے اسی طرح ایک دور میں یہ مقام ادب اور شاعری کو حاصل تھا۔ یہاں تک
کہ غیرمسلم علماء بھی ایک بات پر متفق ہے کہ قرآن عربی ادب کی نہایت عمدہ
کتاب ہے۔ قرآن بنی نوع انسان کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسی کتاب بنا کر
لاو۔
وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوا
بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُوا شُہَدَاء َکُم مِّن دُونِ اللَّہِ إِن
کُنتُمْ صَادِقِینَO فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا
النَّارَ الَّتِی وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ
لِلْکَافِرِینَO (5)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے (اس خاص
)بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤاور اللّٰہ کے سوا اپنے سب
حمائیتوں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے دیتے
ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں
تیار رکھی ہے کافروں کے لئے ۔فیضان قران کی جھلک اور حقانیت کا منہ بولتا
ثبوت ہے ۔
قرآن کاچیلنج یہ ہے کہ قرآن میں موجود سورتوں کی طرح کوئی ایک دوسری سورت
بنا لاؤاور اسی چیلنج کو قرآن نے کئی مرتبہ دُہرایا ہے۔ قرآن کے ایک سورت
بنانے کا چیلنج یہ ہے کہ وہ بنائی جانی والی سورت کی خوبصورتی، فصاحت،
گہرائی اور معنی کم از کم قرآ نی سورت جیسی ہونی چاہیے۔
اسی لیے آئیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن
اور جدید سائنس میں مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ قرآن سائنس
کی کتاب نہیں کہ بلکہ یہ کلام الہی ہے ۔
قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ سائنس کے متعلق ہیں، (یعنی ان میں سائنسی
معلومات موجود ہیں۔ قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لئے صرف تسلیم شدہ
سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں
کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتاہے:
وَّ بَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا ()وَّ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّ
ہَّاجًا () وَّ اَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآء ً ثَجَّاجًا ()
لِّنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا ()(پ۳۰،سورۃ النبا،آیت:۱۲تا۱۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور تمہارے اوپر سات مضبوط چنائیاں چنیں()اور ان میں
ایک نہایت چمکتا چراغ رکھا۔اور پھر بدلیوں سے زور کا پانی اتارا۔کہ اس سے
پیدا فرمائیں ناج اور سبزہ ۔
سبحان اللّٰہ!قران مجید میں کتنے پیارے انداز میں قدرت کا اس شاہکار کو
بیان کیاگیا۔جس کو انسان اپنے سر کی آنکھوں سے ملاحظہ کرتاہے۔
آئیے :سائنس کے حوالے امثلہ سے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اسلام کس قدر جدید
جہات پر نظر رکھتا ہے اور دنیا میں جو بھی وقوع پزیر ہورہا ہے اور انسان
بتدریج ترقی کے مدارج طے کرتا چلاجارہاہے ۔اس کے پیچھے اسلام کی بیان کردہ
کس قدر اہم معلومات کا کردار ہے ۔
پیارے آقامدینے والے مصطفی ﷺکا فرمان ہے: ’’لکل داء دواء‘‘ ٌ۔شہد : نوع
انسانی کے لئے شفا شہد کی مکھی کئی طرح کے پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے
اور اسے اپنے ہی جسم کے اندر شہد میں تبدیل کرتی ہے۔ اس شہد کو وہ اپنے
چھتے میں بنے خانوں (Cells)میں جمع کرتی ہے۔ آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی
انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے
نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے ۱۴۰۰ سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں
بیان کر دی تھی۔
ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا
یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوٰنُہ فِیْہِ شِفَآء ٌ
لِّلنَّاسِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ
()(پ۱۴،سورۃالنحل،آیت:۶۹)
ترجمہ کنزالایمان:پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ
تیرے لئے نرم و آسان ہیں اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیزرنگ برنگ نکلتی ہے جس
میں لوگوں کی تندرستی ہے بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو ۔
محققین کے مطابق شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں
اور یہ نرم(مرہم جیسی)جراثیم کش دوا (Mild antisepticکا کام بھی کرتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لئے
شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہدکی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے
اور بافتوں (tissue)بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی
کثافت (Density) کے باعث کوئی پپوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان
نہیں چڑھ سکتے۔
اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے
سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت
پیدا کرلے۔ شہد و ٹامن۔ کے (vitamen) K) اور فر کٹوز (: Fructoseایک طرح کی
شکّر)سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔
قرآن میں شہد اسکی تشکیل اور خصوصیا ت کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے اسے
انسان نے نزول قرآن کے صدیوں بعد اپنے تجربے اور مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔
انگلیوں کے پوروں پر انسانوں کی شناخت پر پوری دنیا میں ایک نظام رائج ہے
۔بلکہ شناختی دستاویزات پر بھی ان پوروں ہی کو حجت سمجھاجاتاہے ۔
قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اَیَحْسَبُ الْاِنْسٰنُ اَلَّنْ
نَّجْمَعَ عِظَامَہ ()بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسٰنُ لِیَفْجُرَ
اَمَامَہ‘‘(پ۲۹،سورۃ القیامۃ،آیت:۳،۴)
ترجمہ کنزالایمان :’’کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہم ہر گز اس کی ہڈیا ں جمع
نہ فرمائیں گے۔کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے پور ٹھیک بنا دیں‘‘۔
اس دنیا میں کوئی سے بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کا نمونہ بالکل ایک
جیسا نہیں ہو سکتا۔ حتٰی کہ ہم شکل جڑواں افراد کابھی نہیں یہی وجہ ہے کہ
آج دنیا بھر میں مجرموں کی شنا خت کے لیے ان کے نشا نا ت ِا نگشت ہی
استعمال کیے جا تے ہیں ۔کیا کویی بتاسکتاہے کہ آج سے کئی ہزار سال پہلے کس
کو نشانات انگشت کی انفرادیت کے بارے میں معلوم تھا؟ یقینا یہ علم رکھنے
والی ذات اﷲ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔
ایک اور مثال آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔آپ نے کبھی اپنی جلد پر غورکیا۔اﷲ
عزوجل کی عطاہے ۔ایک تحفظ اور حفاظت کی تہہ ہے ۔پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ
محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ
دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے
(Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے
قابل نہیں رہتا۔
جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض میں جلنے کی باعث پڑنے والے زخموں کا معائنہ کرتا
ہے تووہ جلنے کا درجہ ( شدت) معلوم کرنے کے لئے ( جلے ہوئے مقام پر) سوئی
چبھوکردیکھتاہے۔ اگر چُھبنے سے متاثرہ شخص کو درد محسوس ہوتاہے تو ڈاکٹر کو
اس پر خوشی ہوتی ہے ۔کیونکہ اسکا مطلب یہ ہوتاہے کہ جھلنے کا زخم صرف باہر
کی حد تک ہے اوردردمحسوس کرنے والے خلیات (درد کے آخذے) محفوظ ہیں۔ اسکے
برخلاف اگر متاثرہ شخص کو سوئی چُھبنے پر درد محسوس نہ ہوتو یہ تشویشناک
امرہوتا ہے کیونکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ جلنے سے بننے والے زخم کی گہرائی
زیادہ ہے اور درد کے آخذے (receptor) بھی مردہ ہوچکے ہیں۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی
موجودگی کے بارے میں بیان فرمایا ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا
کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا
لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (پ۵،سورۃ
النساء ،آیت:۵۶)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو
آگ میں داخل کریں گے جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور
کھالیں انہیں بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ لیں بے شک اللّٰہ غالب حکمت والا
ہے ‘‘
اب آپکو کھانا کھانے کا اسلامی طریقہ بیان کرتا ہوں۔اگر کھانا شُروع کرنے
سے قبل یہ دُعاء پڑھ لی جائے، اگر کھانے پینے میں زَہر بھی ہوگا تو اِن شا
ء َ اﷲ عَزَّوَجَلَّ اَثَر نہیں کریگا۔دُعا یہ ہے:۔’’بِسْمِ اللّٰہِ وَ
بِاللّٰہِ الَّذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْیءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا
فیِ السَّمَاء ِ یَاحَیُّی یَاقَیُّوْم۔‘‘(کنزالعمال )
یا وَاجِدُجو کوئی کھانا کھاتے وَقت ہر نوالہ پر پڑھا کریگااِنْ شَاءَ
اللّٰہ عَزَّوَجَلََّّ وہ کھانا اُس کے پیٹ میں نُور ہوگا اور بیماری دُور
ہوگی۔ہمارے یہاں پھل آخر میں کھانے کا رَواج ہے جبکہ حُجَّۃُ الْاِسلام
حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اﷲ الوالی فرماتے ہیں اگر پھل
ہوں تو پہلے وہ پیش کئے جائیں کہ طبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ
مُوافِق ہے ، یہ جلد ہَضم ہوتے ہیں لہٰذا ان کومِعدے کے نچلے حصّے میں ہونا
چاہئے اور قراٰنِ پاک سے بھی پھل کے مُقدَّم (یعنی پہلے )ہونے پر آگاہی
حاصِل ہوتی ہے
قران مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’وَ فٰکِہَۃٍ مِّمَّا
یَتَخَیَّرُوْنَ ()وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اور پرندوں کا گوشت جو چاہیں اور میوے جو پسند کریں
‘‘
میرے آقا اعلیٰ حضرت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن
روایت نَقل کرتے ہیں کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خوب دھودیتا ہے اور
بیماری کوجڑ سے ختم کردیتا ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ)
تربوز کے مکمَّل چھلکے یا دھاریاں اور گول دھبّے ہوں تو ان کا سبز رنگ جتنا
گہرا ہو گا اُتنا ہی اِن شا ء َ اﷲ عزوجل اندر سے لال اور میٹھا نکلے
گا۔کہتے ہیں: تربوز پر ہلکا سا ہاتھ مارنے پر مدّھم سی آواز آنا اُس کے
عمدہ اور پکّے ہونے کی علامت ہے۔
’’عالمِ اِسلام موجوہ زوال و انحطاط کا بنیادی سبب جہالت، علمی روِش سے
کنارہ کشی اور صدیوں کی غلامی کے لعد ملنے والی آزادی کے باوجود جاہل
حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علومِ اِنسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا
ہے۔ نئی نسل کی ذہانت صدیوں سے مسلط عالمی محکومی کے زیر اثر دب کر رہ گئی
ہے۔ دور حاضر کے مسلم نوجوان کے تشکیک زدہ ایمان کو سنبھالا دینے کی واحد
صورت یہ ہے کہ اسے اسلامی تعلیمات کی عقلی و سائنسی تفسیر و تعفہیم سے آگاہ
کرتے ہوئے ۔۔سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے۔ قومی سطح پر چھائے ہوئے
احساسِ کمتری کے خاتمے کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئی نسل کو مسلمان
سائنسدانوں کے کارناموں سے شناسا کیا جائے تاکہ اس کی سوچ کو مثبت راستہ
ملے اور وہ جدید سائنسی علوم کو اپنی متاع سمجھتے ہوئے اپنے أسلاف کی
پیروِی میں علمی و سائنسی روِش اپنا کر پختہ علمی بنیادوں کے ساتھ اِحیائے
اِسلام کا فریضہ سرا نجام دے سکے۔۔۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو شخص جتنا
زیادہ سائنسی علوم جانتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اسلامی تعلیمات سے استفادہ
کرسکتا ہے۔ |
|