اسرائیل، امریکہ اور داعش ایک ہی چیز
(Dr Tasawar Hussain Mirza, )
فرانس پر حملہ کسی مسلم ممالک
یاکسی اسلامی تنظیم نے نہیں کیا اور نہ ہی ایسا دینِ محمدی ﷺ کا درس ہے،
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کوئی اسلامی ملک یا اسلامی تنظیم فرانس پر حملہ کیوں
نہیں کر سکتے؟
جو بھی مسلمان ہے اُس کا کامل ایمان یا پختہ ایمان ہونے کی ایک مدلل شرط ہے
اپنے ہر عزیزواقارب ، بیوی بچے ، ماں باپ ، حتیٰ کہ اپنی جان اپنے مال سے
بڑھ کر محبوب خدا نبی احمدِمجتبےٰ ﷺ سے پیار ،محبت اور عشق کرتا ہو، یہ بات
تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ انسان کو جس چیز سے بھی محبت یا پیار ہو تا
ہے۔انسان صرف اپنے محبوب جیسا نظر آنے کی کوشش کرتا ہے، وہ ہر ہر ادا اپنے
پیارے کی محبوب رکھتا ہے تا کہ وہ جس سے پیار محبت کرتا ہے اُس کے دل میں
رچ بس جائے،جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اسلام کی اکائی ، اسلام کی
تعلیمات کا لُبِ لباب ہے وہ ہی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اُس وقت تک مومن نہیں
ہو سکتا جب تک سب سے زیادہ دونوں جہاں کے والی جناب رسول اکرم ﷺ سے پیار نہ
کرتا ہو ، اور انسان جس سے پیار کرتا ہے اُسی کی نصیتوں، حکموں پر عمل کر
کے اپنے پیار کو ثابت کرتا ہے۔
فرانس پر حملہ ہو یا برما کے مظلوم مسلمانوں پر، فرانس پر حملہ ہو یا
فلسطین کو نست و نمود کیا جارہا ہو، فلسطین پر حملہ ہو یا عراق و شام جلائے
جا رہے ہوں، فرانس پر حملہ ہو یا کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے
ہوں، فرانس پر حملہ ہو یا افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجھائی جا رہی ہو،
فرانس پر حملہ ہو یا لیبیا کو مسمار کیا جا رہا ہو، فرانس پر حملہ ہو یا
انڈیا کے مسلمانوں پر قیامت برپا کر دی گئی ہو۔قصہ مختصر عالمی امن کے
ٹھیکیداروں کو انسانیت پر حملہ صرف فرانس میں ہی نظر کیوں آتا ہیں؟
انسانت پر حملہ جہاں بھی ہو دکھ ، درد اور کرب کی بات ہیں ، افسوس صد افسو
س۔۔۔ کاش جتنا وویلا عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے فرانس حملہ پر کیا ہے،
اتنا کسی مسلمان ملک پر حملے کے نتیجے پر بھی کرتے؟
دنیا کو معصوم مسلمان بچے جلتے، سسکتے ،تڑپتے اور مرتے نظر آجائیں
تو،افغانستان ،سعودیہ عرب، شام، لیبیا، فلسطین، کشمیر اوربرما سمیت انڈیا
میں مسلمان قوم بھی سکھ کا سانس لے سکتیں اور دنیا امن کا گہوارہ ہوتیں۔
داعش نے فرانس حملے کی زمہ داری قبول کر لی ہے، فرانس پر حملہ اور داعش کا
زمہ داری قبول کرنے کے پیچھے جو عوامل ہیں ایک نظر اُن پر بھی، کچھ لوگوں
کا خیال ہے کہ جو ماضی میں فرانس نے عالم ِ اسلام کے جذبات کو مجروع کرتے
ہوئے ناپاک جسارت کی تھی مُحسنِ انسانیت ، نبی برحق سردار الانبیاء حضرت
محمد ﷺ کے خاکے بنانے کی اُن کا ردِعمل ہے؟ایسا ممکن ہے، نیتوں کے حال اﷲ
پاک کی ذات ہی جانتی ہے مگر مجھے ایسا نہیں لگتا، کیونکہ اس کی زمہ داری
داعش نے قبول کی ہے اور داعش کوئی اسلامی لشکر نہیں اگر داعش اسلامی لشکر
ہوتا تو داعش کا جہاد مُحسن ِانسانیت جنابِ رسول مقبول ﷺ کی تعلیمات کی
روشنی میں ہوتا، آپ ﷺ نے ارشادات کی روشنی میں جتنے بھی جہاد ہوئے ہیں اُن
میں جانوروں، درختوں، عورتوں، بچوں ضعیفوں اور بیماروں کا خاص خیال رکھا
جاتا تھا،اسلام نے جنگوں میں بھی انسانیت کے احترام اور حقوق واضع کئے ہوئے
ہیں، یہ زندہ انسانوں کو جلانا،پانی میں ڈوبنا اور مارنا، بچوں کو جلانا
اور کاٹنا، لوگوں کو زندہ کاٹنا اور پھر ویڈیو بنا کر اُس کے پیچھے قرآنی
آیات ِ مبارکہ اور حادیث پڑھنا۔۔ یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کے
لبادے میں اسلام کو بدنام کرنے اور دنیا کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کی چال
ہے،منافق لوگ پہلے وقتوں میں ایسے کام کرتے تھے جو اسلام اور اﷲ پاک کے
پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہوتے تھے ، اور داعش کا یہ دعویٰ کہ فرانس
پر حملہ شام پر حملے کا ردِعمل ہے ۔یہ بھی حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ اگر
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیا جائے کہ داعش اسلامی جہاد گروپ ہے پھر تو داعش
کو فرانس کے فوجی کیمپ پر حمل کرنا چاہیے تھا، افسوس داعش کا مقصد صرف
اسلام کو بدنام کرنا ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے لئے نت نئے مصائب
پیدا کرنا ہیں یہ اگست کا ماہ تھا جب فلسطین کے وزارتِ خارجہ کے ممبر نے
فرانس کی وزارت خارجہ کے ایک ممبر سے ملاقات کی اور فرانس نے فلسطین کے
معاملے پر یوٹرن لیتے ہوئے، فلسطین کی حمایت میں فرانس نے سخت بیان جاری
کیا کہ فلسطین کو جلد از جلد عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے یا اس پر اقوام ِ
متحدہ کی قرارداد لائی جائے۔فرانس کا یہ یو ٹرن اسرائیل میں کھلبلی مچا
دیتا ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی عیسائی ملک وہ بھی
مغربی ملک نے فلسطین کی حمایت میں بیان آیا ہو ، اور وہ بھی انتہائی سنجیدہ
،19.08.15 میں اسرائیل کا مشہور اخبار دی یروشلم پوسٹ میں ایک آرٹیکل چھپا
تھا جس کا عنوان تھا۔۔ فرانس فلسطین کے معاملے میں چھپا رہا ہے۔
آرٹیکل میں اسرائیل کی جانب سے ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی دی گئی تھی جس کا
نتیجہ فرانس کو حملے کی صورت میں مل چکا ہے، داعش کو جو لوگ مسلم دنیا سے
نتھی کر رہے ہیں اُن سے بس ایک سوال ہے کہ پوری دنیا جانتی ہے اور دنیا
دیکھ بھی رہی ہے کہ اسرائیل جو قابض اور فاسق ہونے کے علاوہ معصوم مسلم
بچوں، عورتوں، ضعیفوں کا قاتل ہیں، یہ اسرائیل ہی ہے جس نے فلسظین میں
قیامت صغریٰ برپا کی ہوئی ہے، اسرائیلی فوجی درندے ، معصوم مسلم طالبات کو
جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے لئے اغوا کرتے ہیں، اجتماعی زیادتی کرتے ہیں،
زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہونے پر گھر کی دلیز پر پھینک جاتے
ہیں،اسرائیلی درندگی کو پوری دنیا جانتی ہے مگر جیسے کبوتر بلی کیآنے پر
آنکھیں بند کر لیتا ہے اسی طرح دنیا میں امن کے ٹھیکیدار امریکہ اور
اسرائیل کے ڈر سے فلسطین پر اسرائیلی مظالم کا نوٹس تو دور سے اظہارِ مذمت
بھی نہیں کرتے۔اگر داعش واقعی ہی مظلوم مسلمانوں کی نمائدہ جماعت ہوتی تو
پہلے اسرائیل پر حملہ کرتی۔کیونکہ اسرائیل کا بارڈر ویسے ہی شام کے ساتھ
لگتا ہے۔
اب تو یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ روس نے انکشاف کیا ہے کہ داعش کو چالیس
ممالک مالی مدد فراہم کرتے ہیں جن میں جی ایٹ کے علاوہ یوپین ممالک بھی
شامل ہیں،یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اگر داعش کا تعلق کسی بھی مسلم
ملک یا گروپ سے ہوتا تو اب تک امریکہ بہادر کتنے ہی ڈرون داعش پر گرا چکا
ہوتا،دوسرے الفاظ میں اسرائیل، امریکہ اور داعش ایک ہی چیز کے تین مختلف
پہلو ہیں،
|
|