واٹر پمپ مارکیٹ

واٹر پمپ مارکیٹ مجیب ظفر انوار حمیدی صاحب کا یادداشتہ ہے ، اس عظیم ناول میں وہ تمام واقعات و کردار موجود ہیں جنہوں نے پروفیسرمجیب ظفرحمیدی کے ساتھ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں چالیس پچاس سال بسر کئے ، انور دہلوی

پروفیسرڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ( سابق مشیر تعلیم برائے حکومتَ پاکستان سال ٢٠٠٣ عیسوی )

تحریر : پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفر انوار حمیدی
سابق : مشیر تعلیم برائے حکومتِ پاکستان
(چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں اور عظیم شخصیات کے تذکروں پر مشتمل ایک عظیم تحریر )
تحریر:پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفر انوارحمیدی
ساٹھ کی دہائی کا آغاز تھا ،موجودہ عزیز آباد ٹیلے فون ایکسچینج کے عقب میں ’’عرشی ٹینٹ ہاؤس‘‘ قائم ہوا ، فیڈرل’ بی‘ ایریا کے باسی ، نذر نیاز ، میلاد مولود ، جلسہ مجلس ، شادی بیاہ ، غرض، خوشی غمی کے موقع پر عرشی ٹینٹ ہاؤس والے کا ’’تمبو‘‘ یا ’’شامیانہ ‘‘ لگوا کر فرحت محسوس کرتے ، دیدہ زیب ،دل کش رنگوں والے چَو ٹھپّے والے شامیانے ، جن کے اندر سے اُٹھتی قورمے ، بریانی ، شیر مالوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں (بھائی ! اگر زندہ رہا تو عرشی ٹینٹ والوں پر بھی کچھ لکھ دوں گا ’’کراچی رنگ ‘‘ میں ، حمیرا اطہر تو ’’کراچی کے رنگوں‘‘ کو ’’دائرۂ معارف العلومِ کراچی ‘‘(کراچی کا انسائکلو پیڈیا ) بنانے پر تُلی ہیں، ہاہاہا۔۔۔۔ہاہاہا!!!)
خیر ۔۔۔عرشی ٹینٹ والے کی دکان کے ساتھ ساتھ آگے کی جانب تشریف لائیے تو بائیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل دفتر کے ساتھ ساتھ ،دائیں ایک سرکاری اسکول ، بائیں رقیہ اسکوائر کے قدیم فلیٹس ، ساتھ آغا خان کمیونٹی کا رہائشی علاقہ اور اُن ہی کا مطب ۔ذرا اور آگے تشریف لائیے تو دائیں دستگیر کالونی بلاک چودہ کے مکانات،نصیر آباد، ذرا آگے دائیں بائیں جانب اب موٹر سائکل مکینکوں کا اژدہام (ساٹھ کی دہائی میں یہ بَلائے ناگہانی نازل نھیں ہوئی تھی بلکہ دائیں جانب چائے خانہ ، لسّی ، بعد میں ماموں کباب ، السراج اسکوائر ، فرید اسکوائر ، دائیں جانب دواؤں کے تھوک فروش بیوپاری یعنی سولہا نمبر دستگیر بمع بلاک ۱۴ دستگیر ، واہ واہ ، کیا دن تھے ؟ دل چاہتا ہے، پورے دستگیر کا پیدل نہ صرف خود چکر لگاؤں بلکہ قارئین کو بھی گھماؤں)
اب ذرا نکڑ پر پہنچ کر سامنے ملاحظہ فرمائیے ، سڑک کے پا ر چیختے چلاتے ’’ ماہی گیر ‘‘ مچھلیوں کے ٹوکرے جمائے بیٹھے ہیں ، روہو بھی مل جائے گی ، دوتھر(دھوتر) بھی ہے ، پاپلیٹ بھی تَلئے اور جھینگا مچھلی کے مزے بھی لُوٹئے ،ہاہا۔۔۔۔یہ لیجئے صاحبو ’’واٹر پمپ مارکیٹ ‘‘ شروع ہوگئی ۔بائیں ’’نواز کورٹ فلیٹس‘‘ اور دائیں ’’گوشت مارکیٹ ‘‘ ، آئیے مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں ۔اب تو دُکانوں،پتھاروں، ٹھیلوں کا اژدہام ہے ۔
مچھلی مارکیٹ :
واٹر پمپ مارکیٹ کا ’’الف ‘‘ یہی ’’مچھلی مارکیٹ ‘‘ ہے ، جب سے یہ مہک دار مارکیٹ قائم ہوئی ، خریداروں نے ’’ فشریز ‘‘ یا لیاقت آباد کی ’’مچّھی مارکیٹ ‘‘ جانا کم کرکے یہاں قدم جمایا ،اس طرح موسیٰ کالونی اور کریم آباد گوشت مارکیٹ کی ’’مچھلیاں ‘‘ بھی گاہکوں کے انتظار میں ’’دیدہ و دل فرشِ راہ‘‘ کئے پڑی رہیں مگر واٹر پمپ مارکیٹ کی ’’مچھلی مارکیٹ ‘‘ کی رونقوں میں کمی نہ آئی ، لوگ دُور دراز سے مچھلی لینے آتے ۔رفتہ رفتہ معصوم ماہی گیر ’’تیز و طرار ‘‘ مچھلی کے سیٹھوں کا رُوپ دھار تے گئے ،جیسے جیسے مچھلی کی فروخت میں اضافہ ہوتا گیا ، ویسے ویسے آس پاس لہسن ، پیاز ، ادرک ، مچھلی مسالوں کی دُکانوں اور پتھاروں میں بھی اضافہ ہوتا گیا ، ساتھ قسائیوں نے گائے ، بھینس ، بیل ، بکرے ، بکری کے گوشت کے تھڑے بھی قائم کرلئے جو اسّی کی دہائی میںقانونی ’’دکانوں ‘‘ کی شکل اختیار کرگئے۔دکانوں کے قیام کے بعد ہی اُن کے آگے پتھارے داروں نے ڈیرے ڈال لئے ۔ان میں سب سے مزے دار آئٹم وہ اوڈھنیاں (خواتین) تھیں جو گودی میں بچوں کوسلائے ، لہسن ، ادرک ، پیا ز،مرچ ،ٹماٹر ، ہرا دھنیا ،پودینا فروخت کیا کرتیں۔کبھی کبھار ’’کے ایم سی‘‘ کے جیالے ’’چھاپہ‘‘ مارکر عظیم الشان چیختی چنگھاڑتی ’’واٹر پمپ پتھارا مارکیٹ ‘‘ کو اُجاڑ دیا کرتے لیکن کیا کیجئے کہ پھر کچھ ہی دنوں بعد یہ اُجڑا دیار پھر سے آباد ہوجاتا ، مجھے یقین ہے کہ اگر میر تقی میر ؔ ، دلّی کی بجائے ، واٹر پمپ مارکیٹ میں ہوتے تو کبھی ’’دِلّی ‘‘ اُجڑنے کے مرثیے نہ کہتے ، ہاہاہا،ہاہاہا۔۔۔
اپنے گرائیں شوکت علی فانی ؔ بدایونی کا شعر ذرا سا تبدیل کردوں کیونکہ’’ اُردو کا ماستر‘‘ ( ماسٹر نھیں جناب ، ماستر ہوں ، کوئی پوچھنے والا تو ہے نھیں ، ہاہاہا،ہاہاہا۔۔۔۔۔) شعر ہے ـ:
’’واٹر پمپ مارکیٹ‘‘ وہ نگر نھیں کہ پھر آباد ہوسکے
پچھتاؤ گے ، سُنو ہو ، یہ بستی اُجاڑ کے
میرا دوست ، سید عبد العزیز عزمی ،مرحوم ہوا ، محمود شام صاحب کے بچوں کے پرچے’’ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں ’’ادیبوں کی ڈائری ‘‘ لکھا کرتا تھا ، بڑی شان کے ساتھ کسی بس میں بیٹھ کر آتا ، واٹر پمپ مارکیٹ پر وہ بس ’’لینڈ ‘‘ فرمایا کرتی ، اُس نے میری ڈیوٹی لگا دی تھی کہ جب بھی میں آؤں گا تو تمہیں ایک دن پہلے بتادوں گا ، پھر تم شام کو پانچ بجے مجھے بس سے اتارنا اور واپس بھی بٹھا کر آنا ، اُس وقت موبائل فون تو درکنار پی ٹی سی ایل فون بھی ہر گھر میں نھیں تھے ، نواز کورٹ میں ایک ’’پبلک کال آفس ‘‘ تھا ، اُس کا مالک گھرکیاں زیادہ سنایا کرتا اور فون پر عزیزوں کی آوازیں کم ، عزمیؔ، بس سے اُتر کر مجھے گھر پر فون کرتا ۔
’’ہیلو ! 6333948 یہی ہے ؟‘‘
’’جی ہاں ! ‘‘ والدہ صاحبہ ارشاد فرماتیں ۔
’’مجیب ہے؟‘‘
’’کون ؟؟‘‘
’’ آنٹی، سلام علیکم ! مجیب کو واٹر پمپ مارکیٹ بھیج دیں، کہیں عزمی آیا ہے ، مجھے بس سے لے کر آئے وہ !‘‘ جاہل ایک نمبر کا مجھے آرڈر کرتا ، مرگیا سگریٹ پھونکتے پھونکتے ، مگر سگریٹ نوشی نھیں چھوڑی۔ایک دفعہ اللہ اللہ کرکے ٹلا ، کُھل کر بتایا کہ اب جاؤ بھائی ، ابّو آنے والے ہیں ، اچھل کر فرار ہوا۔ہاہاہا، والد صاحب کے گھر آنے کا وقت ہورہا تھا ، عزمی کے جانے کے بعد میں نے اپنے فلیٹوں کے نیچے واقع ’’واٹر پمپ لطیف مارکیٹ ‘‘ اُتر کر ایک ’’رُوم فریشر ‘‘ خرید کر ابّو کے آنے سے پہلے کمرہ ’’فریش ‘‘ کیا کیونکہ کمرے میں جناب عبد العزیز عزمی بالی عمریا میں سگریٹ نوشی فرما گئے تھے ، وہ عجیب شان بے نیازی سے سگریٹ لبوں سے لگایا کرتے ، میں ’’گھونچو‘‘ بنا حسرت ،اُمید و ملامت سے اُن کا اسٹائل دیکھا کرتا ، یک لخت وہ پورا سگریٹ جذب فرماتے اور پھر آہستہ آہستہ نتھنوں سے بھاپ والے انجن کی طرح رفتہ رفتہ دھواں و دخان خارج کرتے جاتے ۔
’’ابے مرجائے گا ، چھوڑ دے یہ نلکی !‘‘ ایک دن میں نے کہا ۔
’’کس نے کہا ہے ؟‘‘ عزمی نے پوچھا ۔
’’ففٹی ففٹی میں رزاق راجو ، قاضی واجد سے کہہ رہا تھا !‘‘ میں نے ایک ٹی وی شو کا حوالہ دیا ۔
’’چل بے ! بَکتا ہے وہ ، سگریٹ پینے سے تو طاقت ملتی ہے !‘‘
سگریٹیں پھونکتے پھونکتےجب عزمیؔ مر ہی گیا تو میں نے الطاف پاریکھ کے ساتھ اُس کی قبر سرہانے کھڑے ہوکر چلّا کر کہا : ’’ اب بیٹھ نا اُٹھ کرمردود ، کہاں گئی تیری وہ سگریٹ والی طاقت ؟‘‘ مجھے لگا عزمی ابھی اُٹھ بیٹھے گا اور گالیوں کا طوفان لے آئے گا ، لیکن وہ نہ اٹھا ۔پھر میرے دوستوں کی تعداد کم ہو گئی ۔کل ایوارڈ کی ایم تقریب میں محترمہ حمیرا اطہر سے وعدہ کرلیا تھا کہ اب خاندانی شرافت ، نجابت و وقار کے ساتھ ’’واٹر پمپ مارکیٹ ‘‘ سپرد قلم کردوں گا ، لیکن نظر کا کیا کیجئے کہ ساتھ ہی پروفیسر یاسمین حفیظ بیٹھی نظر آئی ، ہر چند کے بچپن کے ’’ساتھی‘‘ ، ’’پچپن‘‘ سے اوپر پہچاننے میں دقّت پیش آتی ہے ، پھر بھی گھر پہنچ کر میں زار و قطار ہنسا کہ ہائے ہائے یاسمین بھی ’’ فُل پروفیسر ‘‘ ہوئی، ہاہاہا ،ہاہاہا،ہاہاہا۔۔۔۔(بھائی داستان جاری ہے ، مچھلی مارکیٹ کا احوال جاری ہے ،لیکن واٹر پمپ مارکیٹ کے تذکروں کے ساتھ ساتھ واٹر پمپی شخصیات کے خاکے بھی آپ کو برداشت کرنا ہوں گے )
سلام علیکم ؒ ، مجیب ظفر انوارحمیدی


واٹر پمپ مارکیٹ
قسط 2
پروفیسر مجیب ظفر انوارحمیدی
بات ہورہی ہو واٹرپمپ مارکیٹ کی اور وہاں کی شہرۂ آفاق ’’گوشت مارکیٹ‘‘ کے قصے نہ چھیڑے جائیں ۔لیجئے ، 1981 ء کا سال ہے ، اُردو کے معروف نقاد امیر حسنین جلیسی ، جنھوں نے شعرائے اُردو کا معروف تذکرہ ’’بُت خانہ شکستم من ‘‘ لکھا ، ایران میں اعلیٰ قالینوں کا کاربار کیا کرتے ، پاکستان آکر سوسائٹی (پی ای سی ایچ ایس بلاک ایک ) میں مقیم ہوئے ، پھر طارق روڈ کی کوٹھی میں اُس وقت رہے جب ایک ہزار گز کی کوٹھی ایک لاکھ روپے میں مل جایا کرتی ۔راقم کے سگے پھوپھا ،پھوپھی افضل خاتون صاحبہ کے شوہر ، معروف شاعر دلاور فگار ؔ صاحب کے بہنوئی اوربہت نفیس انسان ، ڈاکٹر جلیسی کے والد صاحب ۔واٹر پمپ کی ’’مچھلی مارکیٹ ‘‘ میں ملے ۔
مجیب ظفر : السلام علیکم پھوپھا جان ۔
امیر حسنین جلیسی : جیتے رہئے ، خوش رہئے ، سلامت رہئے (لیجئے ایک سلام کے جواب میں کئی دعائیں مل گئیں )
پوچھا : پھوپھا جان یہاں کیسے آنے ہوا ؟ گاڑی کہاں پارک کی ہے (اُس وقت حضرت کے پاس مرسڈیز تھی ، یہ لمبی کالی )
فرمایا : میاں صاحب زادے ، ایک ویگن ہمارے گھر (شمالی ناظم آباد بلاک این ) کے سامنے سے’’ U‘‘ چلی ہے ، وہ سیدھی واٹر پمپ مارکیٹ آتی ہے ، سوچا کہ آج یہاں سے مچھلی لے لوں ، حیدری مارکیٹ میں تو بہت مہنگی ہے اور تازہ بھی نھیں ہوتی ۔انوار(میرے والد ) اور خاتون(میری والدہ) اور بشرہ(بہن ) ، راجا میاں (چھوٹا بھائی)، راجا پہلوان ۔۔۔ہاہاہا۔۔۔راجا پہلوان مزے میں ہیں ؟‘‘
راجا نے معین اطہر شاہ خان جیدی صاحب کا کوئی ٹی وی ڈراما دیکھ کر معین اختر کے کردار ’’راجا پہلوان‘‘ کو دیکھ کر خود کو راجا پہلوان کہلوانا شروع کردیا تھا ، لوگ نوید ظفر تو بھول گئے ’’راجا‘‘ یاد رہ گیا ۔آج ماشا اللہ دو جوان لڑکوں حسن اور سعد کے والد ہیں ، مگر ’’راجا‘‘ ہیں ۔ہاہا ۔۔۔
’’جی ہاں،پھوپھا جان، اللہ کا شکر ہے ، آپ کی دعائیں ہیں ۔‘‘
حضرت نے کوئی چالیس ،پچاس رُپے کی تھیلا بھر مچھلی لی، صاف ، شفاف ، خوشبودار’’ رَہو‘‘ ،اور کچھ’’ پاپلیٹ‘‘ لئے ، جسے ہم مچھلی کا بچّہ سمجھتے تھے ۔یہ مجھے پھوپھا جان نے ہی بتایا تھا کہ مچھلی کے بچّے کو ’’ماہچہ ‘‘ کہا جاتا ہے جیسے بِلّی کے بچّے کو اُردو میں بلوٹاکہا جاتا ہے ، ’’بلونگڑا ‘‘ پنجابی زبان میں کہتے ہیں ۔کیسے کیسے قابل بزرگ تھے ؟ ہائے ، خاک میں رُلے ۔ہائے ۔بدایوں چھوڑا ، گویا سب کچھ چھوڑا ، حویلی پر جھومتا ہاتھی چھوڑا ، اشرفیاں بھری دیواریں ، ہائے ہائے ، حویلیاں ، دالان ، کھیت کھلیان سب چھوڑے ۔
جناب امیر حسنین جلیسی انتہائی عجلت میں تھے، ناگاہ ،ویگن سہولت سے قریب رُکی ، کنڈکٹر لڑکاا دب سے اُترا ، امیر حسنین جلیسی صاحب کو سلام کرکے سوار ہونے میں مدد دی اور وہ ہمیں ٹاٹا کرتے تشریف لے گئے ۔اُس وقت کی ویگنیں اور اُن کا اسٹاف ، ایسا لگتا تھا جیسے پڑھے لکھے طالب علم ہیں ، مجال ہے کوئی فحش کلمہ ، گالی ، آنکھ مٹکّا رائج ہو ۔انتہائی محنتی اسٹاف اور نت نویلی ویگنیں ، میں خود اپنے کالج (اُردو سائنس کالج گلشن اقبال) ’’یو‘‘ یا ’’یو فور ‘‘ ویگن سے جاتا تھا ،’’ شہزادی ہاؤس‘‘(گلشن اقبال) سے مُڑتی ،جہاں میری والدہ کی چچی اور ڈاکٹر وہاج کی والدہ رہا کرتی تھیں ۔اکثر اُن کے بنگلے ،کالج سے واپس آتے وقت اُتر جاتا ۔کیا بات تھی اُن بزرگوں کی ؟ماشا اللہ ۔کہاں وہ شہزادی ہاؤس ، کہاں آج کا قفسِ ’’گلشن‘‘ ۔اب تو سائلنسر نکلی اُڑتی ہوئی موٹر سائکلوں کا دور ہے ، بے قابو رکشوں کا ہجوم ہے ، متعلقہ افسران آنکھوں پر سیاہ چشمے چڑھائے اور کانوں میں رُوئی ڈاٹے بیٹھے ہیں ۔
گھر آکر والدہ صاحبہ کو بتایا کہ پھوپھا جان نیچے سے نیچے چلے گئے ۔افسوس کیا ۔ ٹیلے فون پر پھوپھی جان سے معذرت کی ۔پُرخلوص رشتوں کا دور تھا ۔شام ہوئی تو حسبِ معمول دادی محترمہ جنھیں ہم ’’امّاں‘‘ کہا کرتے ، تشریف لائیں ، آنچل سے بارہ روپے کھول کر دئے اور فرمایا :’’ پُوت ، نیچے،گامی کی دُکان سے آدھا سیر بکری کا گوشت تو لادے ، تمہارے چچا جان (جناب مظفر حسین حمیدی ) آنے والے ہوں گے ، اُن کے آنے سے پہلے سالن بنانا ہے سلمیٰ کو ، دیکھ لیجو ، قسائی کوئی چھیچھڑا نہ رکھ دے ، اتنا فرماکر مسہری کے سرہانے سے سر ٹکالیتیں ۔ایوب منزل (دستگیر) کے میدان سے پیدل چل کر واٹر پمپ یوکے اسکوائر آتیں ، خُوب پیدل چلا کرتیں ، لگ بھگ سو برس میں انتقال فرمایا ۔آنکھ ، ناک ، کان سب درست ۔نہ شوگر ، نہ بلڈ پریشر ۔ جب مجھے ہائی بلڈ پریشر کی بیماری ہوئی تو خوب روئیں :’’ہائے ہائے موا ،خفقان بچّے کو چمٹ گیا ، ہائے ،یہ کیسا شہر ہے کرانچی ۔‘‘
ہاہاہا ۔۔۔۔۔ کراچی کو ہمیشہ ’’کرانچی ‘‘ کہا کرتیں ۔بدایوں کی حویلی اور مولوی ٹولے ، فرشوری ٹولے پر ناز کیا کرتیں کہ وہ تھے ہمارے گھر ۔تمہارے دادا سونے کے بٹن میرے کرتے میں لگواتے تھے ، روٹی پکانے ، بال کاڑھنے ، ناخن تراشنے کو نائنیں آتیں ۔مامائیں آتیں ۔یہ موا ’’ماسی‘‘ کا لفظ بھی کرانچی کا ہے ۔ماما یا انّا کہا کرتے تھے ہم تو ۔
والدہ فرماتیں :’’ اے ہے امّاں ، اب سلمیٰ کب گوشت چڑھائیں گی ، کب گلے گا ، کہیں تو میں سالن پکادوں مظفر کو ؟‘‘ فوراً راضی ہوجاتیں :’’ہاں ہاں بہو ، ذرا چکنائی اور مرچ کم ڈالنا، اور ہنڈیا چڑھا کے ذرا میرے سر میں تیل تو ڈال کے کنگھی کردو ، جوئیں تو نہ پڑ گئیں ، مُوئی خارش کیوں ہے اس قدر سِر میں؟‘‘
بہت وہم تھا ، انتہائی صاف ستھری رہاکرتیں ۔والدہ مسکراتے ہوئے اُن کے سر میں تیل ڈالتیں ، کنگھا کرتیں ، صاف کنگھا دکھاتیں کہ دیکھیں اماں کوئی جُوں نہ ہے آپ کے سر میں ، اللہ کا شکر ادا کرتیں ۔پھر عصر کی نماز پڑھ کر لیٹ جاتیں اور ہم بچوں سے اور اپنی بہو (ہماری والدہ) سے باتیں کرتے سوجاتیں ۔شام کو والد صاحب آتے تو بمع ہنڈیا اُنھیں اُن کے دستگیر کے خوبصورت گھر میں چھوڑ آتے ۔ جاوید نہاری کی دائیں پہلی گلی کا پہلا کونے والا گھر ، یہ بڑے آم ، امرود کے درختوں والا ۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے دو حصے تھے ، ایک ہول سیلر یا تھوک فروش اور دوسرے ریٹیلر ۔ ہمارے فلیٹوں(یو ۔کے اسکوائر ) کے عین نیچے ’’عبدل کریانہ مرچنٹ ‘‘ تھا ۔پہلے تو مہینے بھر کا سودا سلف میں اور والدہ لالو کھیت سے رکشے میں لاتے ، دو سو روپے میں رکشہ بھر کر ۔اب بتاؤ تو کسی کو یقین نھیں آتا کہ وہی سودا اب دس پندرہ ہزار میں آتا ہے ۔میں دن بھر عبدل سے پاپڑ ، رِنگ پاپڑ ، جلیبی پاپڑ ، املی کی مٹھائیاں ، انڈیا کے جلیبی پاپڑ لاتا اور تل تل کر کھاتا ۔شام کی چائے خود بناتا اور اپنے ہاتھ سے تلے ہوئے پاپڑ کھاتا۔یہ فرنچ فرائز وغیرہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ یہ آلو کے چپس تلنے کی مشینیں آئیں ، پہلے یہ آلو کے چپس صرف صدر اور کلفٹن کی منہگی بیکریوں پر ملاکرتے تھے ۔پھر مینا بازار میں ایک بیکری کھلی تھی کوئی نئی ’’ یونائٹڈ بیکری ‘‘ سے پہلے ، منامہ یا پنامہ ۔۔۔اللہ جانے کیا نام تھا اُس کا ۔وہاں ملا کرتے ۔ایک دن میں عبدل کی دُکان پر گیا تو عبدل ایک پختہ عمر آدمی تھا ۔مجھے غور سے دیکھ کر بولا :’’ بابو ، اب آپ جوان ہوگئے ہو ، یہ املی ، پاپڑ زیادہ نہ کھایا کرو ، موٹے ہوجاؤ گے ۔‘‘ مجھے بڑی حیرت ہوئی ،
اُ س وقت میں بی ایس سی میں تھا ، پوچھا کہ جوانی اور پاپڑ اور املی سے کیا؟کچھ نھیں بولا۔اگلے دن کالج میں دوستوں سے تذکرہ کیا تو انھیں بھی کچھ خاص معلومات نھیں تھیں ۔میڈیکل کے پروفیسر صاحب ڈاکٹر وقار احمد زبیری صاحب سے پوچھا تو وہ بھی خاموش ہوگئے :’’پتا نھیں بیٹا ، اپنی بیوی سے پوچھوں گا کہ جوان لڑکا املی اور پاپڑ کھٹے کیوں نھیں کھا سکتا ؟‘‘ خاصا سوچ کر جواب دیا تھا ۔
ہمارے گروپ میں ایک بہت ہی تیز لڑکا تھا ’’عرفان تابانی ‘‘ ، ہائے اللہ عرفان اگر تم یہ سطور پڑھ رہے ہو تو پلیز سراج الدولہ کالج میں صبح دس بجے تک آجاؤ ، میں مجیب ہوں ، جو پانچویں کلاس سے تمہارے ساتھ پڑھتا تھا اور میں آج کل پرنسپل ہوں کالج کا ، عرفان تابانی ، شاہد شمس ، انوار الحق ، تمثیل ، ناصر ،خالد خلجی ،رضا ، شکیل انصاری ، قلندر خان ، ایک ہی کلاس میں تھے ہم سب ’’دوم جیم میں‘‘۔تو مجھے عرفان تابانی نے جو بتایا تو ہم میں کسی کو کچھ ٹھیک سے سمجھ میں نھیں آیا ۔اس پر عرفان بولا کہ اچھا یار رات کو میرا ایک دوست ہے خالد،بڑا امیر ہے ، اُس کی بڑے لڑکوں سے دوستی ہے ، تو وہ غیر ملکی فلم وی سی آر پر چھپ کر چلائے گا تو میں بھی فرسٹ ٹائم دیکھوں گا کہ ہوتا کیا ہے جوان لڑکوں کے ساتھ ؟ہم نے منھ پھاڑ کر پوچھا :’’کون سی فلم ہے عرفان ؟‘‘ وہ معصومیت سے بولا :’’یار اسکو بلو فلم بول رہا تھا خالد ۔‘‘
’’اچھا اچھا ، نیلے رنگ کی ہوتی ہوگی نا مووی ۔‘‘ سارے سقراط بقراط نے اپنی اپنی رائے پیش کی ، اچانک عرفان کی گُدّی پر کسی نے پوری طاقت سے کس کر گھونسا مارا ، پیچھے مُڑ کر دیکھا کہ محلہ کے غنڈے ’’ستار بھائی ‘‘ کھڑے تھے ۔
’’یہ تم کیا بھونک رہے تھے ابھی عرفان ، پھر سے بولو !‘‘ اُن کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ۔ہم سب سہم گئے ، عرفان کی تو گھگھی بندھ گئی ۔’’وہ وہ بھائی ، وہ وہ بھائی ، خالد کوئی فلم لائے گا ، وہ دکھانے بلایا ہے ہم لوگوں کو آج مغرب کے بعد ۔‘‘
’’ماشا اللہ ، بہت خُوب ، سبحان اللہ ۔۔۔۔‘‘ ستار بھائی نے اس طرح چبا چبا کر کہا جیسے عرفان تابانی کی ہڈیاں چبارہے ہوں ، پوچھا :’’پھر کیا ارشاد فرمایا آپ نے ؟‘‘
عرفان تو سر جھکا کر چُپکا ہورہا ، ہم ہمت کرکے بولے :’’ ستار بھائی ، ستار بھائی ، میں نے کہا کہ خالد بھائی، آپ فلم کو ریوائنڈ کرکے رکھیں8 ، ہم لوگ ابھی نماز پڑھ کر آتے ہیں اور دیکھئے ، بے ایمانی مت کیجئے گا ، جب ہم آئیں تو بلو فلم اُسی وقت اسٹارٹ کیجئے گا ۔‘‘ اچانک ستار بھائی کو جانے کیا ہوا، اِدھر اُدھر دیکھ کر زمین پر بیٹھ گئے ، بڑے توانا کڑیل جوان تھے ، منھ گھٹنوں میں چھپا کر خوب ہنسے ، میں سمجھا رورہے ہیں ۔خوب ہنسے ۔پھر قریب سے کامران بھائی نماز پڑھنے کو گزرے تو اُن کے کان میں بھی کچھ کہا ، وہ بھی خوب ہنسے اور بولے:’’بچّے ہیں یہ سب شریف گھرانوں کے ، وہ بدمعاش مکار ہے ، جاؤ جاؤ نماز پڑھ کر گھر جاؤ ۔میں خالدکی خبر لیتا ہوں جاکر ۔‘‘ دونوں دوست نماز کو چلتے بنے ۔ستار بھائی محلہ بھر کے بدمعاش تھے لیکن نماز پنج وقتہ پڑھا کرتے ، نہ کسی کو گالی دیتے ، نہ مارتے ، عورتوں بچوں کی عزتوں کے امین ،لڑکوں کو نمازیں پڑھنے کا کہا کرتے، میلاد سُن کر خُوب روتے ،اللہ جانے کاہے کے بدمعاش تھے وہ ، اللہ جانے ، مرحوم ہوئے ، قبر میں سے وہ بھینی مہک اُٹھی کہ مولوی صاحب آب دیدہ ہوگئے ، ’’ فرشتہ کون تھا یہ ؟‘‘ انھوں نے پوچھا ۔میں آنکھیں رگڑتے ہوئے بولا : ’’بہت بڑے بدمعاش تھے واٹر پمپ مارکیٹ کے !‘‘ عجیب لوگ تھے تدفین میں ، میری بات سُن کر بجائے ہنسنے کے،منھ پھاڑ کر رونے لگے ، مل کر بین ڈالنے لگے کہ ہائے ستار مرگیا ، کئی گھرانوں کو پالنے والا،کراچی کا ایک بدمعاش اور کم ہوگیا ۔
دوسری قسط خلاص

واٹر پمپ مارکیٹ
قسط 3
پروفیسر مجیب ظفر انوارحمیدی
واٹرپمپ مارکیٹ کے ہسپتال دوا خانے اور میڈیکل اسٹور :
صحت عامہ سے متعلق واٹر پمپ پر ستّر کی دہائی سے یوکے اسکوائر کے ساتھ (جہاں اب لطیف اسکوائر ) اور انارکلی مارکیٹ ہے ، کے ای ایس سی کے ٹرانسفارمر کے ساتھ ایک ’’ عتیق کلینک ‘‘ ہوا کرتا تھا ، اس طرح کچھ آگے جاکر چنوں کے بھاڑ کے ساتھ ’’محسن کلینک ‘‘ ہوا کرتا (محسن کلینک اس سے پہلے ساٹھ کی دہائی میں جہاں اب ٹمبر مارکیٹ ہے وہاں چاول ڈپو کے ساتھ ہوتا ، اس کے بعد بھاڑ کے برابر اور پھر چالیس سال پہلے اسی لائن میں آگے جاکر موجودہ مقام پر منتقل ہوا ۔اُدھر یوکے اسکوائر کے ساتھ ’’یوسف پلازہ ‘‘ کے معروف فلیٹس ہیں ، اُن کے عقب میں ’’اشتیاق ہڈی جوڑ کلینک‘‘ ،’’ڈاکٹر صغیر کلینک ‘‘ اور مین روڈ ’’لبِ سُپر ہائی وے ‘‘ انچولی پر ’’ہائی وے کلینک ‘‘ ہوا کرتا ، اس لائن میں ’’ گولا والا ‘‘ اور ’’ خواجہ حسن نظامی اسکول ‘‘ (پرائیویٹ ) اسکول تھے ، اُن ہی پلاٹوں پر بہت بعد میں ’’مامجی ہڈیوں کا اسپتال ‘‘ قائم ہوا جو آج موجودہ شکل ’’مامجی اسپتال‘‘ واٹرپمپ کے نام سے مشہور ہے اور تقریباً 3600 مربع گز کے رقبے پر واقع ہے ۔آج سے تیس چالیس برس پہلے یہ شفا خانے اپنی ابتدائی شکل میں تھے اور رہے نام اللہ کا ، شِفا مِن جانبِ اللہ ہی ہوا کرتی ۔’’ہائی وے کلینک ‘‘ (انچولی) بالمقابل یوسف پلازہ بڑا اسپتال تھا ، بعد میں اس لائن میں آگے ’’فیڈرل کلینک ‘‘ ، ’’ زہرہ اسپتال‘‘ اور اِکّا دُکّا اسپتال قائم ہوئے لیکن جو بات ’’ ہائی وے کلینک ‘‘ کی رہی وہ کسی اسپتال کی نہ تھی ۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے مشہورمعالج :
سب سے مقبول ترین جنرل فزیشن تو ڈاکٹر محمد مُحسن (خیر سے نوّے کے ہورہے ہیں ، اُردو ادب کو کئی مزاحیہ کتب دے چکے ہیں ، روزناموں اور جرائد کا بھی مقبول نام رہے ہیں ، اب بھی کبھی کبھار اخبارات ڈاکٹر محمد محسن کی کتابوں سے مضامین شایع کرتے رہتے ہیں ۔ ہفت روزوں میں ڈاکٹر صاحب طبّی مسائل کا جواب بی دیا کرتے )۔ اس کے بعد ڈاکٹر عتیق (سرکاری معالج تھے ، کبھی کلینک کیا کرتے اور کبھی نھیں ) ۔ڈاکٹر سعود ( معروف معالج ، واٹر پمپ مارکیٹ کے اُس عقبی حصے میں کلینک کرتے جو اب امام بارگاہ دستگیر ٹی گراؤنڈ کے سامنے کا علاقہ ہے ۔ڈاکٹر صغیر (یوسف پلازہ کے نیچے دکانوں میں کلینک تھی)، ڈاکٹر عارف (ڈاکٹر محسن کے ساتھ پریکٹس کرتے ) ، ڈاکٹرفرحت اللہ خان (ڈاکٹر محسن صاحب کے ساتھ ہی پریکٹس کی )، ہومیو ڈاکٹر شہناز محسن ( ڈاکٹر محمد محسن کی اہلیہ ) ، ڈاکٹر عبد السلام (ہومیو ڈاکٹر جو ڈاکٹر محسن کے ساتھ ہی اُن کی کلینک کے ایک کمرے میں پریکٹس کرتے ) ۔مزے کی بات یہ کہ ڈاکٹر محسن نے اپنے شفا خانے کے پلاٹ پر تین منزلہ شفا خانہ قائم کرکے ہر کمرہ کسی نہ کسی ایسے معالج کو بغیر کسی کرائے یا پیشگی رقم کے دیا تھا جو اپنے ابتدائی عملی دور سے گزر رہا تھا ، ان معالجوں میں آج کے بڑے بڑے نام ہیں ، اگر میں ایک دو نام بتا بھی دوں تو کئی ایک تو ناراض ہوجائیں گے کہ جو آج سرکاری میڈیکل جامعات کے رجسٹرار بھی ہیں ، اُنھوں نے بھی اپنا ابتدائی سفر ’’محسن کلینک ‘‘ سے شروع کیا تھا ۔ایک تو ڈاکٹر مشہود صاحب(آئی اسپیشلسٹ ) ، ڈاکٹر فرحت اللہ خان(امریکا) ، ڈاکٹر عارف (کناڈا ) ، ڈاکٹر شمع ( سول) ، ڈاکٹر تصور حسین ( میمن اسپتال)، پروفیسرڈاکٹر فاروق مامجی ، ڈاکٹر فاروق احمد،ڈاکٹر طارق ، ڈاکٹر عزیر ( کناڈا ڈینٹل سرجن) ، ڈاکٹر اویس ( ماہرِ قلب ، امریکا) و بے شمار نام جنہوں نے پچاس برسوں میں محسن کلینک سے استفادہ کیا اور اب ماشا اللہ ’’سیٹل‘‘ ہیں ، اسی طرح ’’محسن کلینک ‘‘ ادیبوں ، شاعروں اور دیگر پڑھی لکھی شخصیات کا گڑھ بھی رہا ، اکثر اُس کی چھت پر شامیانہ لگا کر ، قناعتیں گاڑ ، کئی ادبی پروگرام منعقد کئے جاتے ، روزنامہ ’’امت ‘‘ نیا نیا نکلا تھا ، اُس کے مدیر جناب معین کمالی اور وجیہہ صدیقی بھی آجاتے ، ساتھ ’’ بی ایڈ کالج ‘‘ بلاک 16 سے پروفیسر غفران و دیگر ماہرینِ تعلیم بھی تشریف لاتے ، معراج الدین عباسی ( پی ٹی وی کے انجینئر ، بعد میں پروڈیوسر ہوئے ) ، قاسم جلالی ، ماہنامہ سیپ کے ’’نسیم درانی‘‘ ، سہہ ماہی روشنائی کے ’’احمد زین العابدین ‘‘ ، کئی پروفیسرز ، اسکالرز ، سب کے نام ذہن میں بھی نھیں آرہے ہیں میرے ، وہ سب محسن کلینک میں آتے اور ڈاکٹر صاحب کے دوستوں میں شامل ہوجاتے ، صبا اکرام ( انڈیا سے رسالہ شب خُون انہی کے توسل سے ہم لوگوں تک پہنچتا ) ، مُسلم شمیم صاحب ، جان ایلیا ، اور بہت سارے بڑے بڑے نام ، گلنار آفریں ، شبیہ الحسن شبیہ ، تنویر پھول ، ابنِ آس ، مظہر یوسف زئی علیگ و دیگر ۔مجیب ظفر انوار حمیدی (ہاہاہا ، کہہ سکتے ہیں آپ مشہورناموں کے حوالوں سے ) ، محمود شام صاحب ۔’’تکبیر ‘‘ کے مولانا صلاح الدین اور بڑے بڑے اسکالرز ، شفیع عقیل صاحب ، یہ سب ’’محسن کلینک ‘‘ میں تشریف لاتے رہے ، علاج کے لئے بھی اور ڈاکٹر محسن کی دوستی کی وجہ سے بھی ۔ڈاکٹر محسن صاحب کی شخصیت پر تو شکور پٹھان صاحب ہی کچھ لکھیں گے ، مَیں نے تو صرف رسید دی ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر میں 1976ء میں پہلی مرتبہ بحیثیت مریض گیا اور پھر ڈاکٹر صاحب میری اُردو کہانیوں کا بھی علاج کرتے رہے ، اُس زمانے میں تعلیم و تربیت ، نونہال ، پھول پرچوں کا عروج تھا ، اخبار جہاں کے بچوں کا صفحہ ، ھریت کا شمع زیدی صاحبہ کا ’’بچوں کا حریت ‘‘ وغیرہ ، سب پر ڈاکٹرمحمد محسن صاحب مجھ سے لکھواتے رہے اور کہانیوں کی نوک پلک سنوارتے رہتے ۔طریقہ یوں ہوتا کہ کلینک پر مریضوں کا د س بجے صبح سے شام پانچ چھ بجے تک تانتا بندھا رہتا ، ڈاکٹر صاحب دو گھنٹوں بعد تازہ دم ہوکر نماز و کچھ کھانے سے فراغت پاکر شام سات یا رات آٹھ سے دو بجے تک پھر کلینک کرتے ۔اس دوران میں اُن کی کرسی کیسامنے بیٹھا مختلف ملکی اور غیر ملکی بچوں کی کتابیں ، بڑوں کی کتابیں اور رسائل دیکھتا رہتا ، لکھتا رہتا اور ڈاکٹر صاحب سے مشورہ لیتا رہتا ، اُس وقت کہاں تھے یہ موبائل ، کمپیوٹر ، انٹر نیٹ ؟ سب کچھ کاغذات پر لکھا پڑتا اور واٹر پمپ کی فرید اسکوائر پر واقع اکلوتی فوٹو اسٹیٹ کی دُکان ’’ فرید فوٹو اسٹیٹ ‘‘ کی باوا آدم کے زمانے کی فوٹو مشینوں پر دس پیسے ، بیس پیسے یا تیس پیسے میں فوٹو کاپی نکلوانا پڑتی ، پاؤڈر فوٹو کاپی کی لذت سے بھی لکھنے والے بعد میں آشنا ہوئے ورنہ پہلے غریب طالب علم اور اہلِ قلم کاربن پیپر پر مسودہ کی نقل رکھ لیا کرتے۔’’نوٹس ‘‘ کو فوٹو کاپیوں کا بخار وبائی صورت اختیار نہیں کیا تھا ، جامعات تک کے طالب علم قلمی نوٹس کتابوں کی مدد سے تیار کرتے ۔ ڈاکٹر محسن طالب علموں کی تعلیم میں بھی خُوب دلچسپی لیا کرتے ، ڈاکٹر عارف ، ڈاکٹر فرحت ، ابن آس ، ڈاکٹر سلام ، پروفیسر مجیب ظفر انوار، ڈاکٹر شمع ، ڈاکٹر تصور حسین ، ڈکٹر فاروق مامجی ، و دیگر ، ان ’’پڑھے لکھے لوگوں ‘‘ کو کتابیں ڈاکٹر صاحب ہی فراہم کیا کرتے ۔
زمانہ بدلا تو گویا سب کچھ بدل گیا ، ’’ محسن کلینک ‘‘ آج بھی واٹر پمپ میں ہے ، آج کل ڈاکٹر محسن خاصے ضعیف ہوچکے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی ’’ تشخیص ‘‘ میں بھی غضب کا نکھار آتا جارہا ہے ۔مَیں نے ڈاکٹر صاحب سے ضد کرکے اُنھیں ’’بزمِ سائنسی ادب ‘‘ ( زیر انتظام :پروفیسر عظمت علی خان ) ساتھ جانے پر مجبور کیا ، جس ادبی پروگرام میں جاتا ، ڈاکٹر محسن صاحب سے اس لئے ساتھ چلنے کی ضد کرتا کہ اُن ی آرام دہ کار میں سفر ہوتا اور ڈاکٹر صاحب کو لوگ دیکھ بھی لیا کرتے کہ :’’ اچھا یہ ہیں ڈاکٹر محمد محسن !‘‘ ڈاکٹر صاحب تقریبات سے دُور رہنے والے افراد میں سے تھے ، مضامین کے ساتھ اپنی تا ویر بھی شایع نہ کرواتے ۔خیال کرتے کے ہمارا فرنٹ ، سائڈ ، ترچھے رُک سے لیا گیا پوز اچھا نھیں آتا ، باقی سارے اچھے آتے ہیں ، ہاہاہاہا،ہاہاہاہا۔۔۔۔’’فرید پبلشرز ‘‘ کے کتب میلے تو بہت بعد میں لگنا شروع ہوئے ماہِ رمضان میں (اُن کا اپنا مزا تھا ) ۔بے شمار یادیں ہیں سال دو سال مضون کیا کتاب بن جائے ’’واٹر پمپ کے اُس خاص ماحول سے متعلق ‘‘
محسن کلینک کے پلیٹ فارم پر کئی کمپاؤنڈرلڑکوں نے بھی طب کی اعلا تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا ، اُن میں ڈاکٹر نظام اور ڈاکٹر شعیب بھی شامل ہیں ، ڈاکٹر متین نے ہومیو پیتھک پڑھی ، خود میں نے ’’انصاری ہومیوکالج ‘‘سے ڈی ایچ ایم ایس 1991 ء میں کیا ، پریکٹس ’’ محسن کلینک ‘‘ میں کی لیکن اپنا کلینک کبھی نہ کیا ، مجھے انسانی جانوں سے دن دیہاڑے اپنے علم کے ذریعہ کھیلتے ڈر لگتا ہے ، تاہم کچھ کم خطرناک و جان لیوا پیشہ اختیار کیا یعنی اسکول و کالج میں بچوں کو پڑھانا شروع کردیا ۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے مشہور میڈیکل اسٹور :
کئی میڈیکل اسٹور تھے ، یوسف پلازہ کے نیچے ’’بھائی بھائی میڈیکل اور جنر ل اسٹور ‘‘ (اب بند ہوگیا ) ، یوکے اسکوائر واٹر پمپ کے عقب میں ’’ہلال میڈیکل اسٹور ‘‘ ، یوکے اسکوائر کے فلیٹوں کے نیچے ہی ’’ہلال میڈیکوز‘‘ ، محسن کلینک کے سامنے ’’ سلام میڈیکل اسٹور ‘‘ ، ساتھ ساتھ واٹر پمپ کی مشہور ’’ادویہ ہول سیل مارکیٹ ‘‘ میں ’’پرنس فارما ‘‘ ، ’’بابر میڈیکل‘‘ وغیرہ ۔مامجی اور ہائی وے اسپتالوں کے میڈیکل اسٹور ’’مامجی میڈیکوز ‘‘ اور ’’ ہائی وے میڈیکل سنٹر ‘‘ چوبیس گھنٹے کھلا کرتے ، اب اگلی قسط میں آپ کو واٹر پمپ مارکیٹ کے اسکولوں کے بارے میں بتائیں گے ۔ فی الحال اجازت ، دن بھر تو وقت ملتا نھیں ۔محترمہ حمیرا اطہر سے لکھنے کا وعدہ کرکے پھنس چکا ہوں ہاہاہا ۔۔۔۔اب رات چار بجے اُٹھ جاتا ہوں ، کمپوزنگ کرتا ہوں ، اس بہانے ’’تہجد ‘‘ کا اعزاز بھی اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور فجر پڑھ کر کچھ چہل قدمی کرتا ہوں ،ناشتہ کھانا کرکے کالج کی راہ لی، شام کو واپسی ہوئی ، انتہائی تھک جاتا ہوں ، عشا پڑھ اور کھانا کھا سو رہتا ہوں ، وقت یہی ملتا ہے ۔آج کل بلدیاتی صوبائی الیکشنوں کا بھی موسم ہے ، اُس کی سرکاری ذمہ داریوں میں بھی دن گزر جاتا ہے ، لیکن اس حقیقیت سے انکار نھیں کہ فیڈرل بی ایریا کا وہ وسیع علاقہ جو ’’واٹر پمپ ‘‘ کہلاتا ہے ، وہاں مَیں نے اپنی زندگی کے چالیس سے زائد سال گزارے اور تقریباً بیس برسوں سے ایک ویرانے میں پرا ہوں جسے لوگ ’’گلبرگ ‘‘ کہا کرتے ہیں ، فی امان اللہ :)
پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفر انوار حمیدی


واٹر پمپ مارکیٹ
قسط نمبر 4:
واٹر پمپ مارکیٹ سے ملحقہ تعلیمی ادارے :
اسکول :
ستّر کی دہائی میں واٹرپمپ فیڈرل بی ایریا اور مارکیٹ کے اطراف میں نجی اسکولوں کی تعداد برائے نام تھی ، بلاک سترہ میں ایک نجی اسکول ’’خواجہ حسن نظامی ‘‘ قائم تھا جسے سرکاری ریٹائرڈ اساتذہ چلایا کرتے ، اُن اساتذہ کرام میں مسز منورہ ہاشم ، مسز ثریا بیگم اور دیگر شامل تھے۔سر الطاف بھی ہوا کرتے ، مس نفیس بھی ہوا کرتیں تو بعد میں ایچی سن کالج کی پروفیسر انگریزی بھی ہوئیں ۔بڑے قابل اساتذہ کرام تھے ۔پھر 80ء کی دہائی میں واٹر پمپ پر ایک دو اسکول ’’ محمدی پبلک اسکول ‘‘ اور ’’ ایچ این پبلک اسکول ‘‘(نزد:کاسموس پلازہ ویوسف پلازہ کے ساتھ )، رضوان صاحب کا ’’میٹرو پولیٹن اسکول ‘‘ کاسموس پلازہ واٹرپمپ کے مقابل (انچولی برانچ ) کے نام سے قائم ہوا ۔مس منیر زہرہ وہاں کی انچارج ہوئیں جو نصیر آباد برانچ سے آئی تھیں ۔ H.N Publicاسکول کی پڑھائی ایک زمانے میں اچھی تھی ، اُس اسکول کی ہیڈ مسٹریس یو۔کے اسکوائر واٹر پمپ کے K بلاک میں رہا کرتی تھیں ، میرا فلیٹ بھی اسی بلاک میں تھا ۔جب 1982 ء میں ہم نے بی ایس سی کیا تو اسکول ماسٹری کی درخواست ایچ این پبلک اسکول میں دی ، اُن صاحبہ نے اور اُن کے خرانٹ شوہر نے فرمایا کہ جناب آپ تنخواہ بہت مانگ رہے ہیں ( نو سو روپے مانگے تھے ) ، اس لئے سستا ٹیچر چاہئیے ۔ہم نے اُٹھا کے ’’محمدی پبلک اسکول ‘‘ واٹر پمپ بلاک سترہ میں درخواست دے دی ، وہاں کی پرنسپل مسز ای ایس اینڈریو ز تھیں ، مورث والا کالج سے رٹائر ہوکر آئی تھیں ، انتقال فرماگئیں ، انتہائی ضعیف لیکن کردار مضبوط ، ٹھوس ، گوری چٹی انگریز ، اُن کے ساتھ ٹیچنگ میں انگریز اسٹاف میں سر کمفرٹ مال ، سر ایڈون اور مسلم اساتذہ کرام میں مسز فریدہ لقمان (دسویں جماعت کو اُردو پڑھایا کرتیں ) ، سر شاداب ( گورنمنٹ دہلی اسکول میں تھے ، پارٹ ٹائم ریاضی پڑھایا کرتے ) ، مسز عذرا لیباریٹری انچارچ تھیں ۔مولانا محمد الیاس اللہ والے آدمی مالک تھے ۔دیگر سینئر اساتذہ میں مس شہلا کاظمی ، مس شہلا فاطمہ ، مس فریدہ ، سر سُوری(انگریزی ادب کے سینئر استاد تھے،انکا بھی انتقال ہوا ) و دیگر ، بہت سے نام میرے حافظے میں نھیں ہیں ۔نعیم بھائی بچوں کی فیسیں جمع کیا کرتے اور بینک میں جمع کرکے لاتے ۔میں نے پورے اعتماد کے ساتھ درخواست کی اور 1984 ء میں چودہ سو رُپے ماہوار پر فزکس(طبیعیات) اور ریاضی ( میتھمیٹکس) کا استاد ہوا ، بہت پرانی بات ، چھ ماہ بعد مستقل ہوا اور اپائنمنٹ لیٹر ملا تو خوشی کو کوئی ٹھکانہ نھیں ، اردو ہمیشہ محبوبہ رہی تو اسکول کا رسالہ ’’مشعل‘‘ بھی شایع کیا ۔اصل میں ’’محمدی پبلک اسکول ‘‘ جامعۂ سندھ کے معروف اسکالر اور روحانی شخصیت ڈاکٹر غلا م مصطفٰے خان نے قائم فرمایا تھا ، حاجی محمد الیاس اُن کے عقیدت مند تھے ، ایک روز وہ حاجی صاحب کے بنگلے A53 بلاک سترہ واٹر پمپ تشریف لائے تو انھوں نے فرمایا کہ ہمیں تو یہاں تعلیم کی خوشبو آتی ہے ، حاجی الیاس نے ایک نرسری اسکول قائم کرلیا ’’حنیفیہ ایجوکیشنل سوسائٹی ‘‘ کے تحت ، اُس اسکول نے اسّی کی دہائی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے ، آہستہ آہستہ لوئر سیکنڈری ، سیکنڈری ہوا اور اب سنا ہے کہ انٹر کی کلاسیں بھی ہورہی ہیں ۔حاجی الیاس کی اولاد مالک ومختار ہے آج کل ۔بہت نفیس انسان تھے ، افسوس اولادوں میں وہ بات نہ آسکی ۔1991ء میں میری شادی ہوچکی تھی ، زیادہ تنخواہ کے چکر میں ، مَیں نغمہ گرلز کالج چلاگیا ، گلشن اقبال میں ایک پرائیویٹ کالج تھا ، اب تو بند ہوگیا وہ ، وہاں ایک کوچنگ سنٹر ’’ پریکٹیکل سینٹر‘‘ کے نام سے کھل چکا ہے شاید ۔وہاں سے میں چار سال بعد پاکستان اسٹیل کیڈٹ کالج گیا ، ساتھ پٹارو کیڈٹ کالج جاکر اعزازی کلاسیں لیتا رہا ، پھر آغا خان کالج میں وائس پرنسپل ہوا ، تعلیمی بورڈ کا چیئرمین ہوا ، 1993ء میں نواز شریف صاحب کی لیکچرر شپ کا اشتہار شایع ہوا تو میں نے فزکس میں ایم ایس سی کے باوجود اُردو ادب میں بھی ایم اے اول پوزیشن کے ساتھ کررکھا تھا ، میرا ایک دوست تھا ، انوار الحق سومرو ،وہ بھی نہایت غربت میں ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا ، میں نے بھی بہت ٹیوشنیں پڑھائی ہیں ، بہت کمایا ، گھر کا فرنیچر لاتا تھا ، خوب کھاتا پیتا تھا ،کتابیں خریدتا ،انوار نے مجھے مشورہ دیا کہ فزکس میں جاب کرنے کی وجہ سے تمہاری سیکنڈ ڈویژن ہے جبکہ اردو میں پہلی پوزیشن ہے اس لئے تم سندھ پبلک سروس کمیشن اُردو کے لئے دو ، میں لیکچرر تو پہلے ہی تھا اس لئے ’’اسسٹنٹ پروفیسر ‘‘ BS18 کے لئے درخواست دی ، حیدر آباد سندھ میں تحریری امتحان ہوا تھا ، اُس امتحان کے بعد میں دہلی کالج کریم آباد میں کوآپریٹو پڑھاتا رہا ، ظالمو نے میرا وہ تجربہ کاؤنٹ نھیں کیا ورنہ آج 20 گریڈ کا پروفیسر ہوتا ، خیر ۔۔۔تین سال بعد ہم لوگ سرکاری ملازمت میں مستقل ہوگئے،میں نے کیڈٹ کالج کی نوکری تو پہلی ہی چھوڑ دی تھی ، سرکاری ملازمت پکّی ہونے پر آغا خان کی نوکری بھی چھوڑ دی ، حالانکہ اُس وقت سرکاری تنخواہ کچھ بھی نہ تھی ، کُل چھ ہزار ملا کرتے ، اُس میں سے بھی گروپ انشورنس ، فُلاں کٹوتی ، ڈھماکا کٹوتی ، جی پی فنڈ کٹتا رہتا ، اب لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ گریڈ بیس کے لئے آپ کا نام گیا ہے ۔میں لعنت بھیجتا ہوں کہ جب بینائی ، جوانی ، طاقت ، سب دغا دے گئے تو ایسے گریڈ کو لے کر چاٹوں گا ، جب جوان تھا تو پیسہ نہ تھا ، میری بیوی ایک ایک چیز کو سلیقہ سے پورا کرتی ، عید بقرعید پر عزیزوں کے منھ بند کیا کرتی ، گھر میں سلائیاں کیا کرتی ، سخت محنتی عورت ، اب پیسہ ہے تو بڑھاپا ہے ، بیماریاں ، دوائیاں ، بچّے بڑے ہوگئے ، اُن کے بچّے ہوگئے ماشا اللہ ، بس یہی زندگی ہے ، عمرہ اور حج کا پروگرام بناتے رہتے ہیں ، اللہ مدد کرے ، آپ بھی دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے ۔ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ ’’محمدی پبلک اسکول ‘‘ ایک علمی تحریک کا نام تھا ۔ابھی چار سال پہلے کی بات ہے کہ بچوں کے ایک رسالہ ’’ساتھی ‘‘ میں اپنی کوئی تحریر دینے گیا تو وہاں مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ، نماز ادا کرکے مسجد سے باہر نکلنا چاہا تو ایک تنومند جوان نے میرا راستہ روک لیا ، دل میں کہا ، لو میاں پروفیسر صاحب آج ٹارگٹ ہوئے ، کڑک کے اُس بچّے نے سلام کیا ، ذرا باہر چلئے پروفیسر صاحب ، وہ دبنگ لہجے میں بولا ۔اللہ ہماری تو سٹّی گُم۔اچانک اُس لڑکے نے اُچک کر ہماری جوتیاں اُٹھالیں اور وہی ضد کہ گیٹ تک چلو بڑے میاں ۔میں نے سوچا کون ہے ؟ اندھیرا تھا ۔نظر صاف نہ آئے ، سُجھائی نہ دے ۔گیٹ پر پہنچ کر اُس لڑکے نے ادب سے میری جوتیاں زمین پر رکھیں اور اپنا سر میرے آگے جھکا دیا کہ پروفیسرصاحب میرے سر ہاتھ پھیریں ، میں محمدی پبلک اسکول میں آپ کا شاگرد تھا ، آج کل کسی منسٹری میں ہوں ۔میں بہت خوش ہوا ، دعائیں دیں اُسے ، اپنی سرکاری گاڑی میں آیا تھا کسی کام سے تو مغرب کی نماز مسجد بیت المکرم میں ادا کی ۔کئی شاگرد ہیں میرے محمدی پبلک اسکول کے ، پروفیسر ابوبکر حلیم چغتائی ( سابق پرنسپل ڈی جے سائنس کالج ) کی تین بچیاں صہیبہ ، صائمہ اور وہ مونا ، کیا نام تھا اس کا منیرہ چغتائی ، اقبال مالا ، صائمہ اعجاز بٹ ، اشتیاق، قاسم ، تنویر ، اللہ جانے بہت بچّے تھے ، یاد نھیں سب کے نام مجھے ، وہ کیا نام تھا اس کا افشاں ، اُس نے مجھ پر کوئی مضمون بھی لکھا تھا ’’ہمارے سر مجیب ‘‘ ، بڑی شریر لڑکی تھی ، میتھ خاص نہ تھا ، ٹیوشن بھی مجھ سے لیتی ، اس کا بھائی بھی ، جانے کیا نام تھا ؟ اُن کے والد کسی بینک میں اچھے عہدے پر تھے ۔محمدی پبلک اسکول ایک علمی تحریک تھی ۔بہت مشہور ہوئے وہاں کے طالب علم ، وہ دور ’’میرٹ پوزیشن‘‘ کا تھا ، وہاں کے بچّے پوزیشنیں لاتے ، دیکھئے پروفیسر چغتائی کی دو بیٹیوں کے نام مجھے یاد نھیں آرہے ، اُنہوں نے بھی پوزیشن حاصل کی تھی میٹرک بورڈ میں ۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے آس پاس کے فلیٹوں یوسف پلازہ ، یوکے اسکوائر میں بھی نجی اسکول کھلتے اور بند ہوتے رہے ۔جیسے ’’گرانڈ پبلک اسکول ‘‘ یوسف پلازہ ، بلاک جی ، میرے چھوٹے بھائی نوید ظفر انوار حمیدی نے وہاں کچھ دن پڑھا پھر محمدی اسکول سے میٹرک کیا ۔احمر اُن کا دوست تھا ۔اردو سائنس سے کالج پڑھا ۔ایم ایس سی زولوجی کیا ۔
واٹر پمپ کی سرکاری درس گاہیں :
ایک تو بلاک سولہا کا ’’ بی ایڈ کالج ‘‘ جہاں سے میں نے بی ایڈ کیا تھا اور میری خالہ زاد نائلہ عارف صدیقی نے بھی وہاں سے بی ایڈ کیا تھا ۔میری بیگم سیدہ ناہید نرگس نے بھی اسی کالج سے بی ایڈ کیا ۔پروفیسر غفران ہم سب کے پسندیدہ استاد تھے ، سر امجد تھے ، میڈم ثریا تھیں اور دوسرے ۔جب میں اور ناہید اسکول مینجمنٹ کررہے تھے تو ہمارا ’’اسکول پریکٹس ‘‘ علامہ اقبال گورنمنٹ اسکول نمبر دو ، سہراب گوٹھ کہلاتا تھا ، لیکن سہراب گوٹھ میں تھا نھیں وہ اسکول ، یوسف پلازہ کے ساتھ ہی ، کاسموس پلازہ سے آگے ٹرک کھڑے رہتے ، سُپر ہائی وے پر تیل وغیرہ لے کر آتے تو ٹرک پٹھان ڈرائیوروں نے وہاں رفتہ رفتہ اپنی چھاؤنی سی قائم کرلی تھی، وہیں علامہ اقبال اسکول تھا ، لڑکوں کا اسکول تھا ۔میری بیگم تو اسکول ڈیمو کے بعد معلمہ بن کر گرلز اسکول میں چلی گئیں اور پچیس برس بعد اسی کی ہیڈ مسٹریس ہوگئیں ، میں نے کالج سائڈ ’’ پکڑ لی ‘‘ ہاہاہا۔۔۔اور اردو کا ماسٹر ہوگیا ۔ہاہاہا۔۔۔۔۔
ایک بوتراب سرکاری اسکول تھا ، انچولی میں دو سرکاری اسکول تھے ، قُرب و جَوار میں فیڈرل پبلک سرکاری اسکول تھا ، واٹر پمپ کے سامنے گلبرگ بلاک دس میں ، جاوید میانداد صاحب نے بھی اسی اسکول میں پڑھا تھا کچھ سال ۔فیڈرل اسکول میں ۔ہمارے سراج الدولہ کالج کے انگریزی کے پروفیسر فرمارہے ہیں ، پروفیسرڈاکٹرندیم احمد کہ حمیدی صاحب میرا بھی نام لکھ دیں ، میں نے بھی فیڈرل اسکول سے پڑھا ہے ۔
یہ وہ دور تھا جب پڑھائی حقیقتاً پڑھائی ہوا کرتی تھی ۔مجھے یاد آیا واٹر پمپ مارکیٹ میں گوشت مارکیٹ سے دائیں کو ایک بغلی سڑک جارہی ہے ، وہاں ایک انگریزی کے پروفیسر صاحب سلطان صاحب رہا کرتے تھے ، وہ کورنگی کے کسی سرکاری کالج میں انگریزی ادب کے استاد تھے ، کالج سے آکر شام کو ’’ڈھاکا کوچنگ سنٹر ‘‘ کریم آباد میں کلاسیں لیتے ۔انھوں نے 1986 عیسوی میں مجھ سے کہا کہ آپ بی ایس سی کے امتحانوں میں نگرانی (انویجیلیشن) کریں گے ؟ میں نے پوچھا ،کہاں سر ؟ بولے : کیپری سنیما کے سامنے ’’جیکب لائنز اسکول ‘‘میں ، نہال صاحب ہیڈ ماسٹر ہیں ، اچھے انسان ہیں ، اُنھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ چند اساتذہ کرام کی بی ایس سی کے امتحانات میں ضرورت ہے ، واضح رہے کہ اُس وقت جامعۂ کراچی کی ڈگری امتحانات اسکولوں اور کالجوں میں ہوا کرتے تھے ۔ میں نے ہامی بھرلی ، اتفاق سے پہلا پرچہ ریاضی کا تھا ’’میتھ میکینکس‘‘ کا ، نو بجے سے پرچہ تھا ، میں ڈبلیو گیارہ ویگن میں سوار ہوا اور سیون ڈے ہاسپٹل پر اتر گیا ، جہاں اب اسٹوڈنٹ بریانی ہے (اُس وقت نھیں تھی ) وہاں سامنے اسکول تھا ، لق و دق ، کلاسیں میدان عبور کرکے ۔ ایک گھنٹہ بھی پرچہ شروع ہوئے نہیں ہوا ہوگا کہ اسکول کے باہر فائرنگ شروع ہوگئی ، فائرنگ تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور پھر باہر سے ایک سیاسی طلبہ تنظیم کے لڑکے کچھ غنڈوں کے ساتھ انڈر کُودگئے ، اُنھوں نے پروفیسر قدیر صاحب کی ’’میتھ میکنکس ‘‘ کی کتاب کے اوراق بڑی بے دردی سے پھاڑ پھاڑ کر لڑکوں کو دینا شروع کئے اور اُن سے پیسے لینا شروع کردئے،تنظیم کا نام تو میں نھیں بتاؤں گا ، کمر کا کپڑا اونچا کرنے سے اپنا ہی ننگا ہوتا ہے ۔یہ حال دیکھ کر میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب نہال صاحب سے رجوع کیا ، بدایوں سے تعلق تھا اُن کا ، مرحوم ہوئے اب تو ، بولے :’’بھائی اسی بیماری کی وجہ سے تو پرانے استادوں کی ڈیوٹیاں لگاتے ہیں ، مگر یہ حرامی لونڈے کسی کی بھی تو عزت نھیں کرتے ، دیکھنا تعلیم ختم ہوجائے گی اس قوم سے۔‘‘ اُن کا کہا پتھر پر لکیر ثابت ہوا اور واقعی ایک زرخیز قوم زیورِ تعلیم سے محروم ہوگئی ، تعلیم جن کے پُرکھوں کا زیور تھی ، اثاثہ تھی ، اُنہی بدقماش لونڈوں نے اپنی بدکاریوں سے اپنی ہی قوم کے پڑھے لکھوں کے جنازے نکال دئے اور اُن اساتذہ کرام کی لاشوں پر سیاست کی ، کہیں اظفر رضوی ، کہیں پروفیسر سبط جعفر ، کہیں یاسر رضوی کہیں کچھ کہیں کچھ ۔اللہ پاکستان اور اہلِ پاکستان پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائے ، آمین
اگلی قسط میں واٹر پمپ مارکیٹ کے کھانے پینے کی دکانیں اور اسٹال پڑھئے گا، اُس کے بعد مساجد اور مکاتیب کا احوال بھی ، ان شا اللہ ،جاری ہے جناب :)
پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفر انوار حمیدی
Dr Anwer Dehlavi
About the Author: Dr Anwer Dehlavi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.