سردار جی بہکی بہکی باتیں کررہے تھے انہیں دوستوں نے پوچھا ۔۔ سردار جی
شراب پی رکھی ہے۔۔۔
سردارجی۔ نہیں ابھی لینے بھیجا ہے۔۔
شراب ایسا مشروب ہے۔جسے نوش کرنے کا الزام کسی شخص پر لگ جائے تو پولیس
موقع پر ہی ابتدائی ٹیسٹ کر لیتی ہے منہ سونگھ کر ۔ ۔شرابی ٹیسٹ میں پاس ہو
جائے دوسرا ٹیسٹ ہسپتال میں ہوتا ہے جہاں پر ڈاکٹر زمین پر ایک لکیر کھینچ
دیتے ہیں یہ لکیر لائن آف کنٹرول جیسی ہوتی ہے۔۔ذرا سا قدم لُڑکھا تو
کھوکھرا پار۔ شرابی دوسرا ٹیسٹ بھی پاس کر لے تو پھرتیسرے ٹیسٹ میں خون کے
نمونے لئے جاتے ہیں۔۔ پہلے ٹیسٹ کے دوران شرابی کے منہ کی بدبو۔اور۔ بعض
پولیس اہلکار وں کے منہ کی بدبو ایک جیسی ہوتی ہے ۔ اسی لئے پہلے ٹیسٹ میں
شرابی کو فیل قرار دے کر گھر جانے دیا جاتا ہے۔ تھانے لے بھی جائیں تو ایسے
معاملات پر ایس ایچ اوہمیشہ قانون کو ہاتھ میں رکھتے ہیں۔
شرابی پی کراکثر ایسی حرکتیں کرتا ہے جسے غُل غپاڑہ کہتے ہیں۔ ہوش میں آنے
کے بعد شرابی کو یہ حرکتیں یاد نہیں رہتیں۔ خواہ ویڈیو ثبوت بھی ہوں اور
عینی شاہدین بھی۔طبقاتی تقسیم کا شکار ہمارے معاشر ے میں بعض شرابئے ۔ شراب
نوشی کو اسٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں۔اوپری طبقے کے خود ساختہ بڑے فور ڈور فریج
کے دروازے ولائیتی مال ویسے ہی اپ ڈیٹ رکھتے ہیں جیسے بعض لوگ فیس بک کے
سٹیٹس کو اپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔شراب کا اہتمام وہاں طعام کے ساتھ ہوتا ہے۔
غٹاغٹ پینے کے بجائے چسکیاں لی جاتی ہیں۔ وہاں’’پیتا ہوں مگر تھوڑی سی
‘‘والا نظریہ زندہ رکھا جاتا ہے۔بیک ڈروپ میں چار بوتل واڈکا ۔کا جھنگل بھی
بجتا ہے۔جمشید دستی ایسے اسٹیٹس کو پبلک کر دیں تو پینے والوں کا ڈوپ ٹیسٹ
نہیں ہوتا بلکہ دستی کو شرابی قرار دینے کی دستی کوشش کی جاتی ہے۔یہ خود
ساختہ بڑے ہر اُس ایس ایچ او ۔کو ہاتھ میں رکھتے ہیں جو قانون کو ہاتھ میں
رکھتے ہیں۔ناکے پر پولیس اہلکاروں نے ایک ٹرک روکا اور ڈرائیو ر سے پوچھا
اہلکار:ٹرک میں کیا ہے۔؟
ڈرائیور:کرنل کے چاول ہیں ۔
اہلکار: ( سلیوٹ مار۔کر) لے جاؤ کرنل صاحب کو میرا سلام کہنا
لیکن پنجابی پینے کے لئے شادیوں کا انتظار کرتے ہیں ۔شادی کا بلوا آتے ہی
ان کی حالت اُس سردار جی کے جیسی ہوتی ہے جو پینے سے قبل ہی بہکنے لگتا
ہے۔پنجابی پی کر دوستوں کو خود بتاتے ہیں۔دشمنوں کو ازخودپتہ چل جاتا ہے۔
کچھ پنجابی شادیوں میں کباب پہلے سے ہوتےہیں۔ شراب اور شباب منگوا لی جاتی
ہے۔ پھر ٹھمکےآٹو پر لگ جاتے ہیں۔گذرے دنوں تمام نجی ٹی وی چینلز پر ایسی
ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں قومی کرکٹر عمر اکمل آٹو پر لگے ہوئے تھے۔پتہ
نہیں انہوں نے پی رکھی تھی یا لینے بھیجا تھا لیکن وہ پورے طور پرعزیز میاں
کی قوالی شرابی شرابی کے زیر اثر تھے ۔
ناچنا ایسی بے ہودگی ہے۔ جو نچئیے کو بے شرم بنا چھوڑتی ہے۔ لوگ عموما
انتہائی ذاتی شادیوں پر ناچتے ہیں ۔پرائی شادیوں پر ناچنے والے رینٹ پر
آتے ہیں پھر وہ ناچتے ہیں اور مہمان دیکھتے ہیں۔ عمر اکمل کا ناچ بھی رینٹ
والے ڈانسر جیسا تھا بلکہ’’بیگانی جنج میں احمق نچے ‘‘ کے مترادف ۔‘‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق عمر اکمل نے اپنے کھلاڑی دوست عظیم گھمن کے ہمراہ
نجی پارٹی میں شرکت کی۔ وہاں فرنٹ فٹ پر ناچے۔ ڈانس پرفارمینس ہوم گراونڈ
جیسی تھی ۔خواتین سے اتنی بدتمیزی کی کہ پولیس منگوانا پڑی ۔پولیس نے
عمراکمل اورعظیم گھمن کو چھوڑنے کے لئے پکڑلیا۔ایس ایچ او نےقومی ہیرو کے
ساتھ کھانا بھی کھایا۔ رات گئے پولیس نےایک شرابی کو دیوار کے ساتھ کھڑے
دیکھا اور پوچھا۔یہاں کیوں کھڑے ہو؟
شرابی:” سنا ہے کہ زمین چوبیس گھنٹے میں اپنا چکر مکمل کرتی ہے۔ میں اپنے
گھر کا انتظار کر رہا ہوں۔ بس وہ آنے ہی والا ہے۔
سپاہی: حیرت سے”تمہیں کیسے پتہ چلا؟“
شرابی:وووووہ دیکھو میرا پڑوسی اپنے گھر کی طرف جا رہا ہے۔
زمین گھوم کرعمر اکمل کے پاس آچکی تھی اور وہ چوبیس گھنٹے بعد گھومتے
گھاتے گھربھی پہنچ گئے ۔کسی نے منہ سونگھا نہ لکیر پر چلایا ۔عمر اکمل نے
اپنے’’ فنی‘‘کیرئیر کا آغا ز 2009 میں کیا۔ تیسرے ون ڈے میں سنچری مار
ی۔اگلی سنچری کے لئے مزید 87 میچ کھیلے ۔صد شکر کہ پانچ سال بعد افغانستان
سے میچ پڑا اور سنچر ی مارلی ۔ لوگ اس مڈل آرڈر کھلاڑی کو گیم چینجر کہتے
ہیں۔مجھے بھی یاد ہے ایک بار عمراکمل نے آسٹریلوی پیسر مچل جانسن کی خوب
دھلائی کی تھی ۔وگرنہ وہ مخالف ٹیم کو جتوانے کے لئے گیم چینجر بن چکے ہیں۔
پچھلے دنوں روزنامہ دنیا نے خبر چھاپی تھی کہ ’’عمر اکمل کو مرگی کے دورے
پڑتے ہیں۔ وہ کئی روز ہسپتال میں زیر علاج بھی رہے لیکن مرض پی سی بی سے
چھپائے رکھا۔‘‘
عمر اکمل کرکٹ کی مِیرا ہیں۔ خبروں میں رہنے کا چسکا ہے۔کبھی فٹ بال سٹار
کرسٹیانو رونالڈو جیسا ہیر اسٹال اور کبھی نرگسی ٹھمکے۔ کبھی بیٹنگ آرڈر
خراب ہے کا شکوہ اور کبھی ٹریفک وارڈن کی وردی پھاڑنا ۔کبھی والد کو معافی
کے لئے تھانے بھجوانا اور کبھی ماڈل گرل ریچل سے تھپڑ کھانا۔۔حتی کہ ٹیم کے
ہیڈ کوچ وقار یونس کہہ چکے ہیں کہ عمر اکمل کو روئیہ بہتر کرنے کے لئے 1
سال تک ٹیم سے دور رکھا جائے۔ شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ عمر اکمل کا معاملہ
میڈیا نے زیادہ اچھالا ۔ یہ وہی شاہد آفریدی ہے جو گراونڈ سے زیادہ اچھا
پرفارم ٹی وی اشتہارات میں کرتے ہیں۔ میرا کہتی ہیں کہ عمر اکمل سے اگر
غلطی ہوئی ہے تو معاف کر دیا جائے۔یہ وہی میرا ہیں جو بیک وقت دوشوہر رکھنے
میں ’’شہرت‘‘ رکھتی ہیں۔؟
کرکٹ ناممکنات کا کھیل ہے ۔میچ اورسپاٹ فکسنگ، بال ٹیمپرنگ، sledging
اوردرگز وغیرہ ایسے جرائم ہیں۔ جو ماڈرن کرکٹ کے ساتھ جوان ہوئے ہیں ۔ہمارے
ہاں کرکٹ کے بعد سب سے بڑا کھیل عشق ہے ۔یہ عاشقوں کا سنگل وکٹ میچ ہوتا
ہے۔اس کھیل کا سب سے بڑا اصول ۔خود ہار کر دوسرے کو جتوانا ہے ۔ دوست ،
رشتہ دار اور محلے دارتماشائی ہوتے ہیں ۔بعض ممکنہ سالے اور مُشتبہ سالیاں
ایمپائر۔جو کبھی ساتھ مل جاتا ہے اور کبھی تھرڈ ایمپائر بن جاتا ہے ۔ مجھے
کرکٹ سے محض سنگل وکٹ کھیلنے تک رغبت ہے۔ٹی 20 کی طرح اس طرز کرکٹ کی
ابتدامحسن خان اور رینا رائے نے کی اورآخری میچ شعیب ثانیہ نے کھیلا۔عمران
خان اور زینت امان۔۔ وسیم اکرم اورسوشمیتا سین کا میچ برابر ختم ہو
گیا۔عمران اور وسیم کو گلی کی عادت تھی۔ آج کل ویرات کوہلی اور انوشکا
شرما کا میچ جاری ہے۔
عمر اکمل قومی ٹیم کا وہ ہیرو ہے جسے ورلڈ کپ ہارنے والےگرین الیون کے
ناکام کھلاڑیوں کا اوپنر کہا جا سکتا ہے ۔چھ سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیل کر
بھی ٹیم میں واپسی کا منتظر رہتا ہے۔عمر اکمل نے جو کچھ بھی کیا ۔ اس کی
ویڈیو بھی موجود ہے اور گواہ بھی لیکن وہ بیک فٹ پر نہیں آرہا ۔پھر بھی
اسے قومی ٹیم میں رکھ لیا گیا ہے ۔ پی سی بی کا حال اسی اہلکار جیسا ہے جس
نے کرنل کے چاول ۔کرنل صاحب کے چاول سمجھ کر چھوڑ دئیے تھے۔
مارچ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تھا تب سے پاکستان میں
کرکٹ بحالی کی کوششیں جا رہی ہیں ۔عمر اکمل جیسے کھلاڑی ٹیم میں رہیں گے تو
تشخص کبھی اچھا نہیں ہوگا۔ہمیں ایسے کھلاڑیوں کے لئے اجتماعی sledging کی
ضرورت ہے۔وگرنہ ہمارے اسٹیڈیم سیاسی جلسوں، انسداد ڈینگی پروگرام یا پھر
کسان پیکج کے امدادی چیک بانٹنےکے لئے بھرتے رہیں گے۔
عمر اکمل کو کیا ٹینشن ۔ وہ کرکٹ اکیڈمی میں نہ ہوا تو ڈانس اکیڈمی کھول لے
گا۔ ٹھمکے اسے مارنے آگئے ہیں اور پولیس اس کے ہاتھ میں ہے۔
نوٹ: اس آرٹیکل کے لئے کرکٹ ڈیٹا گوگل سے لیا گیا ہے |