کعبہ بہارِ رحمت روضہ قرار وراحت

 نوٹ: ناچیز کی ”حج ڈائری“ قسط دوم پر قارئین باتمکین کے تنقیدی و تہنیتی پیغامات پرا ن کا بے حد مشکور ہوں ۔ کئی دوستوں کو اسی ڈائری کی وساطت سے ہی میر ے سفر محمود کا پتہ چلا ، بعض احبا ب نے گلے شکوے کئے ہمیں پہلے کیوں نہ بتایا، میں شرمندگی کا اظہار کئے بغیر اور کیا کرسکتا؟چند ایک حضرات نے مبارک باد دی۔ اس سلسلے میں میرواعظ عمر فاروق صاحب ، شاہد اسلام، سیدالرحمن شمس کا تہ دل سے مشکور ہوں۔ ”کشمیر عظمیٰ“ کے کالم نگار جناب سمیع اللہ ملک ( لندن ) نے حج ڈائری کی ان دوقسطوں کو عالمی اردو اخبارات میں شائع کرواکے زیر بار ِ احسان کیا۔ جناب بشیرا حمد نحوی صاحب نے اپنے کلمات ِ تحسین اور بعض غلط العام الفاظ کی نشاندہی کر کے میرا حوصلہ بڑھایا۔ قبل ا زیں ا نہو ں نے مجھ گناہ گار سے اشک بار آنکھوں سے فرمایاتھاکہ حرمین میں دعاکروں کہ نحوی صاحب حج کا شرف پائیں۔ چونکہ ان کی والدہ ماجدہ علیل ہیں ،ا س لئے ابھی تک ان کی دلی خواہش دعا ومناجات تک محدود ہے ۔ میں نے کعبہ شریف میں بارہا اُن کے لئے دست دعا دراز کیا۔ ا للہ تعالیٰ انہیں بہت جلد اپنے گھر بلانے کا کرم فرماے ۔ آمین ۔ پاکستان میں عرصہ سے مقیم معروف کشمیری کالم نویس جناب عبدالرافع رسول نے اپنے خط میں ڈائری میں درج لفظ”انشاءاللہ“ اور ”ان شاءاللہ“ کے مابین باریک لغوی فرق سمجھا کر احتیاط برتنے کی بروقت فہمائش کی۔ انہوں نے دوقرآنی آیات سے ا ستدلال کر کے اپنے خلوص، علمی تبحر اور عربی زبان سے اپنے شغف کا قائل کر کے چھوڑ دیا۔ ”کشمیر عظمیٰ کے کالم نگار جناب فداحسین بالہامی نے اپنے نوازش نامے میں میرے برسوں پہلے کے مستقل کالم ”سیدالایام تجھے سلام “ کی یاددلاتے ہوئے حج بیت اللہ کے لئے راقم کو مبارک دی۔ ایک معروف اہل ِقلم ، صاحبِ علم ا ور مدیر”مسلم “ جناب بشارت بشیر صاحب نے دلی میں بعض خاصان ِ خدا، علمی وادبی شخصیات کے مرقدوں پر میری زیارت قبور کی نیت سے حاضری کے بارے میں مشفقانہ و موحدانہ درد کے ساتھ استفسار کیا تو میں نے کہا کہ میرا یہ عمل قطعی طور عمر ے کا کوئی حصہ نہ تھا بلکہ میں نے اپنی پانچ روزہ فرصت کا اس سے بہتر کوئی اور مصرف نہ سمجھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ ان بزرگان ِ دین کے مسلمانان ِ برصغیر پر بھاری بھرکم احسانات ہیں مگر ہم ہیں کہ توحید و سنت کا نور اپنے داعیانہ کردار سے پھیلانے والی ان عظیم ہستیوں کے احسانوں کا صلہ اس انداز میں دیتے ہیں کہ ا س بارے میں قلم کی زبان خاموش رکھنا ہی بہتر ہے۔ جناب غلام نبی شیدا ، مدیر ”وادی کی آواز“ ہفت روزہ ”رہبر “ کے مدیر شاہد اقبال رہبر ، کالم نگار احمد کشمیری ، ڈاکٹر نذیر مشتاق صاحب ، شہزادہ بسمل، ادیب میر نوشاد رسول کا خصوصی شکر یہ ۔
ش م احمد
٭٭٭٭٭٭٭

شوق ایک اُڑتا پنچھی ہے جو اُسی باغ وبہار میں چہکتا ، پھدکتا، تھرکتاہے جس میں بے قراری کی ہوائیں چل رہی ہوں ، جو انتظارِوصل کی بے چین گھڑیوں میں تڑپ رہاہو ، جسے کلی کے پھول بننے میں موسموں کی تاخیر دل پربار گزر رہی ہو
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

دلی کے چھ روزہ قیام میں ہمارے شو ق کا پنچھی اسی عالم میں وقت کے پنجرے میں آٹھوں پہر پھڑپھڑ ا رہاتھا، اُسے زمان ومکان کی قیود قبول نہ تھی ، وہ زیادہ صبر کرنے سے بھی عاجز تھا، بس چاہتا تھا کہ مکہ ومدینہ کی جاں فزا باغ وبہار زیادہ دیر نظروں سے اوجھل نہ رہے، دوریاں سمٹ جائیں ، فرقتیں مٹ جائیں۔ اسی ہمہ وقت بے چینی کے عالم میںپل پل گنا جارہاتھا، مگر اُف ! یہاں تو لگتا تھا کہ دن طویل ہورہے تھے اور راتیں طویل تر
دیدار ہے نہ شامِ وصال
مگر وہی خلش ِ انتظار باقی ہے
جوش

خدا خدا کر کے بالآخر وہ دن آہی گیا جب ہم نے دوپہر کے وقت اندار گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ کی طرف لاجپت نگرسے روانگی ڈالی ۔ بلال صاحب ، ان کی ا ہلیہ صدف جان اور ننھی منی عیشل نے ہمیں مسکراتے ہوئے وداع کیا ۔ائرپورٹ پر گھنٹوں پہلے ہی لوا زمات کی خانہ پُری کے لئے حاضر ہونا پڑتا ہے ۔ا س طویل کاغذی کارروائی کے بعد ہی سعودی ائر لائنز کے طیارے میں اپنے شو ق کے پنچھی کو اُڑان بھرنا تھی مگر ابھی اُسے وقت کے پنجرے میں کم ازکم کئی اور گھنٹے قید وبند سہنا تھا۔ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ ایک جدید ترین وسیع وعریض طیران گاہ ہے ۔یہ عالمی معیارات پراُتر نے والا عالی شان ہو ائی اڈہ ہے ۔یہاں تھکا دینے والے ا نتظار کے بعد آخر کار ہم اپنا اپنا پاسپورٹ ہاتھ میں لئے امیگریشن چیک کے لئے افسروں کے کو نٹر کے سامنے ایک ایک کر کے کھڑے ہوگئے ۔ دل کی بے تابی کا پارہ برا بر چڑھ رہا تھا ۔ متعلقہ افسرپاسپورٹ کو اُلٹتے پلٹتے اس کے ا ندرجات باریک بینی سے چیک کررہاتھا اور میں اس کے سامنے سائل کی صورت میں ایستادہ تھا ۔ اسی دوران اتفاقاًمجھ سے شاید از راہ ِمذاق اس نے پوچھا خان صاحب! کشمیر میں ووٹ ڈالنے کے بعد کیااب سیر سپاٹے کو مکہ جارہے ہو؟ اس کی یہ بات سن کر میرے رواں رواں میں تاسف کی تند وتیز لہر دفعتاً دوڑگئی۔ میں نے کہا حضور!ہم سیر سپاٹے کے لئے سفر محمود پر نہیں جارہے بلکہ اپنے گناہوں سے توبہ اور خطاوں کی بخشش کے لئے وہاں جارہے ہیں ۔ یہاں سوارہوکر اور پا پیادہ آنے کاحکم ہمیں کسی پارلیمنٹ یا اقوام متحدہ نے نہیں بلکہ اللہ رب ِ جلیل نے دیا ہے ۔ بہر حال کئی ہفتے قبل پہلے ریاست میں قانون ساز اسمبلی کے مرحلہ وار الیکشن کا انعقاد ہواتھا۔ ہم نے دلی میں بیٹھ کر ہی ٹی وی پر اس کے رزلٹ دیکھے تھے اور اب حمتی طور جانتے تھے کس پارٹی نے کتنی نشستیں لیں ۔ پتہ نہیں مذکورہ ا فسر کا یہ ریمارک مجھے دل پر چوٹ کیوں محسو س ہو ا۔ حق یہ ہے کہ حج یا عمرہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے استطاعت کی شرط کے ساتھ الگ سے ا س کا حکم نازل فرمایا ہے۔اس کے برعکس بندے کی عبرت آموزی کے لئے سیرو فی ا لارض یعنی زمین کی سیر سیاحت کی تاکید بھی قرآن کریم میں آئی ہے مگر یہ کسی ایسی شرط کی قید سے بالاتر ہے جو حج کے لئے مقرر ہے ۔ پہلا حکم رُوح کی پیاس بجھانے ،ا للہ سے بگڑا ہو ارشتہ از سرنو بحال کر نے اور ایمان کی تروتازگی پر مرکوز ہے، جب کہ دوسرے حکم کی رُو سے زمین کے کونے کھدرے کھنگالنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک محقق و سیاح کے مشاہدے کی آنکھ کھل کر اس میں اللہ کی کبریائی کی نشانیاں سما جائیں ۔ دنیا بھر میں مختلف حالتو ں میں بکھری ان نشانیوں سے نہ صرف اَن کہی داستانیں ہو یدا ہوتی ہیں بلکہ ان سے سبق حاصل کر نے وا لے کسی متلاشی حق کے واسطے یہ خدا تک پہنچاوالے سنگ ِ میل ہوتے ہیں ۔ حج وعمرہ کی غایت اولیٰ اس عبرت وموعظت سے اعلیٰ وارفع ہے۔ میں اس جنٹل مین سے کس زبان میں کہتا کہ بھئی ہم یہ عزم بالجزم کر نے اُس پاک سر زمین پر اپنے ناپاک قدم ڈال رہے ہیں کہ رب العزت سے گڑگڑا کر آئندہ ایک پاک ، پُروقار، مومنانہ ،انسان دوستانہ اور موحدانہ زندگی گزارنے کی توفیق مانگ لیں ،ا س سے اپنی بندگی کا ٹوٹا ہوا عہد پھر سے دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ استوار کرلیں۔ آج یہ سطور لکھتے ہوئے جب میں اس صاحب کی بے تکی بات پر غور وفکر کر تاہوں تو یہی نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ ا س میں اُس غیر مسلم بھائی کا کیا قصور؟ اس نے ہمارے حج اور عمر ے کی مقصدیت اپنے حساب سے شاید ہی سمجھ لی ہو۔ قصور ہمارا ہے کہ ہم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے ۔ ہم نے بہ حیثیت داعی اُ مت اپنے دین کی انفرادی یا اجتماعی سطح پر کبھی اسلام کی نمائندگی کی ہی نہیں بلکہ عصر رواں میں ہم اسلام یعنی آفتاب عالم تاب اور اندھیرے میں ڈوبی امن کی متلاشی دنیا کے درمیان ایک ہمالیائی آڑ بنے ہوئے ہیں ۔ اس پر مزید اُفتاد یہ کہ دنیا ئے انسانیت مسلمانوں کو دیکھ کر ہی ا سلام کے بارے میں ٹھیک یاناٹھیک تصور ذہنوں میں بٹھا تی ہے ۔

امیگر یشن کے بعد اب شوق کا پنچھی دوسری ڈال پر بیٹھ گیا۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی، یہ بھی ساتھ ہولیا ۔ میں اور میری اہلیہ اپنے دوسرے ہمراہیوں کے ساتھ لاؤنج میں پہنچ گئے ۔ یہاں ہم سب مردوخواتین کو اب ایک انتہائی کام کی تکمیل کر ناتھی۔ عورتوں اورمردوں کو با وضو ہوکر احرام کے چادر اوڑھنے تھے ۔اسلام کی عورت پر رحمت ورافت کا بلیغ اشارہ سمجھئے کہ اس کا پہنا ہو الباس ہی اس کے لئے احرام قرارپاتا ہے ۔ اکثر خواتین عمرہ ا ور حج کے لئے نیا سلا ہوا جوڑا پہنتی ہیں ۔ موقع کی مناسبت سے وہ اکثر سفید جوڑاور سفیداوڑھنی زیب تن کر نا پسند کر تی ہیں بلکہ اضافی طور دستانے بھی پہنتی ہیں ۔ میری اہلیہ نے ڈیرے سے ہی اپنا نیا لباس پہن رکھا تھا، اس لئے وہ محرِ م تھی ۔ ہم سب ساتھی ائرپورٹ کے ایک کونے میں چھوٹے سے کمرے میں احرام لئے داخل ہو گئے، وہاں بہت سارے معتمر اپنا اپنا احرام باندھ رہے تھے ۔ ہم نے پہلے وضو کیا اورا س کے بعد پہلے کر تے اُتار ایک چادر ناف تا شانے اوڑھ لی پھر پاجامہ کے اوپر دوسری چادر کس لی کہ یہ تہبند بنااوراب ایزارسمیت زیر پاجامہ تک نکال لیاکہ اندرالف ننگاہوکررہ گئے۔ سفید رنگ کے احرام کی دوچادریں ( کفن کہنا بھی موزوں رہے گا ) زیب ِ تن کرنا،کیا ہے یہ لباس؟ یہ سوال ہم میں سے ا کثرذہنوں میں گردش کرتاہوگا۔ا س گھڑی سے قبل ہم نے زندگی بھر صرف سلے سلائے لباس پہننے کے عادی تھے،کبھی اس انوکھے لباس سے بدن کوڈھا نپنے کا سوچا بھی نہ تھا لیکن آج یہ یکایک کیا ہوا کہ ہم بدل گئے ، ہمارا معمول متغیر ہوا، ہمارے مزاج کی کایا پلٹ گئی، اگر ہم احرام میں آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے تو کیا وہ ہمیں پہچان پاتا ؟ نہیں ۔ یہ ہمارا ایک نیا ہی تعارف ہوا ،کہیں یہ ہمارا نیا جنم تو نہیں ؟۔۔۔ احرام کی چادریں کس لئے، ان سے ہماری شخصیت کس سانچے میں ڈھل گئی ؟ ہماری انا،ہماری انفرادیت،ہمارے ملبوسات، ہمارے پسندیدہ کپڑے کچھ بھی تو ہمارے ساتھ نہ رہا۔ سب ہم کو چھوڑ گئے، پہلے گھر والوں نے ودِاع کیا،وطن سے رُخصتی کی اوراب اپنالباس بھی ہم سے بچھڑ تاگیا، ہم اکیلے پڑگئے اورصرف ایک اللہ کے ہوگئے۔ ہم نے وہ لبا س پہناجوکفن سے زیادہ مشابہ ہے، یہ ہماری ا پنی پسند نہیں بلکہ اس کاحکم رب تعالیٰ کی مرضی ہے جس نے اپنے گھرکے طواف کے لئے بلایاہے۔ ہم نے یہ چادریں بازارسے خریدتولیں اورخوشی خوشی اسے پہن بھی لیا،مگرکیا ہم جانتے ہیں اس میں کیا پیغام چھپا ہے ؟۔۔۔۔ میں نے عقل عیار سے نہیں شوق کے پنچھی سے پوچھا بتاؤیہ سب کیا ہے ، اس نے کہا یہ خدا کی پسند ہے ، اس نے ا بھی تمہارا پسندیدہ لباس تم سے اُتروایا، تمہیں اپنے حضور ننگا ہونے کا قرینہ دیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ تم اُ س عالم الغیب والشہادة کی نگاہوں کے سامنے الف ننگے ہو، تم نے اپنے لباس کے نیچے جو بدن چھپائے رکھاہے،ا س کا رواں رواں اب برہنہ ہے، صرف دو اَن سلے چادروں میں لپٹا ہوا، فرض کرو اگر یہ ہوا کی معمولی جنبش سے جسم سے کھسک گئیں توتم کوپتہ ہے کہ تمہاری جگ ہنسائی ہوگی،خیریت چاہتے ہوتو اپنے بت ِ پندارکو بھی فوراًتوڑدو، جان لوتمہاری اصلیت یہ ہے کہ اللہ کے سامنے بے اصل ہو، ایک ناپاک اچھلتے قطرے سے تمہاراآغازہوااورانجام کیاہوگا،اس کے لئے سب سے جدا ہوکر، سب سے بچھڑ کر، سب سے تنہا ہوکر، تبطل کی حالت میں تھورا مراقبہ کر لو ۔۔۔۔ شوق کا پنچھی بڑی باتیں بول گیا۔
بقیہ اگلے جمعہ ا یڈیشن میں ملاحطہ فرمائیں
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.