جب کسی چیز کی بہتات ہوجائے تو
اچھی چیز میں سڑاند کا پیداہونا ایک قدرتی امر ہے ابن خلدون نے تہذیبوں کے
عروج و زوال کو موسموں کی تبدیلی سے تشبیہ دی ہے جبکہ ساڑھے تین سوسال قبل
مسیح میں پیداہونے والے چانکیہ کو تیلیانے انسانوں کو پیریش ایبل کموڈیٹی
یعنی گل سڑھ جانے والی اشیاء میں شا مل کیا ہے۔ ذولقدرخان تاتاری ایک سفاک
اور ظالم جرنیل اور بے رحم حکمران تھا۔ وہ جنگ پر جانے سے پہلے ہر سپاہی سے
ملتا اور ایک ہی سوال پوچھتا کہ تمہیں کس چیز سے محبت ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر
سپاہی کا جواب الگ ہو تا ۔ کوئی ماں کانام لیتا ، کوئی باپ کا ، کوئی بچوں
کا ، کوئی بادشاہ کا مگر جو سپاہی تلوار سے محبت کا اظہارکر تا وہ ذوالقدر
خان جسے تاریخ میں ذولچو خان بھی لکھا گیا کے خاص دستے میں شامل ہوتا جو
بادشاہ کی حفاظت کے لیے چنا جاتا ۔
ذوالقدر خان عجیب ذہنیت کا حامل تھاجس قدر وہ سفاک تھا اسی قدر و ہ عالم
بھی تھا اور علماء کی قدر کرتاتھا ۔ اُسکا کہناتھا کہ تلوار نیام میں ہو تو
اُسے زنگ لگ جاتا ہے ، سیاہی دوات میں رہے تو گند بن جاتا ہے سیاہی اوراق
پراور تلوار ہاتھ میں اچھی لگتی ہے۔ ننگی تلوار سپاہی کی مردانگی اور اورا
ق پربکھری سیاہی لکھنے والے کی ذہنیت کواجاگر کرتے ہیں۔
ابن خلدون کے اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ جسطرح چار
موسم زمین پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح انسانی تمدن کے بھی چار ادوار ہیں
۔ قرآن کریم میں بیان ہے کہ پہلے تم بچپن کی عمر میں ہوتے ہو،پھر جوانی
اورآخر میں بڑھاپا دیکھ کر موت کی وادی میں منتقل ہوجاتے ہو۔ ولی اﷲ
کاشمیری فرماتے ہیں کہ ابن خلدون اور دیگر مفکرین میں یہ فرق ہے کہ وہ
اسلام اور قرآن سے رہنمائی لیتا ہے جبکہ دیگر حکماء قیاس اور اختراع کا
سہارا لیتے ہیں ۔ ولی کے مطابق قیاس اور اختراع سطحی ذہن کے حامل فریب
خوردہ جاہلوں کا وطیرہ ہے جو خزان یعنی زوال کا نشان ہے ۔ گو کہ یہ اشارہ
اہل یہود کی طرف ہے کہ ایسے عالموں کی مثال اُس گدھے جیسی ہے جس پر بہت سی
کتابیں لاددی جائیں یعنی گدھا کتابوں کو بوجھ اُٹھانے سے عالم نہیں بن جاتا
۔ہم اگر اپنے ملکی میڈیا کوسچائی کی آنکھ سے دیکھیں تو ایسے حیوانات کی بڑی
تعدادصحافت کے مقدس پیشے سے منسلک محض باربرادری کا بھاری معاوضہ لیکر
دولتیاں مارنے اور گند پھیلانے میں مصروف ہے۔
چانکیہ کے بعد ایک ہند و دانشور ، شاعر ، فلسفی اور تاریخ دان پنڈت کلہن
بھی ہو گزرا ہے جسکی مرتب کردہ تاریخ راج ترنگنی عالمی شہرت یافتہ ہے ۔راج
ترنگنی کا سنسکرت سے ہندی اور پھر اُردو ترجمہ ٹھا کر اچھر چند شاہ پوریہ
نے کیا ہے ۔ اس ترجمہ کے مطابق راج ترنگنی میں مذکورہ تیس سے زیادہ کشمیری
حکمرانوں کا ذکر بوجہ نہیں ہو سکا کچھ عرصہ قبل ایک ہندو تاریخ دان جون راج
کا ترجمہ سامنے آیا ہے جسے جون راج ترنگنی کہا جاتا ہے۔ علاوہ اس کے کلہن
کے اشعار کا ترجمہ بھی ہے جسکا خالق ہر چند کا ٹھیہ ہے ۔ کاٹھیہ کے مطابق
کلہن نے انسانی سوچ کوہی تہذیب کی عظمت قرار دیا ہے کلہن کہتا ہے کہ سو چ و
چار ساری قوم کا کام نہیں ۔ عام لوگ مختلف پیشوں سے منسلک ہوتے ہیں اور وہ
دوسری اقوام اور ملکوں سے روابط بڑھاتے ہیں اور اپنی بہترین مصنوعات اُن کو
فروخت کرتے ہیں۔ وہ دوسروں ملکوں سے نئی نئی چیزیں لا کر اپنی قوم کا شعور
بڑھاتے ہیں ۔ اسطرح وہ مختلف زبانیں سیکھتے ہیں ، رسم و روج او رمذاہب کا
بھی مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کے ذریعے اپنی ثقافت ،
روایات کا بھی پرچار کرتے ہیں ۔ کلہن کے مطابق ہر تاجر اور صنعت کا ر کو
اپنے پیشے پر توجہ دینی چائیے ۔ تاجروں اور پیشہ ور خاندانوں کو فوج سیاست
، تعلیم اور دیگر شعبوں سے دور کیا جائے اور کوئی تاجر یا اہل حرفہ اپنا
پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے پیشے کا رخ کرے تو اُسے کڑی سزا دی جائے۔ ایک جگہ
لکھتا ہے کہ ان کا مال و اساب ضبط کیا جائے ان کے گھر جلا دیے جائیں اور
انہیں ملک بدر کر دیاجائے۔ کلہن اور کاٹھیہ تاجروں کو بہترین سفارتکار قرار
دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تاجر بادشاہ ، جرنیل یا معلم بن جائے
تو وہ ملک فروخت کر دیگا، فوج میں بغاوت ہو گی اور علم کی ہیئت بدل جائے گی
۔ عوام مفلس ہو جائے گی ، ملکی دفاع کمزور ہو گا، فوج بد دل بیکار ہوجائے
گی اور علم سطحی ، فروعی اور فرسودہ روایات تک محدود ہو کر گندی ذہنیت اور
سوچ کے حامل پر چارک پیدا کر نے کا موجب بنے گا۔ جس قوم کے پرچارک بادشاہ ،
فوج اورعلم کو فرسودہ اور بیکار ثابت کرنے پر لگ جائیں وہ جلد ہی قوم کے
زوال کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسی ذہنیت کے حامل عالموں پر دشمن قوم اور ملک کے
کارندے دولت نچھاور کرتے ہیں اور مدمقابل اقوام کے زوال کا سامان پیدا کرتے
ہیں۔
دیکھا جائے تو آج ہمار املک پوری طرح اس بیماری کے شکنجے میں آچکا ہے ۔ تا
جر پیشہ لوگ جمہوریت کی آڑ میں ہر سطح کے حکمران ہیں اور ملکی خزاانہ لوٹ
رہے ہیں ۔ ملکی دفاع کمزو رہورہا ہے اور عوام سے لوٹا ہوا مال بیرون ملک
منتقل کیا جا رہا ہے ۔ ملکی قومی سلامتی اور معاون ادارے ایک منصوبہ بندی
کے تحت تباہ کیے جا رہے ہیں تعلیم تجارت بن گئی ہے اور عوام غربت اور مفلسی
کی زندگی جی رہی ہے ۔ فرسودہ اور گھٹیا ذہنیت کے حامل پر چارکوں کو موجودہ
دور میں صحافی اینکر، مبصر، تجزیہ نگار اور دانشور کہاجاتا ہے جو فوج پر
تنقید کرنے اور اُس کے حوصلے پست کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے
۔
اس سال چھ ستمبر کا دن کچھ ایسے ہی دماغوں پر بوجھ بن گیا جو 23مارچ،14اگست
اور 6ستمبر جیسی تقریبات کے منسوخ ہونے پر خوش تھے۔ میرے پاس بظاہر کوئی
ثبوت نہیں کہ میں ان رسیاذھنوں پر الزام لگاؤں کہ یہ بھارت یا کسی اور ملک
دشمن کے وظیفہ خوار ہیں مگر یہ بات سب پر عیاں ہے کہ یہ پرچارک بھارت کی
محبت میں بہر حال گرفتار ہیں ۔ ایک ہلکانے والے صحافی اور اینکر صاحب جب سے
امریکہ جانے لگے ہیں ان کے اطوا ربتلاتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی کے دام میں
ہیں ۔ اس سال چھ ستمبر سے پہلے ہی انہوں نے 1965ء کی جنگ کا فاتح بھارت کو
قرار دینا شروع کردیا اور اپنی دانشوری سے پاکستان کو شکست خوردہ قوم قرار
دیا۔ جناب چاڑہ صاحب نے اپنی سوچ کا وزن بھارت کے پلڑے میں رکھا اور دلیلوں
سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاک فوج نے 1965ء میں شکست کھائی ۔ مجھے یہ
کہنے پر کوئی جھجک نہیں کہ یہ ایک گندی اور گھٹیا سوچ ہے جو ملک دشمنی کی
عکاس ہے۔ہکلانے ولاے کو پشتو زبان میں چاڑہ ، پنجابی میں تھتھا اور اردو
میں ہکلا کہتے ہیں۔ دیہاتی ضر ب المثل ہے تھتھی رن وفادار نہیں ہوتیــ ۔
اگر ایسا ہی ہے تو تھتھا مرد بھی کسی سے کم نہیں ہوتا جبکہ تھتھا صحافی تو
کسی صورت قابل اعتماد نہیں ہو سکتا ۔ میں مشہور صحافی ، دانشور ، مصنف ،
کالم نگار اور اینکر جناب چاڑہ صاحب سے درخواست کر ونگا کہ وہ فتح وشکست کو
پڑھیں اور عالمی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ فتح و شکست کیا چیز ہوتی
ہے ۔ 1965ء کی جنگ کا آغاز بھارت نے رن آف کچھ سے شروع کیا جو لارڈ ویول کے
فارمولے پر مبنی سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ تھا۔ بھارت کی ایک
ڈویژن میکانا ئیزڈ یلغار کے مقابلے میں پاکستان آرمی کا ایک بریگیڈ گروپ
تھا جس نے بھارتی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا صحرائی قبرستان بنا کر فتح
کا جھنڈ ا گاڑھا۔ اگر آپ کو ہلکانے ، سیکنڈل اور سٹوریاں تلاشنے سے فرصت
ملے تو جنرل نادر پرویز سے ضرور ملیں چونکہ لیفٹنٹ نادر پرویزرن کا آف کچھ
کا نو عمرہ اور نو خیز ہیر و تھا ۔ لیفٹینٹ نادر پرویز کو دلیرانہ معرکوں
کے صلے میں ستارہ جرات سے نوازا گیا ۔ بقول کرنل سکندر خان بلوچ کے ، ملٹری
اکیڈیمی کا کول میں نادر پرویز کے ایکشن کی خبر پہنچی توہر کیڈٹ میدان جنگ
میں جانے کے لیے تڑپنے لگا چونکہ چندماہ پہلے ہی وہ اکیڈیمی سے پاس آؤٹ ہو
کر گیا تھانادر پرویز کوسینکڑوں کیڈٹ جانتے تھے اور اب اس کی طرح میدان جنگ
میں جانے کے لیے بیتاب تھے۔ لیفٹینٹ نادر پرویز جو چند ماہ پہلے اُنکا
سینئر کیڈٹ تھا اب اُن کا ہیرو تھا۔ ہر کیڈٹ نے نادر پرویز کو خط لکھا ،
اُسے داد دی ، اسپر فخر کیا اور اُس کی طرح میدان جنگ میں جانے کا اظہار
بھی کیا۔
جناب چاڑا صاحب سے گزارش ہے کہ وہ 65کی جنگ کی وجوہات دیکھیں یہ جنگ فوجی
منصوبہ سازوں کی نہیں بلکہ سیاستدانوں کے ذہن کی اختراع تھی وزیر خارجہ
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر میں گوریلہ جنگ کا منصوبہ بنایا تو نواب
آف کالا باغ نے اس کی مخالفت کی۔ نواب آف کالا باغ کا یہ بیان تاریخ کا حصہ
ہے جس میں انہوں نے ایوب خان کو لکھا کہ بھٹو کے خاندا ن میں کبھی کسی نے
توپ، تلواریا بندوق نہیں چلائی۔ تم بھٹو اور شعیب خان کے چکر میں نہ آؤ
ورنہ نقصان اُٹھاؤ گئے۔ جناب بھٹو اور شعیب خان آخردم تک ایوب خان کو
امریکہ کے حوالے سے یقین دلاتے رہے کہ بھارت پاکستانی سرحد پر حملہ نہیں
کریگار اور جنگ کشمیر تک ہی محددود رہے گی ۔ جناب بھٹو ، شعیب خان اور
امریکہ کی یقین دھیانیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور بھارت نے پاکستان پر
حملہ کر دیا۔ جناب چاڑہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زنگ آلود دانشوری سے
کام لیتے ہوئے میدان جنگ کا تجزیہ کریں تو انہیں بات سمجھ آجائے گی ۔ یہ سچ
ہے کہ پاکستان آرمی اس جنگ کے لیے بالکل تیار نہ تھی مگر روزمرہ کی تیاریاں
بھارت کی باقاعدہ تیاری پر سبقت لے گئیں ۔ 6ستمبر کی صبح بھارت نے حملہ کیا
تو لاہور گیریژن میں فوجی افسران اور جوان جسمانی ورزش میں مصروف تھے۔ حملے
کی اطلاع پر افسروں اور جوانوں نے کسی حیرت کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ اﷲ اکبر
کانعرہ لگا کر اپنے ہتھار اُٹھائے اور بارڈر پر پہنچ کر بھارتی ٹڈی دل کا
راستہ روک دیا ۔ کالم نگار اور اینکر جناب نصر ت جاوید 65کا احوال لکھتے
ہیں کہ صبح سویرے وہ تندور پرنان چھولے خریدنے گئے تو ایک بڑ ا دھماکہ ہو ا
جس کہ وجہ سے معصوم نصرت جاوید کا ناشتہ زمین پر گر گیا ۔ آگے چل کر لکھتے
ہیں کہ فوج کے بعد سارا لاہور ڈنڈے ، سوٹے ، رائفلیں ، ہاکیاں ، برچھیاں
اور کلہاڑیاں لیکر واہگہ کیطر ف چل دیا ۔ اس لشکر میں خود ننھا منا
مجاہدنصرت جاوید بھی شامل تھا۔ ریلوے ا سٹیشن کے قریب پتہ چلا کہ واہگہ بہت
دورہے اور چھوٹا نصرت جاوید وہاں تک پیدل نہیں پہنچ سکتا اس لیے وہ واپس
گھر آگیا ۔میرے نزدیک نصرت جاوید کا نان چھولے کی دکان سے دشمن پر وارکرنے
کی نیت سے ریلوے اسٹیشن تک ننگے پاؤن سفر کرنا بھی جہاد ہے اور نصر ت جاوید
یقینا 65کا غازی ہے۔
بہت سال پہلے مشہور سیاستدان اور وکیل اعتزاز احسن نے ایک ٹیلیویژن
انٹرویومیں بتایا کہ 65کی جنگ کے دوران موصوف نے اپنے بچاؤ کے لیے گھر کے
خوبصورت لان میں ایک مورچہ کھودا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس مورچہ کھدائی
پروہ شرمندہ ہیں چونکہ اسطرح انہوں نے ان ڈائریکٹ 65کی جنگ میں شمولیت
اختیار کی جسکی وجہ سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔ فرمایا آج بھی افسوس ہے کہ
مجھے مورچہ نہیں کھودنا چائیے تھا ۔ جناب اعتراز احسن کا انٹرویو سن کر
مجھے آزادکشمیر کے گاؤں خواجہ بانڈی کی وہ نڈر مجاہدہ یا د آگئی جو بارہ
بور رائفل لیکر اوڑی کی طرف جانے والے نالے کے کنارے بیٹھ گئی اور تب تک
بھارتی حملے کو روکے رکھاجب تک فوجی جوان اُ س کی مدد کو نہ پہنچے ۔ حیرت
کی بات ہے کہ بیرسٹر اعتراز احسن پیپلز پارٹی کے اہم رکن ہیں انہیں تو اگلے
مورچے میں ہونا چاہیے تھا چونکہ اس جنگ کے منصوبہ ساز اُن کے ہی سیاسی مرشد
جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ مشہور بھارتی صحافی درگا داس اپنی کتاب ’’
کرزن سے نہرو اور65کی جنگ کے بعد ‘‘میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم شاستری پر
بھارتی فوج ، کابینہ اور اشرافیہ کا شدید دباؤ تھا کہ وہ آزادکشمیر کے حاجی
پیر سیکٹر پر کوئی بات نہ مانے اور درہ حاجی پیر پر بھارتی قبضے کو برقرار
رکھے۔ دوسری جانب ایوب خان پرا پنے ہی وزیر خارجہ کا دباؤ تھا کہ سیز فائیر
لائن کو چھوڑ کر باقی معاملات پر بات کی جائے ۔ آخر کار ایو ب خان نے وزیر
خارجہ کو ڈانٹ پلائی اور حتمی مسودہ خود لکھاجس میں در حاجی پیر اور ملحقہ
چوٹیوں سے بھارتی انخلاء کویقینی بنایا ۔ آخری مسودے کی اطلاع دہلی دربار
پہنچی تو لٹل مین آف سٹیل شاستری پر نہ صرف حکومتی بلکہ خاندانی دباؤ بھی
بڑھ گیا ۔ درگا داس کے مطابق شاستری کی بیگم اور بیٹے نے بھی کہا کہ وہ کسی
ایسی دستاویز پر دستخط نہ کرے جس میں درہ حاجی پیر اور ملحقہ علاقے کی
واپسی کا ذکر ہو۔ دوسری جانب میزبان ملک سویت یونین کی عزت ووقار کا مسئلہ
تھا کہ تاشقند مذکرات کسی صورت نا کام نہ ہوں ۔ بھٹو صاحب جنہوں نے آپریشن
جیرالٹر کی منصوبہ بندی کی تھی۔ جسکا کردار حیران کن تھاکہ انہیں آزادکشمیر
کے چھینے گئے علاقوں کا ذرہ بھر بھی احساس نہ تھا ۔جو اُن کے بنائے گئے
ناکام منصوبے کی وجہ سے بھارت کے ہاتھ لگ گئے تھے اور مستقبل میں ان علاقوں
کا بھارت کے ساتھ رہنا گویا سارے آزادکشمیر سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا۔
چاڑہ صاحب اگر خود نہیں سمجھتا تو ٹیلی ویژن سیکرینوں پر جلوہ افروز دو
ائیر مارشلوں اور پانچ جرنیلوں سے ہی پوچھ لے کہ حاجی پیر سیکٹر کی فوجی
تدبیراتی اور جغرافیائی لحاظ سے کیا اہمیت ہے ۔ اگر توفیق ہو تو کبھی شہید
گالہ جا کر اُن شہدا کی قبروں پر فاتحہ بھی پڑھ لے جنہوں نے جان کا نذرانہ
دیکر جنرل سند ر جی جیسے بھارتی کمانڈر کو کئی گھنٹے تک اس علاقے میں روکے
رکھا اور اُسکا کوہالہ پہنچنے کا خواب خاک میں ملا دیا۔
جہاں تک فتح اور شکست کا معاملہ ہے تو پاکستان ہرلحاظ سے فاتح ہے ۔ 1971ء
میں تو سیاستدانوں کا ادھرہم ادھر تم چل گیا مگر 65میں آزادکشمیر سے جان
چھڑاؤ فارمولہ ناکام ہوا۔ پیپلز پارٹی کے وزیر قانون اور دانشور قانون دان
مرحوم اقبال حیدر مرتے دم تک کشمیریوں کے خلاف بولتے رہے اورکہتے رہے کہ ہم
اپنی اولادیں کشمیریوں پر کیوں قربان کریں۔ وہ ٹیلی ویژن چینلوں پر دلائل
دیتے رہے کہ پاکستان جتنا جلدی کشمیر کے مسئلے سے جان چھڑا لیگا اتنا ہی
جلد ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ ایک طرف تو بھٹو صاحب کشمیر کے
لیے سوسالہ جنگ کا اعلان کرتے تھے اور دوسری طرف تاشقند میں پونچھ اور نیلم
سیکٹر کے اہم علاقوں سے بھارتی انخلاء پر بات کرنے پر نالان تھے۔ جب خود
اقتدار میں آئے تو شملہ کے مقام پر سیز فائیر لائین کولائین آف کنٹرول میں
بدل کر مسئلہ کشمیر عالمی عدالت سے باہمی پنچائیت میں لے آئے تاکہ بھارت
کشمیریوں پر اپنی مرضی مسلط کر سکے۔
اگر ہم چاڑہ صاحب کے رواس پٹاس پر نظر ڈالیں تو ان سے گزارش ہے کہ آپ کا
بھارت نواز ہونا اب تسلیم ہوچکا اور آپ کی مسلسل امریکہ یاترا بھی کسی
مصلحت کے بغیر نہیں ۔ دیسی ٹٹو ولائیتی چیکاں والا محاورہ توآپ نے سن رکھا
ہوگا ۔ یہ چیخیں ڈالروں کے بغیر نہیں نکلتی ۔ آپ کی چھ ستمبر والی چیخیں نہ
صرف ولائیتی بلکہ بھارتی بھی تھیں۔ بھارت نواز دانشور اینکروں اور صحافیوں
سے گزارش ہے کہ آپریشن جبر الٹر پاکستان کے وزیرخارجہ اور وزیر خزانہ کا
برین چائیلڈ تھا جسکی سیاستدانوں نے ہی نہیں بلکہ اولیائے کرام نے بھی
مخالفت کی تھی۔ فوجی افسر اسے اپنے طریقے سے لڑنا چاہتے تھے مگر بھٹو صاحب
کے اپنے ہی ارادے تھے۔ اس سلسلے میں انوار ایو ب راجہ کی کتاب لینٹھا ،
ممتاز مفتی کی کتاب الکھ نگری اور جناب علامہ حمید الدین برکاتی کی تصنیف
انوار برکاتیہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ انتہائی ناسازگار حالات کے
باوجود پاک فوج نے ہزاروں میل بھارتی علاقے پر قبضہ کیا۔ بھارتی بندر گاہ
دوار کا اور دیگر بحری تنصیبات سمیت اہم بحری جنگی جہازوں کو تباہ کیا۔ پاک
نیوی کی اس شاندار کارکردگی کے علاوہ پاکستان ایئر فورس نے پٹھان کوٹ ،
ادھم پور، پلواڑہ ، جیسلمیر اور بیکانیر کے اہم ہوائی اڈوں کو ناکارہ بنا
دیا اور نصف کے قریب بھارتی ہوائی فوج کو تبا ہ کر دیا۔
وسیع بھارتی علاقے پرقبضے کے علاوہ بھارتی توپخانے اور بھکتر کا بھی بہت
بڑا حصہ تباہ کیا۔ کئی ہزار بھارتی فوجی مارے گئے اور قیدی بنا لیے گئے ۔
65کی جنگ کو شکست کہنے والا صحافی ٹولہ در حقیقت شکست خوردہ گندی ذہنیت کا
حامل صحافتی گند ہے۔ جواپنے ہی ملک ، قوم اور فوج کے خلاف زہر اگل کر اپنے
آقاؤں کو خوش کرنے اور حرام کا مال ہضم کرنے پر تلا ہوا ہے |