بدین کی ایک میونسپل کمیٹی اورٹنڈو باگو سے پیپلزپارٹی کو
شکست کیا ہوئی ہمارے میڈیا نے ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کو آسمان پر اٹھا
لیا ……ان کے نزدیک پیپلز پارٹی کی ہار کوئی انہونی بات ہوگئی ہو، تمام
میڈیا چینلز نے ذوالفقار مرزا کو ہاتھوں ہاتھ آن بورڈ لیا اور لمبی چوڑی
گفتگو کرکے مستقبل کریدنے کی کوشش کی گئی، حالانکہ نوشہرو فیروز اور ایک دو
اور مقامات پر بھی پیپلز پارٹی کو ہرایا گیا ہے،…… حالانکہ پنجاب میں بہت
سی جگہوں پر مسلم لیگ کو شکست ہوئی ہے جن میں میانوالی ، اٹک چیچہ
وطنی،پنڈی بھٹیاں اور دیگر مقامات شامل ہیں، جہاں سے مسلم لیگ کا سفایا ہوا
ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ ان علاقوں سے جیتنے والے آزاد امیدوار مسلم لیگ کے
ہی ناراض کارکن ہیں تو پھر ذوالفقار مرزا کے شہر بدین سے معرکہ سر کرنے
والے امیدوار بھی پیپلز پارٹی کے ناراض کارکن ہیں اچنبھے کی بات یہ ہے کہ
کسی نے میانوالی ،چیچہ وطنی ،پنڈی بھٹیاں اور دیگر علاقوں سے مسلم لیگ نواز
کو ہرانے والوں کے قائد کو آن لائن کیوں نہیں لیا…… ایسا کیوں ہوا شائد اس
کے پس پرڈہ اسٹبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی دشمنی( بھٹو دشمنی) پنہاں ہے کیونکہ
ماضی میں بھی جس کسی نے خواہ وہ موری ممبری کی نشست بھی جیتنے کی اہلیت
نہیں رکھتا تھا اور اس نے بھٹو خاندان کے لیے بات کی تو میڈیا کے اس چینل
اور حصے نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا ،ڈاکٹر صفدر عباسی ،ناہید خان، مولانا
کوثر نیازی،حنیف رامے،مصطفی کھر،غلام مسطفی جتوئی، پیر جان سرہندی ،نہ جانے
کتنے لوگ بھٹو ز کو چیلنج کرکے اپنی قسمت چمکانے آنے لیکن کنویں کے مینڈک
بن کر رہ گئے۔ ذوالفقار مرزاکی سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور
انکے فرزند حسنین مرزا کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا
ہے کہ سابق صدر زرداری کے خلاف بات کرتے ہیں الیکشن بھی اس کے خلاف لرتے
ہیں لیکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر براجمان
ہیں،پیپلزپارٹی یا زرداری کے خلاف الیکشن لڑنا ہے تو پہلے پیپلز پارٹی یا
زرداری صاحب کی عطا کردہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوں پھر لوگ آپ کو باآصول
سمجھیں گے-
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک انتہائی نامناسب فیصلے کے باوجود پنجاب اور
سندھ میں 26 اضلاع کی مقامی حکومتوں کے انتخابات کا دوسرامرحلہ اپنے انجام
کو پہنچا، دونوں صوبوں میں عوام نے پہلے مرحلے کے فیصلہ کو برقرار رکھتے
ہوئے پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کومقامی حکومتیں
تشکیل دینے کا حق عطا کیا، پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے سب سے زیادہ نشستوں
پر کامیابی حاصل کرنے کی روایت کو برقرار رکھا جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی
نے مخالفین کے سینے اپنے تیروں سے چھلنی کرتی ہوئے آگے کی جانب پیش قدم کر
رہی ہے اور سندھ میں سب سے زائد نشستیں حاصل کرکے سندھ مین اپنی برتری قائم
رکھنے میں کامیاب رہی ہے اور سب سے زیادہ نشستیں اپنے نام کرلیں، بلدیاتی
انتخابات کے اس دوسرے مرحلے کی سب سے اہم بات سندھ میں آٹھ اضلاع کی 81
یونینز کونسلوں ٹاؤن اور میونسپل کمیٹیوں کے انتخابات پولنگ سے محض15-16
گھنٹے قبل ملتوی کیا جانا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس طرح کے فیصلے
کی توقع نہیں تھی -
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو رائے عامہ سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں
کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا ہے، بعض حلقے سے دھاندلی سے تعبیر کر رہے
ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سندھ کے
وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے اپنے وزیر نثار کھوڑو کے ہمراہ ایک پریس
کانفرنس کرتے ہوئے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی
اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش ہے ،اپنے تمام تر تحفظات اور شکایات کے
باوجود سید قائم علی شاہ نے ایک بات بہت اچھی کی کہ ہم الیکشن کا بائیکاٹ
نہیں کریں گے بلکہ قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اقدام کریں گے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید
احمد شاہ نے بڑے صاف شفاف انداز میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ
سیاسی یتیموں کو بچانے کی کوشش ہے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی کوئی کچھ
بھی صفائی دیتا رہے ،لیکن بات وہیں ہے جو سابق صدر زرادری اور سید خورشید
شاہ نے کہی ہے، عدالت ’’ آئندہ انتخابات تک یا دس گھنٹوں کے اندر اندر حلقہ
بندیاں درست کرنے کا حکم دیکر انتخابات کے عمل کو جاری رکھنے کی ہدایت دے
سکتی تھی اس طرح انتخابات سے محض پندرہ سولہ گھنٹے قبل انتخابات ملتوی کرکے
الیکشن کمیشن آف پاکستان،پاکستان کو جگ ہنسائی سے بچا سکتا تھا، الیکشن
کمیشن نے گو یہ کارروائی سپریم کورٹ کے کندھے پر رکھ کی ہے لیکن لوگوں کو
بیوقوف بنانا آسان نہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے واضع کہا ہے کہ الیکشن کروانا
یا ملتوی کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی صوابدید پر ہے ۔سپریم کورٹ نے
کہیں نہیں کہا کہ انتخابات ملتوی کردئیے جائیں۔
الیکشن کی جانب سے سندھ میں الیکشن ملتوی کرنے کے فیصلے میں بہت ابہام
موجود ہے کتنی یونینز کونسلوں میں انتخابات ملتوی ہوئے اس کے بارے میں
متضاد خبریں شائع ہوئی ہیں کراچی کے ایک اخبارات میں ان یونینز کونسلوں کی
تعداد 76 جبکہ لاہور کے اخبارات میں یہ تعداد 81 بتائی گئی ہیالیکشن کمیشن
کے اس فیصلہ نے الیکشن کمیشن کی خامیوں اور کمزوریوں پر سے پردہ اٹھا دیا
ہے حلقہ بندیاں کرنا الیکشن کمیشن کا کام تھا اور اسے کرنا بھی چاہیے تھا ،پانچ
سال الیکشن کمیشن کا عملہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا ہے، الیکشن کمیشن
کو اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ،
تاکہ کسی کو اس پر انگلیاں اٹھانے کا موقعہ فراہم نہ ہوسکے،سابق صدر زرداری
اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ساحب کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی سندھ
حکومت سے کہیں کہ اس نے کیا تیاری کر رکھی تھی؟ اسے علم تھا کہ عدالت عظمی
میں کیس زیر سماعت ہے کسی وقت بھی اسکا فیصلہ ٓاسکتا ہے اور عدالت عظمی کا
بھی فرض بنتا تھا کہ وہ اس قدر اہمیت کے حامل مقدمے کا فیصلہ الیکشن کی
تاریخ سے کوئی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل سنادیتی تاکہ مقررہ تاریخ کو الیکشن کا
انعقاد یقینی ہوتا اور الیکشن ملتوی کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ کے مختلف حلقوں میں انتخابات ملتوی کرنے کے
فیصلے پر تنقید کو بے بنیاد اور بلاجواز قرار دیا جا رہا ہے الیکشن کمیشن
نے ان الزامات کی بھی تردید کی ہے کہ یہ التواء کسی کو فائدہ پہنچانے کی
غرض سے کیا گیا ہے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے
تحت چوبیس گھنٹوں میں حلقہ بندی درست کرنا ممکن نہ تھا ، سوال وہی ہے کہ
الیکشن کمیشن پہلے سو یا رہا تھا؟ اس نے یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا؟ لوگ تو
باتیں بنائیں گے بھی اور الزامات بھی لگائیں گے۔الیکشن ملتوی کیے جانے پر
تو مخالفین اعتراض کرتے رہیں گے لیکن الیکشن کمیشن کے پاس اس بات کا کیا
جواب اور جواز ہے کہ ماضی کی طرح ان بلدیاتی انتخابات میں بھی پاکستان کے
بہت سارے علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی ،اس بات کو
کیوں انشور نہیں کیا گیا تھا ؟تمام سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں سے
کیوں اس بات کا حلف نہیں لیا گیا کہ وہ خواتین کے ووٹ ڈلوانے کے پابند ہوں
گے؟ اکیسویں صدی میں بھی جہالت کی علامت اور روایت کو برقرار رکھنا کئی
سوال پیدا کرتا ہے۔
پنجاب کے 12اضلاع میں1کروڑ سے زائد عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا،
جبکہ سندھ کے آٹھ اضلاع میں 71 لاکھ 47 ہزار سے زائد ووٹرز نے اپنا حق رائے
دہی استعمال کیا،من و امان کی صورتحال کو کنٹرول رکھنے کے لیے پنجاب میں
فوج کی چالیس رینجرز کی آٹھ کمپنیوں اور ایک لاکھ سے زائد پولیس اہلکاروں
نے اپنے فرائض ادا کیے ، پاک فوج کے جوانوں نے تمام اضلاع میں فلیگ مارچ
کیا اور رینجرز نے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر اپنا کردار ادا
کیا،دونوں صوبوں میں ماسوائے چند ایک واقعات مجموعی طور پر صورتحال پرامن
رہی۔سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل بلال اکبر نے بھی حیدرآباد کے
دورہ کے دوران کہا کہ مجموعی طور پر الیکشن کا عمل پرامن جاری رہا البتہ
چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے کے واقعات رونما ہوئیاور پنجاب میں سات افراد اپنی
جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
میرے ہوم ٹاؤن شرقپورشریف کی ایک یونین کونسل قریشیانوالہ کے ایک پرزائیڈنگ
آفیسر جاوید اقبال مسلم لیگ نواز کے ایک چیئرمین کے امیدوار ملک محمد بوٹا
ڈوگر کو 5 سو بیلٹ پیپرز دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا، تحصیل
شرقپور شریف کی اسسٹنٹ کمشنر میڈم نورش صباء نے میڈیا کو بتایا کہ’’ انہیں
اطلاع ملی کہ یونین کونسل قریشیانوالہ کا ایک پرازئیڈنگ افسر جاوید اقبال
بیلٹ پیپرز اپنے گھر لے گیا ہے جس پر اسسٹنٹ کمشنر نے پولیس کے ہمراہ
پرزائیڈنگ افسر جاوید اقبال کے گھر پرچھاپہ مارا اور بیلٹ پیپرز برآمد
کرلیے ‘‘اے سی صاحبہ کے مطابق ’’چھاپے کے وقت مسلم لیگ نواز کے امیدوار
برائے چیئرمین یونین کونسل 42 قریشیانوالہ بوٹادوگر بھی موجودتھا‘‘
پرزائیڈنگ افسر جاوید اقبال کو گرفتار کرلیا گیا اور فوری طور پر تین دن کی
قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا دیکر حوالات میں بند کردیا گیا ہے ۔لیکن
مسلم لیگ نواز کے اس امیدوار کے خلاف ایکشن نہ لینا سمجھ سے بالا تر ہے جس
نے بیلٹ پیپرز خریدنے کے لیے سودا کیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی مقامات سے جعلی
ریٹرننگ و پرزائیڈنگ افسر بھی پکڑے گئے۔
انتخابات کی ایک خاص بات یہ سامنے آئی ہے کہ ضلع خانیوال کی یوسی 25 کی ایک
بہادر خاتون فوزیہ قیصر نے قیام پاکستان سے قائم اس روایت کو توڑ ڈالا ہے
جس کے تحت یہاں کبھی کسی خاتون نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا اس
حوالے سے فوزیہ قیصر اس یوسی سے پہلی خاتون بن گئی ہے جس نے 68 سالہ
خودساخت پابندی کو توڑا اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے نئی روایت قائم
کی ، سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کہاں سویا ہوا ہے ؟ اگر اس
کے بوڑھے ارکان تھکاوٹ کاشکار ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ گھر کی راہ لیں اور
مکمل آرام کریں ان سے تو خانیوال کی فوزیہ قیصر بہادر اور ذمہ دار ثابت
ہوئی……اس بہادر خاتون نے اپنا حق لینے کی غرض سے عدالتوں میں بھی قانونی
جنگ لری اور آخرکار وہ ’’خانیوال ضلع کے گاؤں ’‘موری پور‘‘ کی تاریخ کا
پہلا ووٹ کاسٹ کرنے میں کامیاب ہوئی اور کسی خاتون کی جانب سے پہلا ووٹ
کاسٹ کرنے کا عزاز بھی اپنے نام کرلیا……فوزیہ قیصر اس لیے زندہ باد کہ
اطلاعات کے مطابق میانوالی اور سرگودہا کی یونین کونسل 11پنڈی کوٹ سمیت ملک
کے متعدد علاقوں میں بھی خواتین کے حقوق سلب کیے گئے اور انہیں ووٹ ڈالنے
کی اجازت نہیں دی گئی - |