پاک فوج، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ میں اگر کوئی سپاہی بھی بھرتی
کیا جاتا ہے تو کئی ماہ تک اْس کی تصدیق کا عمل جاری رہتا ہے جو فوج کے
اندر موجود ایک خفیہ ادارہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس سے اْس شخص کے کردار
کی تصدیق کرائی جاتی ہے۔ اگر اْس سپاہی کے اوپر اْس کی گزشتہ زندگی میں
کوئی جعلی ایف آئی آر بھی موجود ہو تو اْس کو پاکستان کی دفاعی افواج میں
بھرتی نہیں کیا جاتا۔ پھر جب وہ سپاہی اپنی ٹریننگ مکمل کر کے اپنی متعلقہ
یونٹ میں جاتا ہے تو وہ یونٹ اْس کی تعلیمی ڈگری کو اْس کے متعلقہ تعلیمی
بورڈ کو تصدیق کے لیے بھجواتی ہے، اگراس کی ڈگری جعلی ثاپت ہو جائے تو اْس
کو اسی وقت فوج سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا جاتا۔ اس کے علاوہ دہری شہریت
کا حامل کوئی شخص تو فوج میں شامل ہونے کا اہل ہی نہیں ہے۔یہ طریقہ کار ہے
فوج میں بھرتی ہونے والے محض ایک سپاہی کے کردار کی تصدیق کا۔ ایک افسر کی
فوج میں بھرتی اور اْس کے کردار کی تصدیق اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ ہوتا
ہے۔ اور پھر نوکری کے دوران بھی افسران اور جوانوں پر فوج میں موجود کئی
ادارے نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے نظم و ضبط اور وفاداری پر کڑی نگاہ
رکھی جاتی ہے۔
اس کی نسبت اب ہمارے اوپر مسلط کیے گئے ان لٹیرے سیاستدانوں کے کردار پر
ذرا نگاہ ڈالیں، تو ان کی زندگی بے شمار ایسے جرائم سے بھری ہوتی ہے کہ ان
کی حیثیت فوج میں ایک سپاہی بھرتی ہونے لائق بھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے جیلیں
بھی کاٹی ہوتی ہیں، ان پر کرپشن کے مقدمات بھی ہوتے ہیں، انہوں نے دہری
شہریت بھی رکھی ہوتی ہے، انہوں نے رشوت دے کر جعلی ڈگریاں بھی حاصل کی ہوتی
ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کام اگر فوج کے کسی سپاہی
پر ثابت ہو جائے تو اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے اس پاکستان میں
کیا جنگل کا قانون نافذ ہے کہ ان سارے جرائم میں ملوث یہ سیاستدان الیکشن
کمیشن سے خود کو صادق اور امین ثابت کر کے، عدالتوں سے جعلی ڈگری اور دہری
شہریت ثابت ہونے کے باوجود با عزت بری ہو کے، اپنی اوپر کرپشن اور دھاندلی
کے الزامات سے دھل کر، پاکستان میں وزیر اور مشیر اور صدر کے عہدے پر فائز
ہو جاتے ہیں--- جی ہاں، صدر، جو کہ پاکستان کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر
ہوتا ہے، انہی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر، جن میں اس صدر جیسے کردار کے
حامل شخص کو سپاہی بھی بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
اور پھر یہی "صادق اور امین" سیاستدان، اور بریف کیس پر بِکنے والے جج، اور
دو دو ٹکے کے "ابنِ وارث میر" صحافی، اور خود ساختہ تجزیہ کار، اور بھارت
نواز وزیراعظم یہ سب کے سب مل کر ایک فوجی جرنیل پر "غداری" کا مقدمہ چلاتے
ہیں۔ جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے جہاز کو ہائی جیک ہوتے دیکھ کر ایک اٹھائیس
فیصد ووٹوں میں سے بیس فیصد ووٹ حاصل کرکے بننے والی حکومت کا تختہ الٹ دیا
تھا۔ یا پھر لال مسجد سے بڑھتی دہشت گردی کا خاتمہ کیا تھا۔بے شک بچیوں کو
مارا گیا، طلباء کو مارا گیا، یہ ظلم ضرور ہوا۔ لیکن آج پھر دیکھ لیں، جن
مولانا صاحب کو چھوڑا گیا، وہ پھر حکومت کی رٹ کو للکا رہے ہیں۔ آخر کچھ تو
ہے ان کے پاس، کوئی تو ہے ان کی پشت پر جن کی شہہ لے کر وہ نعرے لگا رہے
ہیں۔کیا یہی ہمیں اسلام سکھاتا ہے۔
جو کچھ اوپر ذکر ہوا، ایسا صرف پاکستان میں ہی ہورہا ہے. یہ سب کفر نظام
جمہوریت اور دجالی میڈیا ہی کی بدولت ہے۔ ان سیاستدانوں میں وہ بھی شامل
ہیں جنھوں نے غریبوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کیاہوتا ہے۔ وہ بھی شامل ہیں
جنھوں نے عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتارا ہوتا ہے۔
وہ بھی ہیں جن کے بچوں نے خود کو خدائی فوجدارسمجھتے ہوئے اپنے باپ کی کرسی
کا ناجائز کیا، ہر فائدہ اٹھاتے ہوئے غریبوں کو مسل کے رکھ دیا ہوتا ہے۔
زین قتل کیس کی مثال سامنے ہے۔جو گواہ تھے وہ مکر گئے کہ ان کو ڈرایا گیا،
دھمکایا گیا۔ اور وہ ڈر بھی گئے اور دھمکی میں بھی آگئے کہ انہیں بھی اپنی
زندگی عزیز تھی۔یہاں تو وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے عدالت میں خود حامی بھری
کہ انھوں نے یہ جرم کیا ہے لیکن کوئی بھی کسی قسم کا ثبوت پیش نہیں کر
سکتا۔جب ایک ملزم خود حامی بھر رہا ہے تو کیا پھر بھی کسی ثبوت کی ضرورت رہ
جاتی ہے؟
کہتے ہیں کہ چین کے کسی وزیر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ واپسی پر جب وہ چین
گیا تو میڈیا کے نمائندوں کے ایک سوال کا کہ انھوں نے پاکستان کو کیسا پایا
، جواب دیا کہ جو صورتحال پاکستان کی ہے، جس طرح اسے باہر سے بھی اور اندر
سے بھی کھایا جا رہا ہے، اگر یہ صورت حال چین کی ہو جائے تو چین پانچ سے دس
سالوں کے اندر اندر دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائے۔ وہ حیران ہیں کہ پاکستان
کس طرح ۱۹۴۷ سے قائم و دائم ہے۔ اس کی اس بات کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ اس
پاکستان پر اﷲ پاک کی خاص الخاص رحمت ہے۔ پہلے دن سے جب سے ایک قادیانی اس
ملک کا وزیرِ خارجہ بنا، تب سے آج تک جب اس وطن پر حکمرانی کرنا اپنا مادر
پدر حق سمجھا جاتا ہے، یہ پیارا دیس اﷲ کے آسرے پر چل رہا ہے۔کیا کیا
سازشیں اس کے خلاف نہیں ہوئیں، کہاں کہاں اس کو مات نہیں دی گئی، چاہے وہ
شملہ معائدہ ہو، یا معائدہ تاشقند یا وہ میثاقِ جمہوریت ہو، ہر جگہ ان
سیاستدانوں نے اپنا ہی سوچا۔اﷲ کے دوستوں نے جنھیں قرآن میں ولی اﷲ کہہ کر
پکارا گیا ہے، بار بار اور کئی بار وقت کے حکمرانوں کو پیغامات پہنچائے کہ
فلاں کام نہ کیا جائے، فلاں بات نہ کی جائے۔لیکن افسوس، صد افسوس ہم نے ان
کی بات نہ مانی۔ قائدِ اعظم کے مخالف ترین محترم شبیر احمد عثمانی نے ان کی
نمازِ جنازہ پڑھائی۔ وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ رات کو خواب دیکھا کہ
رسولِ پاک ﷺ قائدِ اعظم کے کندھے پر ہاتھ مبارک رکھ کر کھڑے ہیں اور فرما
رہے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔
مولانا حسرت موہانی ۹۱۴۶ء کے انتخابات کے لیے ہندوستان بھر کا دورہ کر رہے
تھے۔ریل کے سفر میں ایک صاحب پیر محمد علی راشدی صاحب ملے اور کہا کہ اس
دورے سے کیا ملے گا۔کیونکہ کانگریس اور انگریز دونوں پاکستان کے مخالف ہیں۔
تو مولانا نے جواب دیا کہ پاکستان ان شاء اﷲ بن کر رہے گا کہ انہیں خواب
میں رسول پاک ﷺ کی زیارت ہوئی اور آپ ﷺ نے مولانا کو قیام پاکستان کی بشارت
دی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول پاک ﷺ جب خود ایک عظیم بزرگ کو
پاکستان کی بشارت دے رہے ہیں تو پھر پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت بھی ان
شاء اﷲ مٹا نہیں سکتی۔وہ وقت دور نہیں جب اس پیارے وطن پر ایسے حکمران آئیں
گے جو اسلام کا بول بالا کریں گے۔ یہاں سے ہی دجالی نظام کے خلاف سارا
منصوبہ بنے گا۔ دجال اور اسکا سارے نظام کو تہہ تیغ کیا جائے گا۔ ان شاء اﷲ
وہ وقت ہر گز دور نہیں جب ہم فخر سے کہہ سکیں گے ہم پاکستانی ہیں اور دنیا
کہے گی کہ حکم کریں، وہ تابعد ار ہیں۔ |