’’فیس بک کا شیطان اب کمپیوٹر سے
باہر نکل آیا ہے۔‘‘
’’ بوتل کا جن تو سنا تھا ، یہ فیس بک کا شیطان کب سے نکل آیا؟‘‘
’’ جب یہ فیس بک ہمارے پاس آیا تھا تو اس کا فیس کتنا میک اپ کرکے خوبصورت
دکھایا گیا تھا، جیسے نئی نویلی دلہن کو بیوٹی پارلر سے تیار کروایا گیا ہو۔‘‘
’’ آپ بھی تو ہر نئی چیز کے پیچھے ایسے بھاگتے ہیں جیسے پیاسا سراب کے
پیچھے۔‘‘
’’ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم بہت پیاسی ہے وہ سراب ہو یا شراب
کسی چیز میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔‘‘
’’ اگر اپنے بزرگوں سے تمیز سیکھی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔‘‘
’’اب تم ہمیں تمیز نہ سکھاؤ یہ بتاؤ کہ فیس بک نے کیا کردیا ہے؟‘‘
’’ کیا تو کچھ نہیں پوری دنیا میں ہمارا فیس خراب کرکے رکھ دیا ہے۔ ‘‘
’’ فیس تمہارا ٹھیک کب تھا؟ نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دینے سے کوئی
اسلامی اور جمہوری نہیں ہوجاتا۔ ‘‘
’’ تم لاکھ میری قوم کو برا کہو یا سمجھو لیکن میری قوم میں عورت کا احترام
یورپ یا دیگر ترقی یافتہ قوموں سے لاکھ گنا بہتر تھا۔یہاں آپ کو ایسی
اجتماعی زیادتیوں والی خبریں کبھی سننے کو نہیں ملتی تھیں۔‘‘
’’میرے بھولے تم اس وقت کی بات کررہے ہو جب لڑکے لڑکیوں کی دوستیوں کا رواج
نہیں تھا۔ آج پاکستان ’لبرل پاکستان‘ بن چکا ہے۔اب بنیاد پرستی کی باتیں
کرنا چھوڑ دو‘‘
’’ اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو، سنگ مرمر پر چلو گے تو پھسل جاؤ
گے۔بنیاد کے بغیر کوئی عمارت نہیں اٹھ سکتی‘‘
’’ تمہیں لڑکے لڑکیوں کی دوستیوں پر اعتراض کیا ہے؟‘‘
’’کوئی اعتراض نہیں اگر مجھے کسی کی بہن سے دوستی کرنی ہو تو لیکن مجھے سخت
اعتراض ہے کہ کوئی میری بہن کے ساتھ دوستی کرنے کی بات کرے۔‘‘
’’ یہی تو شدت پسندی ہے جس کی وجہ سے ہمارا فیس دنیا کے سامنے خراب ہورہاہے۔‘‘
’’ ہمیں روز حشر فیس دکھانا ہے ،فیس بک نہیں!‘‘
’’بات تو تمہاری ٹھیک ہے ……لبرل پاکستان میں فیس بک کا نشہ شیطان کی طرح
کچھ ایسے رگوں میں سرایت کرگیا ہے کہ اب ہم اﷲ کو کیا فیس دکھائیں گے سوچا
ہی نہیں۔چلو ایسا کرتے ہیں اس بات کو فیس بک پر اتنا شیئر کرتے ہیں کہ اب
کوئی حوا کی بیٹی اس شیطان کی ہوس کا شکار نہ ہو۔‘‘
’’بیمار ہوئے جس کے سبب اب دوا بھی اسی سے لینے کا پروگرام ہے۔‘‘
’’ میں تو فیس بک پر ہر اچھی بات کو آگے شیئر کردیتا ہے اب اس میں کیا
خرابی ہے؟‘‘
’’ تم ہر اس اچھی بات کا ذکر کررہے ہو جس کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ شیطان
آپ کو اسے شیئر کرنے سے روکے گا لیکن آپ نے اسے ضرور شیئر کرنا ہے۔‘‘
’’ بالکل ایسی چیزیں تو میں بالکل نہیں روکتا بلکہ سب دوستوں کو ٹیگ بھی
کردیتا ہوں۔‘‘
’’تم نے حدیث نہیں پڑھی کہ جو شخص بغیر کسی تحقیق و تصدیق کو کسی بات کو
آگے پھیلاتا ہے وہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔‘‘
’’ اب تحقیق و تصدیق کیسے کی جائے ، جب ہر چیز دو نمبر فوٹو شاپ سے تیار
ہورہی ہو، دو نمبر ویڈیوز بھی تیار ہوجاتی ہیں اور تو اور دو نمبر فتوے تو
دعوت دین کا کام کررہے ہیں۔‘‘
’’اگر تحقیق نہیں کرسکتے تو لائیک بھی نہ کیا کرو۔ اچھی بات کو فیس بک کے
لائیک کی نہیں بلکہ آپ کے دل کے لائیک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘
’’ میں تو اہل ارباب سے یہی کہوں گا کہ وہ اس فیس بک کے شیطان کو بوتل میں
بند کریں ورنہ یہ ہماری نسلوں کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا اور فیس کی جگہ
صرف ایک بک رہ جائے گی جس میں لکھا ہوگا کہ فیس بک استعمال کرنے کا انجام۔‘‘
’’میرے خیال میں تو ہمیں فیس بک کوچھوڑ کر اﷲ کی بک کو اپنانا چاہیے جسے ہم
نے غلافوں میں چھپا کر اپنی دسترس سے دور بہت ہی اوپر رکھ چھوڑا ہے،اسی میں
ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔‘‘
’’چلو میں سب سے پہلے تمہاری بات کو دل سے لائیک کرتا ہوں۔‘‘
’’ میں بھی……!!‘‘
٭……٭ |