کیا تمہارے ہاں بہبود کے کام جاری ہیں
(Munir Bin Bashir, Karachi)
اس روز بارش شدید تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ
آسمان پر جتنا پانی کا ذخیرہ ہے آج ہی برس کر دم لے گا۔ اور اس سے بھی
زیادہ شدید ہواؤں کے جھکڑ تھے۔ اونچے اونچے درخت ہوا کے زور سے جھکے جا رہے
تھے۔ ایک کوے کے بچے نے اڑنے کی سعی کی تاکہ کہیں پناہ لے سکے، لیکن تیز
ہوا نے اسے ایک پٹخی دی وہ شاخ سے ٹکراتا ہوا نیچے درخت کے تنے کے پاس آن
پڑا، اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ فی الحال کہیں نہ نکلے۔ سو دیوار کے
ساتھ آہستہ آہستہ چل کر ایک اونچے پتھر پر پناہ لی۔ قریب ہی معصوم سی
چیونٹی کا بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا نام نمل تھا۔ نمل کے پرکھوں اور آباؤ
اجداد نے ہزاروں برس قبل کنگ سولومن کے لشکر سے بچنے کے لیے چند احکامات
جاری کیے تھے، ننھی چیونٹی نمل نے کہا : ’’کوے کراؤ تمھیں پتا ہے کہ ہمارے
آبا ؤ اجداد کہا کرتے تھے کہ جب ایسی بارش ہو تو کسی نیک ہستی کی آمد ہوتی
ہے"۔ کوے کراؤ نے کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اس وقت تو اس کی جان پر بنی ہوئی
تھی۔
نمل اور کراؤ کے قریب ہی ایک گھر میں حاتم طائی جدید بیٹھے بارش کے تھمنے
کا انتظار کر رہے تھے۔ بجلی تو بارش کی پہلی ہی بوند کے ساتھ دارالغائب کو
روانہ ہو چکی تھی۔ حاتم طائی جدید جنریٹر کا پیٹرول خدمت خلق کے جذبے کے
تحت پڑوسی کی موٹر سائیکل میں ڈال چکا تھا تاکہ وہ اپنی بیمار ماں کو
اسپتال لے جا سکے سو گھر میں تاریکی تھی۔ حاتم طائی جدید کی اچانک سامنے
نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک ہیولہ سا سڑک پر کھلے مین ہولوں سے بچتا بچاتا
ہاتھ میں عصا تھامے تن تنہا چلا آتا ہے۔ لباس پوشاک کی وضع قطع سے موجودہ
زمانے کا فرد نہیں لگتا تھا۔ پیروں میں بوسیدہ سی پہاڑی چپل پہن رکھی تھی۔
سڑک پر چند بچے ایک دوسرے کی ٹی شرٹ پکڑے بھاگے جا رہے تھے وہ بارش سے لطف
اندوز ہو رہے تھے، اچانک ایک بچے نے آواز دی : حاتم ………حاتم ………بچنا، ہیولہ
جو عصا تھامے دھیرے دھیرے چلا جا رہا تھا۔ ایک دم چونک کر کھڑا ہو گیا، "ارے
بچو ! تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوا"۔ بچے بھی کھڑے ہو گئے، نہیں نہیں ہم
تو اپنے دوست کو بلا رہے تھے۔ اس کا نام بھی حاتم ہے۔ آپ کو بلانا ہوتا تو
ہم انکل یا چچا کہتے۔ ہمیں بڑوں نے یہی سکھایا ہے۔ ‘‘ بچے پھر پانی میں ایک
دوسرے کے پیچھے بھاگنے لگ گئے۔ اب حاتم طائی جدید نے کہا : ’’ارے میاں تم
حاتم طائی تو نہیں ہو جس کا تذکرہ کتابوں میں پڑھ پڑھ کر اچھے کام کرنے
پڑتے ہیں۔‘‘ ہاں ہاں میں وہی ہوں، لیکن اب کے میں تائیوان سے ہو کر آیا ہوں
اس لیے لوگ حاتم طائی وائی کہتے ہیں لیکن اے بزرگ تم مجھے طائی قدیم کہہ
سکتے ہو۔ میں دیکھنے آیا ہوں کہ میرے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بہبود کے
کام ہو رہے ہیں یا نہیں۔ لوگوں کی مدد ہو رہی ہے۔ یا وہ اس سے محروم ہیں
………سنا ہے سات سمندر پار ایک ملک کینیڈا ہے وہاں کے حکمران اس کام میں بہت
آگے ہیں اور ان کا ملک، بہبود والا ملک کہلاتا ہے۔ حاتم طائی جدید نے اثبات
میں سر ہلایا اور کہا تھکان آپ کے چہرے سے عیاں ہے۔ ممکن ہو تو ایک پیالی
قہوہ اخضر نوش جان فرما ئیں۔ اغلب ہے طبیعت میں جو ماندگی ہے دور ہو جائے
گی۔ ‘‘ قہوہ کی چسکی لیتے ہوئے حاتم طائی جدید نے کہا : میاں جی آپ کے
زمانے میں ایک انگوٹھی ہوا کرتی تھی، ایک شیشے کا مرتبان ہوا کرتا تھا جس
پر کچھ الفاظ پڑھ کر ہاتھ پھیر کر جب چاہے جہاں کا نظارہ دیکھ لیا کرتے تھے۔
وہ کہاں گئے۔ اسی میں دیکھ لیتے۔ آنے کی ناحق تکلیف کی کیا وہ خراب ہو گئے
اور ان کی وارنٹی گارنٹی ختم ہو گئی ہے اور کچھ نہیں تو ہم نے بھی تمھارے
شیشے کی مرتبان کی نقل میں یوٹیوب، گوگل، وکی پیڈیا وغیرہ کمپیوٹر نامی
مشین پر بنائے ہیں۔ وہاں شیشے کی سطح پر سب پتا چل جاتا ہے۔ اے حاتم طائی
قدیم صد افسوس تم نے وقت برباد کیا۔ مجھے ناشاد کیا۔ وہ محاورہ پرانا ہوا
کہ طاقت ور مچھلی کمزور مچھلی کو کھا لیتی ہے اب زمانہ یہ ہے کہ تیز رفتار
مچھلی کم رفتار، مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ چنانچہ اقوام پر لازم ہے کہ ان
چیزوں پر عبور حاصل کر کے دنیا میں آگے بڑھیں یہ پند و نصائح سن کر حاتم
طائی قدیم کو شرمندگی لاحق ہوئی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا : اے مرد دانا۔۔۔۔۔
تمھاری باتیں دل کو لگتی ہیں لیکن اسی دل نے کہا کہ عملی طور پر چل کر دیکھ
لو تب حاتم طائی جدید نے کہا کہ اس ملک پاکستان میں بہبود کے کام جاری ہیں۔
انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ لیکن خد اکی مخلوق کی تعداد اس
ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور ملک کے حالات بھی ایسے ہو رہے ہیں کہ بہبود کے
کام جتنے بھی ہوں کم ہیں۔ان نامساعد حالات میں بھی سوشل سکیورٹی کا نظام
پنپ رہا ہے۔ کراچی میں سیلانی تنظیم ہر ماہ تین کروڑ روپے کا کھانا غریب
نادار، پردیسی لوگوں کو کھلاتی ہے یہ کھانا بکرے کے گوشت سے بنایا جاتا ہے۔
جو یہ تنظیم صدقے کے طور پر حاصل کرتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ باوقار
انداز میں عزت نفسی مجروح کیے بغیر یہ کھانا دیا جاتا ہے۔ ایک المصطفیٰ
ویلفیئر ٹرسٹ ہے جو یتیم بچوں کی پرورش نادار افراد کو گھر کا خرچ چلانے کے
لیے ماہوار پیسے دیتا ہے المصطفیٰ ویلفیئر تنظیم کے سربراہ حاجی محمد حنیف
طیب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی خدمات پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ تنظیم علم و
عمل کے سربراہ سیف منظور ہیں جنھوں نے پچھلے برس ساٹھ لاکھ روپے کی خطیر
رقم مختلف افراد، بچوں اور سکولوں کو دی -
ابھی پچھلے ہی ہفتے تنظیم علم و عمل کا سالانہ اجلاس گلستان جوہر میں ہوا -
جن اسکولوں میں انہوں نے جدید خطوط پر “ای لرننگ“ کا نظام متعارف کروایا ہے
اس کا جائزہ لیا گیا - بتایا گیا کہ ایک وقت انکی جانب سے غریب مستحق طلبا
اور طالبات ، کم آمدنی والے خاندانوں اور بیواؤں کو مدد کی جانے والی رقم
ایک کروڑ سالانہ سے زاید ہوگئی تھی - مخیئر افراد سے درخواست کی گئی کہ اس
کام میں اپنا دست تعاون بڑھائیں - ان کی مدد سے کئی بچے اسکالر شپ کے نام
پر مدد لیکر بغیر کسی دقت کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ورنہ والدین تو ہمت ہار
ہی بیٹھے تھے - علم و عمل کی اپنی ویب سائٹ بھی ہے۔ www.ilmoamal.orgپھر
عبد الستار ایدھی ہیں جن کا ڈنکا عالم میں ہے۔ ان کے احسانات اس ملک
پاکستان پر کیا ہیں بتاتے بتاتے یہ دن بیت جائے گا۔ لیکن بہبود کے کاموں کا
تذکرہ ختم نہ ہو گا۔ لاہور میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت نے گزشتہ
برسوں مختلف خاندانوں کو کاروبار کرنے کے لیے قرضے دیے۔ حاتم طائی جدید
بتاتے جا رہے تھے اور حاتم طائی قدیم حیرت سے سنے جا رہے تھے۔ چیونٹی نمل
نے کوے کراؤ سے کہا تم اڑ نہیں سکتے اور منہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی، تم
زخمی ہو میں اوپر جا کر تمھاری امی سے کہتی ہوں کہ تم یہاں گر گئے ہو۔ وہ آ
کر تمھیں اٹھا لیں۔
یہ سب دیکھ کر ، یہ سب سن کر حاتم طائی قدیم کے منہ سے نکلا “ ملک کے حالات
اپنی جگہ ، مگر اس کے باوجود تمہارے ہاں ایک دوسرے کی خیر خواہی اور بھلائی
کے کام چل رہے ہیں ، ان میں کوئی رخنہ نہیں آیا ہیں انہیں برقرار رکھو “
حاتم طائی قدیم اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے ہوئے اٹھے اور اپنا عصا
تھامے آگے چلے گئے - موڑ کے پاس جاکر نہ جانے کہاں غائب ہو گئے اور میں
سوچوں میں ہوں کہ کیا طریقے اختیار کئے جائیں کہ یہ رفاہ عامہ کے کام ،
بہبود کے افعال ، باہمی امداد کے شغل جاری رہیں
|
|