جوہری عدم پھیلاؤ اور اسرائیل

”امریکہ کی جوہری کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنے والا صہیونی ملک اسرائیل کے پاس100سے لیکر300جوہری ہتھیار ہیں، اسرائیل کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس کے پاس جدید ترین جوہری ہتھیار ہیں جس کی بنیاد پر وہ اپنا مقابلہ برطانیہ سے کر سکتا ہے“ اس بات کا انکشاف انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ اسرائیل یہودیوں کا غاصبانہ طور پر آباد کردہ ملک ہے، جس کے قیام کا مقصد عالم عرب میں یہودیت کی دھاک بٹھانا اور فلسطین پر مکمل قبضہ کر کے وہاں کسی بھی مسلمان کو نہ رہنے دینا ہے۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین”یہودیوں“ کا ہے یہاں صرف یہودیوں کو ہی رہائش کا حق حاصل ہے، کوئی دوسرے مذہب والا خاص کر مسلمان کے وہاں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی صورت برداشت کیا جا سکتا ہے، فلسطین میں موجود قبلہ اول”بیت المقدس“ بھی یہود کی ہی ملکیت اور ان کا مذہبی ورثہ ہے، جسے مسلمانوں نے اپنے اول دور میں ناجائز قبضہ کر کے ہم سے چھین لیا تھا، اور اب ہم اپنے اس”حق“ کو لے کر رہیں گے اور یہاں اپنا اصل مذہبی مقام تعمیر کریں گے اسی لئے اسرائیل نے بیت المقدس کو(معاذ اﷲ) ختم کر کے اس کی جگہ مجوزہ”ہیکل سلیمانی“ کا نہ صرف نقشہ و ماڈل تیار کر رکھا ہے بلکہ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اب تک مختلف منصوبے بنا کر بہت سوں پر عمل کا آغاز کر چکا ہے۔

اسرائیل کی تمام تر بدمعاشی اور چیرہ دستی یورپ، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ ممالک کی پشت پناہی کی بدولت ہے، اسرائیل کے قیام میں بھی انہی قوتوں کا عمل دخل اور مکمل سپورٹ شامل ہے۔ درحقیقت ”یہودی“ مسلمانوں کے ہاتھوں لگے زخموں کا بدلہ لینے کیلئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، نبی کریمﷺ کے دور مبارک میں یہود کو دعوت اسلام پہنچی، انہوں نے حق کو پہچانا، یہود کے علماء اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ وہ نبی آخرالزمان جن کا مدینہ ہجرت کر کے آنا مقرر ہے اور ان کی بعثت، دو وجہوں سے گزشتہ تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت و رسالت سے ممتاز ہوگی ایک وجہ امتیاز تو یہ کہ اس نبی کی بعثت کسی مخصوص قبیلے، قوم یا مخصو ص علاقے تک محدود نہ ہو گی بلکہ اس کی نبوت کا دائرہ تمام افراد انسانی بلکہ جنات کو بھی شامل ہوگا، دنیا میں بسنے والا ہر فرد ان کی نبوت و رسالت کے تحت ہو گا، ان کی بعثت کے بعد دیگر تمام ادیان و مذاہب ناقابل عمل اور منسوخ ہوں گے، اب نجات کا دارومدار کوئی اور شریعت نہیں بلکہ شریعت مصطفوی علی صاحبہا الصلوة و التسلیم ہوگی، دوسری وجہ امتیاز ان کی نبوت و رسالت قیامت تک ہو گی، وہ نبی آخر الزمانﷺ خاتم النبیین کے منصب مجدو افتخار کے حامل ہوں گے، ان کی لائی ہوئی کتاب ”قرآن مجید“ حق اور سچ کتاب ہے، ان تمام حقائق کا یہود کے اہل علم طبقے کو یقین تھا مگر برا ہو تعصب اور حسد کا، باوجود حق واضح ہونے کے نہ صرف یہ کہ وہ خود ایمان کی دولت سے محروم رہے بلکہ اپنی قوم کو بھی اسی تعصب میں مبتلا کر کے اس دولت سے محروم کئے رکھا۔ ان کا تعصب و حسد اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ نبی کریمﷺ پر ایمان لانے کے بجائے آپﷺ سے دشمنی پر اتر آئے، آپﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے مسلمانوں کو مختلف حربوں سے زک پہچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو”مذاکرات“ کے بہانے اپنے ہاں دعوت دی ، چند صحابہ کرامؓ بھی اس موقع پر آپﷺ کے ساتھ ہو لئے، وہاں پہنچ کر انہوں نے نبی کریمﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کو ایک دیوار کے سائے میں بٹھا دیا، ابھی بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک نبی کریمﷺ وہاںسے اٹھ کھڑے ہوئے اور وہاں سے یوں چل دیئے جیسے اچانک پیش آمدہ کام سے کوئی آدمی اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اسی لئے حضرات صحابہ وہیں تشریف فرما رہے کہ شاید ابھی واپس آجائیں گے لیکن جب کافی وقت گزر گیا تب حضرات صحابہ بھی وہاں سے اٹھ آئے اور حضورﷺ نے انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کیا کہ ان یہود کا منصوبہ ہمارے قتل کا تھا کہ دیوار کو پیچھے سے گرا دیا جائے گا اور یوں آپ کے قتل کے الزام سے بھی بچ جائیں گے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریمﷺ کو اس کی خبر دیدی، اسی لئے آپﷺ وہاں سے اٹھ آئے تھے، غرض یہود کے تعصب و حسد نے انہیں انسانیت سے گری ہوئی اس حالت تک پہنچا دیا تھا اسی لئے نبی کریمﷺ نے ان کے خلاف جہاد کیا، پھر کہیں تو انہیں جلاوطن کر دیا اور کہیں مردوں کو قتل اور عورتوں و بچوں کو غلام بنانے کا فیصلہ ہوا اور آخر میں دم رخصت نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو یہ حکم دیا”اخرجوا الیہود والنصاری من جزیرة العرب،یہود و نصاریٰ کو جزیرة العرب سے نکال دو“ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں اسی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے جزیرةالعرب سے یہود ونصاریٰ کو نکال دیا، کیونکہ”مرکز اسلام“ میں ان جیسی غضب کی ماری قوم کے رہنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

یہ سارا پس منظر اس لئے عرض کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ آج اسرائیل ہو یا اس کے پشت پناہی عیسائی وغیرہ یہ مسلمانوں کو فلسطین سے کیوں نکالنا چاہتے ہیں، اس معاملے میں بات فقط اتنی نہیں کہ ”مغرب کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے“ اس لئے وہ ان یہودیوں کے اشارہ ابرو پر سب کچھ کئے جارہے ہیں بلکہ ”اسلام دشمنی دونوں کا نقطہ اشتراک ہے اور جزیرة العرب سے جلاوطنی کا فرمان نبویﷺ دونوں قوموں کے متعلق تھا جن میں سے ایک قوم خدائی غضب وپھٹکار کا شکار رہی اور دوسری ضلالت و گمراہی کا۔ البتہ ان کے آپسی تعلقات میں کمی بیشی کی بنا پر ایک قوم زیادہ طاقت میں ہو دوسری کم اور اسی لئے پہلی قوم، دوسری قوم کو ایک حد تک اپنا زیر اثر ر کھتی ہو اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغرب کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ اسی لئے اسرائیل جس نے یورپی و امریکی پشت پناہی اور آشیر باد سے ہی اپنا وجود قائم کیا اور اس کی بدولت آج برقرار ہے مگر بہت سے معاملات میں ان ممالک کی مخالفت سے کوئی اثر نہیں لیتا، آپ جوہری پھیلاؤ کا معاملہ دیکھ لیجئے امریکہ و برطانیہ ہو یا اقوام متحدہ، اگر کوئی اسلامی ملک اس سلسلے میں پیش قدمی کرے تو کس طرح یہ ”کفریہ ممالک“ ڈرانے دھماکنے کیلئے اس کا گھیراؤ کر لیتے ہیں، معاشی بائیکاٹ کی دھمکیاں اور نہ معلوم کیا کیا شیطانی حربے، لیکن دوہرا معیار ملاحظہ کریں کہ اپنے بغل بچہ اسرائیل کی تمام جوہری سرگرمیوں سے جو ایک عرصے سے جاری ہیں اور آئے روز ان میں اضافہ ہو رہا ہے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا حتیٰ کہ جوہری معاملات کے حوالے سے ہونیوالی کانفرنسز جو برائے نام ہی ہوتی ہے ان میں برائے نام کی شرکت بھی گوارا نہیں کرتا، البتہ بہت سے مسلم حکمران ان برائے نام کانفرنسز میں شرکت کو اپنی کامیابی کا بڑا سہرا تصور کرتے ہیں حالانکہ اگر اسرائیل اور خود یورپی ممالک اور نام نہاد عالمی طاقتوں کوا پنے دفاع کیلئے ہر قوت مہیا کرنے کا اختیار ہے تو پھر اسلامی ممالک کو کیوں نہیں؟ اگر انہیں جوہری پروگرام شروع کرنے اور بتدریج اضافے کا اختیار ہے تو پھر اسلامی ممالک کو کیوں نہیں؟ کچھ عرصے سے یہ ڈھنڈورا بھی پیٹا جارہا ہے کہ القاعدہ اور اسلامی جہادی تنظیمیں کیمیائی وجوہری ہتھیاروں کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہیں، کبھی کہا جاتا ہے وہ ان کے حصول کے قریب ہیں، سوال یہ ہے کہ ان نام نہاد عالمی طاقتوں کو ان ہتھیاروں کے حصول کی اجازت ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی تو اسلامی جہادی تنظیموں یا کسی بھی اسلامی ملک کو اس کی اجازت کیوں نہیں؟ آخر اس تفریق کی کوئی بھی معقول وجہ ہے؟ یا یہ کفریہ برادریاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے طریقے پر عمل پیرا ہیں۔

آخر میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کی یہ”مادیاتی برتری“ اپنی جگہ! اور یہ برتری آج کی نہیں آپ سیرت نبویﷺ کا معالطہ کریں، اسلام کے صدر اول کی تاریخ اٹھائیں اس وقت بھی یہ قومیں” مادیاتی برتری“ کی حامل تھیں، اس وقت بھی معاشی کنٹرول انہیں کے پاس تھا اور اسلحہ کے انباروں کے انبار ان کے پاس تھے لہٰذا آج ان کی یہ”مادی برتری“ دیکھ کرمرعوب ہونے یا خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ اس دور میں ان کی اس برتری کو کیسے ختم کیا گیا، تاریخ میں موجود غزوہ خیبر، غزوہ بنو قریظہ کا مطالعہ کریں اور پھر فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے!
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343943 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.