”امریکہ کے 2147 فوجی پاگل ہو
گئے ہیں جن کا امریکی ہسپتالوں میں علاج کیا جارہا ہے، ان فوجیوں میں2000
سے زائد فوجی عراق اور افغانستان میں ڈیوٹی کے دوران دماغی امراض میں مبتلا
ہوئے ہیں جبکہ باقی پاگل فوجیوں میں وہ فوجی شامل ہیں جن کو عراق یا
افغانستان میں تعیناتی کا علم ہوا تو وہ خوف کے مارے دماغی امراض میں مبتلا
ہو گئے“
یہ الفاظ ایک امریکی کرنل کرسٹو فرنل بریک کے ہیں جو امریکی فوج میں
نفسیاتی رجحانات و امراض کے حوالے سے کام کرنے والی ٹاسک فورس کے عہدیدار
ہیں۔ یہ اعدادوشمار وہ ہیں جن کا خود سرکاری سطح پر بھی اعتراف کیا گیا،
امریکی فوجی عراق یا افغانستان جانے کا سنتے ہی پاگل ہو جاتے ہیں یا کچھ
عرصہ وہاں گزار کر اس اذیت سے دوچار ہو جاتے ہیں اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے
امریکہ کی عراق و افغانستان پر مسلط کردہ جنگ ہر پہلو سے ناجائز اور غلط
اقدام ہے، اس جنگ کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ بے قصور اور بے
گناہ لوگوں کو جس بے دردی اور بے دریغی سے اس جنگ میں قتل کیا گیا بلکہ قتل
عام کیا گیا اب اس کے ردعمل میں یہ نفسیاتی امراض بھی ابھرنا شروع ہو گئے
ہیں اور مختلف عوارض امریکی فوجیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، نفیساتی
رجحانات کے حوالے سے کام کرنے والی ٹاسک فورس کے یہی عہدیدار کرنل کرسٹو
فرنل بریک نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امریکی فوجیوں میں احساس مایوسی اس
قدر بڑھ چکا ہے کہ اب وہ”خود کشی“ کر کے اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی ناکام
کوشش کرنے لگے ہیں اور خودکشیوں کا یہ رجحان بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا
ہے۔2009 میں160فوجی خود کشی کر چکے ہیں یاد رہے ان خود کشی کرنے والے
فوجیوں کی اکثریت وہ بھی تھی جن کی عراق یا افغانستان تعیناتی ہو چکی تھی،
معلوم یوں ہوتا ہے امریکی فوجی ان دونوں جنگوں کے بارے میں انتہائی مایوس
کن اور شکست خوردہ صورتحال سے دو چار ہیں اور ظلم و ستم کا یہ بازار اب ان
کیلئے بہت خوفناک خواب بن چکا ہے جس سے چھٹکارا پانے کیلئے خود کشی کر کے
خود ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں یا پھر نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر ہمیشہ
کیلئے دماغی توازن ہی کھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے وہ دانشور اور اصحاب علم و قلم
جو مادیت ہی کی ترقی و حصول کو معراج کامرانی واوج کامیابی گردانتے ہیں اس
بارے میں بھی کیا ارشاد فرمائیں گے کہ یہ فوجی پاگل کیوں ہو جاتے ہیں یا
کیا چیز انہیں اپنی جان لینے پر مجبور کرتی ہے؟ ان کے پاس وسائل و اسباب کی
کیا کمی ہے؟امریکہ اپنے فوجیوں کو کونسی سہولیات ہیں جو فراہم نہیں کر رہا؟
امریکی فوجیوں کی تربیت، قیام و طعام، لباس، آسائش و سہولیات اور جدید آلات
ان چیزوں پر امریکہ سب سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ ایک امریکی فوجی پر ہونے
والا یومیہ خرچہ اس قدر ہے جس کا ہمارے ہاں تصور بھی نہیں ہو سکتا تو پھر
امریکی فوجی کس چیز کی کمی سے ان امراض میں مبتلا ہو تے ہیں؟ غربت، بے
روزگاری، ظلم و نا انصافی، جہالت و مایوسی کے گرداب یہ وہ اسباب ہیں جو
پاگل پن یا خود کشی کے رجحان میں اضافہ کرتے ہیں مگر امریکی فوجیوں کا یہ
مسئلہ نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ ان کو تمام تر سہولیات و آسائش اور جدید
آلات و اسباب کی فراہمی کے باوجود اپنے مشن اور مقصد پر وہ اطمینان اور
یقین حاصل نہیں جو ایک مومن کو اپنے مقصد پر روحانی سکون اور پرقوت یقین کی
بدولت اطمینان کلی حاصل ہوتا ہے۔ کافر ظاہری اسباب و وسائل کے جس قدر ڈھیر
جمع کر سکتا ہو کر لے مگر سکون و اطمینان کہیں نصیب نہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ
یہ امریکی فوجی ہی کیا عام یورپی باشندوں میں بھی نفسیاتی امراض اور
خودکشیوں کا رجحان ہمار ے یہاں سے بہت بلند سطح پر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صلیبی جنگ کے یہ سپاہی اس قدر ہمت ہی کیا رکھتے ہیں کہ
”اہل ایمان“ جانبازوں کا مقابلہ کر سکیں اور محمد عربیﷺ کے غلاموں کے سامنے
ٹھہر سکیں۔ یہ بزدل اور خوف کے مارے سپاہی ان دیوانوں کا سامنا کہاں کر
سکتے ہیں جو موت سے خوف نہیں بلکہ موت کو پیار سے گلے لگانے کیلئے ہی میدان
میں اترتے ہیں۔ فتح و شکست اور کامیابی و ناکامی کا پیمانہ تو اسی دن واضح
ہو گیا تھا جب کہنے والے نے کہا تھا: ”او کافر! تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ
میرے ساتھ وہ فوج ہے جو موت کو اسی طرح عزیز سمجھتی ہے جس طرح تمہارے فوجی
شراب کو“
اور پھر حقیقت شناس لوگوں نے کہہ دیا تھا ایسی قوموں کے سامنے پہاڑ بھی
رکاوٹ بن کر آئیں گے تو یہ انہیں بھی پاؤں کی ٹھوکر سے ہٹا دیں گے۔ تاریخ
خود کو دھراتی ہے، مسلم امت کا وہ تابناک ماضی اگر کسی کو یاد ہے اور وہ
اسے قابل فخر سمجھتا ہے جب اسلامی لشکر ہر کفریہ و طاغوتی سلطنت کو زیر قدم
شکست دے کر ہر جگہ اسلامی جھنڈا لہرارہے تھے اور اسلامی لشکر جس طرف کا بھی
رخ کرتے بڑے بڑے جہاد سورماؤں کے دل بھی کانپ اٹھتے تھے، روم و فارس اور
ایران کے وہ سپہ سالار جو رستم زماں سمجھے جاتے تھے جب کسی اسلامی لشکر کے
مقابلے پر بھیجنے کا فیصلہ ہوتا تو تاریخ کے وہ لمحات محفوظ ہیں جب یہ
فیصلہ سن کر ہی ان کا پتہ پانی ہو جائے تاریخ کا یہی موڑ تھا جہاں سے
اسلامی قوت ابھر ابھر کر سامنے آئی اور کفریہ طاقتیں نابود ہونا شروع ہوئیں۔
آج تاریخ کا وہی موڑ آچکا ہے اب”ہمت ہی نہیں طوفانوں میں جذبوں کو ہمارے
چھین سکے“ کے مصداق اہل ایمان کا لشکر پوری قوت ایمانی اور ذوق یقین کی
سرشاری سے آگے بڑھ رہا ہے اور کفر کی بزدلی و خوف زدگی ہر سطح پر نمایاں ہو
رہی ہے۔ قافلہ سالاروں کو کوئی راہ سجھائی دے رہی نہ سپاہ بزدلاں کو جائے
اماں مل رہی ہے۔ جو اہل ایمان کے مقابلے پر ہیں وہ ان کے ہاتھوں اپنے انجام
کو پہنچ رہے ہیں اور پیچھے بطور کمک کے پروان پا کے لشکر اس قدر حوصلہ مند
ہیں جو افغانستان یا عراق تعیناتی کا سن کر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
یا عقل سے ہی رخصت لے لیتے ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ دجالی چوزوں کے پھیلائے
طاغوتی وساوس اور ان کی قوت و طاقت کے ڈھول کا پول کھل جانے کے بعد امت
مسلمہ کو ان کے سحر کو توڑنا چاہئے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا
چاہئیں اور اپنی آزادی و خود مختاری کو حقیقت کے سانچے میں ڈھالنا چاہئے
وگرنہ یہ سپاہ بزدلاں کو ڈوبے گی ساتھ میں ان کے سحر بند ہے لوگ بھی ہاتھ
چاٹتے رہ جائیں گے۔ |