عوامی سوچ میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے

 ووٹ دینا دینی ،اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ووٹ دینے کے کچھ مقاصد ہونے چاہئے۔دینی، سماجی،اخلاقی لحاظ سے ہمیں ووٹ ڈالنے کے لئے اصول طے کرنا چاہئے ،ہم جس نمائندے کو اپنا قیمتی ووٹ ڈال کر منتخب کرنا چاہتے ہیں اسکی خوبیوں ،خامیوں اور قابلیت سے اچھی طرح واقف ہوں نیز یہ کہ اُس نمائندے تک ہماری رسائی آسان ہو کیونکہ آپ اُس نمائندے کو با حیثیت ایک امانت،گواہ اور وکیل کی حیثیت سے ووٹ دے رہے ہوتے ہیں ہم یا آپ اُس نمائندے کو معاشرے اور عوام کی بھلائی کے لئے اپنی امانت اُس کو سونپ رہے ہوتے ہیں مزید یہ کہ ہم اﷲ کے نزدیک ایک گواہی دے رہے ہیں یا وکالت کر رہے ہیں کہ یہ شخص یا اس کی پارٹی عوام کی بھلائی اور معاشرے کے لئے کوشاں رہے گی یہ نمائندہ یا اس کی پارٹی میں وہ تمام صلا حیتیں موجود ہیں جو ملک اور قوم کو درست راستے پر گامزن کر سکتی ہیں۔ہمارے ایک رشتے دار جو کہ امریکہ میں کافی عرصے سے مقیم ہیں ان کاکہنا ہے کہ تمام یورپ کے عوام اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے نمائندے کو اسی طریقہ پرپرکھتی ہیں گو کہ انسے بھی غلطی ہوتی ہے لیکن اپنے تیئں وہ غلطی کے امکانات کو نہ ہونے کے برابر کر دیا کرتے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف اور عجیب و غریب ہے معذرت کیساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی سوجھ بوجھ مفلوج ہو چُکی ہے کیونکہ پاکستانی عوام اُن نمائندوں کو منتخب کرتی ہیں جو لسانیت،فرقہ واریت، گروہ بندی،اور کرپشن کو فروغ دیا کرتے ہیں ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے مذکورہ عوامل کافی ہیں اورجب اس قسم کے نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں اور ہر سو کرپشن ،رشوت ستانی،مہنگائی ،سورش اور دہشت گردی کی بلائیں عوام کا خون چوسنا شروع کرتی ہیں تو یہ ہی عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو بد دعائیں اور گالیاں دیتے ہیں جب دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں تو یہ عوام دوبارہ بھی وہی غلطی کرتی ہے اور اپنی غلطیوں پر رقص کرتی ہے مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام میں یہ شعور کیوں بیدار نہیں ہوتا کہ بیرونی آقاوں سے قرضے کی حصولی کو خوشخبری سے تعبیر کرنے والے دراصل اپنی حکومتوں کے لئے عیاشی کا بندوبست کر رہے ہوتے ہیں اور اب تک انھوں نے عوام کے ناتواں کندھوں پر186کھرب روپے کے قرض کا بوجھ ڈال دیا ہے ڈھائی سال قبل پاکستان کا ایک فرد 78000روپے قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا مرے ہوئے پر سو دُرے کے مصداق اس حکومت نے مز ید 25000روپے کا قرض لیکر ایک فرد کو 1لاکھ3 ہزارروپے کا مقروض کردیا ہے اور مزید قرضوں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ جبکہ ان لیے گئے قرضوں سے عوام کی سہولیات میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوسکا بلکہ ان کی مشکلات میں ضرور اضافہ ہی ہوا ہے ۔ایک بند ادارے کے سربراہ کوگاڑی ،بنگلہ ،نوکرچاکر کے علاوہ ماہانہ بارہ لاکھ روپے تنخواہ ادا کی جا رہی ہے جبکہ اُس ادارے کے ملازمین چار ماہ سے تنخواہوں کے منتظر ہیں۔یہ وہ نتائج ہیں جن کا فیصلہ عوام کرتے ہیں کیونکہ جن عوامی نمائندوں کو ہم منتخب کرتے اُن کا کام بحران اور مسائل سے گھرے عوام کو سُکھ اور چین کی سانسیں فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ اُن کی پہلی ترجیح اپنے لئے پُر کشش مراعات،کوٹے،ٹھیکے،ترقیاتی فنڈ کے حصول اور غیر ملکی دورے ہوتے ہیں اپنے ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے آقاوں سے قرض کے حصول کی فریاد کرتے ہیں اور تمام بوجھ عوام کے زخمی کاندھوں پر ٹیکسز کے نام پر ڈال دیتے ہیں ۔

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لئے ہم ایک ایسے آزاد امیدوار کو بھی جانتے ہیں جو اندرون سندھ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا عوام میں بے انتہا مقبول تھا کیونکہ عوام اس کو برسہا برس سے جانتے تھے لوگوں نے اُس سے سوال کیا کہ جیتنے کے بعد تمھارا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ اس نے جواب دیا کہ میں یہاں کے باسیوں کے لئے ہر وہ بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا جس کی انھیں ضرورت ہے لیکن اس سسٹم میں رہ کر سو فیصد ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔مگر میرا اصل مشن لسانیت،فرقہ واریت، عدم برداشت کا خاتمہ کرنا ہوگاجس کی میں بھر پور کوشش ضرور کرونگا کیونکہ یہ ہی وہ عوامل ہیں جو ہمارے ملک اور عوام کے لئے زہر قاتل ہیں قوی امکان تھا کہ وہ اپنے حلقے سے کامیاب ہو جاتا لیکن پہلے تو اُسے خریدنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں اُسے اغوا کر کے صفحہ ہستی سے مٹا نے کی کوشش کی گئی لیکن عوام کی مداخلت نے اس کی زندگی بخش دی پھر عوام نے اسکو ووٹ نہ دے کر اس کی زندگی کا سودا کر لیا۔

ہم اکثر و پیشتر بحث کے دوران یورپ اور دیگر ممالک کی مثال دیتے ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمارے نمائندوں میں وہ قابلیت نہیں ہے جو یورپ اور دیگر مما لک کے نمائندوں میں ہے ۔ 10فروری2011کو کینڈا کی چیف جسٹس بیورلے میک لیکلن نے اپنے حکمرانوں کو تنبیہ کی کہ انصاف کی رسائی صرف امیر وں تک محدود ہو گئی ہے کیونکہ متوسط اور غریب طبقوں کو انصاف کی صفوں سے نکال دیا گیا ہے ۔ کیا پاکستان کا انصاف بھی مصلحتوں کے ترازو میں ہچکولے نہیں کھا رہا ہے ؟یورپ میں بھی انتخابا ت ہوتے ہیں، یورپ میں بھی پولنگ اسٹیشن اسکولوں میں قائم کئے جاتے ہیں لیکن اسکولوں میں پڑھائی معمول کے مطابق جاری رہتی ہے ووٹر اس سوچ کے ساتھ خاموشی سے ووٹ کا حق رائے دہی استعمال کرتا ہے کہیں میری وجہ سے بچوں کے تدریسی عمل میں خلل نہ پڑے۔کیا ہمارے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے ؟نہیں بالکل نہیں ہم ایسا سو چ بھی نہیں سکتے اگر ہم اس خواہش کا کسی کے سامنے اظہار کر دیں تو وہ ہمیں دیوانہ قرار دے دے گا۔کیا کیاطوفانِ بد تمیزی نہیں ہو رہا ہوتا ہے الیکشن کے مواقع پرملک کے مستقبل کا معاملہ ہوتا ہے اور ہم گروہی ،لسانی،نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ملک کی بقا ء کا معاملہ ہوتا ہے اور ہم پکنک انجوائے کر رہے ہوتے ہیں فائرنگ کا تبادلہ،سر پھٹول،ڈھول کی تھاپ پررقص،بے ضمیری کا سرعام نظارہ ہو رہا ہوتا ہے۔امریکہ میں ہرشخص ووٹ کا استعمال اپنا حق سمجھتا ہے ایک امریکی خاتون نے ڈیلیوری کے لئے جانے سے قبل حق رائے دہی کا استعمال کرنا اپنا فرض سمجھا وہاں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنا حق رائے دہی کا استعمال کر کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔

بلدیاتی انتخاب یا ملکی نظام کے قیام کے لئے خیر پور میں 12اور فیصل آباد میں 1فرد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جب ایک حکومتی نمائندے سے اس سانحہ کے بارے میں بات کی گئی تو موصوف نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ" ا یسے مواقعوں پر دس بارہ کا مر جانا کوئی بات نہیں ہے"یہ ہی جملہ پھر ہم نے اپنے ایک سیا سی دوست کو کہتے ہوئے سُنا یہ نمائندے اتنے پتھر دل ہو گئے ہیں کہ ان کے نزدیک دس بارہ افراد کا مارے جانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اسی تناظر میں ہمیں فکر ہے اگلے دو مرحلوں کی جب بے حسی کا یہ عالم ہے تو اگلے دو مرحلوں کو اﷲ خیر و آفیت سے ہمکنار کرے آمین ، پاکستان میں ہمیشہ الیکشن کمیشن پہ دھبہ لگتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تحریک انصاف نے اپنی پچھلی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اہلیت پر شک کا اظہار کیا ہے اور دھاندلی میں شراکت داری کے شبے کا بھی اظہار کیا ہے جبکہ امریکہ میں اس قسم کے شور و غوغے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ وہاں الیکشن کمیشن اپناکام روزانہ کی بنیاد پر کر رہا ہوتا ہے۔ 32کرورڑ سے زائد کی آبادی والے ملک میں ہر سال کی 31دسمبر سے قبل ہر فرد کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے32کرورڑ کے موبائل فون پر یا ای میل پر میسجز کئے جاتے ہیں کہ اگر آپ کے ڈیٹا میں کوئی تبدیلی لانا ہو تو ہمیں مطلع کریں ۔ ہمارے الیکشن کمیشن کو جب ہوش آتا ہے جب الیکشن کا اعلان کیا جاتا ہے۔

عوام اور رائج کردہ سسٹم ہی کسی ملک کی درست سمت روانگی کا باعث بنتے ہیں اگر سمت کا تعین درست نہ ہو سکے تو پھر زوال مقدر بن جاتا ہے ۔ملک میں عدم برداشت،بے راہ روی،رشوت ستانی،اورجرائم وغیرہ جو ہمارے ملک میں رائج الوقت ہیں تغیراتی عمل کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ اگرچہ ہم اس تبدیلی کو مثبت سمت لے جانا چاہتے ہیں تو عوام کو اپنی سوچ اور حکمرانوں کو طرز حکمرانی کو تبدیل کرنا ہو گا ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب نے بجا طور پر درست کہا کہ"بد عنوانی کا کلچر لا قانونیت کی وجہ بنتا ہے،مہذب دُنیا کا کوئی بھی ملک عدلیہ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے جدید تصور کے بغیر نہیں چل سکتا"یہ ہی وہ درست سمت ہے جس پر چل کر ہم ملکی وسائل اور صلاحیتوں کا درست استعمال کر کے ملک کو فرش سے عرش تک لے جا سکتے ہیں۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 97519 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More