غریب عوام،کسان اور آئی ایم ایف

 ہماری معیشت قرض کے دم پر قائم ہے قانو ن وانصاف کی بالادستی ہمیں چھوکر نہیں گزری کرپشن و نااہلی ہمار ی ثقافت کا حصہ اور جھوٹ و بددیا نتی ہمار ے کردا ر کی بنیاد بن چکے ہیں میرٹ کی جگہ اقربا پرور ی نے لے رکھی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم خدا جانے کتنے ہی فرقوں ، برادریوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں وہ بھی اس طرح کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں بلکہ اس قتل و غارت کو جذبہ ایمانی سے تعبیر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔قیام پاکستان کے وقت کے وہ دن تو کب کے بدل چکے جب قائد اعظم ؒسرکار ی بلوں سے اپنی ذاتی جرابوں یا سگاروں کو منہا کرتے اور خزانہء عوام پر ایمانداری سے چوکیداری کرتے ان کے بعد آنے والے لیاقت علی خان بھی نہیں رہے کہ جب انہیں راولپنڈی میں قتل کیا گیا ان کا پوسٹمارٹم ہو ا تو ان کی شیر وانی کے نیچے کی بنیان پھٹی ہوئی نکلی تھی اسلامی تاریخ میں تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی گزرے ہیں کہ کس طرح سے مسلمانو ں کے بیت المال کی رکھوالی کیا کرتے تھے ان کی بات ہی کیا کرنی ہے اگر ہمارے حکمران جناح و لیاقت علی کے طور طریقے بھی اپنا لیئے جائیں تو پاکستان ایک دم سے روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوجا ئے ۔مگر یہ سب اس وقت ممکن ہو گا جب ہماری قوم موجودہ نام نہاد لیڈران کے سحر سے با ہر آجائے گی اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمیں ان مفاد پرستوں نے اب تو انٹرنیشنل غلام بنا دیا ہے اسکا اندازہ اب کی بار طے پائی جانی والی آئی ایم ایف کی قسط سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ آئی ایم ایف سے502 ملین ڈالر کی دسویں قسط کے حصول کے لیے پاکستان کا40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرانا انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ40 ارب روپے کا یہ نیا ٹیکہ بھی عوام کو ہی لگایاجائے گا جبکہ اس بدترین مہنگائی کے دور میں کسی صورت ہم اسکے متحمل نہیں ہوسکتے۔ خاص طورپر ان حالات میں جب کچھ عرصہ قبل ہی حکومت کی جانب سے یکدم40 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا تھا اگرچہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی عوام پر یہ کوئی پہلا وار نہیں ہے بلکہ ہر حکومت اس مالیاتی ادارے سے ظالمانہ شرائط پر لئے گئے قرضہ کے بعد ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام پر ہی ڈالتی آ رہی ہے جبکہ معیشت مزید خستہ حالی کا شکار ہوتی جا رہی ہے اس کے باوجو د حکومتی عہدیداران کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچنے کے دعوے بڑی شدو مد سے کئے جارہے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر ان سے کوئی پوچھے قرضوں کی ضرور ت ہی کیا ہے ہمارے کچھ لوگ تو یوروبانڈز فروخت کی پالیسی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا ر ہے ہیں کہ ایک طرف حکومت اپنی اچھی کار کردگی کے اعلانات کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف عوام پر مسلسل مہنگائی کا عذاب نازل کیا جارہا ہے اور ان کی خستہ حالی بار ے سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی جارہی اب آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کی شرائط ان غریب عوام پر ٹیکسوں کامزید بوجھ ڈالنا اعلانیہ ظلم اور زیادتی ہے جو پہلے ہی سینکڑوں قسم کے ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت نے حسب روایت ایک بار پھر عوام کو تنگ کر نے کی مشق دہرانے کی کوشش کی تو اس کے نتائج انتہائی سنگین مرتب ہوسکتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام کیلئے ٹیکسوں میں اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ ملکی معیشت کی تباہ حالی کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ذرائع ڈھونڈے اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے اورٹیکس میں بے جا چھوٹ کا سلسلہ بھی بند کیا جائے تاکہ حکومت کی آمد ن میں اضافہ ہو اور پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید بوجھ بھی نہ پڑے مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ تاہے کہ ہمارے ہاں طاقت ور طبقہ ٹیکس ادا نہیں کرتا اس لئے عوام پر ہی ہر ستم ڈھایا جاتا ہے دوسری طرف حکومت جب بھی ٹیکسوں میں اضافہ کی طرف جاتی ہے اتنا ہی ٹیکس دہندگان کی تعدا د میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے جیسا کہ شنیدہے کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد11 لاکھ تھی جواب کم ہوکر8 لاکھ رہ گئی ہے جسے حکومتی پالیسی پر ٹیکس دہندگان کا عدم اعتماد ہی کہا جاسکتا ہے کیو نکہ6 دہائیوں سے انہیں ایک مرتبہ بھی اپنے ٹیکس کا درست استعمال دیکھنے کو نہیں ملا ۔کسان پیکج پر نظر کریں تو عوام پاکستان اور بالخصوص کسان اس کو بخوبی سمجھ جائے گا کہ انہی کے خزانے کے ساتھ اربوں روپوں کی مدمیں اس کسان ریلیف پیکیج کے تحت کیا ہونے کو ہے اس میں پہلا وار تو یہ ہوا ہے کہ فی ایکڑپانچ ہزار کی ریلیف اناؤنس کرکے ہزار وں برس کے دینے والے ہاتھ کو لینے والا ہاتھ بنا دیا گیا ۔کہا جا رہا ہے کہ ملک کے غیرت مند کسان کو اس کی محنت سے ہٹا کر ایک بھکاری بنانے کی سازش ہورہی ہے وہ اس پانچ ہزار کے لالچ میں اب دن رات محکمہ مال اورپٹوارخانہ میں ذلیل ہوچکا ہے دوسری جانب اس اربوں کے پیکیج میں ایک کھاد جو قیمت میں سب سے اوپر ہے اس میں فقط 500 کی کمی کی گئی ہے باقی کسی میں200 اور کسی میں اس سے بھی کم جو کسان کے نصیب میں شاید ہو سکے باقی سارا پیکج ظالم افسر شاہی کے پیٹ کا جہنم ہی بھر سکے اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے آتے ہی امید کی جا رہی تھی کہ شاید کسان کی قسمت بھی بدل جائی گی پر اس ملک کا کسان مزیدبدحالی میں ڈوب چکا ہے اس کے زرعی لوازمات سب مہنگے ترین ہیں اور اس کی کسی بھی فصل کی کوئی قیمت نہیں لگ رہی حتی ٰکہ ایک گندم ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی اجناس چاول ، کپاس ، آلواور گنا وغیر ہ بھی ذلیل و خوار ہے اور کسان آڑھتی کے قرضوں تلے دب کر رہ گیا ہے اگر حکومت کسان کی بھلائی چاہتی ہے اور اس کی محنت سے ملک کو خوشحال کرنا چاہتی ہے تو اس کے کھاد بیج کا مناسب انتظام کرے مارکیٹ میں اس سے ڈیزل ٗ کھادٗ بیج ٗ سپرے اور بجلی کے بلوں میں چار نمبری بلکہ بیس نمبر ی کر نے والوں پر قانونی ہاتھ ڈالا جائے۔ اس کے ٹریکٹروں ٗ مشینری ٗ آلات ٗ کھاد اور سپرے وغیرہ سے فقط ناجائز ٹیکس ہی اٹھا دئے جائیں تواس کو ٹریکٹر سے لے کر سپرے تک کی اشیاء میں کئی گنارعایت مل سکتی ہے اس کو پیکج دینا ہے تو اس کے زرعی استعمال کی چیزوں سے فقط ٹیکس میں سبسڈی دے دو کسان اس سے ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے اور اب کی بار مارکیٹ میں گندم ٗ باسمتی ٗ سپر چاول ٗ گنا اور اسی طرح کپاس اور آلو وغیرہ کی سپورٹ پرائس مقرر ہوں اور وہ اٹھائی بھی جائیں اس کے لئے بھی شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے اور کسان کو بار دانے میں ذلیل نہ کیا جائے اور کارخانے دار اس کی بر وقت ادائیگی پر قانوناً مجبو ر بھی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وطن عزیز میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زرعی انقلاب آجائے گا ۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 19334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.