وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے
ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیاہے کہ ان کے دور میں ہی گلگت بلتستان
صوبہ بنے گا، یہ بات انہوں نے 24نومبر کو گلگت میں تقریب سے خطاب کے دوران
کہی اس موقع پر50ارب روپے کی لاگت سے جگلوٹ تا سکردو ایکسپریس وے کی تعمیر
کا سنگ بنیاد بھی رکھااور گلگت بلتستان کے نئے گورنر میر غضنفر علی خان نے
اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وزیر اعظم کا عزم اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے ضمن میں آئندہ چند ماہ میں اہم پیش
رفت متوقع ہے، کیونکہ حکومت پاکستان کی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی
میں قائم اصلاحاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس 12نومبر کو ہوچکاہے ،جبکہ دوسرا اور
اہم اجلاس 3دسمبر کو اسلام آبادمیں طلب کیاگیاہے۔اسی اجلاس کے ہوم ورک کے
طور پر 20نومبر کو گلگت میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی
صدارت میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی۔
حکومتی اعلامیہ کے مطابق کانفرنس میں 19سیاسی ومذہبی جماعتوں اور تنظیموں
نے شرکت کی جبکہ میڈیا کے مطابق یہ تعداد 13تھی امکان یہ تھاکہ آل پارٹیز
کانفرنس کے نتیجے میں کوئی حتمی اور متفقہ فارمولا سامنے آئے گا، لیکن
میڈیا رپورٹس کے مطابق کانفرنس میں شریک جماعتوں کے رہنماوں نے ٹھوس اور
تحریری مسودات پیش کرنے کی بجائے اپنے سیاسی نعروں کو ترجیح دی اورعالمی
حالات ،خطے کی تاریخ ،زمینی حقائق اورخطے کی ضرورت کے مطابق حل پیش کرنے کی
بجائے اپنی پرانی سیاسی اور مذہبی ضد پر آڑے رہے۔ کانفرنس کے اعلامیہ سے یہ
تاثر مل رہاہے کہ اکثریت نے صوبے کے حق میں تقاریر کیں اور بیشتر شرکاء نے
اپنی توجہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری یا مستقل صوبہ بنانے پر مرکوز
رکھی۔
کانفرنس میں خود مختاری کی بات کرنے والی قوم پرست تنظیموں کو مدعو نہیں
کیاگیاتھا اس لیے اس ایشو پر تقریباً گفتگو نہیں ہوئی تاہم خطے کی قانونی،
تاریخی حیثیت کے حوالے سے قوم پرست رہنماء اور رکن اسمبلی نواز خان ناجی نے
بھر پور نمائندگی کی۔ کانفرنس کے مجموعی نقطہ نظر کو مدنظررکھا جائے تو
ایسا محسوس ہوتاہے کہ بیشتر شرکاء نے آئینی صوبہ اور پارلیمنٹ میں نمائندگی
کے مطالبے پر اسرار کیاہے ،تاہم کشمیر سے تعلق والی جماعتیں بھی اپنے موقف
پر ڈٹی رہیں۔ خطے کی آئینی حیثیت کے تعین کیلئے ہونے والی پہلی آل پارٹیز
کانفرنس کے وہ نتائج سامنے نہیں آئے جن کی توقع کی جارہی تھی اس کی بنیادی
وجہ شاید یہ ہے کہ کانفرنس کیلے حکومت کوئی زیادہ ہوم ورک کیااور نہ ہی
شریک سیاسی، مذہبی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کے رہنماوں نے ٹھوس دلائل
اور تحریری طور پر مدلل مؤ قف پیش کرنے کی کوشش کی بلکہ صرف تقاریر پر ہی
انحصار کیا۔
اس لیے بیشتر مبصرین کا یہ کہناہے کہ چارگھنٹے تک جاری رہنے والی کانفرنس
صرف’’ نشستن گفتن برخاستن ‘‘ہی رہی ۔ بعض میڈیا کے دعووں کے مطابق کانفرنس
میں مطالبہ کیاگیاہے کہ خطے کو اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کا
پانچواں صوبہ بنایا جائے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ
صورتحال میں پاکستان کیلئے ایسا کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ایسا
کرنے کی صورت میں پاکستان کے کشمیرمؤقف ، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور
اقوام متحدہ میں تنازع کشمیر کے حوالے سے قراردادوں کو شدید دھچکا لگے گا
اور ان حالات میں پاکستان یہ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ،تاہم بعض
حکومتی حلقوں کا یہ دعوی ٰہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان
کی یہ مجبوری بھی ہے کہ خطے کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے، تاکہ سرمایہ
کاری میں حائل رکاوٹیں ختم کی جاسکیں ۔اس لیے کے 3دسمبر کے متوقع اجلاس
کوانتہائی اہمیت قرار دیا جا رہا ہے ۔حکومت پاکستان کے مطابق امکان یہی ہے
کہ گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے کی بجائے عبوری سیٹ آپ دے کر اسے
آئینی تحفظ فراہم کیاجائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 257اور بعض دیگر آرٹیکلز میں
ترمیم کی تجویز بھی زیر غور ہے تاہم آئین کے آرٹیکل 2 میں ترمیم کرکے مستقل
صوبہ بنانے کو حکومتی حلقے موجودہ حالات میں ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ وزیر
اعظم پاکستان کا حالیہ بیان بھی اسی تناظر میں اہمیت کا حامل ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق خطے کی آئینی حیثیت کے تعین کیلئے آیندہ ایک سے دو
ماہ انتہائی اہم ہیں ۔اس ضمن میں کسی بھی حتمی فیصلے سے قبل حکومت پاکستان
اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے
کی بجائے خطے کے عوام اورتمام حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد لیں،کیونکہ آل
پارٹیز کانفرنس میں صرف سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور بعض قوم پرست تنظیموں
کو مدعو کیاگیا اگر اس کے ساتھ تاریخی حیثیت کے حوالے سے کام کرنے والی
شخصیات بالخصوص دانشوروں ، صحافتی حلقوں کو بھی مدعو کیا جاتاتو زیادہ بہتر
ہوتا۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک خاص نقطہ نظر کے تحت اپنا موقف پیش کرتی
رہی ہیں جن میں سے بیشتر نکات تاریخی اور خطے کی قانونی پوزیشن کے حوالے سے
حقیقت سے کافی مختلف ہیں۔
گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے
پہلے وہاں کے دانشوروں اور مختلف اکائیوں کی نمائندگی کرنے والے طبقات کو
اعتماد میں لے ،بصورت دیگر خطہ شدید انتشار کا شکار ہونے کا خدشہ ہے اور
عالمی دشمنوں کی خواہش بھی یہی ہے، امید ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان
حافظ حفیظ الرحمان کو اس کا حقیقی ادراک ہوگا ۔
دوسری جانب گلگت بلتستان کے نئے گورنر میر غضنفر علی خان نے اپنے عہدے کا
حلف اٹھا لیاہے وہ 2009ء کے انتظامی حکم نامے کے بعد خطے کے چھٹے گورنر
ہیں۔ میر غضنفر علی خان وزیر اعظم نوازشریف کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں
،۔موصوف موصوف 2004ء کے بعد 4سال تک مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر پرویز مشرف کے
آشیر باد سے خطے کے چیف ایگزیکٹو بھی رہے ۔موصوف حالیہ دنوں وزیر اعلیٰ کے
امیدوار کے طور پر بھی سامنے آئے تاہم کامیابی نہیں ملی اگر ہم ان کے بطور
چیف ایگزیکٹو پانچ سالہ دور کا جائزہ لیں تو وہ کوئی قابل رشک اور قابل فخر
نہیں رہاہے ۔مبصرین کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف نے جہاں اپنی دوستی اور
میر صاحب کے سسرالی ر شتے کا خیال رکھا ،وہیں کچھ اندورونی اور بیرونی
شفارشوں کو بھی مد نظر رکھاہے۔
میر غضنفر علی خان کے گورنر بننے کے بعد ہنزہ سے گلگت بلتستان اسمبلی کی
نشست جی بی ایل اے 6خالی ہوگئی ہے، اس نشست پر دلچسپ مقابلے کا امکان ہے۔
غالب گمان یہی ہے کہ اسیر قوم پرست رہنماء اور عوامی ورکرز پارٹی کے بابا
جان کامیاب ہوں گے ،کیونکہ 2015ء کے انتخابات میں بھی انہوں نے ٹف ٹائم دیا
تھا اور بہت کم مارجن سے پیچھے رہ گئے تھے اب ان کی حمایت میں مزید اضافہ
ہوا ہے اور اس نشست پر دوبارہ کامیابی مسلم لیگ(ن) کی صوبائی قیادت اور
حکومت کیلئے بہت بڑا امتحان ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2010ء میں پیر کرم
علی شاہ کے گورنر بننے کے بعد ان کی خالی ہونے والی نشست پر بھی قوم پرست
رہنماء نوازخان ناجی کامیاب رہے اور اس بار بھی یہی امکان ہے کہ ایک اور
قوم پرست رہنماء ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچیں گے۔
باباجان اگرچہ کئی برسوں سے جیل میں ہیں لیکن دن بدن ان کی حمایت میں اضافہ
ہورہاہے دیکھنا یہ ہے کہ ہنزہ کے عوام گورنری ملنے کی خوشی میں یہ نشست ایک
مرتبہ پھر مسلم لیگ(ن) کو تحفے میں دیتے ہیں یا پیر کرم علی شاہ والی تاریخ
دہراتے ہیں۔
|