ہندوستان کی حکومت اور ہماری باتیں

نریندرا مودی کے بارے میں میں گذشتہ سال انٹرنیٹ پر پڑھا تھا کہ چاہے اسکے خیالات اب جو کچھ بھی ہوں لیکن یہ بہت بڑی بات ہے کہ موجودہ گجرات ریا ست میں ایک تیلی کا کاروبار کرنے والے کا بیٹا تھا اور بچپن میں اپنے پتا کا چائے بیچنے میں یا چائے کے سٹال میں ہاتھ بٹاتا تھا۔آج وہ اپنی محنت سے اس عہدہ تک پہنچا۔ بات درست۔ لیکن ہم کیا کریں، مسلمان جو ٹھہرے۔ اﷲ کے احکامات کو جانتے ہوئے بھی، مانتے ہوئے بھی عمل نہ کرنے کا جرم کرتے ہیں۔ اسکے رسولِ پاک ﷺ کی سنتوں کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہوئے بھی ان میں اپنے مطلب کی سنتیں اکٹھی کر بیٹھتے ہیں۔ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن جب ہم سے کچھ بھی نہیں بن پاتا، اور جب یہ محاورہ سامنے آتا ہے کہ انسان بنائے ، خدا ڈھائے تو پھر ہمیں سو فیصد تو کیا ہزاروں فیصد خدا کی مصلحتوں کا یقین آجاتا ہے۔

ایک قول جو آج کل حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے منسوب کیا جارہا ہے کہ جب انسان کو پیسہ اور اختیار مل جاتا ہے تو وہ نہیں بدلتا بلکہ اسکی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ تو ایسا کچھ بھی اس نریندرا مودی کے ساتھ بھی ہے۔ اگر تو وہ واقعی کسی تیلی کا بیٹا ہوتا، مشکلات سے گزرا ہوتا، چلیں گزرا ہو گا، لیکن اسکے ارد گرد کا ماحول اسکے دل و دماغ میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ آج جب وہ ہندوستان کا وزیرِ اعظم بن چکا ہے تو اس نے حلف اٹھانے سے پہلے کسی صحافی کے پاکستان کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا پاکستان کے بارے میں کیا کہنا، وہ تو ہندوستان کا دشمن نمبر ایک ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ کیا نریندرا مودی کو اختیار ملتے ہی وہ بدل گیا ہے یا اسکی اصلیت سامنے آگئی ہے۔ کوئی بتائے گا کیا؟

ابھی ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی کہ پاکستان سے مودی صاحب کو مبارک سلامت کے پیغامات بھی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اور پھر اسکے اس بیان پر جب یہاں کے کسی وزیر سے پوچھا گیا کہ یہ کیا بات ہوئی وہ ادھر پاکستان مخالف بیانات داغ رہا ہے اور یہاں سے اسے تہنیتی اور مبارکباد کے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔ تو وزیرِ موصوف نے جواب دیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں فرق نہیں پڑتا؟ تو جواب ملا کہ یہ تو انکے سیاسی بیانات ہیں کہ ساکھ بھی تو بنانی ہے۔ واہ جناب کیا کہنے۔ ابھی تو مودی صاحب نے حلف بھی نہیں لیا اور ابھی سے انکے یہ تیور ہیں تو بقول طلعت حسین کے جب وہ اختیار پوری طرح اپنے قبضہ میں کر لیں گے تو پھر کیا کچھ کریں گے۔ اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس نے ہندوستان کو واقعی ہندوؤں کا ملک بنا دیا ہے۔ بلکہ یہاں تک اسکے دور میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ ہندوستان میں صرف ہندو بس سکتے ہیں چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں، ان کے لیے ہندوستان کے دروازے ہر دم کھلے ہیں۔ دوسری طرف نریندرا موودی کے مسلمانوں سے متعلق کیا کچھ اعلانات ہیں، سب جانتے ہیں۔ اخبارات میں سب کی نظروں سے گزرا ہو گا۔ میں کیا لکھوں۔

ویسے بھی ہمارے موجودہ حکمرانوں کو ہندوستان سے یاریاں لگانے کا بہت ہی زیادہ شوق ہے۔ انکا یقیناً آدھے سے زیادہ کاروبار تو ہندوستان میں ہے، تب ہی یہاں کی زرعی اجناس پہلے برآمدہو کر ہندوستان جاتی ہے، پھر ُانکی قیمتوں پر پاکستان واپس درآمد کی جاتی ہے۔ یعنی آم کے آم گھٹلیوں کے دام بھی کھرے ہو جاتے ہیں۔ یہاں تھر میں لوگ قحط سے مر گئے وہاں سٹوروں میں گندم ہزاروں ٹنوں کے حساب سے خراب ہوئی، لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اﷲ نے بھی ایسا حساب کیا کہ جب وہ قحط زدہ علاقوں میں بانٹ نہ سکے تو بیچ کر دام بھی کھرے نہ کر سکے۔ لیکن ان سے کیا بعید اسی خراب گندم کو اصلی اور تندرست گندم میں ملا کر بیچ ڈالیں۔ بلکہ بیچنا کیا انھوں نے تو ہندوستان سے معائدہ ہی کرنا ہے کہ یہاں سے انھیں یہ خراب گندم بھیجی جا رہی ہے وہ اپنی اصلی گندم میں ساٹھ اور چالیس کی نسبت سے اس کو ملا کر واپس پاکستان بھیج دیں۔ دونوں پارٹیاں منافع میں رہ جائیں گی۔

نریندرا مودی ہو یا واجپائی یا من موہن سنگھ ، سب کوٹلا چانکیہ کے چیلے ہیں اور اپنی شاگردی کو ثابت کر کے چھوڑتے ہیں۔ انکی نس نس میں یہ سبق سمایا ہوا ہے کہ دشمن کو ہمیشہ دشمن سمجھو ، اس سے کبھی بھی سمجھوتہ نہ کرو۔ اگر سمجھوتہ کرنا بھی پڑے تو آخری وار اپنے ہاتھ میں ہی رکھو اور پہلا موقع ملتے ہی وار کر ڈالو۔ خود دیکھ لیں ، پاکستان کے دنیا میں معرضِ وجود میں آنے سے اب تک ہندوستان نے پاکستان سے کون سا اچھا سلوک کیا ہے۔ پچھلے سڑسٹھ سالوں میں کوئی سیاست دان ، کوئی پاکستانی جس کو ہندوستان کی تاریخ پر عبور حاصل ہو، جس کو کرنٹ افیئرز کا اپ ڈیٹ علم ہو، کوئی ایک کام، بات ایسی بتا دے جس میں سو فیصد پاکستان کا فائدہ رہا ہو اور ہندوستان کو نقصان ہوا ہو، لیکن ایسا نقصان کہ جس کے بدلے پھر ہندوستان نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے۔ نہیں، میرا خیال تو نہیں کہ کوئی ایک لمحہ بھی ہندوستان نے پاکستان کے حق میں گزارا ہو۔

ہندوستان کے مسلمانوں کی بات میں ہر گز نہیں کر رہا۔ کیونکہ انکی اکثریت بھی جیسا ہندو چاہتے تھے کہ وہ شدھی بن جائیں تو آج بنا محنت کے وہ شدھی بن بیٹھے ہیں۔ اگر ہندوستان کا سپر سٹار شارخ خان (کم از کم میرا نہیں، مسلمانوں کا نہیں) کہتا ہے کہ میرے گھر میں گیتا بھی رکھی ہے اور قرآن بھی۔ اسکی اولاد کا جو دل کرے وہ پڑھے تو کیا ایسا شخص مسلمان ہو سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ پاکستانی اداکار محمد علی نے ہندوستان کی کسی فلم میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔ انکے کردار کی ڈیمانڈ کے مطابق کسی مندر میں جا کر وہاں کے بھگوان کو اگر میں غلطی پر ہوں تو کوئی درست کر دے، یا تو ماتھا ٹیکنا تھا یا دایاں ہاتھ مندر کی دہلیز پر لگا کر اپنے ماتھے پر لگانا تھا، یعنی جو بھی تھا ، رسم ہندوؤں کی عبادت جیسی ہی تھی۔ تو محمد علی صاحب وہ کردار ادا کر کے جب پاکستان واپس آئے۔۔ فلم لوگوں نے دیکھی تو یہ منظر دیکھتے ہی ان پر گویا فتووں کی بارش شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ انہیں تجدیدِ ایمان کرنا ہو گا کہ ایسی حرکت کرنے سے وہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ تو جب صرف ایک بار اس طرح کرنے سے محمد علی صاحب پر کفر کا فتویٰ لگ سکتا ہے تو پھر وہاں کے ان اداکاروں کے بارے میں کوئی کیا کہے گا جو ہر فلم میں اس طرح کا ایک سین تو لازمی کرتے ہیں، اوپر سے بیان بھی دیتے ہیں کہ انکی اولاد کی مرضی جو مذہب چاہے اختیار کریں۔

سیاہ فام باراک اوباما (حسین کا نام لگانا تو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے پیارے نام کی توہین ہے ) کے صدر بننے پر امریکہ کے کالوں میں خوشیوں کی ایک لہر نہیں بلکہ پورے سمندر کی لہریں ٹھاٹھیں مارنا شروع ہو گئی تھیں، لیکن آج چار سال پورے ہونے کے بعد کیا کوئی سیاہ فام (ماسوائے انکے جو حکومت میں ہیں یا حکومت کی مجبوری ہیں) یہ کہہ سکتا ہے انکی بہبود کے لیے یا فلاح کے لیے اوباما نے کوئی کردار ادا کیا ہے۔ قطعاً ناممکن۔ کیونکہ اصل حکومت تو وہاں انگریزوں کی ہی نہیں بلکہ یہودیوں کی ہے۔ اور یہودی تو یہ چاہتے ہی نہیں کہ انگریز سیاہ فام ترقی کریں یا امریکی حکومت کوئی ایسا قانون پاس کرے جس کی بنیاد پر وہاں کے مسلمانوں کو کوئی بھی بہترین قسم کے حقوق حاصل ہوں۔ تو پھر نریندرا مودی بھی تو ہندو ہے، اور کوٹلا چانکیہ کا چیلا ہے۔ وہ اپنے گرو کی تعلیمات کو کیسے بھول سکتا ہے۔ وہ مسلمان تو ہر گز نہیں۔ اس نے تو ہمیشہ اپنے ہندو ساتھیوں کا ساتھ دینا ہے۔

اپنے تابڑ توڑ حملوں کے بعد اس نے وزیرِ اعظم پاکستان جناب نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے دی اور انھوں نے اس خوش سے قبول کی جیسے حلف برداری کی دعوت نہ ہو سویٹزلینڈ میں فری میں اکاؤنٹ کھولنے کا کہا گیا ہو۔ واہ رے تیرے کیا کہنے۔اور نہ صرف یہ دعوت نامہ ہنسی خوشی قبول ہوا بلکہ ہنسی خوشی اس تقریب میں شرکت کی گئی ۔ جانے سے پہلے وہ میڈیا کو بیان دے کر گئے کہ نہ صرف تقریب میں شرکت کریں گے بلکہ دو طرفہ معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بھی گفتگو کریں گے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ تب سے اب تک یعنی چھبیس مئی ۲۰۱۴ سے لے کر آج تک ہندوستان نے پاکستان کو کس نظر سے دیکھا۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کراس بارڈر فائر کر کے انھوں نے کتنے بے گناہ شہریوں کو شہید کیا۔ کس کس پاکستانی شخصیت کو ذلیل نہیں کیا۔ گلوگار غلام علی کے ساتھ کیا ہوا۔خورشید قصوری صاحب کی کتاب کی رونمائی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ ہمارے کتنے اور گلوکاروں کو وہاں کنسرٹ کرنے سے نہ صرف روکا گیا، بلکہ ان کی تذلیل بھی کی گئی۔ صرف ایک عدنان سمیع خان غدار وطن ہے جس نے پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو اپنے سے دور کیا اور ہندوستان کی قومیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ ہندوستان میں وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو مکمل طور پر آزاد رہنے کی آزادی نہیں ہے تو کسی پاکستانی مسلمان کو کب کھلی آزادی دیں گے۔ اس نے یقیناً پھر پاکستان کا رخ کرنا ہے۔ لیکن ہم پاکستانی ان شاء اﷲ اس کو دوبارہ پاکستان میں گھسنے نہیں دیں گے کہ کہیں لوگ اس کو گھس بیٹھیا نہ کہہ بیٹھیں۔
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 72205 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More