’اقدار‘ کو بالائے طاق رکھ کر اقتدار کی سیاست کی جاتی ہے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے اس بیان کی روشنی میں کہ وہ اقتدار کی نہیں اقدار کی سایست کررہے ہیں۔پاکستان کی سیاست کیا ہے اور اقدار کیا ہیں کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ |
|
پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے
کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ہمارے ملک کے سیاست
دانوں نے کبھی بھی اقدار کی سیاست نہیں کی اس کے برعکس ہر ایک نے اقتدار کے
حصول کی سیاست کی اور اسے اپنی زندگی کا حاصل بنا یا ۔ لمحہ موجود کے سیاست
داں، وزیراعظم پاکستان قبلہ میاں نوز شریف نے گلگت بلتستان میں ایکسپریس
ہائی وے ‘ ائر پورٹ اور بجلی گھر بنانے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ
’بددیانت اور کرپٹ حکومتوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ’ہم نے کسی سے رشوت
مانگی نہ ہی کمیشن لیا، قومی خزانہ امانت ہے ‘خیانت کرنا گناہ کبیرہ ہیـ‘
نیت میں کھوٹ اﷲ کو پسند نہیں‘کمیشن نہ لینے کی وجہ سے بیرونی حکومتیں مہر
بان ہوئیں اور کرپٹ حکومتوں کو 100روپے میں بیچنے والی مشین ہمیں 60روپے
میں دیں‘ خدمت نعروں سے نہیں کچھ کر گزرنے سے ہوتی ہے‘ انہوں نے مزید
فرمایا کہ ’ہم اقتدار کی بجائے اقدار کی ساست کر رہے ہیں‘۔وزیر اعظم صاحب
کی تمام باتیں مناسب ہوں گی ، ہوسکتا ہے ان میں سچائی بھی ہو۔ اگر ایسا ہی
ہورہا ہے تو اﷲ تعالیٰ انہیں ، ان کی جماعت کو اور ان کے ساتھیوں کو ثابت
قدم رکھے ۔ یہ بات کہ وہ اقتدار کی نہیں ’اقدار ‘کی سیاست کر رہے ہیں قابل
غور ہے اور اپنے اندر بہت سے ابہام لیے ہوئے ہے۔ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم
محمد علی جناح اور ان کے رفیق کار ، ساتھی پاکستان کے اولین وزیر اعظم
لیاقت علی خان تک تو یہ بات کہہ جاسکتی ہے کہ ملک میں اقتدار کی سیاست نہیں
ہوئی بلکہ اقدار کی سیاست کی گئی لیکن اس کے بعد کوئی ایک دور حکومت بشمول
لمحہ موجود کے حکمران میاں نواز شریف صاحب کے ایسا نظر نہیں آتا کہ جس نے
سیاست اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہ کی ہو۔ سیاست کا تو پہلا سبق ہی اقتدار
حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ سیاست داں تو میدان سیاست میں قدم رنجا فرماتا ہے تو
وزیراعظم، وزیر اعلیٰ سے کم کے خواب نہیں دیکھتا۔
اقدار ہیں کیا ؟ خاص طور پر مسلمانوں کی اقدار کیا ہیں ۔ ہماری اقدار شرافت
، دیانت، صداقت ،بزرگی، اصالت، نجابت ،سچائی، راست بازی، امانت داری، خدمت
اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی کے معاملات پر عمل کرنا اور دوسروں کو بھی
اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہیں۔ اس کلیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم
سیاست دانوں کے کردار ، گفتار اور عمل کا جائزہ لیں تو ہمیں تصویر کا وہ رخ
نظر نہیں آتا جس جانب وزیر اعظم نے اشارہ کیا ہے۔ اقدار تو سچائی سے کام
لینے کا نام ہے، جھوٹ سے پرہیز کا نام ہے ہماری سیاست اور سیاست داں نہ تو
سچائی سے کام لیتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ جھوٹ بولنے میں پس و پیش کرتے
ہیں۔ ہماری سیاست میں تویہ مَقُولَہ عام ہے اور اس پر عمل ہوتا نظر بھی آتا
ہے کہ سیاست میں ہر چیز جائز ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، سیاست داں
مفروضہ پر ایک دوسرے پر سنگین سے سنگین ، حتیٰ کہ ذاتی نوعیت کے الزامات
لگاتے ہوئے ذرہ برابر ہچکچا ہٹ ، تردد نہیں محسوس نہیں کرتے۔ اس کی مثالیں
ایک نہیں ہزاروں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ حالیہ سیاسی صورت حال میں ہی دیکھ
لیں عمران خان نے نواز شریف پر اور خود نواز شریف صاحب نے اور ان کے
ساتھیوں نے کیا کیا الزامات ، بہتان، اتہام، دوش اور اُلہنا نہیں کیا۔ آصف
علی زرداری کے بارے میں میاں برادران نے انتخابی مہم میں کیا کچھ نہیں کہا،
پی پی کے لیڈروں نے نواز لیگ کو بھی کبھی نہیں بخشا، عمران خان نے الطاف
بھائی کو تو کبھی بخشا ہی نہیں، لندن بریف کیس لے گے ،نتیجہ کیا نکلا، صفر،
بعد میں ان کے ہی ایک لیڈر پھر قسمت آزمانے لندں یاترا پر گئے، الزامات کے
بوچھاڑ ہوئی کیا حاصل پھرصفر ، اسی طرح ایم کیو ایم نے عمران پر کیا کیا
الزامات نہیں لگائے۔ ہماری سیاست میں تو ایک دوسرے کو کھلے عام گالیاں دینے
کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
سابقہ سیاسی جوڑ توڑ کو یاد کریں تو کیا نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب نے
مری اور چھانگا مانگا میں کیا کیا تھا؟ دعوت ولیمہ میں اراکین کو لے گئے
تھے۔ یہ تھی ہماری اقدار کی سیاست۔ ووٹ خریدنا ہماری سیاست میں کوئی بری
بات نہیں ، ہر سطح پر خرید و فروخت ہوتی رہی ہے۔ لوٹا کریسی کیا ہے؟ چڑھتے
سورج کی بوجا کرنا، وننگ ہارس کی جانب دوڑ لگا دینا، آج ادھر تو کل اُدھر
ہماری سیاست ہے۔ عمران خان سیاست میں آگے نظر آئے تو سیاست کے بے شمار
لوٹوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور تلاش میں لگ گئے کہ کس طرح عمران کے نور
نظرنہ سہی نور نظروں کے نورنظر ہی بن جائیں۔میاں صاحب بمعہ اہل خانہ جدہ کے
سفر پر روانہ ہوئے تو کتنے جانثار وں نے میاں صاحب کے جھنڈے کو تھامے رکھا،
اکثریت نے بلوں کی تلاش شروع کردی اور بلوں میں گھس کر پناہ حاصل کی ، کچھ
نے ق لیگ کو اقتدار کی کرسی کی جانب جاتے دیکھا تو دوڑ پڑے ق لیگ کی جانب ،
خوب مزے لیے وزارت کے، سفارت کے۔ کیسی جمہوریت ، کیسی لیڈر سے وفاداری، کون
سے نواز شریف ، کہا ں کے میاں صاحب ، پرویز مشرف آج آمر ہیں، ا س وقت کیا
تھے، اقدار یا اقتدار؟ میاں صاحب کی قسمت نے پھر سے پلٹا کھا یا، اقتدار ان
کی جھولی میں آن پڑا۔ وہ تما م جنہوں نے مختلف بلوں میں چھپ کر جان مچائی
تھی، کچھ پرویز مشرف اور ق لیگ کے پرچم تلے وزارت کے مرتبہ پر فائز ہوکر
اپنی جیبیں گرم کرچکے تھے ۔ واپس میاں صاحب کی جانب لپکے۔ کچھ تردد میں
رہے، سہارا ڈھونڈا، کسی کو پکڑا، کچھ نے با آواز بلند معافی مانگی ، کچھ نے
اندرون خانہ توبہ کی، خوشامد کی اور آگئے پھر سے میاں صاحب کی جھولی میں
اور یہی نہیں بلکہ پھر سے وزارت پر براجمان نظر آرہے ہیں۔شرم اور حیا نام
کی کوئی چیز نہیں۔ حیرت اور افسوس ہوتا ہے جب وہی ق لیگ اور پرویز مشرف کے
دور میں وزارت کے مزے لوٹنے والے اکثر ٹی وی ٹاک شو میں دیدہ دلیری کے
ساتھ، شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ق لیگ اور پرویز مشرف پر
تبرابھیجتے، لعنت ملامت کرتے، ان کی سرزنش کرتے ،مغلظات ، بد گوئی کرتے
دکھائی دیتے ہیں اور قبلہ نواز شریف کی تعریف و توصیف،مداح سرائی، وکالت
کرتے، توصیفی کلمات بیان کرتے، قصیدہ خواں ، ممدوح ہوتے میاں صاحب کے گیت
گاتے دکھائی دیتے ہیں۔آج میاں صاحب کا اقتدار غروب ہو جائے کسی بھی وجہ سے
ہمارے ملک میں سیاست میں تو سب کچھ ممکن ہے ، یہی قصیدہ پڑھنے والے لوٹے
فورناً میاں صاحب کو پیٹ دکھا کر رفو چکر ہوجائیں گے ، کسی اور چڑھتے سورج
کی جانب دوڑ لگادیں گے۔ سیاست کی اقدار تو یہ ہیں ۔ ان سے ہمیں کب چھٹکارہ
نصیب ہوگا ، ہوگا بھی یا نہیں ۔ اچھائی کی امید نظر نہیں آرہی۔ آج ہی تازہ
تازہ لیڈر بننے والے اس اعتبار سے کہ انہیں ان کے علاقے بدین والوں نے
بھاری مینڈیٹ سے نوازا، بڑے فخریہ انداز سے فرمایا کہ سیاست داں کی دو ہی
جگہیں ہوتی ہے ایک محل یا جیل۔ گویا ان کی نظر میں سیاست داں یا تو محل میں
رہے گا، محل ایمانداری، سچائی اور اقدار پر عمل کرنے سے تو بن نہیں سکتا ،
یہ تو کرپشن سے، لوٹ کھسوٹ سے، ناجائز دولت بنانے سے ہی محل بن سکتا ہے۔ جس
سیاست داں کے ذہن میں ہی یہ ہو کہ اسے محل بنا نا ہے تو وہ عوام کی خاک
خدمت کرے گا۔ کون سیاست داں ایسا ہے جو یہ عزم لے کر میدان میں آتا ہے کہ
اُسے جیل جانا ہے۔ اگر جیل ہی جانا ہے تو کوئی بھی غیر قانون کام کر لے جیل
چلا جائے گا۔ وہ تو محل کے خواب دیکھتا ہے، اقتدار کے خواب لے کر میدانِ
سیاست میں آتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں محترم کہ زرداری کو جیل میں ، الطاف حسین
کو جیل میں ہونا چاہیے۔ یہ وہی والی بات ہوئی کہ سارے سیاست داں صفحہ ہستی
سے مٹ جائیں میں ہی میں رہ جاؤں۔ خواب دیکھنے میں کیا مزائقہ ہے۔ میاں صاحب
یہ ہے ہمارے سیاست دانوں کی سوچ ، یہ ہیں ہمارے مستقبل کے حکمراں نہ سہی
سیاست داں۔ ان کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تربیت کا کوئی اہتمام کریں۔
میاں صاحب کی سوچ قابل قدر ہے۔ ان کے خیالات کہ وہ ملک میں اقتدار نہیں
اقدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر پہنچ جائے تو اسے
بھولا نہیں کہتے۔ میاں صاحب کی سوچ نے مثبت انداز فکر اختیار کیا ہے جو ایک
خوش آئند بات ہے۔ در حقیقت اقدار کی سیاست کرنا ہی مسلمانوں کا طرۂ امتیاز
ہے۔ سیاست میں شامل محترم سیاست دانوں کو اپنی سوچ کو اقتدار کے بجائے
اقدار کی جانب رکھنان چاہیے کہ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے، انسان فانی ہے،
ہر چیز کو ایک نہ ایک دن فنا ہونا ہے۔باقی رہنے والی اﷲ کی ذات ہے۔ اﷲ
تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے ، زندگی بسر کرنے کے لیے جو طریقہ
کار اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان کر دئے اور اس کا عملی نمونہ ہمارے نبی ﷺ
نے خود کرکے دکھا دیا ، ان کے بعد صحابہ اکرام نے اپنے طرز حکمرانی سے ہمیں
جو سبق دیا وہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ ہماری سیاست کی اقدار تو یہ ہیں کہ بھری
مجلس میں ایک عام شخص خلیفہ وقت سے پوچھ سکتا ہے کہ جو کرتا آپ نے ذیب تن
کیا ہوا ہے ، جو کپڑا سب کے حصے میں آیا وہ اتنا نہیں تھا کہ اس سے ایک
کرتا بن سکے پھر آپ نے یہ کرتا کیسے بنا لیا جو آپ اس وقت ذیب تن کیے ہوئے
ہیں۔اس پر خلیفہ وقت اس شخص پر ناراض نہیں ہوئے، اسے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی،
ریاست کے اہل کار وں نے اسے اٹھا کر مجلس گاہ سے باہر نہیں بھینک دیا بلکہ
خلیفہ وقت اس کی وضاحت کرتے ہیں جس سے وہ شخص مطمئن ہوجاتا ہے۔ یہ تھی
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے کی اقدار کی سیاست ۔سیاست دانوں کواس
طرح کے بے شمار واقعات سے سبق لیتے ہوئے ہوئے اقتدا رکی نہیں اقدار کی
سیاست کرنی چاہیے- |
|