ڈگری برائے فروخت
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
بے روزگاری ایسا درخت ہے جس کی ہرشاخ
پرمحرومیاں ،مجبوریاں،رسوائیاں،پریشانیاں اپنے آشیانے مضبوط ترکرچکیں
ہیں،بدقسمتی یہ ہے کہ جڑسے اکھاڑ پھکنے کی بجائے ہم سب مل کراس منحوص درخت
کوپھلنے پھولنے کیلئے مناسب ماحول فراہم کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں تمام
جرائم بے روزگاری،غربت اورمہنگائی کے باعث شروع ہوتے ہیں جو بعد میں افراد
کی مجبوری اور عادت بن جاتے ہیں۔بے روزگار افرادکے دلوں میں محرومی کا
احساس پیدا ہوجائے تو پھر وہ اچھے بُرے کی تمیزبھول کر کچھ بھی کر گزرتا ہے۔
قتل و غارت، چوری و ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکہ فریب اور ان جیسے
دیگرجرائم کی تعلیم و تربیت بے روزگاری کی یونیورسٹی سے حاصل ہوتی ہے یہ
دنیا کی واحد تعلیم ہے جس کی نہ تو کوئی سند،ڈگری یاسرٹیفکیٹ ہوتا اور نہ
ہی کسی شفارش اوررشوت کی ضرورت پیش آتی ہے بس جرم کی دنیا میں قدم رکھا
توپھرواپسی بہت مشکل ہے۔ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری
کی شرح دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔کسی قوم کے تمام افراد کا روزگار اچھا ہو تو ان
میں خودکفالت کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے بیروزگاری دنیا کے ہرکونے میں پائی
جاتی ہے اس مسلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرنا عالمی حکمرانوں کی ذمہ اری
ہے۔پاکستان میں بیروزگاری کا مسئلہ مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے
کیونکہ یہاں روزگار کے مواقع بہت کم اور شرح خواندگی کا تناسب بھی بہت نیچے
ہے ۔انٹرنیشنل نیوزایجنسی ’میڈیاورلڈلائن‘ کی رپورٹ کے مطابق غربت کے حوالے
سے کی گئی ایک تحقیق میں سامنے آیاہے کہ ہر تیسراپاکستانی غربت کی گرفت میں
ہے یعنی اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں سے پانچ کروڑ ستاسی لاکھ افراد غربت کی
سطح سے نیچے زندگی بسرکرنے پرمجبور ہیں۔ان افراد میں بلوچستان کی نصف سے
زائد ، سندھ کی 37 فیصد،خیبر پختونخواہ کی بتیس فیصد اور پنجاب کی 21 فیصد
آبادیاں شامل ہیں۔ایس ڈی پی آئی کی تحقیق میں20 غریب ترین اضلاع کی نشاندہی
کی گئی ہے جس میں سولہ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔یہی وہ حقائق ہیں جو عوام کے
سامنے لانے سے حکمران گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔
شاعر : ملک محمد جمشید اعظم نے غربت میں پیش آنے والی مشکلات کومعصومیت
بھرے انداز میں یوں بیان کیاہے
کتنا مجبور کتنا لاچار بنا دیتی ہے یہ غربت
انسان کو حیوان بنا دیتی ہے یہ غربت
عقلمند مندکو بے عقل بنا دیتی ہے یہ غربت
خوبصورت کو بدصورت بنا دیتی ہے یہ غربت
بے پناہ گھروں کو تباہ کر دیتی ہے یہ غربت
ہر کوئی پوچھتا ہے کہ کیا ہوتی ہے یہ غربت
نہ میں جانوں نہ تو جانے کہ کیا ہوتی ہے یہ غربت
دراصل وہی جانے جس نے دیکھی ہے یہ غربت
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکمران ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور اُس سے
پیداہونے والے بحران زدہ حا لات سے واقف ہی نہیں ہیں،جیسے انھیں عام آدمی
کے مسائل سے دلچسپی ہے اور نہ ہی ایوانوں میں اس بات کی ضرورت محسوس کی
جاتی کے عام آد می کے مسائل کے حل سے متعلق قانون سازی کی جائے۔بھاری
ٹیکسوں سے کچل کربیروزگاروں کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پرمجبور کر دیا
گیاہے، مزدور طبقے اور عام آدمی کو بنیادی سہولیات جن میں اہم ترین تعلیم،
صحت و علاج، صاف پانی، انصاف کی فراہمی ،غذائی ضروریات،ملازمت،روزگار ،
اوردیگربنیادی ضروریات سے محروم کردیاگیا ہے۔ مسلسل بے روزگاری اورغربت سے
تنگ آکرلوگ اپنا قدرتی وسائل سے مالامال وطن چھوڑکردیارغیرمیں زندگی تلاش
کرنے کی کوشش پرمجبورہوجائیں تویہ حکمرانوں ہی نہیں بلکہ قوم کے ہرفرد
کیلئے شرم اورفکر کی بات ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین UNHCR
کے مطابق رواں سال جنوری سے اگست کے مہینے تک 13 ہزار سے زائد پاکستانی
سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لے ترکی یونان کے راستے مغربی یورپ پہنچے۔ ایسے
پاکستانی تارکین وطن کے بقول وہ اپنا گھر بار چھوڑنے کا فیصلہ غربت ، بے
روزگاری مذہبی ، معاشرتی عدم برداشت، معاشی عدم استحکام اوربنیادی سہولیات
کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے نجات پانے کے لیے کرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے
حصول کے لیے پھر وہ انتہائی حد تک تکالیف اور خطرات کا سامنا بھی کرتے
ہیں۔خیرغربت اوربے روزگاری صرف پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس وقت اِن
مصیبتوں کا سامناپوری دنیا کوہے۔آج پوری دنیا میں بے روزگاری اور مہنگائی
کے پھلتے ہوئے طوفان نے غربت کا دائرہ بڑھادیاہے اوراسی تناسب سے غریبوں کی
تعداد میں بھی اضافہ ہورہاہے۔غربت اب صرف ترقی پذیرہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ
ممالک میں بھی پاؤ ں پھیلاچکی ہے۔ وہ ممالک جو کبھی خوابوں کی سرزمین
کہلاتے تھے یعنی امریکہ اوریورپ بھی بے روزگار ی کی بڑھتی شرح اورغریبوں کی
تعداد میں اضافہ سے پریشان ہیں۔جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک
ایسی خبرسامنے آئی جسے دیکھنے بعد میرے جیسے کئی پاکستانی حیرانی کے سمندر
میں ڈوب گئے ہوں گے۔فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی طالبہ اسٹیفنی ریٹر نے
گریجویش کے بعد ملنے والی ملازمت سے غیر مطمئین ہو کر اپنا چار سالہ تھیٹر
کا ڈپلومہ فروخت کرنے کے لیے ’ای بے‘ پر اشتہار دیا ہے۔ویب سائٹ نیوز فیڈ
کے مطابق، اسٹیفنی نے 2011 میں تھیٹر میں ڈپلومہ کیا تھا ، اور وہ اب تک
بطور ایک اسسٹننٹ کے ملازمت کر رہی ہے، جب کہ اس کا تعلیمی قرضہ 40 ہزار
ڈالر ہے۔اسٹیفنی نے ذرائع کو بتایا کہ ایک دن جب میں اپنے کمرے کی صفائی کر
رہی تھی، تو مجھے اپنے ہائی اسکول،کالج کی سند اور یونیورسٹی کا ڈپلومہ ملا،
میں نے سوچا کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا بہت سے لوگوں کے لیے قیمتی ہو گا پرمیرے
لیے تھیٹر کی ڈگری کے ساتھ اس شہر میں ملازمت کے مواقع ملنے کے امکانات کم
ہیں لہذا ، میں نے اپنی ڈگری کو بیچنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ میں جانتی
ہوں کہ تھیٹر کے ڈپلومے کی اہمیت کم نہیں ہے۔فیڈرل ریزرو بنک آف نیویارک کی
ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ صرف 27 فیصد گریجویٹ طلبہ اپنی ڈگری سے
متعلقہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس طرح کی صورت حال میں بہت
سے گریجویٹ حد درجہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ دیکھتے
ہیں کہ انھوں نے اپنی ڈگری پر کتنا خرچ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ ہزاروں
ڈالر کے قرضوں میں ڈوب گئے ہیں۔ ای کامرس کی ویب سائٹ ’ای بے‘ پر اپنے
اشتہار میں اسٹیفنی نے لکھا ہے کہ وہ اپنی فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ڈگری
50 ہزار ڈالر میں فروخت کر رہی ہے اور 10 ہزار ڈالر اس میں قرضے کے علاوہ
ہیں، جو وہ اپنے چار سالہ تجربے کے بدلے میں وصول کرنا چاہتی ہے۔ اسٹیفنی
نے اشتہار میں اپنے تجربے کے حوالے سے تفصیل بیان کی ہے، جس میں یونیورسٹی
کا دورہ شامل ہے، اس کے علاوہ یونیورسٹی کے فیس بک اور یونیورسٹی کی تمام
یادوں کے ریکارڈ تک رسائی شامل ہے۔علاوہ ازیں اسٹیفنی اتوار سے جمعرات تک
صبح سات بجے سے رات دس بجے تک ڈگری کے خریدار کے ساتھ براہ راست اپنی یادیں
اور تجربہ شیئر کرنے کے لیے بھی تیار ہے اور ساتھ ہی وہ کرائے کی کار میں
ڈگری خریدنے والے طالب علم کو شہر گھومانے کا ارادا بھی رکھتی ہے۔اسٹیفنی
نے کہا کہ کالج کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ کو قرضے کے
حوالے سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ اپنی موجودہ صورت حال سے پریشان
ہونے کے باوجود، وہ دوبارہ سے یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہے پر اس بار
وہ ایک ایسے شہر کی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی ہے، جہاں ملازمت کے مواقع
زیادہ ہیں تاکہ وہ اپنے اخراجات کو باآسانی برداشت کر سکے۔جن انسانی
معاشروں میں اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی لوگ اپنی بنیادی
ضروریات پوری کرنے کے قابل ناہوسکیں یادوسرے لفظوں باعزت روزگارحاصل کرنے
میں ناکام ہوجائیں وہاں کم تعلیم یافتہ یا اَن پَڑھ افراد کو جینے کا کیا
حق ہوسکتاہے؟امن وانسانیت کے علم برداروں اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بے
روزگاری کے جن کوبوتل میں بندکیے بغیرانسانیت کی فلاح وبقاکی باتیں بے
بنیادہیں،آج بیروازگاری کے خاتمے کیلئے اقدامات نہ کیے گئے توپھرانسانی
مستقبل بہت تاریخ ہوگا - |
|