پھتا قلعی گر(حکایت)
(Ghulam Ibn-e- Sultan, Jhang)
یہ کوئی نصف صدی پہلے کا
قصہ ہے کہ جھنگ کی نواحی کچی آبادیوں میں ایک دراز قد،سفید ریش، معمر قلعی
جس کے سر کے بال سفید اور بکھر ے ہوے تھے ضعف پیری کے باوجود کمر سیدھی کر
کے چلتا اور توقیر و عزت ِ نفس کی مجسم صورت بن کر مرکز نگاہ بنا رہتا۔اس
کے ہاتھوں اور چہرے کی جھریاں ایام گزشتہ کی روداد کی انمٹ تحریروں کی شکل
میں دیکھنے والوں کو متوجہ کرتیں۔صبر و استقامت اور قناعت و استغنا کا پیکر
یہ بوڑھا محنت کش اپنے کندھے پر ایک تولیہ رکھے جس پر ایک موٹی رسیوں سے
بندھے بانس کا بڑا تراز و دھرا ہوتا اسے اٹھائے ہانپتا ،کا نپتااور
لڑکھڑاتا ہوا گلی گلی گھومتا تھا ۔اس کے بڑے ترازو کے ایک پلڑے میں پیتل
،سلور ، کانسی،جست ،تانبے اور لوہے کے نئے برتن جب کہ دوسرے پلڑے میں ٹُوٹے
پُھوٹے پرانے برتن اور قلعی کا سامان ہوتا تھا ۔زرگزیدہ اور بشر گزیدہ
لوگوں کے ازدحام میں ہر قسم کے شر سے بچتا ہو ا پسینے میں شرابوراپنی دُھن
میں مگن اپنے کام سے کام رکھے ہوئے لذتِ کام و دہن اور سرودِ عیش و نشاط کی
تمناسے بے نیاز کوچہ وبازار سے گزرتا اور زندگی کی مشعلِ بے شعلہ و دُود پر
حسرت بھری نگاہ ڈال کروہ چپکے سے بامِ زماں پر عصا رکھتا آگے نکل جاتا۔ اس
نے نظام ِدہر کو تیورا کر کبھی نہ دیکھاوہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اس
کی زندگی کے شام و سحر کے سفینے سیلِ زماں کی مہیب موجوں کی زد میں آ کر
ہچکولے کھا رہے ہیں۔جب آلامِ ِروزگار کے سیلِ رواں میں سب کچھ ڈوبنے کو ہے
تو پھراس کے بارے میں تشویش اور اضطراب بلاجواز ہے۔کبھی کبھی وہ دم لینے کے
لیے رُکتا تو روح کے عفریت کدوں کے زہر اندوز گوشوں میں جھانکنے لگتا اس
وقت اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں۔ غریبوں کی بستیوں میں
پا برہنہ اور سرا سیمہ بچے اسے دیکھتے تو دیوانہ وار اس کی طرف لپکتے ۔وہ
سب بچوں کو دعا دیتا ،ان سب کی خیریت دریافت کرتا اور بلند آواز سے یہ
مانوس صدا لگاتا :
اج بھانڈے قلعی کرا لو
پُرانے دے کے نویں بدلوا لو
آگیا اے پھتا قلعی گر
لوگوں کا دستور ہے کہ وہ رزق کی تلاش میں گھر سے نکلتے ہیں اور شکم کی بھوک
سے مجبور ہو کر در در کی خاک چھا نتے پھرتے ہیں ۔ زندگی کے آخری ایام میں
ضعفِ پیری کے باعث پھتا قلعی گر نے برتن فروشی ختم کر دی اور محض قلعی گر
رہ گیا ۔پھتا قلعی گر ایک عجیب مزاج کا سیلانی خدمت گار تھا۔ ہر روز وہ
نمازِ تہجد سے فارغ ہو کر تلاوت کرتااور نمازِ فجر باجماعت ادا کر کے جب
گھر سے نکلتا تو وہ رزق کی تلاش میں نہیں بل کہ بے لوث خدمت اور نیکی کمانے
کے لیے کئی میل پیدل مسافت طے کرتا۔وہ اپنی دھونکنی اور قلعی کا سامان ایک
بوری میں باندھے دشوار گزارپگڈنڈیوں سے گزرتا ہو ا جھگیوں میں جا
پہنچتا۔جھگیوں کے مکین اس مانوس شخص کو خوب جانتے اور پہچانتے تھے اس لیے
اس کا شدت سے انتظار کیا کرتے تھے۔پھتا قلعی گر ہر جھگی میں سال میں ایک
بار ضرور پہنچتا تھا۔ اس کے پاس لمبے کاغذوں کی سلی ہوئی ایک بڑی کاپی ہوتی
تھی جسے وہ بندی کہتا تھا۔اس پر اس نے دور دراز جھگیوں میں مقیم اپنے تمام
عقیدت مندوں کے نام اور رہائش کے مقامات درج کر رکھے تھے۔ وہ ہر سال
باقاعدگی کے ساتھ اسی دن ان کے ہاں جا پہنچتا اور ان کے برتن قلعی
کرتا۔دردمندوں اور ضعیفوں کی محبت اس کے قلب اورر وح میں سما گئی تھی
۔جھگیوں کے بوریا نشین محنت کش اس کے عقیدت مند تھے وہ اس کی راہ میں
آنکھیں بچھاتے مگر یہ فقیر زمین پر بیٹھ جاتا ،بھٹی گرم کرتا ،جھگی والوں
کے تمام برتن منگواتا اور انھیں ایک ایک کر کے قلعی کر کے آگے نکل جاتا۔جب
کوئی معاوضے کی بات کرتا توہو ہنس کر ٹال دیتا اور یہ جواب دیتا:
’’ برتن قلعی کرانے کاسارا خرچ تو تم لوگ خود برداشت کرتے ہو۔اس کام میں
انیدھن تمھارا استعمال ہوتا ہے ،میری چائے ،پانی ،دودھ، روٹی اور سفر کا خر
چ بھی تم خود برداشت کرتے ہو ،دھونکنی تمھارے کم سِن بچے بڑے شوق سے
دھونکتے ہیں۔اب تو قلعی ،نوشادر اور برش مارنے کا ڈھنگ بھی سب بچے جان گئے
ہیں۔میں تو پاس بیٹھ کر دیکھتا رہتا ہوں۔ میں یہاں کمائی کرنے نہیں بل کہ
میں تو یہاں اپنے بچوں سے ملنے اور انھیں دیکھنے کے لیے اپنی خوشی سے چلا
آتا ہوں میرے لیے تمھاری دعا ہی کافی ہے۔ ‘‘
پھتا قلعی گر نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی تھی اوربرطانوی استعمار
سے نجا ت حاصل کرنے کی جد و جہد میں اس نے مقدور بھر حصہ لیا تھا۔وہ نئی
نسل بالخصوص طالبات کو تعلیم کے حصول پر مائل کرنا چاہتا تھا۔ پھتا قلعی گر
جب دور دراز علاقوں کی جھگیوں میں جانے کا قصد کرتا تو اس کے معتمد ساتھی
جن میں حاجی محمد یوسف ،مرزا محمد وریام،محمد بخش آڑھتی،رانا سلطان محمود
اور غلا م علی خان چین شامل تھے اس سے ضرور ملتے۔باہمی مشاورت سے وہ جھگیوں
میں رہنے والے دہقانوں اور مزارعوں کے بچوں کے لیے قاعدے،کتب،تختیاں
،روشنائی،سلیٹ ،سلیٹی،پنسل،قلم تراش اورخوب صورت رنگو ں والی پنسلوں کی
ڈبیاں ضرور لے جاتا۔وہ جب کم سن بچوں میں یہ تحفے مفت تقسیم کرتا تو بچے
خوشی سے پھولے نہ سماتے۔وہ کم سن بچوں میں گُھل مِل جاتا ،ان کا سبق
سنتا،املا لکھواتا اور خوش نویسی سکھاتا۔اچھی کار کردگی دکھانے والے ہو
نہار بچوں کومشہور شعرا کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموں کی نقول فراہم کرتا
تھا۔ ننھے بچے ان نظموں کو زبانی یاد کر کے اسے سناتے تو انھیں انعام بھی
دیتا اور پیار بھی کرتا اور حوصلہ بڑھاتا تھا۔ پرائمری مدارس میں زیرِ
تعلیم کم سِن بچے اور بچیاں اس بوڑھے قلعی گر سے مِل کر تعلیمی زندگی سے
محبت کرنے لگتے اور نئے عزم کے ساتھ تعلیم سلسلہ جار ی رکھتے۔وہ بچوں کو
پیار کرتا اورانھیں کہتا:
آؤ میرے پیارے بچو
جگنو چاند ستارے بچو
اپنے دیس کی شان تمہی ہو
کل کا پاکستان تمہی ہو
1960میں پھتا قلعی گر نے اپنے دیرینہ ساتھی اور علی گڑھ کے ہم جماعت احمد
خان سے مِل کر دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر واقع دو آبہ کے علاقے میں
ایک فری تعلیمی سمر کیمپ شروع کیا۔اس میں ثانوی اور اعلا ثانوی مدارج میں
زیر تعلیم طلبا و طالبات کو تعطیلات گرما کے دوران بلا معاوضہ تعلیمی
رہنمائی فراہم کی جاتی تھی ۔دور درازقصبات اور دیہات میں رہنے والے طلبا و
طالبات کی تعلیمی رہنمائی کی اس تجویز کی جن ممتاز ماہرین تعلیم نے تائید
کی ان میں عبدا لحلیم انصاری،میاں رب نواز،عبدالستار نجم،محمد کبیرخان،محمد
موسیٰ،رجب الدین،محمد حیات خان،میاں علی محمد(علیگ)،غلا م علی خان چین،محمد
شیر افضل جعفری،شیر محمد ،منیر حسین اور غلام محمد شامل تھے۔مسلسل چارعشروں
تک یہ سلسلہ نہایت کام یابی کے ساتھ چلتا رہا ۔اس کے بعد سب حقائق خیال و
خواب ہو گئے اور جن کے دم سے اس بزم علم و ادب کی رونقیں جاری تھیں،انھوں
نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔اب اس علاقے میں
’’احمد خان میموریل ثانوی سکول‘‘قائم ہو چکاہے اورروشنی کاسفر جاری ہے۔
ایک راسخ العقید ہ مسلمان ،شمعِ توحید و رسالت کے پروانے اور محب ِ وطن
پاکستانی کی حیثیت سے وہ اپنی پہچان پر نازاں رہتا۔وہ اس بات پر خوشی کا
اظہار کرتا کہ اس کی آنکھوں نے تحریک پاکستان کے ممتاز رہنماؤں کو دیکھا
ہے۔وہ عملی زندگی میں مولانا ظفر علی خان،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا
شوکت علی،حسر ت موہانی،سردار عبدالرب نشتر،ملک فیروز خان نون سے مِل چکا
تھا۔اس نے تاریخی منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے 23مارچ 1940کے جلسے
میں بھی شرکت کی تھی۔ نعتیہ شاعری اس کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر
جاتی اوراس پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی۔وہ ادبی مجلات کے نعت نمبر کہیں
نہ کہیں سے ڈھونڈ نکالتا اور ان کا با وضو ہو کر مطالعہ کرتا۔اس کے پاس جن
مجلات کے نعت نمبر موجود تھے ان میں میاں اقبال زخمی کی ادارت میں شائع
ہونے والے پنجابی مجلے لکھاری ،لاہور کے نعت نمبر ،کارواں کا نعت نمبر اور
مجلہ اوج کا نعت نمبر قابلِ ذکر ہیں۔امیر اختر بھٹی کے نعتیہ مجموعے ’’توشۂ
آخرت‘‘کو اس نے ہمیشہ بہ نظرِ تحسین دیکھا۔ رانا عزیز احمد خان بڑے سوز کے
ساتھ مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس پڑھتا تھا ۔پھتا قلعی گر جب بھی یہ
کلام سُنتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔
1973میں دریائے چناب میں آنے والا قیامت خیز سیلاب جھنگ شہر کے گرد بنائے
گئے ساٹھ فٹ اونچے اور تیس فٹ چوڑے حفاظتی بند کو بہا لے گیا۔متعدد سوہنیاں
اور مہینوال دریا کے دس فٹ اونچے ریلے میں بہہ گئے۔ہزاروں مکان منہدم ہو
گئے اور قیمتی سامان دریا بُرد ہو گیا۔بے گھر لوگ بے سر و سامانی کے عالم
میں امدادی کیمپوں میں بے بسی اور حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔مصیبت
کی اس گھڑی میں پھتا قلعی گر اپنے ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھا اور آفتِ
ناگہانی کا شکار ہونے والوں کی مقدور بھر مدد کی۔ہر سال جون کے مہینے میں
جب دریائے چناب کا سیلابی ریلا جھنگ کے حفاظتی بند سے ٹکر ا کر دریا کا
پانی اُترنے کے بعد پلٹ کر دریا کی طرف بہتا تو پھتا قلعی گرگلو گیر لہجے
میں کہتا :
’’دریائے چناب کے پانی کا یہ مہیب ریلاہر سال 1973کے قیامت خیز سیلاب میں
زندگی کی بازی ہار جانے والی سوہنیوں اور مہینوالوں کے سوگ میں جھنگ شہر کا
رُخ کرتا ہے ۔چند روز سوگ میں حفاظتی بند کے ساتھ سر پٹخنے اور پس ماندہ
سوگواروں کو پُرسا دینے کے بعد واپس چلا جاتا ہے۔‘‘
پھتا قلعی گر کا دِ ل دریا اور سمندر سے کہیں گہرا تھا کسی کو اس کے دل کی
لگی کا حال معلوم نہ تھا ۔اس نے آلامِ روزگار کی طوفانی ہواؤں کے سامنے
سینہ سپر ہو کر زندگی گزاری لیکن اپنی ورق ورق زندگی کے جملہ نشیب و فراز
کو حرف حرف بیان کرنے میں ہمیشہ تامل کیا اور صبر کی روایت میں لبِ اظہار
پر ایسے تالے لگائے کہ کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لایا ۔ کئی بار متجسس
احباب نے اس سے ماضی کے حالات اور اس پر گزرنے والے واقعات کے بارے میں
حقائق جاننے کی کوشش کی لیکن وہ دل پر ہاتھ رکھتا اور آہ بھر کر رہ جاتا۔
اس کے دل میں جو طوفان نہاں تھے وہ ان کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کا آرزو
مند تھا اور کسی کوحال ِ دِل سنا کر آزردہ کرنا نہیں چاہتاتھا ۔جھنگ شہر کی
متعدد اہم شخصیات جن میں امیر اختر بھٹی،حاجی محمد یوسف،غلام علی خان
چین،اﷲ دتہ سٹینو،حکیم احمد بخش نذیر،باباا ﷲ دتہ حجام،کرموں موچی،محمد بخش
آڑھتی، شیر محمد ،منیر حسین ، محمو د بخش بھٹی ،محکم دین ،محمد وریام، شارب
انصاری،سید مظفر علی ظفر،خادم مگھیانوی ،کبیر انور جعفری ،رام
ریاض،محمدشیرافضل جعفری ،بختاور خان،سید جعفر طاہر ،عبداﷲ خان،رانا سلطان
محمود ،غلام محمد رنگین ،چراغ مولائی ،حامد علی شاہ ،اور حکیم محمدصدیق
شامل ہیں اس کے معتمد رفقا تھے۔ پھتا قلعی گر سال دو ہزار ایک (2001)میں
زینہ ء ہستی سے اُتر گیا۔وفات سے ایک ہفتہ قبل جب وہ جاں بہ لب تھاتو اس پر
اسرار ضعیف قلعی گر نے امیر اختر بھٹی کے ہاں اپنی کتاب زیست کے ناخواندہ
اوراق کے اہم واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
یہ رقص ستاروں کا
سُن لو کبھی افسانہ تقدیر کے ماروں کا
میرے مقدر کے ستارے ہمیشہ گردش ہی میں رہے۔اس پِیر فلکِ کج رفتارکی چال
کبھی میرے حسبِ حال نہ رہی۔جب کبھی میں نے ابرِ کرم کی تمنا کی تو سورج سوا
نیزے پر آگیا اور آلام و مصائب کی تپش نے دل و جگر کو اس طرح پگھلا دیاکہ
میرا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا اور یاس و ہراس کے اس ازدحام کو دیکھ کر
میرا دل گھبرا گیا۔آج پلٹ کرماضی کے جھروکوں سے دیکھتا ہوں تو سرابوں کے
جان لیوا عذابوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔میرا رخشِ حیات جس طرح رو میں
رہا اس کا احوال سنیں:
جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو اس وقت میری عمر اڑتالیس سال تھی۔میں
نے قومی تاریخ کے سب نشیب و فراز اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ جالندھر شہر کی
قدیم ترین آبادی میں واقع پر تاب باغ سے کچھ فاصلے پر مہاراجہ کا محل
تھا۔اس مرمریں ، پختہ اور پر شکوہ قصر سے آگے ایک کچی آبادی شروع ہوتی تھی
جو بشیر پو رہ کے نا م سے مشہور تھی ۔ میرے آبا و اجداد کا مسکن یہی علاقہ
تھا میری آنول نال بشیر پورہ میں گڑی ہے جہاں میں نے 1895میں جنم لیا۔اسی
بستی میں فتح خان برتن فروش کی دکان ہوا کرتی تھی جس پر جلی حروف میں یہ
عبارت لکھی تھی ’’فتح خان ظروف زرافہ‘‘جو ظروف کے ایک دراز قد اور جفاکش
تاجر فتح خان کی آبائی دکان تھی ۔ ان لوگوں کا سو پشت سے پیشہ ظروف فروشی
ہی تھا ۔‘‘
’’اس دکان کا نام بہت عجیب ہے !’’ظروف زرافہ‘‘ کا جوڑ سمجھ میں نہیں
آیا۔‘‘رام ریاض نے تعجب سے کہا’’برتنوں اور ایک عجیب الخلقت بلند و بالا
اور لمبی گردن والے جانور کے نام کایک جا ہونا سوچ کا انوکھا پہلو سامنے
لاتا ہے ۔بزمِ گلشن میں ایسے نادر واقعات ہمیشہ میری توجہ کا مرکز رہے ہیں
،اس پر تفصیل سے اظہار خیال کریں۔‘‘
پھتا قلعی گر سر کھجاتے ہوئے بولا جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ’’ظروف
زرافہ ‘‘ نا م کی دکان کا مالک فتح خان تھا ۔ظروف کے اس بازار کے ساتھ ہی
شہر کا صرافہ بازار تھا جہاں زیورات کی خرید و فروخت اور نئے زیورات کی
تیاری کا سلسلہ جاری رہتا۔ بشیر پورہ کا یہ قدیم ظروف بازارصدیوں سے برتنوں
کی خرید و فروخت کا اہم تجارتی مر کز تھا۔قدیم زمانے میں شاید سیڑھیوں کا
ستعمال کم تھا اس لیے ظروف کے بڑے بڑے بورے جب بیل گاڑیوں ،رتھ،اونٹ گاڑیوں
یا گدھا گاڑیوں پر لادے یا اتارے جاتے تو قوی الجثہ اور درازقد مزدوروں کا
انتخاب کیا جاتا تھا۔اس بازار میں ظروف کی دکانوں کے مالک اور ان میں کام
کرنے والے مزدور سب کے سب دراز قد اور تنو مند ہوتے تھے۔دراز قد کارکنوں کی
کثرت کی وجہ سے اس بازار کو زرافہ بازار کہا جانے لگا۔ غریب لوگوں کی قدیم
بستی بشیر پورہ کی کچی آبادی میں پتھر کے زما نے کا ما حول تھا ۔ اس بستی
سے کچھ دور ویران کھنڈر ات تھے جن کے گرد بے آب وگیاہ ریگستان تھا ۔ آثار ِ
قدیمہ کے کچھ ماہرین یہ دُور کی کوڑی لائے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں
یہ علاقہ ڈائنوسار اور زرافہ کی نشو و نما کے لیے مشہور تھا۔زرافہ بازار کی
قدیم عمارات کے کھنڈرات کی کھدائی کے دوران ا یسے فوسلز دریافت ہوئے ہیں جن
کی جسامت اور گردن زرافے جیسی ہے ۔اس لیے اس جگہ قائم ظروف بازار کو ’’ظروف
زرافہ ‘‘کے نام سے شہرت ملی ۔
مجھے یہ دلچسپ واقعہ اب بھی یاد ہے جب’’ فتح خان ظروف زرافہ ‘‘میں تلنگانہ
سے تعلق رکھنے ولا ایک سات فٹ لمبا تلنگاملازم رنگو یہاں کام کرتا تھا ۔ہر
معاملے میں ٹانگ اَڑانا اس کا وتیرہ تھا ۔اس زمانے میں لاہور کے چڑیا
گھرمیں ایک عجیب الخلقت جانور ’’زرافہ‘‘ کی آمد کا ہر سُو چرچا تھا۔اپنے
کاروباری معاملات کے سلسلے میں فتح خان ظروف زرافہ کا مالک جلد لاہور روانہ
ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔ایک سو بتیس کلو میٹرکا یہ فاصلہ طے کرنے کے لیے
اس نے اپنے گھوڑے پر زین کس لی اور ہاتھ میں گھوڑے کی باگ تھام کر پاؤں
رکاب میں رکھنے ہی والا تھاکہ اچانک رنگو تلنگا بِن بلایا وہاں آدھمکااور
منت سماجت کرتے ہوئے بولا :
’’میرے آقا! میں نے آج تک لاہور نہیں دیکھا ،لاہور دیکھنے کے لیے میں بہت
بے قرار ہوں،مجھے بھی اپنے ساتھ لاہور لے چلیں ۔‘‘
سب لوگ اسے ایک بد شگونی سمجھ کردم بہ خود اور مضطرب تھے ۔’’ ظروف زرافہ‘‘
دکان کے نوجوان مالک فتح خان نے موقع کی نزاکت اور رنگوکی حماقت کاخیال
کرتے ہوئے بڑے تحمل سے پوچھا :
’’آج تمھارے دِ ل میں سیر وسیاحت کی نئی اُمنگ اور لاہور دیکھنے کی ترنگ
اچانک کیسے پیدا ہو گئی ؟
لالہ دُنی چند بولا’’اس نے کسی سے یہ بات سُن لی ہے کہ جس نے لاہور نہیں
دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔یہ اپنی پیدائش کا یقین کرنے کی خاطر لاہور
دیکھنا چاہتا ہے ۔‘‘
’’یہ جھوٹ بول رہاہے ۔‘‘رنگو نے تلملاتے اور بڑبڑاتے ہوئے کہا ’’میں تو
لاہور کے چڑیا گھر میں آنے والے نئے جانور ’’زرافہ‘‘ کو دیکھنے کے لیے آپ
کے ساتھ لاہور جانا چاہتا ہوں ۔‘‘
ناسو چُھراجو اس لحیم وشحیم دراز قد تلنگے رنگو کی کور مغزی سے تنگ آ چکا
تھا مسکراتے ہوئے بولا ’’تم ناحق لاہور جانے کی زحمت کیوں اُٹھاتے ہو؟خان
صاحب لاہور کے چڑیا گھر میں جا کر زرافے کے سامنے تمھارا کچا چٹھا پیش کریں
گے تو وہ اس قدر خجل ہو گا کہ بے چارا سر پٹ دوڑتا ہوا تمھیں دیکھنے کے لیے
یہاں آ جائے گا اور شرم سے پانی پانی ہو جائے گا۔‘‘
یہ سن کر محفل کشتِ زعفران بن گئی اور رنگو نے چُپ سادھ لی اور وہاں سے نو
دو گیارہ ہو گیا۔
میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ پا نچ سو سال قبل یہاں سر سبز و شاداب
باغات تھے جہاں سر و صنوبر،اثمار و اشجاراور بُور لدے چھتنار کثرت سے پائے
جاتے تھے ۔ہونی کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا اور تقدیر کے چاک کو
سوزنِ تدبیر سے کسی صورت میں بھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔اس علاقے کے لوگوں
نے یہ انہونی دیکھی کہ اس سر سبز و شاداب باغ میں تمام درختوں کی گھنی
شاخوں پر غول در غول اُلّو اور سایہ دار مقامات پر بے شمار اُ لّوکے پٹھے
منڈلاتے رہتے تھے۔ اس بات کا اندیشہ تھا کہ کوئی جان لیوا حادثہ رونما ہونے
والا ہے کیوں کہ گرد و نواح کی زمین بھی دِل کے مانند دھڑکتی محسوس ہوتی
تھی ۔اس بد شگونی کو دیکھ کر حساس لوگ تڑپ اُٹھتے اور بر ملا کہتے :
بربادیٔ گلشن کی خاطربس ایک ہی اُلو کافی تھاّؒو
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجام ِ گلستاں کیا ہو گا
جہاں تازہ بہاریں اور عالم گیر نغمے تھے
اُسی گُلشن میں اُلّو کا بسیر اہوتا جاتا ہے
بزرگوں سے یہ حکایت میں نے سنی ہے کہ1 2۔اپریل 1526کی شام ابراہیم لودھی کی
بزدل افواج کے لیے شامِ الم ثابت ہوئی جب طاؤ س و رباب کی دل دادہ جنسی
جنون میں مبتلا لودھی فوج کو مغل باد شاہ ظہیر الدین بابر کے ہا تھوں ذلت
ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پا نی پت کے میدان کی ہزیمت اور عبرت ناک
فرار نے انھیں اس قدر پا نی پا نی کر دیا کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ
شامِ الم ڈھلی تو درد کی ہوا کے تُند و تیز بگولے چلنے لگے۔ شکست خوردہ اور
بزدل بھگوڑے لودھی اپنی جان بچانے کے لیے پانی پت سے جالندھر کی طرف دوڑے۔
بائیس اپریل 1526 کی صبح دو سو چوراسی کلو میٹرکا یہ سفر بارہ گھنٹے میں سر
پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے طے کرنے کے بعدبے ضمیر،مغرور ،مخمور اور مفرور
لودھی سپاہ نے جالندھر کے نواحی باغ میں اپنے سبز قدم رکھ کر پناہ لی۔لاہور
کے گورنردولت خان لودھی کی دعوت پر حملہ آور ہونے والی مغل سپاہ اور بابر
کا ساتھ دینے والے مقامی سپاہیوں نے اپنے برق رفتار گھوڑوں کی طنابیں کھینچ
لیں اور اپنے گھوڑوں کو سر پٹ دوڑاتے ہوئے ابراہیم لودھی کی شکست خوردہ فوج
کے چیخ چِلّی قماش کے مسخرے سورماؤں کا تعاقب کیا لیکن وہ ان کی گرد کو بھی
نہ پہنچ سکے۔بائیس اپریل 1526کی دو پہر کو جب دولت خان لودھی کے گُھڑ سوار
مسلح دستے جالندھر پہنچے تو انھوں نے اس پورے باغ کا محاصرہ کر لیا جس میں
ابراہیم لودھی کی ٹڈی دل فوج منھ کے بل لیٹی سر کنڈوں میں چُھپی پڑی
تھی۔ابراہیم لودھی کی بزدل فوج کے تیس مار خان یہ دُور کی کوڑی لائے کہ
انھوں نے تعاقب کرنے والوں کی فاتحانہ یلغار کو روکنے کے لیے باغ کے چاروں
طرف اُگے خود روگھنے سر کنڈوں کو آگ لگا دی ۔اپنی نا اہلی، ذہنی افلاس،بد
انتظامی، کور مغزی اور بے بصری کے باعث وہ پہلے ہی فطرت کی سخت تعزیروں کی
زد میں آچکے تھے ،یہ اقدام اس عیاش فوج کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل
ثابت ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی یہ آگ اس قدر پھیلی کہ کچھ بھی باقی نہ
بچا۔ابراہیم لودھی کے وہ ہزاروں نمک حرام اور بزدل محافظ جو پانی پت سے جان
بچا کر فرار ہونے میں کام یاب ہو گئے تھے وہ اپنی بھڑکائی ہوئی آگ میں جل
کر راکھ ہو گئے۔آگ کے شعلے ٹھنڈے ہوئے تو جہاں باغ تھا وہاں ہلاک ہونے والے
بے غیرت ،بے ضمیر اور ننگِ انسانیت لودھی طالع آزما اور مہم جُو موقع
پرستوں کی بد روحیں آسیب بن کر منڈلانے لگیں۔
اس آتش زدگی کے بعدباغ تو اُجڑ گیالیکن کچھ عرصہ بعد اس کی جگہ ہر طرف ایک
گھنا جنگل اُگ آیا جسے دشتِ زبوں کا نام دیا گیا۔اس دشتِ زبوں میں
اژدہا،ناگ ،سانڈے، جنگلی سُور، بُوم ، چغد ، چمگادڑ، بجو ،خارپُشت ،کنڈیالے
چُوہے،گرگٹ، چھپکلیوں، کرگس اور زاغ و زغن کا بسیرا ہو گیا۔ حد نگاہ تک
زقوم ، تھوہر ، کوار گندل،دھتورا، کریروں ، سُنج آونا، حنظل ، پُٹھ کنڈا،
ہر مل،لانی، لیدھا، اُکانہہ ،اکڑا، پوہلی ، سر کنڈوں،جوانہہ ،کسکوٹا،
لئیاں، پیلوں،کانگیہاری،اور لیہہ کی فراوانی تھی ۔ ان خود رو بُوٹیوں میں
بے شمار ،اژدہا ، سانپ اور سانپ تلے کے بچھو، عقر ب اور ان کے اقارب نے
پناہ لے رکھی تھی ۔اس دشتِ زبوں کو آسیب زدہ خیال کرتے ہوئے کوئی اس طرف کا
رُخ نہ کرتا۔ یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ اس خوف ناک دشت ِزبوں میں بد
معاشوں کے ہیولے ،چڑیلوں،بھوتوں،آدم خوروں،ڈائنوں،سر کٹے مُردوں،پچھل
پیریوں،آسیبوں،ابلیس نژاد درندوں،خون آشام بھیڑیوں اور پُر اسرار مخلوق نے
بڑی تعداد میں مستقل طور پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔دشتِ زبوں میں جنگلی حیات کی
افزائشِ نسل کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا ۔اس کے بعد اس کی شہرت پوری
دنیا میں پھیل گئی کہ یہاں نادر و نایاب نسل کے بوم اور چغد بڑی تعداد میں
پائے جاتے ہیں۔دنیابھر کے سیاح اس علاقے میں پہنچ گئے اور خوار و زبوں چڑی
ماروں نے بھی اپنے کاروبار کووسعت دینے کی غرض سے دشتِ زبوں کا رخ کیا۔
’’ دولت لودھی تو خوارزم شاہ ثابت ہوا جس نے چنگیز خان کو بغداد پر دھاوا
بولنے کی دعوت دی تھی۔‘‘ مظفر نے کہا’’دولت لودھی کی کور مغزی کا یہ عالم
تھا کہ یہ اسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر یہ سبز قدم خود بیٹھا تھا۔یہ جس
تھالی میں کھاتا تھا اسی میں چھید کرتا تھا۔یہ اسی بُو ر لدے چھتنارکی جڑیں
کھوکھلی کرنے میں مصروف تھا جس کے سائے میں یہ متفنی مُردو ں کے ساتھ شرط
باندھ کر سونے کا عادی تھا۔‘‘
حاجی محمدیوسف نے کہا’’یہی تو تاریخ ہے جو ہر دور میں اپنے آ پ کو دہراتی
ہے۔تاریخ کا ایک ہی مستقل سبق ہے کہ آج تک کسی کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی
سرے سے توفیق ہی نہیں ہوئی۔کوئی ایسا اہلِ دِل کبھی پیدا نہیں ہوا جو تاریخ
کے سبق کو ازبر کر کے اپنے لیے مثبت لائحۂ عمل منتخب کرے تا کہ تاریخ اس کے
عزائم کو زیر و زبر نہ کر دے۔‘‘
غلام علی چین نے آہ بھر کر کہا ’’پرِ زمانہ تو پروازِ نُور سے کہیں بڑھ کر
برق رفتار ہے۔جاہ و منصب اور زرو مال کی اندھی ہوس انسان کو کردار سے عاری
کر دیتی ہے۔اپنے سر پر سایہ فگن اشجارِ سایہ دار پر آری چلانے وا لے سفلگی
کی ان حدوں کو چُھو لیتے ہیں جہاں محسن کُشی،نمک حرامی،موقع پرستی اور
سادیت پسندی ان کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔دولت خان لودھی نے اپنی باطنی
خباثت کی وجہ سے مطلق العنان آمر بننے کا جو خواب دیکھا تھا وہ شر مندۂ
تعبیر نہ ہو سکااور مغلوں نے بر صغیر میں اپنی مستقل حکومت کی بنیاد رکھ
کراس طالع آزما اور مہم جُو غدار کی ساری بساط ہی اُلٹ دی۔سیلِ زماں کے
تھپیڑوں میں اس نا ہنجار کے سارے شیطانی منصوبے خس و خاشاک کی طرح بہہ
گئے۔اس کے بعد وہ خود بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔‘‘
پھتا قلعی گر ’’آپ سب کی رائے سے مجھے اتفاق ہے۔مادرِ وطن کے خلاف جو بھی
سازش کرتا ہے وہ اپنے لیے مرگِ نا گہانی کو دعوت دیتا ہے۔جب لودھی خاندان
نے شراب و شباب اور طاؤس و رباب سے ناتہ جوڑ لیا اور مجبوروں کے چام کے دام
چلائے تو شمشیر زن مغلوں نے ان عیاش درندوں کا مقدر اور سر پھوڑ دیا۔‘‘
اﷲ دتہ حجام سب باتیں توجہ سے سن رہا تھا ۔اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر
کہا’’اپنی تجوری بھرنے والے اور مال بنانے والے حاکم رعایا کے حال سے بے
خبر رہتے ہیں۔تغلق ،لودھی ،مغل یا کوئی اور آمر ہو سب کے سب اپنی باری بھر
کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ہر دور میں فاقہ کش غریبوں ،بے سروسامان فقیروں ،جبر
کے پاٹوں میں پسنے والے مزدوروں ،تباہ حال محنت کشوں اور الم نصیب دہقانوں
کے حالات جو ں کے توں رہتے ہیں۔ساری دنیا بدل سکتی ہے لیکن غم زدوں کے حال
میں کبھی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔اب تم اپنی سر گزشت سناؤ ،اس میں بڑا تجسس
ہے۔تمھاری روداد میں نالہ ،فریاد ،آہ اور زاری سب شیر و شکر ہو گئے ہیں۔تم
تو گزشتہ صدی کی تاریخ کے چشم دید گواہ ہو ۔ہمیں اپنی زندگی کے یہ سبق آموز
واقعات سناؤ۔‘‘
پھتا قلعی گر بولا ’’ لکھنٔو کانخاس بازار اس لحاظ سے بہت مشہورہے کہ اس
بازار میں چڑی ماروں کا کاروبار عروج پر ہے ۔نخاس بازار لکھنٔو طیور اور
جنگلی حیات کے تنوع کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اگرچہ اس بازار میں فوڈ
سٹریٹ بھی قائم ہے لیکن چڑی ماروں کی کہانیاں صدیوں کی تاریخ کا ایک ور ق
اور عبرت کا ایک سبق ہیں ۔نخاس بازار کے چڑی ماروں نے بھی دشتِ زبوں میں
اپنی قسمت آزمائی کافیصلہ کیا۔ وہ اس قدر دانا تھے دانہ دانہ جمع کر کے
خرمن بنانے کا ڈھب جانتے تھے ۔دشتِ زبوں سے پکڑے جانے والے اُلّوقریہ قریہ
،بستی بستی اور شہروں میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔ان اُلّوؤں کی مانگ مسلسل
بڑھنے لگی اور شکاری بڑے بڑے جال لے کر یہاں آنے لگے۔دشتِ زبوں میں جنگلی
حیات کی فراوانی سے بہت سے چڑی ماروں کا دانہ پانی چلتا تھا۔لکھنو کے نخاس
بازار کے چڑی مار بڑی تعداد میں یہاں سے اُلّو پکڑکر لے جاتے اور نہ صرف
اندرونِ ملک بل کہ دساور کو بھی یہی اُلّو بھجوائے جاتے تھے۔اس شکار سے
نخاس بازار کے اُلّو شناس چڑی ماروں کے وارے نیارے ہو گئے اور اُلّو کی
فروخت سے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ جلد ہی لکھنٔو کا نخاس بازار
اُلّو کی خرید و فروخت کا اہم ترین تجارتی مرکز بن گیا ۔ بر صغیر کے جن بڑے
شہروں میں یہ اُلّو فراہم کیے جاتے تھے ان میں دہلی ،
پونہ،بنارس،ممبئی،کالی کٹ ،بجنور،مدراس،کولکتہ،آگرہ،میسور ،شملہ،کان پور
،بنگلور،جودھ پور اور پٹنہ قابلِ ذکر ہیں۔توہم پرست لوگوں میں بات مشہور
تھی کہ لکشمی دیوی کی پسندیدہ سوار اُلّو ہی ہے ۔جب بھی لکشمی دیوی کسی پر
مہربان ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ اُلّو کے پروں پر سوار ہو کر اُڑان بھرتی ہوئی
درد مندوں کے درِ عسرت پرپہنچتی ہے۔لکشمی دیوی کا خیال ہے کہ اُلّو کی مثال
ایک تارک الدنیا سادھو طائر کی ہے جو اس عالمِ آب و گِل کی عفونت ،سڑاند
اور آلائشوں کو دیکھنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہے۔یہ ظلم بیزاراور مردم
آزارمنحوس اور کریہہ شکل و صورت والا پرندہ افراد کے باہم جُوتم پیزار کے
لرزہ خیز اور اعصاب شکن مناظر دیکھنے کے بجائے کسی دیمک خوردہ منہدم نخل کے
تنے کی کھوہ میں اپنے دل کے ارماں بند آنکھوں میں نہاں کیے تصور جاناں میں
کھویا رہتا ہے۔جس وقت سب جگ سو جاتا ہے تو یہ گوشہ نشین طائر جسے بھیانک
اور تاریک راتوں کا عقاب کہا جاتا ہے باہر نکلتا ہے اور چمگادڑوں اور کال
کڑِ چھی پر جھپٹنے ،پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کی مشقِ ستم کا آغاز کرکے کثیف
فضا میں اپنی حکمت،حقیقت ،حیثیت ،مطلق العنان حکومت اور اوقات کا اس طرح
سکہ بٹھادیتا ہے کہ دیکھنے والوں کا دِل بیٹھ جاتا ہے۔
’’ دشتِ زبوں،نخاس بازار اور اُلّو کا احوال اس قدر تفصیل سے بیان ہو چُکا
ہے کہ اب طبیعت اس سے اُکتا سی گئی ہے ۔‘‘اﷲ دتہ سٹینو نے کہا’’ہم تواس وقت
تمھاری آپ بیتی سننے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ تم اپنی
زندگی کے مہ و سال کے سب وبال بیان کرو تا کہ ہم یہ سمجھ جائیں کہ تم پر
کیا گزری ؟‘‘
’’اُلّو کی باتیں جاری رکھیں یہ باتیں تو میرے دِل کو لگتی ہیں۔‘‘غلام علی
چین نے کہا’’اس دنیا میں اُلّو کم نہیں ،ایک کی تلاش میں نکلو تو راستے میں
ایک سو ایک مہا اُلّو ہمارا منھ چڑاتے اور دندناتے ہوئے دکھائی دیں گے۔یہ
بد نما طائر تو اس قدر پُر اسرار ہے کہ ہر شخص اس سے بیزار ہے اس کے
باوجوددولت کے پُجاریوں کو اس کی آشیر باد حاصل کرنے پر اصرار ہے۔‘‘
’’کبھی کبھی تو میرے اہلِ خانہ کابھی یہی جی چاہتا ہے کہ وہ بھی ایک بہت
بڑااُلّو پال کر اور اس کی خدمت کر کے لکشمی دیوی کو راضی کریں۔‘‘ناصف بقال
نے کہا ’’نا معلوم کیا سبب ہے کہ جب بھی کسی محفل میں اُلّو کا ذکر چھڑتا
ہے سب لوگ مجھے غور سے دیکھنے لگتے ہیں۔میری اُلّو شناسی کا ایک عالم معترف
ہے ۔زمانہ طالب علمی میں میرے اساتذہ مجھے اُلّو کہہ کر پُکارتے تھے۔کانوں
میں رس گھولنے والی اس آواز کی باز گشت اب بھی میں سُن سکتا ہوں ۔آج کی
محفل میں اُلّو کی باتیں سُن کر دِل کی کلی کِھل اُٹھی ہے۔میں ہر اُلّو کو
اپنا ہم مشرب و ہم راز سمجھتا ہوں ۔اس عجیب الخلقت طائر کے بارے میں بیان
جاری رکھا جائے۔‘‘
’’تمھاری موجودگی میں تمھارے اہلِ خانہ کو کسی مزید اُلّو کے پالنے کے
جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘امیر اختر بھٹی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’سچ تو یہ ہے کہ دشتِ زبوں اور نخاس بازار تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب
متوجہ کر رہے ہیں ۔میاں پھتا!اب تم اپنی آپ بیتی سناؤ،فلک ِ کج رفتار کی
گردش بھلا کسے چین سے بیٹھنے دیتی ہے۔یہ دم غنیمت ہے کہ ہم سب تمھاری سر
گزشت سننے کے لیے یہاں مِل بیٹھے ہیں۔ اب تم بلا روک ٹوک ہم سے جی بھر کر
باتیں کرو ۔تم اپنی زندگی کے ایک سو چھے برس کی بہاراور خزاں کے سب مناظر
دیکھ چُکے ہو۔اب جلدی سے اپنی داستانِ حیات کے باقی اوراق پر روشنی ڈالو
۔‘‘
’’اگر اس دیار میں تم جیسے لوگ میری زبان سمجھنے کی کوشش نہ کرتے تو میری
داستانِ حیات میرے دِل میں نا گفتہ ہی رہ جاتی ۔‘‘پھتا قلعی گر آہ بھر کر
بولا ’’یہ 1942کا واقعہ ہے کہ آسُو اور زادو نام کے دو سفاک چڑی ماروں نے
لکھنٔو کے نخاس بازار میں جنگلی حیات اور طیور کے کاروبار میں خوب زرو مال
کمایا۔یہ بد اندیش جہاں جاتے وہاں ہر سُو ذلت،تخریب ،نحوست ،بے برکتی ،بے
توفیقی ،بے ضمیری اور بے غیرتی کے کتبے آویزاں ہو جاتے۔نخاس بازار لکھنٔو
سے ملحق ان کا ایک وسیع محبس تھا جس میں بے شمار طیور اور جنگلی جانور بند
تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان درندوں نے چنڈو خانہ،قحبہ خانہ،قمار خانہ اور عقوبت
خانہ بھی بنا رکھا تھا ۔ اُلّو کے شکار میں انھیں بہت مہارت حاصل تھی ۔یہ
دیمک خوردہ درختوں کے تنوں کی کھوہ میں یخ بستہ پانی انڈیلتے تو سردی سے
ٹھٹھرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے قسمت کے مارے،جان ہار سب اُلو باہر نکل آتے
اور یہ انھیں دبوچ کر بڑی بے دردی سے اپنے بوسیدہ سے جال میں پھینک دیتے
تھے۔ان کے پنجروں میں سیکڑوں اُلو قید تھے جو سسک سسک کر زندگی کے دِن پورے
کر رہے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ آسو اور زادو زنگ ،بد بو ،خست و خجالت اور عیاری
اور مکاری کے سب استعاروں کا مخزن تھے۔ّؒو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے یہ ہر
گاہک کو چُلّو میں اُلّو بنا کر اس سے ساری جمع پُونجی اینٹھ لیتے تھے۔
اپنی چکنی چپڑی باتوں سے یہ دونوں حریص اور چرب زبان چڑی مار ہر گاہک کو
چُلو میں اُلو بنا لیتے اور ان کی تمام جمع پونجی اینٹھ لیتے تھے۔لکشمی
دیوی کے عقیدت مند اکثر ان کے پاس آتے اوراُلوخرید کرانھیں کھلی فضا میں
آزاد کراتے تا کہ ان کی مالی مشکلات دُور ہوں اور ان کے پاس بھی دولت کی
ریل پیل ہو ۔
انہی دنوں کالی کٹ کا ایک خسیس بنیا بنسی لال نخاس بازار لکھنٔو میں آسو
چڑی مار کے پاس پہنچا ۔آسو خوب جانتا تھا کہ عملی زندگی میں بنسی لال کا
ایک ہی اصول تھا کہ چمڑی جائے لیکن دمڑی ہر گز نہ جائے۔ وہ لکشمی دیوی کی
خوشی کی خاطر ایک اُلو خرید کر اُسے رہا کرانے کی تمنا دل میں لیے یہاں
پہنچا تھا۔سب سے پہلے اس نے ایک سال خوردہ ،فربہ اور بہت بڑے اُلو کی قیمت
پوچھی۔
’’یہ موٹا تازہ اور بوڑھا اُلو تمھیں پانچ سو روپے میں مِل جائے گا ۔‘‘آسو
نے کہا
بنسی لال کی جان میں جان آئی اب اس نے ایک بہت ہی چھوٹے ،لاغر اور ناتواں
اُلو کی طر ف اشارہ کیا جس نے ابھی آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں ۔’’اس بے حد
چھوٹے سے اُلو کی کیا قیمت ہے ؟‘‘
’’ہا ہا ہا !خوب پسند کیا تم نے ،تم ایک جہاں دیدہ اور کہنہ مشق کاروباری
بنیے ہو ۔‘‘آسو نے شیطانی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ یہ حسین انتخاب تمھارے
ذوقِ سلیم کا منھ بو لتا ثبوت ہے اس چھوٹے اُلو کی قیمت پندرہ سو روپے ہے
۔‘‘
’’توبہ توبہ !تم ہوش میں تو ہو؟‘‘بنسی لال نے جِھلّا کر کہا’’بڑے اور دو
کلو وزنی اُلو کی قیمت تو صرف پانچ سو روپے ہے جب کہ بہت چھوٹے سے چھٹانک
بھر اُلو کی قیمت اس سے تین گُنا زیادہ ہے۔یہ کیا ظلم ڈھا رہے ہو ؟‘‘
آسو نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’بوڑھا اُلو چراغِ سحر ،پانی کا بلبلہ اور
محض کوئی دم کا مہمان اُلو ہے۔یہ آج مرا کل دوسرا دن جب کہ چھوٹا چغد اُلو
کا پٹھا ہے۔یہ آئندہ کئی عشروں تک رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،آبادیاں پُر خطر
،خوش حال بستیوں کو کھنڈر، گزر گاہوں کو خوں میں تر، زندگیاں مختصر ،گھروں
کے مکینوں کو در بہ دراور آہیں بے اثر کرتا رہے گا ۔اس چھوٹے چغد کو بیگانہ
وار نہ دیکھو بل کہ یہی تو دیکھنے کا طائر ہے اسے بار بار دیکھو کہ آنے
والا دور اسی کا ہے۔ اس کی خجالت، خست ،خباثت ،نحوست اور نجاست کا عرصہ بہت
طویل ہے اس لیے اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ اگرتم یہ کم سِن اور خارِ نو
دمیدہ چغد خرید لوتویہ آئندہ سو سال تک لکشمی دیوی کو خوش رکھے گا اور
تمھاری آنے والی نسلیں تمھاری اس دور اندیشی کی داد دیں گی۔انھیں چپر پھاڑ
کر دولت ملے گی اور ان کے ہاں ہُن بر ستا رہے گا۔‘‘
یہ سننا تھا کہ بنسی لال کی باچھیں کِھل گئیں اوراُس نے وہ چغد پندر ہ سو
روپے میں خرید لیا اور ہنومان جی کا نام لے کر اسے کھلی فضا میں چھوڑ کر سر
جھکا کر چپکے سے گھر کی راہ لی ۔اگلے ہی لمحے وہ چغد آسو کے ٹکڑوں پر پلنے
والے چھوکروں نے پکڑ لیا اور اسے پھر سے آسو کے جال میں لا پھینکا۔ نخاس
بازار کے چڑی ماروں کے ہاں طیور کی اسیری اوررہائی کا یہ سلسلہ کبھی ختم
نہیں ہوتاتھا۔
جالندھر میں فتح خان برتن فروش کی دکان کے ساتھ ہی ایک دکان میں گوالیا ر
سے ٹلا عطائی اپنا مطب کھول کر آ بیٹھا۔اس کا علاج معالجہ بھی زیادہ تر
ٹونے ٹوٹکے پر مبنی تھا۔ٹلا عطائی بھی اُلو کے نام پر اپنا مطب چلاتا تھا
۔یہ عطائی جس بیماری کا نسخہ بھی لکھتا اس میں اُلو ایک لازمی جزو ہوتا تھا
۔ جب بھی کوئی مریض ٹلا دواخانے میں آتا سب سے پہلے تو ٹلا عطائی مریض کے
فسد کا قصد کرتا۔اس کے بعداپنی اُلو شناسی کی دھاک بٹھانے کی غرض سے وہی
ڈھاک کے تین پات والی عرض ِحال سامنے آتی۔اگلا مر حلہ مسہل کا آتا اس کے
لیے مریض کو املتاس کا بے دریغ استعمال کرایا جاتا۔مریض کے جسم کے سُوجے
ہوئے حصے پر جونکیں چمٹائی جاتیں جو نحیف و نزار مریض کا سارا خون چُوس
لیتیں اس کے بعدباقی جو خون بچ جاتا وہ ٹلا عطائی نچوڑ لیتا تھا ۔ٹلا عطائی
اپنے دواخانے میں جو مختلف دوا ئیں استعمال کرتاان میں ہر دوا میں اُلو بڑے
جزو کی صورت میں شامل ہوتا تھا۔اس عطائی کے سفوف اور محلول کو دیکھتے ہی
طبیعت بوجھل ہو جاتی اور متلی آنے لگتی۔حیران کُن بات یہ تھی کہ یہ جاہل
اپنی جہالت کے باوجود مقبول تھا اور اس کا مطب ہر وقت مریضوں سے کھچا کھچ
بھرا رہتا۔ اس کے چبائے ہوئے نوالے چبانے والے اور اس کے بچے کھچے ٹکڑوں پر
پلنے والے اس کے چیلے کفن پھاڑ کر یہی راگ الاپتے کہ اب تو یہی ذوقِ ہر جسد
ہوگا اور ہر علیل کی زباں پر چغد چغدہو گا۔اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی
بات یہ تھی کہ اس کے بیش تر نسخے تیر بہ ہدف ثابت ہوتے۔ان نسخوں کے استعمال
سے مرض یا مریض دونوں میں سے کسی ایک کا جانا ٹھہر جاتا تھا۔
’’اُلو شناس ٹلا عطائی کس قسم کے نسخے استعمال کرتا تھا ؟‘‘ حکیم احمد بخش
نذیر نے تعجب سے پوچھا ’’طب کے ہر نسخے میں ٹلا عطائی اُلو کس طرح شامل کر
لیتا تھا ؟یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔ظاہر ہے اس کا واسطہ مہا اُلوؤ
ں سے پڑتا تھا ۔ذرا ٹلا عطائی کے نسخوں کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔‘‘
’’ہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ ٹلا عطائی سادہ لوح لوگوں کو اُلو بنانے میں
کس طرح کام یاب ہو جاتا تھا۔‘‘رانا سلطان محمود نے فکر مندی سے کہا’’کیا
پورا معاشرہ بے حسی کاشکار ہو گیا تھا؟کیا ٹلا عطائی کو لگام ڈالنے والا
کوئی نہ تھا۔ایسے بُزِ اخفش کا علاج تو سخت کفش کی مار ہی سے ممکن تھا۔‘‘
’’سچ ہے مسلسل شکستِ دِل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلانے
لگتا ہے۔‘‘پھتا قلعی گر کہنے لگا’’بات ہورہی تھی ٹلا عطائی کی اُلو شناسی
اور ٹونے ٹوٹکوں کی تو یہ بات ہر شخص کی زبان پر تھی کہ ٹلا عطائی اپنی
اُلو شناسی سے ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔وہ اُلو کی
آنکھیں نکال کر انھیں بر گد کی چھاؤں میں خشک کرتاپھر اُلو کی آنکھ کے ان
خشک ڈیلوں کو سنگِ مر مر کے ہاون میں ڈال کر صندل کے دستے سے پیس کر ایک
کاجل بناتا تھا۔یہ کاجل اگر عاشقِ نا مرا د اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں
لگاتاتو یاس و حرماں نصیبی کے بادل چھٹ جاتے اور محبوب کچے دھاگے سے کھنچا
چلا آتا۔اُلو کی آنکھ کا کاجل مہنگے داموں خریدنے والوں کی دانائی توچلی
جاتی لیکن بینائی اس قدر بڑھ جاتی کہ انھیں دن میں تارے دکھائی دیتے اوران
کے مقدر کی طرح گھپ اندھیری رات میں تنگ و تاریک کمرے میں وہ کالی بلی بھی
نظر آجاتی جوکمرے میں موجود بھی نہ ہوتی۔ بے شمارمائیں اپنے شیر خوار بچوں
کو ٹلا دواخانے میں لاتیں ۔بچوں کی ماؤں کو یہ شبہ ہوتا تھا کہ ان کے نورِ
نظر،لختِ جگر جب کینہ پرور حاسدوں کی چشمِ بد کی زد میں آجاتے ہیں تو
انتہائی لاغر و ناتواں ہو جاتے ہیں۔اپنے بچوں کی چشم کا زار رونا ماؤں سے
کب دیکھا جاتا ہے۔ان پریشان حال ماؤں کو ٹلا عطائی اُلو کے دو ناخن دیتا جن
پر اس نے کوئی سفلی عمل یا جادو کیا ہوتا تھا،ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کرتا کہ
اُلو کے یہ ناخن چاندی کی تختی میں بند کرا کے بچوں کے گلے میں ڈال دئیے
جائیں ۔اس طرح بچے نہ صرف چشمِ بد کے مسموم اثرات سے محفوظ رہیں گے بل کہ
ان کا مستقبل بھی روشن ہو جائے گا۔اُلو کا ایک ناخن ایک اشرفی کے مول بِک
جاتا ۔بے اولاد خواتین کو ٹلا عطائی اُلو کا گوشت کھلاتا،وہ عورتیں جن کا
پاؤں بھاری ہوتا ان کے ٹخنے پرالو کی آنت باندھتا،لڑکوں اور نوجوانوں کو ہر
قسم کے خوف اور اضطراب سے نجات دلانے کے لیے وہ انھیں اُلو کا دِل اور جگر
کھلاتا۔کسی خطرناک مہم پر روانہ ہونے والوں کو وہ اُلو کا خشک گوشت ہمہ وقت
ساتھ رکھنے کے لیے دیتا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ اُلو کے گوشت کی پیپل کے
پرانے درخت کی چھاؤں میں خشک کی گئی بوٹی چاندی کی تختی میں بند کر کے کالے
دھاگے سے باندھ کر گلے میں لٹکانے سے عرصے سے انتظار کی سولی پر لٹکے
معاملات پلک جھپکتے میں حسب منشا سلجھ جاتے ہیں۔اُلو کے پروں پر بھی وہ
جنتر منتر پڑھتا اور سفلی علوم اور کالے جادو کے توڑ کے لیے اُلو کے پر
تھما کرسیم و زر بٹو رلیتا ۔کئی بنیے ،بقال ،بھڑوے ،منشیات فروش اور سمگلر
اس کے پاس آتے اور اُلو کے یہ پر بھاری معاوضہ دے کر خرید لیتے ۔ اُلو کے
پروں کے ان خریداروں نے یہ بے پر کی اڑا رکھی تھی کہ کاروباری بہی کھاتوں
اور حساب کتاب کے روزنامچوں میں ٹلا عطائی کے دئیے ہوئے اُلو کے پر رکھنے
سے کاروبارمیں وسعت پیدا ہوتی ہے اور ہر سودے میں کثیر منافع حاصل ہوتا
ہے۔اُلو کی چونچ کا سفوف کھلا کر وہ گفتگو میں لکنت کے شکار مریضوں کا علاج
کرتا تھا ۔ ہر جائی اور پیمان شکن حسینائیں اپنی چرب زبانی کی تاثیر میں
اضافے کی خاطر ٹلا عطائی سے اُلو کی زبان پر منتر پڑھا کر اس کو بھون کر
کھاتیں اور طوفِ جام کرتے اپنے کو رمغز متوالوں کواپنی رسیلی اور میٹھی
باتوں سے رام کرتیں۔ ٹلا عطائی اُلو کا خون کالے جادو اور کئی سفلی علوم
میں استعمال کرتا تھا۔ٹیڑھی ہڈیوں والے مریضوں کو ٹلا عطائی ایک ایسا سفوف
کھلاتا جو اُلو کی ہڈیاں پیس کر بنایا گیا تھا ۔یہاں تک کہ ٹلا عطائی اپنے
مکر کی چالوں سے عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے نودولتیے مریضوں کو اُلو
کا فضلہ تک کھلا دیتاتھااور ان کے کالے دھن اور فاضل کمائی سے اپنی تجوری
بھر لیتا تھا۔‘‘
’’اب بس بھی کرو ،مجھے متلی ہونے لگی ہے ۔‘‘اﷲ دتہ حجام بولا ’’جس معاشرے
میں شرح خواندگی شرم ناک حد تک کم ہو وہاں اس قسم کی اذیت ناک جہالت بھی
ایک خطر ناک مسلک کا روپ دھار لیتی ہے ۔اندھی عقیدت ہمیشہ بصیرت کو نگل
لیتی ہے ۔‘‘
’’ٹلا عطائی بلا شبہ ایک عیار اور مکار درندہ تھا جو مجبوروں سے رقم ہتھیا
کرپیٹ بھر کر نان خطائی کھاتا اور خوب گلچھرے اڑاتا تھا ۔‘‘ مرزا وریا م نے
کہا’’اس نے مکر کی اور کن چالوں سے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔ایسے
لوگوں کے قبیح کردار سے آگہی ضروری ہے ۔‘‘
پھتا قلعی گر کہنے لگا’’ٹلا عطائی جڑی بو ٹیوں،تیزابوں،دھاتوں،گلے سڑے
پھلوں اور منشیات کے ملغوبے سے کئی قسم کے کشتے تیار کرتا۔بیماروں کو اپنے
کشتے کھلا کر اس عطائی نے کشتوں کے پشتے لگا دئیے مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا
۔شہوانی اورحیوانی جذبات کے کشتہ جنونی عیاش امرا اس کے گِرد دیوانہ وار
جمع ہوجاتے خود بھی ڈوبتے اور مستانہ واراپنا سرمایہ بھی ڈبو دیتے تھے۔ٹلا
عطائی ان جنسی جنونیوں کی نا توانی کے سب پوشیدہ راز جانتا تھااس لیے سب سے
پہلے تو مسہل کے ذریعے نہ صرف ان کا معدہ صاف کرتا بل کہ ان کے گھر کا
صفایا بھی کر دیتا تھا ۔ٹلا عطائی ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتاتھاوہ خو
دکو عملیات کابہت بڑا ماہر ظاہر کرتااوردعویٰ کرتا کہ اس نے بے شمار
موکل،ہم زاد،بھوت ،آدم خور،بد روحیں،چڑیلیں،ڈائنیں،پریاں،پچھل پیریاں،سر
کٹے اور نکٹے مر حوم بد معاش اور مافوق الفطرت عناصر کے ہجوم کو اپنا تابع
بنا رکھا ہے۔اس کے چیلے اسے اپنے عہد کا سب سے بڑا رمال،نجومی،معالج،جو
تشی،قیافہ شناس،جادو گر،فلک شناس،مہندس اور جنم پتری نکالنے والا قرار دیتے
تھے۔یہ ابلہ سفید جھوٹ بول کر کالے جادو کا اثر زائل کرنے کا دعویٰ کرتا۔اس
کے پاس ہر وقت دیوانے غرض مندوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔غریب انتہائے
سادگی کے باعث اس سے مات کھا جاتے مگر یہ اپنی جعل سازی سے سادہ لوح لوگوں
کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف رہتا تھا۔ٹلا عطائی ایک ایسا بھڑوا تھا
س نے کالا دھن کمانے کے لیے تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے اور مکر کی
انتہا کر دی ۔ٹلا دواخانے کے عقب میں اس موذی درندے نے جو قحبہ خانہ کھول
رکھا تھا اس میں اس کی رسوائے زمانہ داشتائیں ظلی،صبی،کنزی،روبی اور شعاع
نے خرچی بٹورنے کے لیے رجلے خجلے عیاشوں کو خجل کرنے کا دھندہ شروع کر رکھا
تھا۔ٹلا عطائی گوالیار کا ڈُوم تھا اور اس کی داشتائیں اس کی قریبی رشتہ
دار اور بدنام جسم فروش ڈومنیاں تھیں ۔یہ ڈُومنیاں بندِ قبا سے بے نیاز
ہروقت رقص و سرود کی محفلوں میں مگن رہتیں۔ایک شام کثرتِ مے نوشی اور بسیار
خوری کے باعث ٹلا عطائی سخت بیمار ہو گیا۔ایک تو عالمِ پیری کا ضعف بے حد
بڑھ چکا تھا دوسرے بیماری میں اسہال اور قے کی شدت سے نڈھال ٹلا عطائی نیم
جان حالت میں اپنے قحبہ خانے سے ملحق کمرے میں لیٹا تھا۔ وہ موت کے اٹل
پیغام کی معنی آفرینی اور ہمہ گیری کو سمجھ چکا تھا ۔ساری رقاصائیں
،طوائفیں اور سازندے ہوس ،حرص اور بے چینی کے ملے جُلے جذبات دِل میں لیے
اپنے گُرو کے گرد جمع ہو گئے تا کہ ٹلا عطائی کی وصیّت سن سکیں اور اس کی
میراث اور جائداد میں سے اپنا حصہ وصول کر سکیں ۔ایک حسرت بھری نگاہ سے ٹلا
عطائی دیوار و درکو دیکھ رہا تھا ۔اچانک اس کے لب ہلے اور اس نے سب سے
مخاطب ہو کر کہا :
’’ آہ !میرا دمِ آخریں بر سرِ راہ ہے ۔کیا اس لمحے میرے سب عزیز اور متعلقہ
قریبی رشتہ دار یہاں میرے کمرے میں پہنچ گئے ہیں ؟‘‘
’’اس وقت جتنے لوگ بھی اس قحبہ خانے میں موجود تھے تمھارے گرد اکٹھے ہیں
۔‘‘ ظلی نے آہ بھر کر کہا ’’ ہم سخت پریشانی اور اضطراب کے عالم میں ہیں جو
کچھ تم کہو گے اس کی تعمیل ہو گی ۔تمھاری وصیّت کا ہم سب کو شدت سے انتظار
ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ تم اپنی جا ئداد سب رشتہ داروں میں مساوی تقسیم کر دو
گے۔اس وقت سب احباب یہاں اکٹھے ہو کر تمھاری وصیّت سننے کے لیے بے تاب
ہیں۔‘‘
’’ اگر سب لوگ یہاں جمع ہیں تو ساتھ والے کمرے میں ایک بلب کیوں روشن ہے
؟اسے فوراً گُل کر دیا جائے اور فضول خرچی بند کی جائے ۔‘‘
سب عزیز ٹلا عطائی کی اس نصیحت پر اش اش کر اُٹھے اور اسی وقت ساتھ والے
کمرے کا واحدبلب بھی بجھا دیا گیا۔پورا قحبہ خانہ جب جان لیوا سکوت اور
بھیانک تیرگی میں ڈوب گیا تو ٹلا عطائی اپنی بُوم جیسی آنکھیں گھماتے ہوئے
اداس بام اور کھلے در کو دیکھنے لگا۔تاریکی میں ٹلا عطائی کھلکھلا کر ہنسنے
لگا۔
’’ میں شِپرانہ خُو رکھتا ہوں،آہ تمھیں کیا معلوم کہ شپرانہ خُو کیا ہوتی
ہے ! میری نس نس میں چمگادڑ کی فطرت رچ بس گئی ہے ۔میں اس تاریک عمارت میں
اپنی موت کی آہٹ سُن رہا ہوں ۔‘‘ٹلا عطائی مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے
سب عزیز وں سے مخاطب ہوا’’میں حیران ہوں تمھارا جنوں اب تک فارغ کیوں بیٹھا
ہے ؟اجل کا پروانہ لیے جو مہمان میرے پاس آ رہا ہے اسے اپنے رقص ،سُر ،لے
اور آہنگ کے ذریعے خوش آمدید کہنا ضروری ہے ۔ ہم گوالیار کے پیشہ ور ڈُوم
اپنی خُو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ساز،گیت اوررقص تو ہماری گُھٹی میں شامل ہے
۔ساز سنبھالو اور پاؤں میں گھنگرو باندھ کر رقص کرتے ہوئے مجھے بدھائی دے
کر ہمیشہ کے لیے وداع کر و۔اب کے ہماری یہ جدائی ایسی ہے جس کے بعد ملنا
محض خوابوں تک محدود ہو جائے گا ۔تم مجھے ایسے دیکھو گے جیسے کسی پھول کی
خشک اور سوکھی ہو ئی کرم خوردہ پتیاں کسی بوسیدہ کتا ب کے اوراقِ پارینہ
میں مسلی اور کُچلی ہوئی پائی جاتی ہیں ۔ تم اس وقت میری وصیّت سننے کے لیے
بے چین ہو مگرمیں ساز کی لے سننے اوررقص دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ سب طوائفوں ،رقاصاؤں اور سازندوں نے اپنے فن کے جو ہر
دکھائے اور کمرہ رقصِ مے اور ساز کی تیز اور بلند آہنگ لے سے گونج
اُٹھا۔ظلی نے تان اُڑائی:
’’چن سجناں وے نیڑے نیڑے ہو
مُند جان اکھیاں توں پرانہہ نہ کھلو‘‘
ترجمہ:
ٹُلا کے مہمان اُس کے قریب جاکر رازِ دِل کہنا
خواہ مُند جائیں اُس کی دو آنکھیں دُور نہ رہنا
اچانک ٹلا عطائی کا نحیف و نزار جسم عفونت زدہ بستر پر اُچھلنے لگا۔اس کا
جسم بستر سے ایک فٹ اوپر اچھلتا پھر پوری قوت سے بستر پر آ گرتا ۔اسی دوران
ٹلا عطائی اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں ٹانگیں زور زور سے ہلانے اور پٹخنے
لگا۔سب ڈُوم اور ڈُومنیاں خوشی سے پُھولے نہ سمائے کہ ٹلا عطائی اُچھل
اُچھل کر ان کے فن کی داد دے رہا ہے۔وہ سب مِل کر اور زور سے دھمال ڈالنے
لگے۔اس کے بعدہونی نے اپنا رنگ دکھایا اورٹلا عطائی بسترسے اُچھلااور منھ
کے بل فرش پر آگرا۔اس کا سر پھٹ چکا تھا ساتھ ہی اس کی ناک سے خون بہہ رہا
تھا۔ ٹلا عطائی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر سب ڈُوم گھبرا گئے۔ آتشِ سیّال
سے ہمہ وقت گرم رہنے والا جسم ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو چُکا تھا۔ اس کے جسم
پر مکھیوں اور بِھڑوں کا چھتا سا بھنبھنا رہا تھا اور عفونت و سڑاند کے اس
قدربھبھوکے اُٹھ رہے کہ سانس لینا دشوار تھا ۔ سب ڈُوم منھ اور ناک لپیٹ کر
باہر نکل گئے اور جائداد کی تقسیم میں مصروف ہو گئے اور راتوں رات اپنے
آبائی شہر اور تان سین کی یادگار گوالیار روانہ ہو گئے۔ ٹلا عطائی کی لاش
ساری رات ملخ و مور کے جبڑوں میں رہی ،اگلی سہ پہر صفائی کے عملے نے اسمسخ
شدہ لاش کو گھسیٹ کر کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے والی گدھا گاڑی پر لادااور اسے
شہر سے بہت دُور دشتِ زبوں کے ریگستان میں پھینک دیا۔
’’اس روداد میں کئی جگہ فتح خان برتن فروش کا ذکر آیا ہے کیا تم اس شخص کو
جانتے ہو ؟‘‘ کرموں موچی نے پوچھا ’’بشیر پورہ میں واقع دکان’’ ظرو ف
زرافہ‘‘کا یہ مالک اب کہاں ،کس حال اور کس خیال میں ہو گا ؟‘‘
’’میں فتح خان برتن فروش کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘پھتا قلعی گر بولا ’’جب
ظالم و سفاک ،موذی و مکار برطانوی استعمار کے گماشتے اپنا بوریا بستر لپیٹ
کراس خطے سے کُوچ کرنے لگے تو ایک سازش کے تحت سر حدوں کے تعین میں بد
دیانتی کی گئی اور مقامی آبادی میں پُھوٹ ڈال دی گئی۔مذہبی اور نسلی فسادات
کوہوا دی گئی جس کے نتیجے میں بلوے اور فسادات شروع ہو گئے۔‘‘
’’کیافتح خان برتن فروش ان فسادات سے بچ نکلا ؟‘‘حاجی محمد یوسف نے پُو چھا
’’مسلمانوں پر تو عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا ،ان کی املاک لوٹ لی گئیں
اور عزت وآبرو تک محفوظ نہ رہی ۔‘‘
’’تم سب نے سنی سنائی باتیں کی ہیں ۔‘‘رام ریاض نے آہ بھر کر کہا ’’اگر سچ
سننا چاہتے ہو تو میں وہ صدمے بیان کرتا ہوں جو ہم پر گزرے:
نہ تُو جلا نہ کبھی تیرے گھر کو آگ لگی
ہمیں خبر ہے کہ جِن مر حلوں سے ہم گزرے
’’یہ بڑے جان لیوا مر حلے تھے ۔‘‘پھتا قلعی گر نے گلوگیر لہجے میں کہا’’یکم
اگست 1947کی صبح کو جب فتح خان برتن فروش اپنی دکان ’’ظروف زرافہ‘‘کے
دروازے پر پہنچا تو اس کی دکان پر بلوائیوں نے دھاوا بول دیا اور دکان میں
موجود سب رقم اورسامان لُوٹ لیا ۔وہ تیزی سے واپس اپنے گھر کی جانب دوڑا تو
یہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ اس کے گھر سے آگ کے جو شعلے
نکل رہے تھے وہ آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔علاقے کے سب مسلمان بے بسی کے
عالم میں جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔بشیر پورہ میں واقع مسلمانوں کے تمام
مکانوں کو بلوائیوں نے لوٹ لیا اور اس کے بعد ان مکانوں کو بد قسمت مکینوں
سمیت نذرِ آتش کر دیاتھا۔فتح خان حسرت و یاس کی تصویر بنا دامن جھاڑ کر
وہاں سے جان بچا کر ارض ِ پاکستان کی طرف روانہ ہو گیا۔‘‘
’’ کیا وہ زندہ سلامت پاکستان پہنچ گیا ؟‘‘غلا م علی خان چین نے پُو چھا
’’کیاتمھارااس کے ساتھ پھر کبھی رابطہ ہوا ؟‘‘
’’اﷲ کریم کا شکر کہ فتح خان آگ اور خون کا دریا عبور کر کے آزاد وطن پہنچ
گیا ۔‘‘پھتاقلعی گر کہنے لگا ’’اس کے چہرے پر کوئی گردِ ملال نہ تھی۔آزادی
کی خاطر اس نے جو قربانیاں دیں ،ان پر وہ ہمیشہ نازاں رہتا تھا اور صبر و
شکر سے کام لیتے ہوئے مطمئن و مسرور زندگی بسر کرتا رہا۔ اس کی زندگی
عبادات اور ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے خدمت ِخلق کے کاموں
میں بسر ہونے لگی ۔اپنے اپنے ظرف اورضمیر کی بات ہے کچھ لوگ کالے دھن کے بل
پر اِتراتے ہیں۔خالی ظرف سے نکلنے والی بے ہنگم صدااہل ِدردکے دل میں
کھٹکتی ہے۔جب کہ صبر و استغنا کے پیکر عالی ظرف ،وسیع النظراور قانع لوگ
وطن اور اہلِ وطن کی خاطر سب کچھ قربان کر کے بھی خاموش رہتے ہیں اور گم
نامی کی زندگی بسر کر کے نیک نامی حاصل کرتے ہیں۔پھتا قلعی گر بھی آزادی کے
بعد ارضِ پاکستان پہنچ کر الاٹوں اور پلاٹوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے
کے بجائے گوشہ نشین ہو گیا۔‘‘
’’ ہم آزادی کے اُس مردِ مجاہد سے ملنا چاہتے ہیں جس نے نجاتِ دیدہ و دِل
کی گھڑی کی جستجو میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔‘‘رانا سلطان محمود نے
کہا’’ اہلِ زمانہ کو ان کی قدر کرنی چاہیے ،ایسے نایاب لوگ تو
یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہی تو بے مہریٔ عالم کی نشانی ہے کہ لوگ اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتے
ہیں۔‘‘حاجی محمد یوسف نے کہا’’تیزی سے گزرتے ہوئے وقت میں ہوسِ زر نے زندگی
کی اقدار عالیہ و درخشندہ روایات کوشدید ضعف پہنچایا ہے۔ بے رحم زمانے کی
اس بے اعتنائی اور سفلگی کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ وہ لوگ جنھوں نے
وطن کی آزادی کی خاطر اپنا خاندان اور مال و دولت سب کچھ قربان کر دیا ،آج
بے نشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ہمیں جالندھر کے فتح خان برتن فروش سے ضرور
ملواؤہم اس کی خدمت میں آہوں اور آنسوؤں کی صورت میں اپنے جذباتِ حزیں کا
نذرانہ پیش کریں گے۔‘‘
’’اب تمھیں مزید فکر کی ضرورت نہیں۔‘‘پھتا قلعی گر بولا ’’اس وقت تمھارے
سامنے آزادی سے پہلے جالندھر کا سب سے بڑا تاجر فتح خان برتن فروش موجود ہے
جسے گردشِ حالات نے پھتا قلعی گر بنا دیا۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے‘‘
یہ سُن کر سب کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں اوروہ آگے بڑھ کر اپنے
دیرینہ ساتھی سے لپٹ کر زارو قطار رونے لگے۔ |
|