ادب
(Dr B.A Khurram, Karachi)
تحریر۔۔۔ایم زیڈ کنول ۔۔لاہور
علمی، ادبی،سماجی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم ،’’جگنو انٹرنیشنل کے زیرِ
اہتمام شائع ہونے والی نسیم شیخ کی تصنیف کرد ہ سالِ رواں کی شہرہ آفاق
تصنیف ’’موجِ سخن‘‘ کی تقریبِ اجراء کے سلسلے میں 21 نومبر 2015 چوپال ناصر
باغ ، لاہور میں جگنو انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام حسبِ روایت ایک بہت خوبصورت
اور پْر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں شعراء ، ادبااور دانشوروں کی
کثیر تعداد نے شرکت کی۔ صدارت کے منصب پراستاد شاعر باقی احمد پوری فائز
تھے جبکہ مہمانانِ خصوصی کی حیثیت میں بھی استاد شعراء گلزار بخاری اور
ناصر بشیر سٹیج پر رونق افروز تھے۔خلیجی ممالک میں اردو زبان کی ترویج میں
سر گرمِ عمل نوجوان لکھاری حسیب اعجاز عاشر مہمانِ اعزاز کی حیثیت سے جلوہ
گر تھے۔ تقریب کا آغاز حسبِ روایت تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس کی سعادت
نوجوان صحافی نایاب علی کو حا صل ہوئی۔ بعد ازاں سید فراست بخاری نے
انتہائی خوبصورت انداز میں ہدیہء نعتِ بحضور سرورِ کائنات،ختم المرتبت رسولِ
مقبول پیش کیا۔مقصود چغتائی میڈیا سیکرٹری جگنو انٹر نیشنل نے پروگرام کی
رپورٹ پیش کی۔پروگرام کی نظامت راقم الحروف ( ایم زیڈ کنول ) ، چیف
ایگزیکٹو جگنو انٹر نیشنل )نے کی۔۰۱۔ نومبر 2015 کو فرانس میں دہشت گردی کا
جو واقعہ پیش آیا اس کی مذمت کی گئی اوراہلِ فرانس سے ظہارِ یک جہتی کے لئے
ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔بعد ازاں ’’موجِ سخن‘‘ کے حوالے سے گفتگو
کی گئی۔ نسیم شیخ ایک جدید لہجے کے خوبصورت شاعر ہیں۔شعر گوئی ان کا جنون
ہے۔ فیس بک پر نو آموز شعرا ء کی مشقِ سخن کے لئے ایک گروپ موجِ سخن کے نام
سے تشکیل دیا ہے،جہاں ان کی سرپرستی میں ہر ہفتے فی البدیہہ مشاعرے کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔یوں موج موج سفر نے نسیم شیخ کے ذوقِ جنوں کو ایسا دو
آشتہ کردیاجو ’’موجِ سخن‘‘ کی تصنیف کا باعث بنا۔
مظہر جعفری،شگفتہ غزل ہاشمی ، مظہر قریشی ،جاوید قاسم، آفتاب خان اور دیگر
نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نسیم شیخ نے یہ کتاب لکھ کر خود کو امر کر لیا ہے۔
نسیم شیخ نے اس کتاب میں صرف مواد ہی مہیا نہیں کیا بلکہ اپنے اشعار کے
حوالوں سے تقطیع بھی کی ہے۔ یوں تقطیع کی مشق کے ساتھ ساتھ موصوف کی اپنی
شاعری کا تجزیہ بھی ہو گیا ہے۔ حسیب اعجاز عاشر، بشریٰ سحرین او ر شہنشاہ
اورنگ زیب عالمگیرنے نسیم شیخ کو مبارکباد دیتے ہوئے اس کتاب کو وقت کی اہم
ضرورت قرار دیا۔پروفیسر ناصر بشیر نے عروض کے حوالے سے ایسی جامع گفتگو کی
، یوں لگتا تھاگویا کوئی ریسرچ تھیسس پیش کر رہے ہیں جس کے حوال کتابیات کے
لئے وہ 30سالہ ریاضتوں کا اثاثہ ساتھ لائے ہیں۔ان کے اس اثاثہ کے لئے راقم
نے ’’تبرکات‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ جس پر تمام احباب بہت محظوظ ہوئے۔
صاحبِ کتاب نسیم شیخ صاحب جو اس تقریب کے لئے خاص طور پر تشریف لائے تھے
انھوں نے تمام احباب اور خصو صاََ جگنو انٹر نیشنل کی تمام ٹیم کا شکریہ
ادا کیا۔ گلزار بخاری، اختر ہاشمی اور باقی احمد پوری نے گفتگو کو آگے
بڑھاتے ہوئے فنِ عروض کی اہمیت اْجاگر کرتے ہوئے اپنی ذاتی یادداشتوں کو
بھی دہرایا اور نسیم شیخ کو موجِ سخن سے بحرِ سخن تک کامیابی سے اْترنے پر
مبارکباد دی۔ نسیم شیخ کی یہ کتاب جگنو انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی
ہے۔ پنج ریڈیو یو ایس اے ،سے جگنو انٹرنیشل کے زیرِ اہتمام اس کی آن لائن
تقریبِ رونمائی کاانعقاد اس سے قبل ہو چکا ہے۔ جہاں ساری دنیاکے احباب سے
سندِپذیرائی حاصل کر چکی ہے اور اتنا خیر مقدم ہوا کہ مبلغ 1000/ قیمت کے
باوجود اس کو خریدنے میں مسرت محسوس کی ہے۔ناصر باغ ، چوپال ،لاہور میں
منعقد ہونے والی اس تقریب میں بھی نسیم شیخ کی بھر پور پذیرائی کی گئی۔
تمام احباب نے جگنو انٹر نیشنل کی ادب کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو بھی
سراہا اور مبارکباد پیش کی۔تقریب میں شاعروں، ادیبوں، طلبہ، اور اور ممتاز
ادبی و سماجی شخصیات نے شرکت کی جن میں مظہر سلیم مجوکہ، سعید اﷲ قریشی (ٹیکسلا)
سیدمحمود گیلانی ( میاں چنوں)،صفدر حسین صفی، علامہ عبدالستار عاصم،وارث
علی رانا، عرفان گوہر وریاہ اور دیگر نے شرکت فرمائی۔آخر میں مہمانوں کا
شکریہ ادا کرنے کی روایت نبھانے کے ساتھ ساتھ پْر تکلف تواضع کا اہتمام بھی
کیا گیا۔ یوں یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ |
|