نجا نے کن اہل نظر خوش قسمتوں کے بارے میں شا عر نے کہا
تھا کہ وہ نئی بستیاں آبا د کر یں گے پھرجب شاعر کی نظر سے یہ بستیاں آبا د
ہوں گی تو ان میں زندگی کی رعنا ئی ،حسن اور تازگی بھی جھلکے گی یہ بھی
ضروری ہے کہ ان میں زندگی گزارنے کی بنیا دی سہو لتیں خیال رکھا گیا ہو
لیکن آج کل تو ہمارے ہاں کے تما م بڑے بلڈرز شہروں کے گنجان آباد علا قوں
میں وسیع و کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کرتے نظر آتے ہیں اس بات کی کسی کو فکر
نہیں کہ ا ن میں رہا ئش پذیر خاندانوں کو زندگی کی اہم ضرورتوں پانی ، بجلی
، سیوریج سسٹم کہاں سے دستیاب ہو ں گا سڑکوں کے نظا م کوکس طرح وسعت دی جا
ئے گی پارکنگ کے لئے کو ئی پلاننگ کے بناء تعمیر کی جا نے وا لی ان عمارتوں
نے شہروں کے حسن کو بر باد کر کے رکھ دیا ہے نا جائز تجاوزات اور چا ئنا
کٹنگ کے کیا کہنے حتیٰ کہ اب تو گلی محلوں میں بھی گھروں کو تین سے چا ر
منزلہ پو ر شنزبنا کر کرایہ پر یا پھر فروخت کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے
پہلے گھروں کے آگے درخت پھولوں کی کیا ری نظر آتی تھی اب اس جگہ کو بھی
تعمیرات میں شا مل کر کے گھر کو دسعت دی جا تی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ آمد
نی حا صل ہو سکے شائداس کی ضرورت یوں بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ شہری آبا
دی میں دن بدن اضا فہ ہو تا جا رہا ہے ہمارے شہر آباد ا ور دیہات ویران ہو
تے جا رہے ہیں دیہا توں میں بنیادی سہو لتوں کے نا پید ہو نے سے گا ؤں
دیہاتوں کے لوگ شہروں کے جانب نقل مکانی کرتے نظر آتے ہیں جہاں انھیں خوش
قسمتی سے چھوٹے مو ٹے روز گار کی سہولت بھی مل جا تی ہے ممکن ہو تو مختصر
سا ایک کمرے کا مکان بھی دستیاب ہو جا تا ہے باتھ روم،کنڈے کی بجلی ،
اورپانی کی سہولت مل جا تی ہے یہ نعمتیں اسے گا ؤ ں میں زمینداروں کے گھر
وں میں نظر آتی ہیں گاؤں سے نوارد ہوئے افراد یہ سب حا صل کر کے خوش بھی ہو
تے ہے کہ روز روز کی زمینداروں کی جھک جھک تپتے آسمان، اجاڑ بیابان علا قے
سے جان چھوٹی جہاں نہ بچوں کے لئے کو ئی اسکول ہے نہ بیماروں کے لئے علاج
معالجہ کی کوئی سہولت ملتی ہے جاگیردار اپنی رعایا کو ڈھور ڈنگر سے زیا دہ
کو ئی اہمیت دینے کو تیا ر نہیں ہوتا۔بارش ، سیلاب اورخشک سالی یہ سب آفتیں
بھی انھیں جھیلنی پڑتی ہیں زرعی نظام میں زراعت پیشہ لوگ قدرت کے رحم و کرم
پر ہو تے ہیں ان کی نظریں آسمان کی طرف لگی رہتی ہیں اس نجات پر وہ شکر ادا
کرتا ہے اب اس کا خا ندان آئندہ کئی نسلوں تک کبھی دیہاتی زندگی گزارنے سے
تو بہ کر تا ہے یہ ایک خا ندان کی نہیں سینکڑوں گھرانوں کی کہانی ہے جودیہا
توں کی رو کھی پھیکی مشقت بھری زندگی سے تنگ آکر شہروں کا رخ کر رہے ہیں
ایک پا کستانی کی حیثیت سے یہ ان کا حق ہے کہ انھیں زندگی کی بنیا دی سہو
لتیں حا صل ہوں دوسری جانب شہروں میں منتقلی کی ایک بڑی وجہ دہشت گردوں کے
خوف سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو ئے پاک فوج نے دہشت گردوں کے
قلع قمع کر نے کے لئے آپریشن ضرب غضب شروع کیاپورے علا قے کو خا لی کرایا
اب محفوظ بنا دیئے جا نے والے علا قوں میں فوج علا قہ مکینوں کو دوبارہ
آباد کر نے کی کو ششوں میں بھی مصروف ہے مگرصا حب حیثیت علا قہ مکینوں میں
اکثریت محفوظ شہروں میں منتقل ہو نے کو تر جیح دے رہی ہے بار بارکی نقل
مکانی وخانہ بد وشی سے بچنے کے لئے اب اپنے کا روبار بھی انھوں نے شہروں
میں جما لئے ہیں وہ ان علا قوں میں وا پس جا نا نہیں چا ہتے۔
ماہرین معا شیات کے مطابق آئندہ چند دھا ئیوں میں روز گار ، تعلیم،صحت اور
دیگر سماجی سہولتوں کی خا طر پا کستان کی اسی فی صد آبادی دیہات سے شہروں
میں منتقل ہو جا ئے گی یہ ہم سب کے لئے لحہ فکریہ ہے اب ہم یہ بخوبی اندازہ
لگا سکتے ہیں کہ محض ۲۰ فی صد آبادی اتنے بڑے زرعی ملک کی پیدا واری ضرو
رتوں کو پو را کر سکے گی جنوری 2014 ء کے پا کستان اسٹریجک سپورٹ پروگر ام
کے دو سرے اجلا س میں ماہرین معا شیات کی را ئے کے مطا بق سات کروڑ ستر
لاکھ پا کستانی مناسب خوراک سے محرو م ہیں چا لیس فی صد خط غر بت سے نیچے
زندگی بسر کر رہے ہیں انٹرنیشنل فوڈ پا لیسی ریسرچ نے انتہا ئی بھو کے لو
گوں کے 26 ممالک میں ہمیں شامل کیا ہے ۔ تقسیم سے قبل پنجاب پورے بر صضیر
کو گندم فراہم کرنے کے حوالے سے پہلے نمبر پر تھا مگر آج گندم جیسی ضروری
خوراک اس قدر مہنگی ہے کہ لوگوں کی پہنچ سے دور ہو تی جارہی ہے غریب
گھرانوں میں افرا د خانہ اپنی آمدنی کا اسی فی صدحصہ خوراک پر خرچ کر نے پر
مجبور ہے یہ بھی المیہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے کسان خود اپنی خوراک کے
حصو ل کے لئے پر یشان رہتے ہیں جس کی وجہ سے دیہات سے شہروں کی جانب انتقال
آبا دی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں بھی اضا فہ ہو رہا ہے
-
ہمیشہ کی طرح ہم بہت د یربعد اپنے مسا ئل کو حل کرنے کی جانب نذر کر تے ہیں
حکومت کو ابھی سے جا مع منصو بہ بندی کر نے کی ضرورت ہے ہمارے منصوبہ سا
زوں کو اس با رے میں سوچنا ہو گا کہ آئندہ چند دھا ئیوں میں شہر وں میں
اسقدربڑھتی آبادی کو کس طرح کنٹرول کیا جا ئے گا ہمارے آمدنی کے ذرائع کیا
ہوں گے؟ جب گا ؤں دیہات ویران ہوں گے تو ایک زرعی ملک کی حیثیت سے ہم اپنی
ضرورتیں کیسے پو ری کر یں گے اس کے لئے ایک جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی
اشد ضرورت ہے کسانوں کے لئے زر عی پیکج صرف صوبہ پنجاب میں نہیں پورے پا
کستان میں نا فذ کیا جا ئے اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جا ئے بڑے
سرما یہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ و دیگر مراعات دے کر تر غیب دینی ہو گی کہ
وہ شہروں سے دور نئی بستیاں ، ٹاونز پلان کر یں جہاں کام کر نے والوں کو
رہائش کی سہولت ،اسکول اور ہسپتال قا ئم ہوں یا پھر انہی گا ؤں دیہا توں سے
قریب کہ جو اب خالی ہو تے جارہے ہیں روز گاراور دیگر سہولتیں فراہم کی جا
ئیں زندگی کی بنیا دی ضرورتیں گھر سے قریب مہیا ہو جا ئیں گی تولوگ نقل
مکانی کے بارے میں کیوں سو چیں گے ۔یہ ٹھیک ہے کہ اہل نظر نئی بستیاں آباد
کر یں لیکن ویراں گا ؤں دیہاتوں پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ وہ گھر بھی
آخراپنا ہے ۔ |