یوں تو عام دنوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ اہم ہے لیکن بعض
دن کسی خاص وجہ سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔29نومبر مسلمانوں کی زندگی
میں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دن فلسطینی عوام سے اظہار محبت کادن منایا
جاتا ہے۔فلسطینی عوام آج تک یہودی نرغے میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہر روز ان پر
ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں۔فلسطین کی عوام آج بھی محمد بن قاسم کے
انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے۔فلسطینی عوام کو یہود کی طرف سے مسلمان ہونے کی
سزا دی جارہی ہے۔ اگر یہ بھی غیر مسلم ہوتے تو آج فلسطین میں قتل وغارت نہ
ہوتی۔
1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا
نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور
عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس
کے خلاف31 ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔ آخر کار امریکہ نے اپنی
مکارانہ چال سے دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائبیریا کو مجبور کر کے اس
کی تائید کرائی۔ تقسیم کی جو تجویز ان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی اس کی رو
سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو اور باقی عرب آبادی کو
دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد حصہ یہودیوں کے
قبضے میں آیا تھا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مار
دھاڑ کر کے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا
شروع کر دیا۔
عرب عورتوں اور لڑکیوں کی تذلیل کی گئی اور یہودی لاؤ ڈ اسپیکر میں جگہ جگہ
یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی
ایساکچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔ ان حالات میں14 مئی 1948ء کو عین اس وقت
جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے مسئلہ پر بحث ہو رہی تھی اس
وقت یہودیوں نے رات دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا
اور سب سے پہلے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر
اس کو تسلیم کیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں
اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ
سے زیادہ عرب بے گھر کیے جا چکے تھے اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل
خلاف یروشلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔
اس دن سے آج تک عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم
حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو
دوسری طرف ان چو نسٹھ برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر
آیا ہے، ہر صبح کا سورج ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوا، ہر لمحہ
بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد ، سکول و مدارس کو
رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے۔
کون سا ظلم ہے، جو ان فلسطین کے بے گناہ، معصوم اور مظلوم باسیوں پر نہ
ڈھائے گئے ہوں۔ بالآخر ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر
اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری
سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں
شروع کیں۔ دوسری طرف اسرائیل کواسلام دشمن عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے
بہت زیادہ مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون پیش کیا۔ حتیٰ کہ
اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی
امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا۔ جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ
کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیتا۔
ایک طرف تو فلسطین پر ظلم و ستم بڑھتا رہا اور دوسری طرف ظلم و سازشوں اور
اپنوں کی بزدلی و منافقت کے شکار ارضِ مقدس فلسطین کے باسیوں میں ظالموں
جابروں اور منافقوں سے نفرت اور حقیقی قیادت و نیک مقاصد کے حصول کا جذبہ
فروغ پاتا رہا۔ فلسطین میں جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے
اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز
کیا۔اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے
والی تحریک اب کلاشنکوف ، راکٹ لانچراور میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔
آج فلسطین کی غیورعوام نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے راستے کو اپنا لیا
ہے۔ فلسطین کی آزادی کیلئے اب تک ہزاروں قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے
ہیں۔ ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔آج
فلسطین میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان
کے کانوں میں جو اذان دی جاتی ہے اس میں شہادت و جہاد کا پیغام دیا جاتا
ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں
کی جہادی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد،
منافقت اورغداری کے باوجود یہاں پر فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے
مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر
فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان اور خواتین اس عزم پر آمادہ نظر آتے ہیں کہ وہ
اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں، لیکن اپنی دھرتی فلسطین پر ناپاک صہیونی
قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی
قبضے سے آزاد کرائیں گے۔
میں فلسطین کی عوام کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ان کے ارادے چٹانوں سے زیادہ
مضبوط ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ فلسطین تنہااسرائیل کے ظلم و ستم کا بھرپور
جواب دے رہا ہے مگر اتنے مسلم ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تو ایٹمی طاقت
سے ہمکنا ر ہونے کے باوجود اسرائیل کو اس جارحیت کا منہ توڑ جواب نہیں دے
رہے۔ اسرائیل ایک غیر مسلم ملک ہے اور تمام غیر مسلم ممالک اس کی حمایت کے
ساتھ ساتھ اس کو اسلحہ بھی سپلائی کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی اور پر ظلم نہیں
کررہا بلکہ مسلمانوں کو ختم کررہا ہے ۔ آج امریکہ کی غلامی غیر مسلم سے
زیادہ مسلم ممالک کررہے ہیں۔ خودامریکہ کی ریاستیں امریکہ سے آزادی کی
درخواستیں دائر کررہی ہیں اوروہ امریکہ سے آزادی چاہتی ہیں۔اور وہ دن دور
نہیں جب امریکہ بھی روس کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔جبکہ دوسری طرف ہمارے
مسلم ممالک جو بظاہر آزادہیں وہ امریکہ کی غلامی قبول کررہے ہیں۔کہاں گیا
وہ جذبہ مسلمانی ، کدھر گئے عمرؓ کی سنت پر عمل کرنے والے دلیر سپہ سالار،
کون ہے جو سنت امام حسینؓ پر عمل پیرا ہوکر اپنے بھائیوں کو ان ظالموں سے
نجات دلانے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہے ؟ کوئی نہیں ہے
کیونکہ ہمارے اندر اب آخرت کی تڑپ نہیں رہی بلکہ ہم کو دنیا وی زندگی اور
اسکے مال سے پیار ہوگیا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے اندر جذبہ جہاد اور شوق
شہادت مرچکا ہے اور غلامانہ ذہنیت پیدا ہو چکی ہے ۔ |