ریاست جموں کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف شروع ہوانیوالی
مسلح جد وجہد سے تھوڑا پہلے وہاں کے حالات پر ایک برطانوی سیاح نے اظہار
خیال کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں نے اس خوبصورت سر زمین کو جتنا دیکھا کھیتوں
کھلیانوں ،بازاروں ،دیہی علاقوں اور تمام سیاحتی مقامات حتیٰ کے گھریلو
زندگیوں میں بھی مجھے بھارت ہی بھارت نظر آیا لیکن ۳۱ جولائی ۱۹۸۸ کا سورج
اپنے ساتھ وہ تبدیلی لایا جسکا دور دور تک کوئی گماں تک نہ تھا ۔خطے میں
جہاں زندگی اپنے معمول کے مطابق چل رہی تھی اچانک ایک ہی دن میں سارا ماحول
یکسر بدل گیا یوں لگا جیسے لاکھوں لوگ دل ہی دل میں نفرتوں کے الاؤ لئے
گھومتے رہے تھے اور اچانک سرینگر بم دھماکوں نے اس نفرت کے جوالہ کو آگ
دکھا دی جس کے شعلے آسمانوں کو چھونے لگے اور وہ خطہ جہاں چارسو بھارتی
فلمی نغمے گونجا کرتے تھے اچانک غائب ہوگئے اور ان کی جگہ آزادی نغموں اور
نعروں نے لے لی تھی۔آزادی کی اس تحریک نے قلیل مدت میں تاریخی عروج حاصل
کیا جو بذات خود ہر زی روح کے لئے توجہ کا باعث بنا اوراس منفرد کیفیت نے
دیکھتے ہی دیکھتے منقسم ریاست کو حقیقی معنوں میں ایک قوم بنا دیا تھا اور
ریاست کے دوردراز علاقوں میں جہاں کے مکینوں میں آزادی و غلامی کا قطعی
ادراک نہ تھا ایسے عام شہریوں کوبھی اپنی گرفت میں لیا اور اس تحریک کا حصہ
بننے پر مجبور کر دیااور یہ تحریک بہت ہی کم عرصہ میں ایک عوامی مسلح
جدوجہدکے روپ میں بدل گئی اور پوری قوم اس کی پشت پر آن کھڑی ہوئی اوراتنی
ہی صبق رفتار سے اس تحریک میں ہزاروں کیڈیٹ شامل ہونے لگے ۔
۱۹۴۷ کے سیز فائر کے اکتالیس برس بعد یہ تحریک برپا ہوئی تھی اور اس تحریک
میں شامل ہونیوالے اکثر کیڈیٹس نے ریاست کے اکتالیس سالہ بدترین روائتی
سیاسی ماحول میں تربیت پائی تھی ،وہ روائتی سیاسی ماحول جس نے گزشتہ
اکتالیس برسوں میں اس قوم کے اندر برادری ازم ،قبیلائت اور علاقائیت جیسی
نفرتوں کی کئی دیواریں کھڑی کر کے عوام کو مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا
گیا تھا اور پھر جب ۸۸ کی مسلح جدوجہد آزادی کا نقارہ بجا تو اس تحریک میں
جو کیڈیٹ شامل ہوئے وہ اسی روائتی سماج سے آئے تھے اس لئے کہ انہیں یہاں سے
ہی آنا تھا نہ کے کسی دوسرے ملک سے ۔۔۔اور یوں وہ اس انقلابی تحریک کی
گہرایؤں اور باریکیوں اور تقاضوں کو سمجھ نہ سکے اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش
کی ۔نتیجتاً تحریک میں نظم بننے کے بجائے ٹوٹنا شروع ہوگیا جسے جوڑنے والے
محدود تھے جب کہ اکثریت اس عمل سے ہی نا بلد رہی جس کے باعث اس تقسیم میں
ہر کسی نے بڑے فخر سے حصہ ڈالا اور ہر وہ عمل جو روائتی تنظیموں کا خاصہ
رہا ہے وہ تنظیم میں واضع طور دکھائی دیا اور تنظیم کے بنیادی ’’تھیم‘‘
نیشلزم کی شبھی بگڑنے لگی اور آزادی پسندو نیشنلسٹ تنظیمیں جن کا نعرہ
قبیلازم و برادری ازم جیسی خرافات کا قلعہ قمعہ کرنا ہے برائے نام رہ گیا
جب کے ان تنظیموں کے تیس تیس و پنتیس سالہ دیرینہ ممبران عہدوں کی خاطر اور
اپنی ’’میں ‘‘ کی خاطر نظریات و تنظیمی آئین ڈسپلن و پالیسیز کو خاطر میں
لائے بغیر الالعلان اس فروہی تعصب کا حصہ بنتے رہے ہیں اور اپنی ہی تنظیم
کو تھریڈ کرنے کے لئے پارٹی کے اندر پارٹی بنانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں جس
کا انجام تنظیمی تقسیم پر منتج ہوتا رہاہے اور یہ عمل عرصہ دراز سے ایک
تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔تنظیمیوں میں برادری ازم و قبیلہ ازم جیسے فروہی
تعصبات کا دور دوراہ ہے جب کہ قومی جدوجہد آزادی کی جگہ اب قبیلہ ازم نے لے
رکھی ہے اور لائن آف کنٹرول کی اس جانب قبیلائی وار جاری ہے جسے لوگ بڑی
ڈھٹائی سے اختلاف رائے کا نام دیئے جاتے ہیں شائد وہ اکیسویں صدی میں لوگوں
کو انیسویں صدی کے قبائلی نظام کی جانب لیجانے پر بضد ہیں ۔سوال یہ ہے کہ
کہ جس قوم نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان اس قومی جدوجہد آزادی کے نام پر
قربان کر دئیے وہ اپنے ان بیٹوں اور لٹی عصمتوں کا حساب کس سے مانگیں ۔۔۔؟ڈریں
اس وقت سے جب عدالت سجے گی اور ہر ایک کو اپنے کئے کا حساب دینا ہو گا تب
آپ سے پوچھے گی اس وطن کی آبرو۔۔۔کس کس نے کٹوایا ہے سر اور کس نے بیچا ہے
لہو ۔۔۔۔؟جب کہ قوم کو آزادی کا خواب دکھانے والوں میں سے سینکڑوں گزشتہ
بیس برسوں میں تنظیم کے ٹکڑے کر کے اپنا ’’پلوو جھاڑ ‘‘کر پتلی گلی سے
نکلتے بنے اور جو باقی بچے تھے جنہیں اس وقت ایسی کسی مہیم جوئی کا موقع
نہیں ملا تھا آج وہ اسی تحریک و تنظیم میں پرانا ہونے کے گھمنڈ میں پارٹی
پالیسی آئین و ڈسپلن کے ماورہ کسی بھی نوح کا کوئی کارنامہ سرانجام دینے کو
اپنا حق سمجھتے ہیں اور خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے ۔جس کی صرف
وجہ یہ رہی ہے کہ تحریک آزادی کی میجر تنظیم نے اس نظریاتی تخریب کاری کی
روک تھام کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جو کہ انتہائی ضروری رہا ہے ۔کسی
ایک تنظیم کو نہیں بلکہ تمام آزادی پسند تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنے
اداروں کو مضبوط بنائیں اور تنظیمی نظم کو برقرار رکھنے کے لئے سخت اقدامات
کریں ۔ورنہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آزادی کے مبنی بر حق نعرے پر سے عوام
کا بھروسہ ختم ہو جائے گا اور لوگ ان تنظیموں کا نام سننا گوارہ نہ کریں گے
۔کہ جہاں کوئی بھی اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا ہو اور جب
چاہیے نظریات و آئین کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیے موڑ دے ۔ |