ساس برائے فروخت ۔!
(Ajmal Malik, faisalabad)
داماد کی سسرال میں عزت صرف اس وجہ سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اُس مرد مومن نے اپنے گھر میں طوفان سنبھالا ہو تا ہے۔وگرنہ ایسے طوفان کئی بار نیلو فر بن جاتے ہیں۔ ساسی ستم کا شکار ایک بہو نے اپنی سہیلی کو بتایا :پرسوں میری ساس کنوئیں میں گر گئی۔ بہت چوٹ لگی بیچاری کو۔ بہت دیر تک چیختی رہی ۔
سہیلی:اب وہ کیسی ہے ؟
بہو:اب تو ٹھیک ہے کل سے کنوئیں سے آواز نہیں آرہی۔ |
|
|
ساس برائے فروخت کا اشتہار |
|
شاعر مشرق نے کہا تھا ۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑی بے ادب ہو ں سزا چاہتاہوں
پنجابی کہاوت ہے کہ ’’یار ۔یاراں دیاں بانہواں ہوندے نیں ‘‘(دوست ۔دوستوں
کے بازو ہوتے ہیں)۔انہی بازو ں کے ساتھ دوست اپنے رازوں کا تبادلہ کر
بیٹھتے ہیں حتی کہ ازدواجی راز ۔ اور خانگی جھگڑے بھی اُنہیں پتہ ہوتے
ہیں۔حالانکہ ازدواجی راز سٹیٹ سیکرٹ ہوتے ہیں ۔ناقابل شیئر ۔ یاروں کی کئی
اقسام ہوتی ہیں ۔۔ جن میں یار مارکا درجہ اعلی ترین ہوتا ہے۔۔علامہ اقبال
کے شعر کی چلتی پھرتی تفسیر۔۔
رازدار:یارتمہیں برا نہیں لگتا ، بیوی کے ساتھ مل کر کپڑے دھلواتے ہو۔؟
یار: بُراکیوں۔؟ وہ بھی میرے ساتھ مل کر برتن دھوتی ہے۔
مرد شادی سے قبل محبتی ہوتا ہے اور شادی کے بعد مذمتی ۔۔وہ شادی سےقبل جی
کرتا ہےاور بعد میں جی جی۔ایک کنوارے راز دان نے یار سے کہا :میں پی کر
نہیں بہکتا ، اسے دیکھ کر بہکتا ہوں اتنا بتا شراب حرام ہوئی یا وہ؟
پیچھے سے آواز آئی: کمینے شراب حرام ہے اور وہ حرام زادی۔
لیکن معروف ناول بانو قدسیہ کا نظریہ حرام زادی سے تھوڑا مختلف ہے ۔ راجہ
گدھ سے دو مثالیں۔
مثال نمبر1:
’’مرد عام طور پر رن مرید ہوتے ہیں لیکن میرا شوہر وحید ماں مرید ہے۔ اماں
جی خضاب لگا لو۔ شیشہ لے کر کھڑا ہے۔ اماں جی بیر کھالو موسمی میوہ ہے۔۔
اماں جی پیر دبادوں آپ کے۔۔ اماں جی اماں جی ۔۔ جب یہ مرے گا تو میں اس کے
کتبے پر لکھواں گی یہاں ایک ماں کا یار دفن ہے۔اور اگر پہلے میں مر گئی تو
۔۔ یہ عاشقی معشوقی جو ماں بیٹے میں چلتی ہے اس سے چھٹی ملے گی، رج رج کے
جھپیاں ڈالیں ایک دوسرے کو۔۔‘‘
مثال نمبر 2:
’’ایسے مردسےکبھی شادی نہ ہو جسے اپنی ماں کی کُچھڑ کا شوق ہو۔ بڈھے پھونس
ہو جائیں گے لیکن گودی کا شوق نہیں جائے گا۔ ۔۔ ویسے تم مانو نہ مانو ساری
مرد ذات ماں کی خصم ہوتی ہے۔لڑکی کو بھی ماں سے پیار ہوتا ہے لیکن جب وہ
خود ماں بن جاتی ہے پھر ماں پر کیوں مرے۔‘‘
مردوں کی یہ راجہ گدھی نسل۔ یار ماروں کی۔فہرست میں سیکنڈ ہے۔گھر داماد ی ۔عموما
اس عہدے پر زیادہ فائز ہو تے ہیں۔جو اپنی والدہ ماجدہ کوماں ۔۔ ساس کو اماں
جی۔۔ اور بیوی کوزوجہ ماجدہ سمجھتے ہیں۔تھلہ نسل اس فہرست میں تھرڈ ہے۔تھلہ
لوگ ساس ، بیوی ، سالی اور سالے بلکہ سارے سسرال کے مرید ہوتے ہیں ۔
لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں بے وقوف مردان کے لئے
ڈاکٹر اور انجنیئر بن رہا ہوگا گھریلو سیکرٹ شئیر کرنے والے سارے بے وقوف
ہی تو ہیں اور بے وقوف اس بات پر غصہ بھی کرتے ہیں۔ غصہ آنا مرد کی نشانی
ہے اور غصہ پی جانا شادی شدہ مردکی نشانی ہے۔شیخ مرید کہتاہے کہ جس گھر میں
مرد کا راج ہو اسے گھوڑے والا اور جہاں بیوی کی حکمرانی ہو اسے مرغی والا
گھر کہتے ہیں۔ ہم دوستوں کے گھروں میں مرغیوں نے گھوڑے پال رکھے ہیں۔ جو
سارا دن ہونکتے ہیں۔کبھی دُمکی چال چلتے ہیں اورکبھی سرپٹ دوڑتے ہیں۔دن
بھرانہیں تو کوئی تانگے والی بھی نہیں ملتی اور رات کو گھوڑے بیچ کر سو
رہتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے بعد بستر پر لیٹنیاں لینا ہی ہم گھوڑوں کا صحت افزا
وقت ہوتا ہے اور مرغیاں گھر پر کڑک بیٹھ کر انڈے سیتی ہیں ۔ گھر پر راج پھر
بھی مرغی کا ہی ہوتاہے۔پچھلے دنوں ایک بھارتی بہو نے گھر میں بیٹھے بٹھائے
پرانی اشیاکی خریدو فروخت اور تبادلے کی ویب سائٹ فائدہ ڈاٹ کام پر اپنی
ساس کو فروخت کرنے کا اشتہار دے دیا۔ اشتہارکی عبارت تھی۔
”ایک ساس اچھی حالت میں برائے فروخت ہے۔ عمر تقریبا 60سال۔ آواز اتنی میٹھی
کہ ہمسایوں کو قتل کیا جا سکے۔کھانوں میں نقص اور کیڑے نکالنے کی ماہر۔ بہت
ہی اچھی مشیر۔ہر کام میں بہتری کے مشورے دینے والی۔اگر کوئی میری ساس کو
خریدنا نہیں چاہتا تو محض ایک کتاب کے ساتھ اسے تبدیل بھی کر سکتا ہے۔‘‘
ساس اور بہو کا رشتہ ویسے تو ساس بھی کبھی بہو تھی والا ہوتا ہے لیکن سچ تو
یہ ہے ساس بہو تو ہو سکتی ہے لیکن ماں نہیں ہو سکتی اور ماں کبھی ساس نہیں
ہو سکتی۔ مجھے تو ساس اور بہو کا رشتہ ٹوم اینڈ جیری والا لگتا ہے۔جو اکھٹے
بھی نہیں رہ سکتے اور الگ بھی نہیں۔’’بزم میں راز کی بات ‘‘ والا علامہ کے
شعر کا پہلا مصرعہ ساس بہو پر پورا فٹ بیٹھتا ہے۔ داماد کی سسرال میں عزت
صرف اس وجہ سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اُس مرد مومن نے اپنے گھر میں طوفان سنبھالا
ہو تا ہے۔وگرنہ ایسے طوفان کئی بار نیلو فر بن جاتے ہیں۔ ساسی ستم کا شکار
ایک بہو نے اپنی سہیلی کو بتایا :پرسوں میری ساس کنوئیں میں گر گئی۔ بہت
چوٹ لگی بیچاری کو۔ بہت دیر تک چیختی رہی ۔
سہیلی:اب وہ کیسی ہے ؟
بہو:اب تو ٹھیک ہے کل سے کنوئیں سے آواز نہیں آرہی۔
بہو نےبتایا کہ ’’میں اپنی ساس کا بہت احترام کرتی ہوں ۔ کبھی نام تک نہیں
لیا۔ جب بھی انہیں بلانا ہو تو اپنی ساس کے سامنے شوہر کو صرف اتنا کہتی
ہوں۔
Son of Bitch ۔ میری بات سنتے ہی دونوں بولنے لگتے ہیں۔ میاں اور بیوی
کارشتہ سپر پاور اور تھرڈ world کنٹری جیسا ہوتا ہے۔عموما سپر پاور کا خوف
جنگ کا سوچنے بھی نہیں دیتا اور اگر کبھی جنگ ہو بھی جائے تو کچن آئیٹم
ہتھیار بن جاتی ہیں ۔ایسی خانگی جنگوں کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں لیکن
نتیجہ صرف ایک ہی ہوتا ہے تھرڈ ۔ورلڈ کی ہار۔۔کہتے ہیں کہ بیوہ کے علاوہ
کسی عورت کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا شوہر اس وقت کہاں ہے۔؟
بیوی شوہر سے:ساتھ والے گھر میں میاں بیوی کی لڑائی ہو رہی ہے آپ ایک بار
جائیں
شوہر:میں ایک بار گیا تھا اسی لئے تو لڑائی ہو رہی ہے۔
مرد سچ بھی بولے تو بھی بیوی پوچھتی ہے۔ ۔’’سچ بتاؤ کہاں تھے۔؟‘‘بیوی ۔
شوہر کوجھوٹ پر مجبور کرتی ہے اور ایسی ہی مجبوری ساس کے سامنے بہو کی بھی
ہو سکتی ہے ۔کہتے ہیں کہ پٹھان ہونا کسی قوم کا نام نہیں بلکہ ذہنی کیفیت
کا نام ہے۔یہ کیفیت کبھی بھی طاری ہو سکتی ہے ۔اسی طرح ساس بھی رشتے سے بڑھ
کر ایک کیفیت کا نام ہے۔میں توساسی کیفیات والے بہت سے مردوں کو بھی جانتا
ہوں۔لیکن ہم انہیں سُسر یا شوہر کہتے ہیں۔فائدہ ڈاٹ کام پر اپ لوڈ ہونے
والے اشتہارکے بعد بہو نے ساس کو بلیوں ، کُتوں، بکروں، گاڑیوں اور
فرنیچربرائے فروخت کی صف میں کھڑا کر دیا ہے اگرچے بھارتی بہو نے اشتہار
صرف 10منٹ بعد ہی ختم کر دیا تھا لیکن تب تک یہ پوسٹ وائرل ہو چکی تھی۔ بہو
نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی تھی لیکن اب باری ساسو ماں کی تھی۔
بھکاری نے ایک گھر کے سامنے صدا لگائی۔اندر سے نئی نویلی دلہن نے کہا: جاؤ
بابا معاف کرو
بھکاری چلا گیا تو دلہن کی ساس نے واپس بلا لیا اور جب بھکاری قریب آیا تو
ساس نے بھی کہا: جاو بابا معاف کرو
بھکاری غصے سے : یہ بات تو اس لڑکی نے بھی کہہ دی تھی پھر واپس کیوں بلایا؟
ساس :مالکن میں ہوں وہ کون ہوتی ہے رعب جمانے والی
حالات ایسے ہوں تو ۔۔۔ اشتہار تو بنتا ہے۔باس۔ ایک یار مارکا راز دان کو
مشورہ۔۔! |
|