شخصیت کی مرکزی حس' جو کسی واقعے' حادثے'
معاملے یا کسی اور وجہ سے' ترکیب پا گئی ہوتی ہے' شخص کے معاملات میں
ناچاہتے ہوئے بھی' دخیل رہتی ہے۔ وہ رجحان یا تحریک نہیں ہوتی' بل کہ اسے
مجموعی رویے کا درجہ حاصل ہو گیا ہوتا ہے۔ یہ حس' ہنرمندی میں بھی' کارفرما
رہتی ہے۔ اسی کے زیر اثر اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس اسلوب کے حوالہ سے' اس
شخص کی شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔ اسلوب اپنی اصل میں' اس شخص کی پرچھائی کے
درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کی تخلیق اور ہنرمندی کا تحقیقی مطالعہ کے
دورانیہ میں اسلوب کی جہتوں کو' کسی بھی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا
باصوت دیگر درست نتائج تک رسائی امکانات سے باہر رہتی ہے۔
پروفیسر عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی' اردو کے ایسے محقق اور نقاد ہیں' جن کے
قلم سے' تصوف نکلتا ہے۔ تصوف ان کی مرکزی حس کے درجے پر فائز ہے۔ اس کا
مختلف حوالوں سے' ان کی کاوش ہا فکر میں اظہار ملتا رہتا ہے۔ بعض اوقات اور
بعض جگہوں پر' یوں محسوس ہوتا ہے کہ تصوف اور پروفیسر ساحر' دو الگ سے وجود
نہیں ہیں۔ تصوف سے غیر متعلق مواد کی پش کش کی رگوں میں بھی' کسی ناکسی سطح
پر' تصوف موجود ہوتا ہے۔ جملوں میں تصوف کی اصطلاحات موجود ہوتی ہیں۔ ان کے
استعمال میں' کہیں دنستگی کا عنصر نظر نہیں آتا۔ کہیں ان کا لہجہ صوفیانہ
ہوتا ہے۔ تصوف ان کے باطن کا لوازمہ بن چکا ہے اور یہ اپنے اظہار کا از خود
رستہ تلاش لیتا ہے۔ ہر سہ طرح کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں
'تذبذب سے اثبات یقین تک کا سفراپنی ذات کے نہاں خانوں میں' مراقبے کی
تپسیا سے ممکن ہے۔'
1
انکار حدییث سے اقرار حدیث تک کا سفر دراصل گمان سے یقین تک کا سفر ہے
2
ایک طرف عقل جستجو کا لبادہ اوڑھ کر تشکیک اور گمان کے فکری تلازموں میں
اظہار کی راہ پاتی ہے' تو دوسری طرف عشق: حضور و اضطراب کی معنوی جمالیات
کا استعارہ بن جاتا ہے۔
3
خودکلامی۔۔۔۔۔۔۔۔ وحدتہ الوجودی صداقت فکروخیال: اعتبارات و ممکنات کے
تعینات کا اشاریہ بن کر صد ہا سوالات کی اساس بن جاتی ہے۔
4
اصطلاحات تصوف
عرفان' معرفت' نفی' اثبات' سلسلہ' صوفی' وجدان' مکاشفہ' یقین ' مراقبے' عشق'
حضور' وحدتہ الوجود وغیرہ وغیرہ
معاملہ یہاں تک ہی محدود نہیں' صوفیا کرام کے اسمائے گرامی' ان کے سلسلوں
اور متعلق امرجہ کا ذکر بھی میسر آتا ہے۔
علامہ محمد حسیں آزاد کی علمیت اور اہلیت پر شبہ کرنا زیادتی کے مترادف ہو
گا لیکن ان کے افسانوی اسلوب تکلم نے ۔۔۔۔۔ آب حیات۔۔۔۔۔ ایسی شاندار کاوش
فکر کے' کئی معاملات کو غیرصحت مند بنا دیا ہے۔ اس پر میں بڑی تفصیل سے لکھ
چکا ہوں۔ آب حیات کے حوالہ سے وہ' ایک بڑے انشا پرداز کے طور پر سامنے آئے
ہیں۔ بعض واقعات' ایک خوب صورت افسانے کا درجہ رکھتے ہیں اور لطف دیتے ہیں۔
کہیں خشکی اور بےلطفی کی صورت' پیدا نہیں ہوتی۔ ہاں دو جمع دو چھے کی
ابہامی صورت ضرور جنم لے لیتی ہے۔
پروفیسر ساحر کے ہاں بھی' رومانوی اور افسانوی طور اظہار ملتا ہے' جو کیف
اور ایک قسم کی مٹھاس فراہم کرتا ہے۔ اس طور میں' سکون اور آسودگی پنہاں
ہوتی ہے۔ لمحہ بھر کو بھر سہی' تلخیوں سے چھٹکارہ میسر آ جاتا ہے۔ بعض
اوقات تادیر' وہ جملہ ذہن میں سیر سپاٹے کرتا ہے۔ اصل مزے کی بات یہ کہ وہ
جملہ' غیر متعلق نہیں ہوتا۔ تفہیم کسی ابہام کا شکار نہیں ہوتی۔ بات صاف
اور واضح رہتی ہے۔ قاری کے سوچ اور فکر پر بھاری نہیں پڑتی۔ باطورنمونہ یہ
مثالیں ملاحظہ ہوں۔
'جب عرفان ذات کی معنوی بصیرت لمحوں کے امکانی تجربے سے اظہار کی راہ پاتی
ہے تو بےنام مسافتوں کی لذت آشنائی جذباتی تموج کے پس منظر سے چہرہ نمائی
کا احساس دلا دیتی ہے۔ اس طرح جب لہجے کی بلند آہنگی مدھر سروں کی لے سے حظ
اٹھاتی ہے تو ماحول کے سکوت میں ارتعاش کا عنصر زندگی کا وجود نامہ ترتیب
دے دیتا ہے۔'
5
چمنستان حدیث کے آنگن سے پھوٹنے والا یہ فن اپنی دینی روایت اور اس کی فکری
تہذیب کا اشاریہ ہے۔ اس فن نے اسلامی تہذیب اور اس کے تمدن کی گرہ کشائی
میں بنیادی کردار ادا کیا۔
6
'تاریخ کے سمندر میں اٹھتی موجیں گہر ہائے آب دار کی خبر لاتی رہیں۔
7
شخص کی نفسیات کو سمجھنا' بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اس کے کیے یا بولے اور لکھے
کا' اس کے دل و دماغ یا باطن سے تعلق ہو' ضروری نہیں' ہاں البتہ کسی سطح
پر' اس کے کیے یا بولے اور لکھے کی موہوم اور غیرواضح سی' پرچھائی موجود ہو
سکتی ہے۔ پرچھائی یا اس غیر واضح دھبے کی مدد سے' کسی نتیجہ تک پہنچنا'
امکان سے باہر ہوتا ہے۔ ہر لفظ اور اس کا استعمال' انسان کی نفسیات سے جڑا
ہوتا ہے۔ لفظ کی نفسیات کے پاریکھ بہت کم ملتے ہیں۔ لفظ کا' اس کے کلچر اور
نفسیات کے مطابق استعمال نہ ہونا' خرابی کے دروازے کھولتا ہے۔ لفظ اور
ٹریسز کا' انسانی زندگی میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے
' جو بولو' سوچ سمجھ کر بولو'
تو اس کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے' کہ لفظ کو اس کے کلچر اور نفسیات کے مطابق'
استعمال کرو۔ لفظ جب بھی' اپنی مجوزہ نفسات اور کلچر کی حدود کی خلاف ورزی
کرتا ہے' زندگی سے آسانی اور سکون چھین لیتا ہے' بل کہ زندگی میں ناصرف کجی
پیدا ہو جاتی ہے' تلخی کا بھی عمل دخل ہو جاتا ہے۔
پروفیسر ساحر' لفظ اور اس سے متعلق فکر کی نفسیات سے' خوب خوب آگاہ ہیں۔ ان
کے جملوں کا نحوی نظام' ان کی باہمی ہم آہنگی سے تشکیل پاتا ہے۔ اکثر یوں
لگتا ہے' تعلیمی کیریئر میں' نفسیات ان کا مضمون رہا ہے' تب ہی تو تحقیقی و
تنقیدی تحریروں میں' نفسیات سے متعلق اصطلاحات' جملے کی ضرورت بن کر وارد
ہوتی ہیں۔
خواب کی تجسیم کا یہ فکری پہلو رعنائی خیال کی اس ہمہ گیری کا مرہون منت ہے
جو حقیقت کے معنوی دائرے کو وسعت سے آشنا کر دیتی ہے۔ جب اس عمل کی
کارفرمائی گمان کو یقین کا روپ عطا کرتی ہے تو زندگی کی اقدار صداقت کا
علامتی نشان بن کر وجود کی معنوی فضا کو پردہءاحساس کے شعوری رنگوں میں
بکھیر دیتی ہیں۔
8
خواب اور خیال کے استعاراتی تناظر میں خاک کی فکری جمالیت اپنی تہذیبی
معنویت میں فکر وخیال کے جو دریچے وا کرتی ہے ان کا تعلق مابعدالطبیعیاتی
شعور سے وابستہ ہے اور زندگی کے مادی اورخارجی رویوں کے ساتھ بھی۔
9
بہت سی' نفسیات کی مخصوص اصطلاحات کا' بڑی روانی سے استعمال ہوا ہے۔ مثلا
خود کلامی' شعور' رویہ' خواب' تذبذب' تشکیک' انتشار' ہم کلامی' فطرت' گمان
ادراک
وغیرہ وغیرہ
نظم ہو کہ نثر' الگ سے اپنی ایک تنظیم' ترتیب اور لسانیاتی ڈسپلن رکھتے
ہیں۔ نثر کا ایک نحوی نظام ہوتا ہے جب کہ نظم عروض' آہنگ یا کم از کم اہنگ
کی حامل ہوتی ہے۔ کسی ناکسی سطح پر اس میں غنائیت کا عنصر بھی پایا جاتا
ہے۔ یہ بات' الگ سے اہمیت رکھتی ہے کہ ہمارے مذہبی علما کرام' نثر کو بھی
گانے پر ملکہ رکھتے ہیں' تاہم دیگر عمومی و خصوصی سطحوں پر' یہ طور مستعمل
نہیں۔ دونوں میں زندگی اور زندگی کے معاملات سے متعلق' بات کی جاتی ہے لیکن
زبان' اسلوب' انداز' لب و لہجہ اور بیان میں فرق موجود رہتا ہے. نثر میں
شاعری یا شاعری میں نثر ممکن نہیں۔ مثلا یہ ہائیکو ملاحظہ فرمائیں
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا
جانے کیوں پھیکا پڑ جائے
چنچل روپ بہاروں کا
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا جانے کیوں پھیکا پڑ جائے چنچل روپ بہاروں کا
لاکھ کوشش کر دیکھیں' اسے نثر کے انداز میں نہیں پڑھ سکیں گے۔ نثر کی اپنی
زبان ہوتی ہے۔ یہ نثر کی زبان ہی نہیں۔
شاعری نثر سے' الگ شعری لوازمات کی حامل ہوتی ہے۔ رمز و ایمائیت' علامتیں
تشبیہات' استعارے' صنعتیں وغیرہ اس کا خاصہ ہوتی ہیں۔ نثر' شعری زبان اور
شعری لوازمات کی' متحمل نہیں ہوتی۔ داستان' ناول یا افسانے کی زبان'
رومانوی ہو سکتی ہے' شعری نہیں۔ تنقید و تحقیق میں یہ بھی ممکن نہیں۔ اس سے
ابہامی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ابہام' تحقیق و تنقید میں ممکن نہیں۔ یہ
گویا آپسی ضدین
میں داخل ہیں۔
پروفیسر ساحر کی نثر میں بھی شعری رنگ وحسن' لوچ' ملائمیت' چاشنی اور نازکی
کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ ان کا یہ طور قاری پر تھکن یا اکتاہٹ کی کیفیت
طاری نہیں ہونے دیتا۔ مثلا ان کی نثر سے یہ ٹکڑے پڑھیے اور لطف لیجیے۔
انسان
گھر کی چار دیواری سے
خوشبو کی طرح
باہر آ جاتا ہے
اور
ان رستوں پر چل نکلتا ہے
جو کبھی اسے
حیرت و تحیر کے
طلسم کدوں میں بھٹکاتے
اور کبھی
علم و آگہی کے
لالہ زاروں میں لے جاتے ہیں
10
اس نثری ٹکڑے کی سرحدیں' اسلوب وآہنگ کے حوالہ سے' شعر کی دنیا سے قریب تر
ہیں۔
اب ذرا یہ جملہ ملاحظہ ہو
تاریخ کے سینے میں اٹھتی موجیں گہر ہائے آب دار کی خبر لاتی رہیں۔
11
تاریخ کے سینے میں
اٹھتی موجیں
گہر ہائے آب دار کی
خبر لاتی ہیں۔
یہ سطور شعری مزاج سے بہرہ ور ہیں۔ آہنگ اور شعری اسلوب کی کسی سطح پر کمی
محسوس نہیں ہوتی۔دوسری طرف کہیں ابہامی صورت پیدا نہیں ہو رہی۔
اس ذیل میں' ایک اور نمونہ ملاحظہ ہو۔
دعا سے پھوٹی ہوئی شاعری خاک کی تعبیر کا سراپا اوڑھ کر خواب اور خیال کے
آفاق پر جلوہ گر ہونے لگی اور ذات کا منظرنامہ انکسار وجود میں ڈھلنے لگا۔
12
دعا سے
پھوٹی ہوئی شاعری
خاک کی تعبیر کا
سراپا اوڑھ کر
خواب اور خیال کے آفاق پر
جلوہ گر ہونے لگی
اور
ذات کا منظرنامہ
انکسار وجود میں
ڈھلنے لگا
ہر صنف ادب کی اپنی زبان اور اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ یہ اپنی زبان اور اپنے
اسلوب میں ہی بھلی لگتی ہیں۔ لسانی واسلوبی کثافت' ناصرف لطف کو غارت کرکے
رکھ دیتی بل کہ تفہیمی ابہام کے رستے بھی کھل جاتے ہیں۔ افسانوی اسلوب
تکلم' خصوصا تحقیق و تنقید کے وارے کی چیز نہیں ہے۔ یہ صاف صاف انداز و
بیان کی متقاضی رہتی ہیں۔ اس سے کھردراپن ضرور آ جاتا ہے' لیکن تفہیمی
ابہام کا دروازہ نہیں کھلتا۔ دو جمع دو چار ہی رہتے ہیں' چھے کسی صورت میں
نہیں بنتے۔ چھے کا شبہ' اس تحریر کو تحقیق و تنقید کے کھاتے پر چڑھنے نہیں
دیتا۔
پروفیسر ساحر کی رنگین نویسی بھی' تحقیقی و تنقیدی امور کی انجام دہی میں'
ناکام نہیں ہے۔ غالبا اردو ادب کا یہ پہلا تجربہ ہے' جو تحقیقی و تنقیدی
اسلوب سے ہٹ کر' کچھ لکھا گیا ہے اور کسی بھی سطح پر' ابہامی کیفت پیدا
نہیں ہوتی۔ دو اور دو چار ہی رہتے ہیں۔ باطور نمونہ فقط یہ دو جملے ملاحظہ
ہوں
تخلیق کا فکری پس منطر: عشق اور سرمستی کے جذباتی رویوں سے ہم آہنگ ہو کر'
فراق اور ہجر کے تلازماتی آفاق کو اس طرح وسعت آشنا کرتا ہے کہ موسموں کے
بدلتے منظرنامے شاعر کی باطنی کیفیات سے طلوع ہوتے ہیں۔
13
جب صدیوں کے سفر سے لوٹے' تو ان کا دامن رنگا رنگ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔
مختلف رنگوں اور خوشبوؤں کے پھول۔۔۔۔۔۔ انھوں نے ان پھولوں کو اس طرح گل
سرسبد میں پرویا کہ نہان کے رنگ ماند پڑے اور نہ خوشبو۔
14
فلسفانہ طور اظہار' بال کی کھال اتارنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس میں غالب کا
کہا' مثل رہتا ہے۔
ہوئی مدت کہ مر گیا غالب پر یاد آتا ہے
ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
شاید ہی کوئی شاعر رہا ہو گا' جس کے کلام کی اتنی شرحیں ہوئی ہوں گی' جتنی
غالب کے کلام کی ہوئی ہیں۔ ان کا چند سو اشعار پر مشتمل دیوان' آج تک' بڑے
بڑے جید اہل فکر کی' تشریح کی گرفت میں نہیں آ سکا۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ
فرمائیں۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
15
دیکھنے میں' بالکل عام سے لفظ استعمال میں آئے ہیں لیکن ان میں کہا گیا'
سادہ اور عام سا نہیں ہے۔ گویا فلسفیانہ اظہار' سوچ کے دائروں کو' لامحدود
کروں کی جانب' مراجعت پر مجبور کر دیتا ہے اور یہ ہی ' کمال فکروفن ہے۔
پروفیسر ساحر کے ہاں' شیرہ میں ملفوف' فلسفانہ طرز اظہار بھی' پڑھنے کو
ملتا ہے۔ یہ طور' قاری کو غور و فکر کی وادیوں میں' لے جاتا ہے۔ ان وادیوں
میں گھومتے پھرتے' قاری پر معنویت کے نئے نئے صحیفے اترتے ہیں۔ مثلا یہ
جملے ملاحظہ ہوں۔
مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے باہمی ٹکراؤ اور۔۔۔۔کسی حد تک۔۔۔۔۔مکالماتی
اسلب نے زندگی کو ایک نیا رنگ ڈھنگ عطا کیا۔ اس اسلوب کی فکری اور جمالیاتی
تہذیب محض ادب آشنائی سے ممکن نہیں رہی' جب تک کہ ادب اور اس کے تناظر میں
موجودہ روایت اور تصور حقیقت کی وہ کلی تفہیم ممکن نہ ہو جائے' جو ادب کو
فکری اور تہذیبی بنیادوں پر استوار کرتی ہے۔
16
ہر لفظ کا اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ کا' اس کے مجوزہ کلچر کے مطابق
استعمال ہو رہا ہو' تو
اسے کمال ہنر کا نام دیا جائے گا۔
تفہیم میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
تحریر و تقریر کے حسن میں ہر چند اضافہ ہوتا ہے۔
قاری یا سامع کی لطف انگیزی اور دل چسپی بڑھتی ہے۔
قرآت یا مطالعہ کے دوران ابہام یا الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا۔
قاری یا سامع کسی نوع کی اکتاہٹ یا عدم توجہگی کا شکار نہیں ہوتا۔
لفظ کا اصطلاحی اور مجازی استعمال بھی' مرکزے سے دوری اختیار نہیں کرتا۔
پروفیسر ساحر' لفظ اور اس کے کلچر سے خوب آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں' کون سا
لفظ کہاں اور کس موقع پر' استعمال ہونا چاہیے۔ لفظوں کی سماجیات سے آگہی'
جہاں تحریر کو رعنائی بخشتی ہے' وہاں اس کی معنویت میں بھی اضافے کا سبب
بنتی ہے۔ معاملہ صاف ہو جاتا ہے اور کچھ بھی' درپردہ نہیں رہ پاتا۔ اس
حوالہ سے دو ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں' جو ان کی ثقافتی علمیت کی عکاسی
کرتی ہیں۔
انسانی زندگی۔۔۔۔۔۔تہذیب اور ثقافت کے فکری اورجمالیاتی آہنگ سے جڑی ہوتی
ہے۔ زندگی کی کلی معنویت کا احساس تہذیبی معنویت کے جمالیاتی رنگوں سے
پھوٹتا اور برگ و بار لاتا ہے' کیوں کہ زندگی اؤر تہذیب میں ایک ایسی فکری
اور اساسی روح کارفرما ہوتی ہے' جس کا ادراک ہر دو کی تفہیم کے بغیر ممکن
نہیں ہوتا۔
17
لفظ تہذیب کی اوٹ سے جب جلوہ نما ہوتا ہے' تو اس کی معنوی اپیل وسعت آشنائی
کی دلیل بن جاتی ہے۔ لفظ کی تہذیب کے باطن میں سفر آشنائی اور اس کی مسلسل
گردش کا راز اس کی معنوی ہمہ گیریت سے وابستہ ہوتا ہے۔
18
پروفیسر عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی کی تحقیق اور تنقید کے یہ سات رنگ' اردو
نثر کے انداز تحریر میں' اپنی لگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ آتا وقت' جہاں ان کے
تحقیقی ورک کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا' وہاں ان کے ان سات رنگوں کے' حسن
وجمال اور ان کی نشت و برخواست کو نظرانداز نہیں کر سکے گا۔
.......................................
حوالہ جات
1 افتخار عارف: شخصیت اور فن ص 57
2 ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط ص 35
3 افتخار عارف: شخصیت اور فن ص 89
4 افتخار عارف: شخصیت اور فن ص 89
5 جمیل الدین عالی کی نثر نگاری ص 6
6 تحقیقی مجلہ تعبیر
شمارہ: 1 جنوری تا جون 2015' شعبہءاردو'
علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی' اسلام آباد
7 ڈاکٹر جمیل جالبی: شصیت اور فن ص 55
8 جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص 8
افتخار عارف: شخصیت اور فن ص 9
10 جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص 35
11 ڈاکٹر جمیل جالبی: شصیت اور فن ص 55
12 جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص 62
13 بارہ ماھیہءنجم ص 12
14 ڈاکٹر جمیل جالبی: شصیت اور فن ص 49
15 شعر کی تشریح کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں
غالب کا ایک شعر
بروز: جولائی 17, 2013, 09:19:35 صبح
https://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7983.0
16 جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص24
17 ڈاکٹر جمیل جالبی: شخصیت اور فن ص 32
18 ڈاکٹر جمیل جالبی: شخصیت اور فن ص 69
کتابیں
بارہ ماھیہءنجم
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط
ڈاکٹر جمیل جالبی: شخصیت اور فن
جمیل الین عالی کی نثر نگاری
افتخار عارف: شخصیت اور فن
تحقیقی مجلہ تعبیر
شمارہ: 1 جنوری تا جون 2015' شعبہءاردو'
علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی' اسلام آباد |