حافظ عثمان شفیق۔لاہور ۔
موبائل فون دیکھنے میں ایک چھوٹی سی مشین ہے لیکن اس چھوٹی سی مشین نے
ہماری زندگیوں کے طور طریقے اور خیالات بدل کر رکھ دیئے۔ معاشروں کے معاشرے
موبائل کے استعمال کی بدولت نہ جانے کہاں سے کہاں جا چکے ہیں۔ اس موبائل کی
افادیت کو دیکھیں تو یہ ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ موبائل 2 طرفہ رابطہ کا
ذریعہ ہے۔ آپ ا س کے ذریعے نہ صرف سن اور دیکھ سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے
ساتھ اپنے خیالات بھی شیئر کر سکتے ہیں۔ اب یہ تو انسان کی مرضی پر منحصر
ہے کہ آیا وہ اس سے فحش باتیں اور تصاویر دیکھتا ہے یا قرآن و احادیث سنتا
اور پڑھتا ہے اور اسے اچھے کاموں میں استعمال کرتا ہے۔
ہم پہلے اس موبائل کے اپنے طور پر چند اہم پہلو بیان کرتے ہیں۔
1۔ دعوت توحید و سنت :
اس موبائل سے اﷲ کے دین کی دعوت بذریعہ کال یا میسج دینا بہت ہی آسان
ہوگیاہے جو لوگ روزانہ اپنے بھائیوں ‘رشتہ داروں اور دوستوں کو دینی میسج
کرتے ہیں اور ان کا مقصد دعوتِ دین کو فروغ دینا ہے۔ تو وہ لوگ یقینا نہایت
عظیم ہیں اور بہت اجر کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس موبائل جیسی نعمت کی قدر
کرتے ہوئے اس کا درست استعمال کیا۔ اور آج دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود
ہیں جو کالز پر شرعی مسائل کا حل لوگوں کو بتاتے ہیں اور کچھ لوگ بذریعہ
میسجز لوگوں تک دین کی دعوت پھلانے میں مشغول ہیں۔ اس دعوت کو روکنے کے لئے
پچھلے دنوں یہ میسج بھی چلایاگیا کہ موبائلز پر قرآنی آیات و احادیث نہ
بھیجا کریں‘ لوگ اسے ڈیلیٹ کردیتے ہیں اور یہ بات قرآن و حدیث کا وجودختم
کرنے کے زمرے میں آتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس عمل سے دین کم نہیں
ہوگا بلکہ بہت لوگوں تک اس کی اشاعت ہوگی اور رہی بات ڈیلیٹ کرنے کی تو
ایسے تو کالجز‘ یونیورسٹیز اور سکولز میں بورڈ پر ہر استاد روزانہ آیات و
احادیث لکھتا ہے‘ پڑھاتا ہے اور بعد میں اسے صاف کردیتا ہے‘ ڈیلیٹ کرنے سے
دین کم ہو تو پھر بورڈ پر استاد کا لکھ کر پڑھانا اور صاف کرنا بھی درست
نہیں؟لہٰذا یہ بات ٹھیک نہیں ہے بلکہ ان ذرائع سے لوگ دین پڑھتے ہیں‘پڑھاتے
ہیں اور سیکھتے سکھاتے ہیں۔ اس سے دین اسلام کی اشاعت ہوتی ہے اور لاکھوں
لوگوں تک دین پھیلتا ہے اور یہ اشاعت اسلام کا بہترین ذریعہ ہے۔
2۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک:
آج مادیت پرستی نے بنی نوع انسان کو اعلی اقدار سے یکسر محروم کردیاہے اور
لوگ اس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ والدین کے پاس حاضری اور ان کی خدمت کا موقع
خال خال ہی نصیب ہوتا ہے۔ اب موبائل نے ایک حد تک اس مشکل کو کم کردیاہے کہ
انسان ہر وقت اور ہر جگہ سے والدین کے ساتھ رابطہ کر سکتاہے۔ ان سے ان کو
راضی کر سکتاہے۔ ان سے دعاؤں کی درخواست کرسکتا ہے۔ کیونکہ والدین کی
رضامندی حصول جنت کا ذریعہ ہے فرمان الہٰی ہے ’’وبالوالدین احسانا‘‘ اور
ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘
3۔صلۂ رحمی:
دین اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ہمارے روابط
منقطع ہیں اور ہم سالہا سال تک ان کی خبر گیری نہیں کرتے‘ بس شادی یا غمی
میں رسمی ملاقاتیں باقی رہ گئی ہیں۔ صلہ رحمی جو کہ انسان کی عمر اور رزق
میں برکت اور اضافہ کا سبب ہے‘ اس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ شاید ہی کوئی خوش
نصیب ہو جس کے تعلقات رشتہ داروں کے ساتھ مضبوط ہوں۔ موبائل اس بیماری سے
نجات کے لئے کچھ حد تک معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپ موبائل کے ذریعے ماموں‘
چچا‘ تایا‘ دادا ‘ خالہ‘ پھوپھی وغیرہ کے ساتھ آسانی سے اور متصل رابطہ رکھ
سکتے ہیں اور یہی رابطہ ان کے ساتھ ملاقات اور صلہ رحمی میں معاون ثابت ہو
سکتا ہے۔ نبیe نے فرمایا‘ قربت داری (قیامت کے دن) عرش کے ساتھ معلق ہوگی
اور کہہ رہی ہوگی جس نے مجھے ملایا‘ اسے اﷲ ملائے اور جس نے مجھے توڑا‘ اﷲ
اسے توڑے۔ (مسلم 2555)
4 ۔ بیمار پرسی:
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہوجائے تو وہ اس کی
تیمار داری کرے خصوصاً جب مریض کے ساتھ قریبی رشتہ داری‘ دوستی یا جان
پہچان ہو اگر کسی مصروفیت کی بناپر انسان خود تیمار داری کے لئے نہ جا سکتا
ہو تو ٹیلی فون کے ذریعے اس فرض کو ضرور سر انجام دے۔ وہ بیمار بھائی کے
متعلق پوچھ سکتا ہے یا اس سے خود بات کر سکتا ہے۔ اسے چاہئے کہ مریض کو
تسلی دے۔ اور وہ دعائیں دے جو نبیؐ نے تیمار داری کے لئے سکھلائی ہیں۔ نبیؐ
نے مریض کی تیمار داری کرنے والے کے لئے ارشاد فرمایاکہ اگر وہ صبح کرے تو
رات تک اور رات کو تیمار داری کرے تو صبح تک 70 ہزار فرشتے اس کے لئے مغفرت
کی دعائیں کرتے ہیں‘ قارئین کرام ذرا سوچئے اگرہم اجر کی اپنے رب سے نیت
رکھتے ہوئے اپنے بھائی کو 5 روپے کی کال کرکے تیمارداری کریں تو اﷲ ہمیں
کتنے بڑے اجر سے نوازے گا۔ ان شاء اﷲ
5۔تعزیت:
موت ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس سے فرار کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے مگر
بدقسمتی یہ ہے کہ انسان اس دھوکہ میں مبتلا رہتا ہے کہ اگرچہ فلاں آدمی آج
دنیا سے گیا تو کیا ہوا‘ میں تو زندہ ہوں نا‘ اسے اس زعم باطل میں اِس قدر
یہ چیز مگن کردیتی ہے کہ پھر وہ رشتہ داروں کے جنازوں پر جانا تو دور کی
بات‘ تعزیت بھی نہیں کرتا حالانکہ کسی بھی انسان کی موت دوسرے انسانوں کے
لئے مس کال ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کال کس وقت آجائے گی۔ تو اس لئے یہ ایک
مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے‘
اس کا جنازہ پڑھنا چاہئے‘ ورثاء سے تعزیت کرنی چاہئے۔ نبیؐ کی سکھلائی ہوئی
دعا :انا ﷲ ما آخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمی ولتصبر ولتحتسب
پڑھ کر صبر کی تلقین کرنی چاہئے لیکن اگر جنازہ پر نہیں پہنچ سکا تو پھر
پہلے موبائل پر تعزیت کرے۔اور بعد میں جوں ہی موقع ملے تو مل کر تعزیت بھی
ضرور کرے۔ الغرض اس تعزیت والے عمل کو بھی موبائل نے بہت آسان اور ممکن
بنادیا ہے۔
6۔ فوری مدد کا حصول
بعض دفعہ انسان اچانک کسی ایسی جگہ پر پھنس جاتا ہے جہاں سے نہ تو نکلنا اس
کے لئے ممکن ہوتاہے اور نہ ہی وہ کسی اپنے کو مدد کے لئے پکار سکتا ہے۔
مثلا آگ لگ جانا‘ ایکسیڈنٹ ‘ عمارت گرجانا وغیرہ وغیرہ ان سب ایمرجنسی
حالات میں موبائل ہی سے بھرپور استفادہ کیاجاتا ہے۔
7 ۔ تزکیۂ نفس
ایک اہم فائدہ اس کا یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان اپنے بیوی ‘ بچوں
کا‘ دوستوں ‘ رشتہ داروں کا محاسبہ کر سکتاہے اگرچہ وہ کئی میل دور ہی کیوں
نہ ہوں مثلاً عبادات‘ نماز ‘ روزہ‘ قرآن کی تلاوت وغیرہ الغرض دین کے ہر
شرعی پہلو کے نقطہ نظر سے اپنے اقربا اور احباب کا محاسبہ کرنا اب مشکل
نہیں بلکہ بہت آسان ہے ایسا لازماً کرنا چاہئے۔ اور اس میں کوتاہی انسان کو
بعد میں بہت سے مسائل سے دوچار کرتی ہے۔
موبائل کا ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اسے اپنے ساتھ باآسانی ہر جگہ لے
کر جا سکتے ہیں یہ تار کے بغیر ( Wireless) ہے اور ہر موقع پر آپ کا ساتھ
دینے کو تیار ہے۔
اس کے علاوہ بھی موبائل کے بے بہا فوائد ہیں جنہیں کہ شاید شمار کرنا ممکن
نہیں لہذا ہمیں اﷲ تعالی کی دی ہوئی اس نعمت کا بہترین اور اچھا استعمال ہی
کرنا چاہیے۔ |