مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت نے پاکستانی قوم پر مہنگائی کا ڈرون حملہ
کرتے ہوئے منی بجٹ پیش کر دیا جس میں40 ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات
نافذ کئے ہیں۔ ان کے تحت 61 آئٹمز پر جن پر پہلے مختلف شرحوں سے کسٹمز
ڈیوٹی نافذ تھی‘ پر مزید 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کر دی گئی ہے۔
289 آئیٹمز جن پر اس وقت ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ تھی‘ پر ایکسائز ڈیوٹی (آر
ڈی) کی شرح میں مزید 5 فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ 9 مختلف سیکٹرز کے خام مال
اور مشینری‘ آلات کو چھوڑ کر باقی تمام درآمدات جن میں ہزاروں آئٹمز شامل
ہیں ‘ پہلے سے موجود کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا
ہے‘ 9 مختلف سیکٹرز کے خام مال اور مشنری آلات کو چھوڑ کر باقی تمام
درآمدات جن میں ہزاروں آئیٹمز شامل ہیں‘ پہلے سے موجود کسٹمز ڈیوٹی کی شرح
میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ استعمال شدہ پرانی گاڑیوں کی درآمد پر
بھی ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ سگریٹ پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں
اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اقتصادق رابطہ
کمیٹی کے اجلاس کے بعد 40 ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات کا اعلان کیا۔
پریس کانفرنس میں مشیر ریونیو ہارون اختر خان اور چیئرمین ایف بی آر بھی
موجود تھے۔ ایف بی آر کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 40 ارب روپے کا
ریونیو نقصان ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری قرضہ پروگرام کی ایک شرط
جس میں ریونیو ہدف کو حاصل کرنا شامل ہے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو منی
بجٹ لانا پڑا ہے۔ رواں ماہ کے وسط میں آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس ہو گا
جس میں پاکستان کے لئے500 ملین ڈالر کی قسط کے اجراء کی راہ ہموار ہو گئی
ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر حکومت کے ذمہ قرضوں اور
واجبات کامجموعی حجم207کھرب تک پہنچ چکا ہے جوکہ انتہائی تشویش ناک امر
ہے۔صرف ایک سال کے دوران حکومت کے قرضوں اور واجبات میں21کھرب 97ارب50کروڑ
روپے کااضافہ معاشی پالیسیوں کی ابتری کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے ہنگامی
بنیادوں پرکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کوبیرونی قرضوں کی بجائے قومی
وسائل پرانحصار کرنا چاہئے۔پاکستان کاہرشہری ایک لاکھ7ہزار828روپے کامقروض
ہوچکا ہے۔ اندرونی قرضوں میں 16کھرب18ارب70کروڑ روپے کااضافہ نوٹ کیاجارہا
ہے اور ان کامجموعی حجم 127کھرب 14ارب60کروڑروپے تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ
سے سٹاک مارکیٹ میں مندابرقرار ہے۔اب تک سرمایہ داروں کے20ارب26کروڑ روپے
ڈوب چکے ہیں۔رہی سہی کسر313اشیاء ضروریہ پرریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے سے پوری
ہو گئی ۔اس سے5کروڑسے زائد متوسط افراد براہ راست متاثر ہوں گے۔حکومت ایسے
اقدامات نہ کرے جن سے غریب عوام کے مسائل میں اضافہ ہو۔ آئی ایم ایف
کاپاکستان کے ذمہ قرضہ175ارب20کروڑ روپے سے بڑھ کر475ارب30کروڑ روپے ہوچکا
ہے۔حکومتی قرضے اور واجبات مجموعی قومی آمدن کے67.5فیصد ہے جوکہ ملک وقوم
کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملکی
وسائل کوبروئے کار لاتے ہوئے ملکی وغیر ملکی قرضوں سے چھٹکارہ حاصل کرے۔
ڈالر ایک مرتبہ پھر106روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ
ہونے سے غریب کی زندگی اجیرن ہے۔رواں مالی سال کے ابتدائی 4ماہ میں ملکی
برآمدات میں ایک ارب ڈالرکی کمی ہوچکی ہے۔زائدپیداواری لاگت سے بیرون ملک
پاکستانی مصنوعات کی مارکیٹ کوشدیدنقصان پہنچایا ہے۔حکومت نے جن 61 آئٹمز
پر کسٹمز ڈیوٹی کے علاوہ مزید 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی ہے ان
میں زندہ مرغی‘ مچھلی‘ فروزن مچھلی پر 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی تھی‘ ان پر مزید
10 ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے‘ کوکا بڑ کوکا پاؤڈر پر 5 فیصد کسٹمز
ڈیوٹی ہے ان پر مزید 10 فیصد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ گرانڈنٹ پر 15 فیصد
کسٹمز ڈیوٹی ہے ان پر 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ پائن
ایپل ترشاوہ پھلوں‘ چیریز‘ اسٹرابری‘ پام ہرٹ پر 15 فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد
ہے ان مد کی درآمد پر مزید 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ کافی‘
چائے کی درآمد پر اس وقت 10 فیصد کسٹمزڈیوٹی ہے ان پر مزید 10 فیصد
ریگولیٹری وصول کی جائے گی۔ٹرنک‘ سوٹ کیس‘ وینٹی کیس‘ بریف کیس‘ لیدر
امپیریل‘ اوورکوٹ پر 20 فیصد کسٹمز ڈیوٹی موجود ہے۔ ان پر مزید 10 فیصد
ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کر دی گئی ہے۔ مردوں‘ عورتوں کے اوورکوٹ‘ جیکٹ‘ قمیض‘
بے بی گارمنٹس ‘ ٹریک سوٹ‘ سویم سوٹ‘ امسال ‘ ٹائی بیڈ لینن‘ پردے‘ جراب‘
فٹ ویئر پر اس وقت کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 20 فیصد ہے۔ ان آئٹمز پر مزید 5 سے
10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی۔ ڈائپر‘ سینٹری ٹاول پر 5 فیصد
ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی۔ ایف بی آر 289 آئیٹمز پر پہلے ہی 10 فیصد
کے حساب سے ریگولیٹری ڈیوٹی حاصل کر رہا ہے۔ ان تمام آئٹمز پر ریگولیٹری
ڈیوٹی میں مزید 5 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ان میں دہی‘ مکھن‘ ڈیری
سپریڈ‘ پنیر‘ قدرتی شہد‘ پائن ایپل‘ آم اورینج‘ کینو‘ لیمن‘ سیب‘ خوبانی‘
وائٹ چاکلیٹ‘ کنٹیکنگ ایگ‘ سویٹ بسکٹ‘ ویفر‘ اچار‘ ٹماٹر‘ مشروم ‘ آلو‘ او
لیو‘ ٹماٹر جوس‘ سویا ساس‘ صابن‘ آئس کریم‘ منرل واٹر‘ خوشبویات‘ لپ مہک
اپ‘ آئی مہک اپ‘ نیل پالش فیس پاؤڈر ‘ ٹالک پاؤڈر پر ریگولیٹری ڈیوٹی کو 10
فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دیا گیا۔ اس طرح خواتین کے زیراستعمال زیبائش
کی درآمدی اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں۔ ٹوتھ پیسٹ‘ خوشبودار صابن‘ ماربل‘
گرینائٹ‘ فریزرز ‘ فرنیچر‘ واٹر ڈسپنسرز‘ مکسر ‘ پیرا ڈائز‘ مائیکرویب
اوون‘ الیکٹرک فین‘ الیکٹرانک رینجرز‘ الیکٹرک روسٹر‘ کافی ٹی میکر‘ ٹوسٹر‘
وڈن بیڈ‘ پلاسٹک فرنیچرز‘ الیکٹرک ٹیبل ‘پمپ‘ آرائش والے بلب‘ ویل ٹوائز پر
بھی ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومتی اقدامات کے
تحت 9 سیکٹرز کو چھوڑ کر باقی تمام درآمد پر پہلے سے موجود کسٹمزڈیوٹی کی
شرحوں میں ایک فیصد اضافہ کیا ہے۔ڈیوٹی کا نفاذ ان ممالک سے آنے والی
درآمدات پر بھی ہو گا جن کے ساتھ پاکستان کے آزادانہ تجارت یاترجیحی تجارت
کے سمجھوتے ہیں تاہم کسٹمز شیڈول کے تیسرے شیڈول میں شامل اشیاء‘ زرعی
مشینری‘ ضروری خام مال‘ فارماسوئیکل ‘سبزیوں‘ قابل تجدید توانائی‘ سبزیوں‘
قابل تجدید توانائی‘ کول مائنگ‘ مقامی صنعت کے 25 سیکٹرز کے خام مال‘
مصنوعی لیدر‘ الیکٹرک موٹرز‘ کھاد کی درآمد‘ بیج اور بیجائی کی مشین‘ ٹیلی
کام سیکٹر پر ایک فیصد کی اضافی کسٹمز کا نفاذ نہیں ہو گا۔ اقتصادی ماہرین
نے وفاقی حکومت کی جانب سے 313 اشیا پر 40ارب روپے کی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد
کرنے کے نوٹیفیکیشن پر کہا کہ اس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا ملک میں
5.5کروڑ متوسط افراد براہ راست متاثر ہونگے جبکہ کاروباری برادری نے کہا ہے
اس فیصلے سے ملک میں سمگلنگ کو تقویت ملے گی۔ حکومتی منی بجٹ سے جہاں
اقتصادی ماہرین،کاروباری حضرات خوش نہیں تو وہیں عوام بھی نالاں ہیں۔کیونکہ
ملک میں پہلے ہی مہنگائی کے باعث غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔عوام
کودووقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ ایسے میں درآمدی
پھلوں،سبزی،مشروبات،شیمپو،صابن،ٹوتھ پیسٹ،منرل واٹر اوردیگر اشیاء ضروریہ
پرٹیکس بڑھانے سے عوامی مسائل میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گا ۔ موجودہ
حکومت نے اگرچہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے جوکہ خوش آئند ہے
مگرمہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لئے بھی فوری اقدامات کرنے کی ضرورت
ہے۔ملکی معاشی صورتحال بہتربناکر ہی ہم عوام کامعیار زندگی بلندکرسکتے ہیں۔
حکومت نے3104ارب کے ٹیکس اہداف کوپوراکرنے کیلئے آئی ایم ایف سے جووعدہ کیا
ہے اس کابوجھ غریب عوام پرڈالاجارہا ہے۔عوام کے خون پسینے کی کمائی
کوٹیکسوں کے ذریعے وصول کرکے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کوپوراکرنادانش
مندی نہیں۔چیف جسٹس سپریم کورٹ انورظہیرجمالی نے بھی نشاندہی کی ہے کہ ملک
کوقرضوں سے چلایاجارہا اور خراب حکمرانی سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔حکومت
عوام کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کاکڑااحتساب کرے۔عوام خوشحال ہوں گے توملک
خوشحال ہوگا۔ |