میں پیغمبروں کی سرزمین ہوں۔ میں امن کا نشان ہوں۔ میرے اوپر بہت سے
عظیم ہستیاں زندگی کی نشیب و فراز سے گزر چکی ہیں۔ میرے اوپر مسلمانوں کا
قبلہ اول موجود ہے۔ میں امن کا پیغام ہوں۔ میں سر سبز و شاداب خطہ ہوں۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے میرے اوپر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ امن کے دشمنوں کو میرے
اوپر بسایا گیا ہے۔ میرے ارض پاک پر اسرائیل نے قیامت صغریٰ برپا کی ہے۔
میرے اوپر ننھے منے فرشتے جام شھادت نوش کر گئے ہیں۔ بے بس ممتائیں اجڑی
گودوں سمیت میرے سینے میں اترگئیں۔ میرا چہرہ جلتی ہوئی چتا کا منظر پیش کر
رہی ہے۔ عالم اسلام میرے باسیوں کے قتل عام پر خاموش کیوں ہے؟ میرے اوپر
مظلوم فلسطینی مدد مدد پکار رہے ہیں۔ مسلم حکمران مذمت مذمت کہہ کر اپنے
فرائض سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ میرے اوپر وحشی درندے انسانی حقوق کی خلاف ورزی
کر رہے ہیں۔ اسرائیلی بربریت پر امریکا اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے
بیٹھے ہیں۔ عالمی برادرے اور امت مسلمہ کے خاموشی نے اسرائیل کو میرے اوپر
آگ اور خون کا کھیل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔ اسرائیل میرے اوپر بچوں اور
خواتین پر بدترین ظلم کر رہا ہے۔ میرے بچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ میرے
معصوم پھولوں پر اسرائیلی حالیہ مظالم کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ اور
برطانیہ مجھ پر ہونے والے مظالم میں برابر کی شریک ہے۔ میرے اوپر ہونے والے
ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ میرے زخموں پر مرہم لگانے والا
نہیں۔ میرے بے بسی پر سیاست چمکانے والے بہت ہیں۔ میرے مدد کے لیے اٹھنے
والا کوئی نہیں۔ لیکن میرے سینے پر میرے غیور بیٹے ابھی زندہ ہے۔ میرے
زخموں کو گننے والوں ابھی ذرا دیر ہے۔ میرے اوپر بچے ابھی بھی دلیر ہے۔
میرے اوپر امن کی قیام تک تو صبر کر۔
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازوؤں پہ نگاہ کر جو غرور تھا وہ غرور ہے۔ |