اخبار میں تحریر کیسے شایع کروائی جائے؟
(عابد محمود عزام, Karachi)
بہت سے دوست بتاتے ہیں کہ انہیں
اخبار میں لکھنے کا بہت شوق ہے اور وہ لکھ کر بھیجتے بھی ہیں، لیکن ان کی
تحریریں شایع نہیں ہوتیں، جس کے بعد یا تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں لکھنا
نہیں آتا اور وہ لکھنا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اخبار کے ذمہ داران کو نئے
لکھاریوں کی صلاحیتوں کا دشمن قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان
کی تحریریں غیرمعیاری ہونے کی وجہ سے ناقابل اشاعت ہوں ۔ صاحب تحریر تو
اپنی تحریر کو معیاری سمجھ رہا ہو، لیکن وہ اخبار کے معیار کے مطابق نہ
ہو،اس صورت میں تحریر اخبار میں جگہ نہیں پاسکتی۔ تحریر شایع نہ ہونے کی
کئی وجوہ ہوتی ہیں، جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ کسی بھی اخبار میں نئے
لکھنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی تحریر جس اخبار میں بھیجنا چاہتا
ہے، باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ کر کے اس اخبار کی پالیسی سمجھنے کی کوشش کرے۔
اس کے مزاج کو سمجھے۔ یہ معلوم کرے کہ اس کے اخبار کے قارئین کا حلقہ کیسا
ہے؟ وہ تحریر کسی ادبی،اسلامی، سائنسی، معاشی صفحے کو بھجوا رہا ہے، یا پھر
وہ صفحہ کسی اور حوالے سے ہے۔
تحریر اخبار اور صفحہ کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے لکھیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے
کہ تحریر بہت شاندار ہوتی ہے، لیکن وہ اخبار کے مزاج یا پالیسی کے مطابق
نہیں ہوتی، یا اخبار کی پالیسی کے خلاف تو نہیں ہوتی، لیکن جس صفحے پر آپ
بھیج رہے ہیں ، اس صفحے کے موضوعات کے مطابق نہیں ہے۔ آپ نے کسی سیاسی
موضوع پر بہترین کالم لکھا اور اسے میگزین صفحے پر بھیج دیا۔ مذہبی موضوع
پر ایک بہترین مضمون لکھا یا کوئی بہترین رپورٹ تیار کی اور اسے ادارتی
صفحے پر بھیج دیا۔ سائنس، سیاست یا اسپورٹس پر ایک عمدہ مضمون لکھا اور اسے
اخبار کے اسلامی صفحہ پر بھیج دیا۔ ان تمام صورتوں میں آپ کی تحریر چاہے
بہت ہی بہترین ہو، لیکن اخبار کا ایڈیٹر اسے اپنے صفحے پر جگہ دینے سے قاصر
ہوگا، کیونکہ آپ نے اپنی تحریر جس جگہ بھیجی ہے، وہ اس کی جگہ تھی ہی نہیں۔
اگر تحریر شایع نہیں ہوتی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی تحریر معیاری
نہیں تھی ، بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے تو تحریر بہت شاندار
لکھی، لیکن اخبار کے دفتر میں ملک بھر سے آنے والی تحریروں کی بہتات کی وجہ
سے آپ کی تحریر کے لیے جگہ نہیں بن پائی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے تو تحریر
بہت عمدہ لکھی، لیکن وہ اخبار کی پالیسی کے مطابق نہیں تھی، پرانے لکھنے
والوں کی تحریروں کی وجہ سے آپ کی تحریر کو جگہ نہیں مل پائی، نئے لکھنے
والوں کی آپ سے بھی بہتر تحریریں آچکی تھیں یا آپ نے جس موضوع پر لکھا ہے،
اسی موضوع پر دیگر کئی افراد کی تحریریں شایع ہوچکی ہیں یا وہ موضوع ہی
پرانا ہوچکا ہے۔
اگر پہلی بار بھیجنے سے آپ کی تحریر شایع نہیں ہوئی تو دوسری بار بھیجیں،
تیسری بار بھیجیں، مستقل مزاجی سے لگے رہیں۔ جب ایک بار آپ کی تحریریں شایع
ہونے لگیں تو ایڈیٹر کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ فلاں نیا لکھنے والا
اچھا لکھتا ہے۔ اب وہ نئے لکھاریوں کی تحریروں کی بہتات کے باوجود آپ کی
تحریر کو ترجیح دے گا۔ اخبار کے دفتر میں اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ایڈیٹر ہر
تحریر کو اول تا آخر پڑھے، بلکہ سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر اپنے پرانے
لکھاریوں کی تحریروں کو دیکھا جاتا ہے ، ان کے ہوتے ہوئے نئے لکھاریوں کو
ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ جب پرانے لکھاریوں میں سے کسی کی تحریر نہ ہو تو اس
کے بعد نئے لکھاریوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ اگر کوئی نیا لکھاری اپنی تحریر
شایع نہ ہونے کے باوجود بھی مستقل بھیجتا رہے تو رفتہ رفتہ وہ بھی اخبار پر
جگہ پانے لگے گا، لیکن مستقل مزاجی ضروری ہے۔ یہ معاملہ آج کے کسی نئے
لکھاری کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ آج کے کئی نامور اور معروف کالم نگاروں کی
بھی ان کے ابتدائی دنوں میں بہت سی تحریریں مسترد ہوتی رہی ہیں، لیکن انہوں
نے ہمت نہیں ہاری، مستقل مزاجی کے ساتھ لگے رہے اور آج ان کا بڑا نام ہے۔
آج بہت سے لوگ بڑا لکھاری بننے کی خواہش کا اظہار تو کرتے ہیں، لیکن ان کی
آج کی شہرت کے پیچھے برسوں کی مسلسل محنت پر نظر نہیں ڈالتے۔ کوئی بھی بڑا
آدمی ”بائی ڈیفالٹ“ بڑا نہیں ہوتا، بلکہ اسے مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس
کے راستے میں بہت سے کٹھن مراحل بھی آتے ہیں، لیکن وہ کبھی گھبراتا نہیں ہے،
بلکہ ہمیشہ ان تمام مراحل کو خوش اسلوبی کے ساتھ عبور کرلیتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ تحریر کو اخبار کے مزا ج کے مطابق لکھیں،
عامیانہ اور ٹھیٹھ خطیبانہ اور روایتی انداز کو چھوڑ کر لکھیں۔ تحریر لکھنے
کے بعد پہلے خود اسے کئی بار پڑھیں، ہر بار پڑھنے سے بہت سی نئی غلطیاں
سامنے آئیں گی، جن کی اصلاح آپ کو خود ہی کرنا ہوگی۔ ممکن ہو تو کسی صاحب
فن کو اپنی تحریر دکھا بھی لیں۔جب آپ اپنے تئیں اپنی تحریر کو کلیئر کردیں
تو تحریر کو فیئر کرنے کے بعد متعلقہ اخبار کے ایڈیٹر کو بھیجیں۔ اپنی
تحریر ایڈیٹر کو روانہ کرنے کے بعد انتظار کریں۔ چھپنے کی جلدی نہ کریں۔
اگر اخبار کے صفحات پر آپ کی تحریر کی جگہ بن پائی تو ایڈیٹر ضرور لگائے گا،
کیونکہ ایک اچھی تحریر کی ضرورت اخبار کو رہتی ہے، بشرطے کہ اس کے پاس پہلے
سے بہترین تحریریں موجود نہ ہوں۔اگر آپ کی تحریر شایع نہیں ہوتی تو سمجھیں
کہ ایڈیٹر آپ کی تحریر ضرور لگاتا، لیکن اس کو کوئی مجبوری آڑے آگئی ہے۔ |
|