خدارا اپنے بچے بچائیے

بچوں کو بچانا آپکا فرض ہے۔

بڑھتے واقعات ماں باپ کی عدم دلچسپی کی طرف بھی اشارہ ہیں۔

ہم سب ہی آجکل خبریں پڑھتے ہوئے اور ٹی وی پر خبر سنتے ہوئے بے حد غمزدہ ہو جاتے ہیں کہ آجکل نہ جانے کیا کیا اور کیسا کیسا ہو رہا ہے۔ کیوں کیوں ہو رہا ہے۔ انتہائی کم عمر بچے بھی اور انتہائی بڑی عمر کے افراد بھی جنسی ہوس میں کس طرح کے کارنامے سر انجام دینے لگے ہوئے ہیں۔
آئیے جائزہ لیں کہ کچھ اسباب اور انکا سد باب کس طرح ممکن ہے۔
۱۔ سب سے پہلے تو ماں باپ کا کردار اس دور میں جتنا اہم ہے اس بات سے کسی طور پر انکا ر ممکن نہیں۔ آج ماں باپ کا فرض اور کام بیس سال پہلے کے والدین سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ آج کے والدین اولاد کو ڈرا دھمکا کر اور اسکے اپنے حال پر چھوڑ کر گزارہ نہیں کر سکتے۔
والدین کو صرف والدین والا نہیں ایک استاد ایک رہنما ایک دوست والا رول بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ عملی طور پر بہت کم لوگ ایسے کر رہے ہیں بلکہ اب ماں باپ پہلا جتنا کر لیتے تھے اس سے بھی گئے ہیں اور مزید لا پروا ہو گئے ہیں۔
۲۔ ماں ہو یا باپ دونوں کو یاد رکھنا ہوگا اولاد اپنی ہے تو اسکا ذہنی اور جسمانی اور جزباتی تحفظ بھی اپنی ذمہ داری ہے۔ صرف کھلا پلا کر اور سکول بھیج کر آپ اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے۔
آپکو اپنا بیٹا ہو یا بیٹی اسکو بتاناہوگا کہ اسکو کوئی کیا کہے کس طرح چھوئے کوئی بات انکو نامناسب لگے کسی بات پر انکو محسوس اچھا نہ ہو تو کس طرح وہ شور مچا کر آس پاس کے لوگوں کو متوجہ کریں اور کس طرح جگہ کو چھوڑ سکتے ہیں کس طرح اپنا تحفظ کر سکتے ہیں۔
اسکے لئے آپکو اپنی اولاد کو کم عمری میں ہی اس حوالے سے بتانا ہوگا اور مکمل طور پر پرسکون ہوتے ہوئے آگاہ کرنا ہوگا۔
۳۔ خود بھی آپکو خیال رکھنا ہوگا کہ بچہ کہاں جا رہا ہے کس سے مل رہا ہے کتنی دیر لگا رہا ہے اور کیا روٹین چل رہی ہے۔ بچہ گھر سے کئی کئی گھنٹے غائب رہے اور ٹھیک سے آپکو بتا نہ سکے کہ کہاں کیوں کس کے ساتھ ہے تو یہ ایک خوفناک بات ہے آپکو اس حوالے سے خیال رکھنا ہوگا اور ایک توازن قائم کرناہوگا جو کہ نا تو ظلم ہو نہ شک ہو بلکہ ایک شفقت کے ساتھ پوچھا جانے والا سوال اور دل کے ساتھ رکھا جانے والا خیال ہو۔ جسکے تحت بچے کو یہ احساس ہو کہ آپ اس کا خیال رکھ رہے ہیں۔
جیسے ہی کوئی ردوبدل روٹین میں غیر معمولی سا نظر آئے فوری سوال پوچھیں۔

۴۔ صرف لڑکیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ لڑکوں کے لئے بھی پابندی ہونی چاہئے کہ وہ کب اور کہاں مصروف اور موجود رہتے ہیں۔ اللہ نے صرف لڑکیوں کے لئے ہی نہیں والدین کو ذمہ داری دی بلکہ لڑکوں کے لئے بھی اتنا ہی خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
روز بروز آںے والی خبریں انسان کے لئے ایک الارم ہیں کہ معاشرے میں لوگ کس طرف اور کس طرح سے جارہے ہیں۔
۵۔ ہم نے آج برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے یاد رکھئے گا برائی معمولی ہو یا بڑی ہو برائی برائی ہی ہوتی ہے۔ ہم نے نامحرم کے ساتھ چیٹ کرنے کو برا سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ اپنی تصویرنامناسب انداز میں -جہاںپر کوئی بھی دیکھ سکے اپ لوڈ کرنا جاری رکھا ہوا ہےاور اسے برا بھی نہیں سمجھتے۔
صرف ٹین ایجرز ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کے مردو خواتین بھی دل بہلانے کو یا تسلی کی خا طر اس طرح کے شغل میلے میں لگے رہتے ہیں اور یہی تو فساد کی جڑ ہیں۔
خود بھی بچئے اور اپنے گھر والوں کو بھی بچائے جب اولاد ماں باپ کو بھی یہی کرتا دیکھے گی وہ خود بھی ایسا ہی کرے گی۔
۶۔ بچہ ہو یا بچی ضرورت سے ذیادہ چپ ہو یا خوش ہو اس بات کو چیک کریں کہ خوش کیوں ہے۔ کسی غلط رشتے میں تو نہیں پڑا ہوا جو اسکو خوش کرنے کا موجب ہے۔
کوئی اسکے ساتھ غلط تو نہیں کر رہا جو اتنا چپ ہے۔ فوری پوچھ کر فوری آگے کا لائحہ عمل بنائیں۔
۷۔ چاہے بچہ ہو بچی کتنی ہی چھوٹی عمر کا کیوں نہ ہو اگر اس حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایت کرے اسکو سنجیدہ لیں اور بچے کی شکایت پر ایکشن لیں۔
۸۔ یاد رکھئیے گا اس طرح کے لوگ جو اپنی ہوس کا نشانہ بچوں کو بنانا چاہتے ہیں وہ اس بات کو بچے کی شکل سے دیکھ کر جانچ لیتے ہیں کہ اسکے پاس کس چیز کی کمی ہے گھر والوں کی طرف سے پیار کی یا تعریف کی اور وہ بچے کو وہی دے کر اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ خاص طور پر ٹین ایجر لڑکیوں میں
۹۔ خود کو فحش قسم کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے سےبچائیں خاص طور پر پریگننٹ خواتین تو ہر ممکن اجتناب کریں۔کیوںکہ جو بچہ دنیا میں نہیں آیا وہ سن ضرور رہا ہے۔ آپ اسکا دماغ دنیا میں لانے سے پہلے ہی انتہائی گندہ کر رہی ہیں۔
باپ کو بچے آئیڈیلائز کرتے ہیں اگر آپ خود عجیب طرح کی فلمیں دیکھ کر اولاد کو روکنا چاہتے ہیں تو یہ بے وقوفی ہے۔
قدرت نے ریفریش ہونے کے اتنے طریقے رکھے ہیں ان میں پناہ ڈھونڈیں۔
فحش مواد دیکھنا سننا اسی لئے حرام ہے یہ آپکی اندر کی ساری سائیکالوجی کو بدل دیتا ہے آپکا دل سخت اور تنگ کر دیتا ہے۔
اسی لئے تو کیبل کے ذریعے ہمارے گھر گھر میں ایسا مواد بھیجا گیا ہے تاکہ ہم خراب ہوں صرف نام کے مسلمان بھی نہ رہیں۔
رہی سہی کسر ماڈرن بننے میں نکل گئی ہے جس میں ہم اپنی اخلاقی اقدار کو دقیانوس کہہ رہے ہیں۔ بچوں و بڑوں کو خود الٹا راستہ دکھا رہے ہیں۔
۱۰۔ اللہ نے ہم ماں باپ پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے اسی لئے ہمیں خود کو بھی بچانا ہوگا اور اپنے بچوں کو بھی ماں باپ ہونے کا اصل فرض شروع ہی بچے پیدا ہونے کے بعد ہوتا ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293254 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More