بھارت میں خوفناک حدتک بڑھتاہوامذہبی
اورنسلی تعصب نریندر مودی کی پہچان بن گیاہے۔ گویا''بدنام جوہوں گے
توکیانام نہ ہو گا ''کے مصداق مودی حکومت اوران کے ہمنواؤں نے اپنی گرتی
ہوئی سیاسی ساکھ سے توجہ ہٹانے کیلئے آرایس ایس کوبالعموم تمام اقلیتوں
اوربالخصوص مسلمانوں کوتنگ کرنے کاکھلالائسنس دے رکھاہے۔ اس نسلی تعصب
کاتذکرہ اب بین الاقوامی میڈیامیں بھی تواتر کے ساتھ ہوناشروع ہوگیاہے۔حال
ہی میں نیویارک ٹائمز نے دنیامیں جاری بدترین نسلی تعصب کے ایک سروے میں
بھارت کودنیا کادوسرابڑاملک بتایا ہے جہاں ۴۳٠۵فیصد کے تناسب سے نسلی تعصب
پایاجاتاہے۔بھارت میں تعصب کایہ عالم ہوگیاہے کہ اعلیٰ ہندوذات کے افراد نہ
صرف نچلی ذات کے ہندویادیگرکسی بھی اقلیتی ذات کے فردکواپنے ہمسائے کے
طورپربلکہ پورے علاقے میں اس کاوجودبرداشت کرنے کوتیار نہیں۔ رپورٹ میں اس
کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ برہمنوں کی خاصی تعداد طلوع آفتاب سے پہلے کسی
بھی غیرہندوکامنہ دیکھنانحوست کی علامت سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح جرمنی کے ایک مشہورجریدے’’ڈچ ویل‘‘نے اپنے ادارتی مضمون میں لکھاہے
کہ'' ایک طرف بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نئی دہلی میں ہونے والی انڈیا
افریقہ سمٹ کے دوران بھارت کوافریقہ کاپارٹنرثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں
مگردوسری طرف ان کی جماعت اوراتحادیوں نے بھارت میں نسلی تعصب کواس
قدربڑھادیاہے کہ نہ صرف وہاں اقلیتوں کی زندگی کومشکل بنادیا ہے بلکہ
افریقی طلبہ اوردیگر مہاجرین بھی نسلی تعصب اورنارواسلوک سے محفوظ نہیں ہیں
اوراس کے تدارک کیلئے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایاجارہاجس سے بھارت کے
سیکولرازم کانعرہ ناقابل یقین ہوگیاہے''۔
ہندوانتہاپسندوں کے نسلی تعصب کاتذکرہ ۱۵مئی ۲۰۱۵ء کوکینیڈا کی عالمی شہرتِ
یافتہ کارلٹن یونیورسٹی کے پروفیسراسٹیوسیڈمن نے اپنے چندہم عصر ماہرینِ
عمرانیات کے باہمی تحقیقی تجزیاتی رپورٹوں کی روشنی میں اقوامِ عالم کے
سماجی ومعاشرتی مزاج میں نسلی تنازعات کے متعلق ایک اہم مقالہ بعنوان عالمی
پیمانے پرنسلی رواداری برتنے والے ممالک کانقشہ تحریرکیاہے جو''دی واشنگٹن
پوسٹ'' کے بلاگزاورورلڈویوزپرجاری کیاگیا ہے۔ پروفیسرسیڈ من نے بڑی عمیق
تحقیق کے ساتھ دنیابھر کے ان ممالک کی اقوام کے سماجی و معاشرتی اورخاص
طورثقافتی اطواراورطریقوں کوعملی تناظرمیں پرکھنے کی کامیاب کوشش کی۔
ایفروایشیائی اقوام کے روزمرہ کے ثقافتی مزاج کوبڑی چھان پھٹک کے بعدمغربی
اقوام کے حالیہ تازہ ترین اقدامات کی روشنی میں خوب سمجھ کراپنایہ فیصلہ
دیا کہ مغربی ترقی یافتہ اقوام کی نسبت اگرمسلمانوں کے ممالک کواظہار کے
یکساں مواقع میسرآئیں تومیرے خیال سے یہ مسلمان قومیں زیادہ روادار،زیادہ
تحمل وبردباری اورزیادہ قوتِ برداشت کی حامل قومیں کہلائی جاسکتی ہیں۔
مسلمان ملکوں میں خاص کرپاکستانی قوم سب سے زیادہ سماجی امن وامان انسانی
بھائی چارے،معاشرتی ہم آہنگی اورخیرسگالی کے جذبات سے مزیّن ہے ۔
مسٹر اسٹیو سیڈ من نے اپنے متذکرہ بالا نسلی تنازعات کے اہم مقالے میں بہت
سے ممالک اوراقوام کاتفصیلی تذکرہ کیا ہے لیکن بھارت کے بارے میں ان کے اِس
تحقیقی تجزئیے کاایک ایک حرف زمینی حقائق کامنہ بولتا ثبوت ہے۔'' اِس زمینی
حقیقت سے کوئی بابصیرت انکارنہیں کرسکتا کہ بھارت میں نسلی امتیازات کی ایک
دنیاآباد ہے جبکہ پاکستان میں ایساکوئی جابرانہ سماجی معاشرہ نہیں اورفرقہ
ورایت کے واقعات کی کوئی وقعت نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ جب سے نیٹوکی
اورامریکی افواج افغانستان میں داخل ہوئی ہیں پاکستان دنیا کی بدترین دہشت
گردی کانشانہ بنا۔ موجودہ فرقہ واریت کے حالیہ واقعات بھی اسی بہیمانہ دہشت
گردی کے سلسلوں کی ایک کڑی کہلائی جاسکتی ہے''۔ دنیابھر کے کمزورغیرترقی
یافتہ اعلیٰ جدید ٹیکنالوجی سے محروم ملکوں اورقوموں کو تہذیب اورتمدن کی
اعلی اقدارکاطعنہ دینے والے خودامریکاکاحال کس قدرقابلِ رحم ہے،
پروفیسراسٹیوسیڈمن نے اس کاسمیٹک جنت نمادنیاکا پول کھول کررکھ دیاجہاں
امریکیوں کونجی نسلی ترجیحات کی بنیادپرمعلومات سے محروم رہنا پڑتاہے،بعض
شہرت یافتہ ریاستوں سے دوردرازامریکی علاقوں میں تعلیم کی سہولیات تک
موجودنہیں ہیں۔ بڑی حیران کن بات ہے کہ یہ سب نجی نسلی بغض وعناد کے نام
پرامریکاجیسے ملک میں ہورہا ہے!
نسلی تعصب کی وجہ سے نریندرمودی کی بھی کئی حوالوں سے نظیرنہیں ملتی۔ اپنے
ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے افراد کوکتے سے تشبیہ دیتے ہوئے ذرا شرم محسوس
نہیں کی،خودان کی پارٹی کے ارکان ایک دوسرے کوکتاکہہ کر پکارتے ہیں ۔پورے
ملک اوربیرونی ممالک میں ان کی تذلیل ہورہی ہے،جہاں کے دورے کاعزم کرتے ہیں
وہاں ذلت اوررسوائی بانہیں کھولے استقبال کیلئے تیارہوتی ہے۔اپنے تمام
ترمتعصب حلیفوں کی بھرپورتوانائی اورطاقت جھونکنے کے باوجود آبادی کے لحاظ
سے بھارت کے تیسرےبڑے صوبے بہارمیں نریندر مودی کوبی جے پی اوراتحادیوں
سمیت شرمناک ہزیمت کاسامناکرناپڑاہے جہاں ان کے مخالفین گرینڈ سیکولر
الائنس نے جس میں موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار ،سابق وزیراعلیٰ
لالوپرسادیادیواورکانگرس نے ۲۴۵رکنی ایوان میں سے۱۷۸ نشستیں حاصل کرکے واضح
برتری حاصل کرلی اورپہلی مرتبہ صوبہ بہار میں۲۶ مسلمان اسمبلی پہنچے ہیں۔
پچھلے سال پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد دوسری
بارمودی کوہزیمت آمیزشکست کامنہ دیکھناپڑاہے۔اس سے قبل ماہ فروری میں دہلی
میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں مودی کے تمام طوطے اڑگئے تھے جس کی بناء پر
بہارکے انتخابات میں اپنی پوری قوت اورسرمایہ جھونک دیاگیالیکن یہاں بھی
مودی کاساراتکبروغرورپارہ پارہ ہوگیا ۔سیاسی تجزیہ نگار وں کے مطابق ان
غیرمتوقع نتائج کے بعدمودی کی حکومت اورپارٹی پرگرفت کمزورہوتی جارہی ہے
اورپارٹی کے اندرمخالفین کوایک آوازاورتوانائی مل گئی ہے ۔ نیزپارلیمنٹ کے
ایوان بالا (راجیہ سبھا)میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی کوشش کوبھی
زبردست جھٹکالگا ہے ۔بی جے پی کے صدراورمودی کے دست راست امیت شاہ نے
ہندوؤں ووٹروں کویکجاکرنے اورانہیں خوف کی نفسیات میں مبتلاکرنے کیلئے ایک
جلسہ عام میں للکارکرکہاتھاکہ بہارمیں اگران کی جماعت شکست سے دوچارہوتی ہے
تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے،اس کے علاوہ بی جے پی نے گائے کوبھی ایک
طرح سے انتخابی موضوع بنایا کیونکہ ان کومعلوم تھاکہ پاکستان،گائے
اورمسلمانوں کاخوف دلاکر ہندوؤں کوبی جے پی کے حق میں رام بندکیاجاسکتاہے ۔انہوں
نے انتخابی حربے کے طورپر ووٹروں کوفرقہ وارانہ خطوط پرتقسیم کرنے کی
بھرپورکوشش کی مگردوسری طرف نتیش کمار کے زیرقیادت اتحادنے ان انتخابات
کواعلیٰ ذات بنام نچلی ذات اور تعمیر و ترقی کے وعدوں پرمحدودرکھنے کی
بھرپورکامیاب کوشش کی۔بی جے پی کی شکست کی ایک اوروجہ ہندو قوم پرستوں کی
مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ منموہن بھاگوت کاوہ بیان بھی تھاجس میں
انہوں نے نچلی ذاتوں کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن
پر نظر ثانی کرنے کی صلاح دی۔اس سے بہارمیں نچلی ذاتوں نے بی جے پی سے
کنارہ کشی کی تودوسری طرف دہلی سے متصل قصبے داوری میں گائے کا گوشت فریج
میں رکھنے کے الزام میں ایک معمرمسلمان اخلاق احمدکوجس طرح پیٹ پیٹ کرہلاک
کیاگیا،اس طرح بہارمیں مسلمانوں اورنچلی ذات کے افرادنےیکجاہوکرمتعصب
ہندوؤں کی ارتھی کوگنگاوجمناکے کثافتی پانیوں میں غرق کردیا۔
ادھربھارت میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب سے مشہورمسلمان فلمی اداکاربھی پریشان
ہیں۔صحافیوں کے ایوارڈ کی تقریب میں جہاں بہت سارے وفاقی وزیرجن میں سنیئر
وزیر آرون جیٹلی بھی موجود تھے،عامر خان نے بی جے پی کے چہرے سے یہ کہہ
کرنقاب نوچ پھینکاکہ ملک میں عدم تحفظ ، خوف اورخطرے کے احساس میں اضافہ
ہورہاہے اورجب وہ اپنی فلم سازاہلیہ کِرن راسے بات کرتے ہیں تووہ سوچتی ہیں
کہ ان کے خاندان کوبھارت سے باہرمنتقل ہوجانا چاہیے۔ کرن کی جانب سے دیا
گیابڑابیان ہے۔ وہ بچوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول
سے ڈرتی ہیں۔ وہ ہردن اخبار کھولتے ہوئے خوفزدہ رہتی ہیں۔ یہاں پریشانی
اورنا امیدی کے احساس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ کو افسردگی محسوس ہوتی ہے،
کچھ کمی سی لگتی ہے۔ یہ کیوں ہورہا ہے؟ عامرخان کے اس بیان کے بعدمتعصب
ہندومہاسبھائی اس کے گھر کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پاکستان جانے کی
دہمکیاں دے رہے ہیں بلکہ آرایس ایس کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے توعامرخان
کوتھپڑمارنے والے کیلئے ایک لاکھ روپے کااعلان بھی کردیاہے۔
روس جوبھارت کاپچھلی سات دہائیوں سے بہترین اتحادی ہے،اس نے بھی بھارت میں
بڑھتے ہوئے نسلی تعصب کی بناء پربھارت کوسیاحت کیلئے خطرناک ملک قراردیتے
ہوئے اپنے شہریوں کوجانے سے منع کردیاہے اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق
آئندہ کئی ممالک بہت جلدروس کی تائیدکرتے ہوئے اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے
ایسے ہی اقدامات کااعلان کرنے والے ہیں جس سے نہ صرف بھارت سیاحت سے ہونے
والی آمدنی سے محروم ہوجائے گابلکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑگئی
ہے۔
خودکانگریس پارٹی کی صدرسونیاگاندھی نے حکومت پرسخت تنقیدکرتے ہوئے کہاکہ
اس وقت آئینی اصولوں کی کھلی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔آج کل آئین کے اصولوں
کوہی خطرہ لاحق ہے۔گذشتہ چند ماہ میں ہم نے جومشاہدہ کیا ہے وہ آئینی قدروں
کی صریحاًخلاف ورزی ہے آئین بذات خودکتناہی اچھاکیوں نہ ہو، اگراس
کونافذکرنے والے لوگ برے ہیں توپھرآئین بھی براہی بن جاتاہے۔
بھارت میں نسلی تعصب کایہی حال رہاتووہ دن دورنہیں جب بھارت میں کئی نئے
پاکستان معرض ِوجودمیں آئیں گے۔انشاء اللہ!
|