چوچو ماما

ڈھلتی عمر اور چہرے کی جھریا ں سرجری کروانے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں مہنگے مہنگے لوشن بھی اب تو اثر کرنا چھوڑ چکے، یا یو کہیں کہ بیکار ہو چکے تھے۔ معظم کشمیری تم نے ساری عمر پئسے کما کما کر کٹھے کئے لیکن اب کیا کروگے اِن پئسوں کا؟ رضا میرے بھائی اگر میں نے کمایا ہے تو اپنے لیے کمایا ہے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہ کر معظم گھر آتا ہے، اور چوچو ماما سے کہتا ہے تم تو کافی عرصے سے میرے پاس کام کر رہے ہو تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ مجھے کشمیر سے آئے عرصہِ دراز گزر چکا ہے لو گ پتا نہیں کیا کیا باتیں بناتے ہیں میرے پیٹھ پیچھے۔ پچھلے دنوں کی بات ہے احمد بھائی میرے بارے میں کہ رہے تھے کہ میں نے زندگی میں بڑے بڑے گناہ کیے ہیں میں ایک مسلک چھوڑ کر دوسری کا پیروکار بن گیا ہوں، اِس لیے اللہ نے مجھے دنیا میں ہی سزا دے دی ہے پاگل بیٹے کی صورت میں۔۔ چوچو ماما حیران پریشان ہو کر اپنے صاحب سے کہتا ہے یہ تو سب اللہ کے ہا تھ میں ہے جسے چاہے جو چیز عطا کرے، کسی کو دولت سے نوازتا ہے تو کسی کو ایک وقت کی روٹی کو ترساتا ہے، کسی کوصلیب پر لٹکا کر بھی عزت بخشتا ہے، کسی کو تخت و تاج پر بٹھا کر بھی ز لیل کرتا ہے،اگر آپ کو پاگل بیٹا عطا کیا ہے تو یہ بھی اْسی کی دَین ہے وہ تو سب پر مہربان ہے وہ بھلا کیوں کسی کو سزا دے گا، صاحب جی آپ کو تو علم ہے کہ میں کافی عرصے سے چرس پیتا ہوں جب وہ مجھے سزا نہیں دیتا۔ وہ پھر آپ کو کیوں دے گا؟ آپ تو سخی ہیں اپنے در پر آئے کسی سوالی کو خالی نہیں لوٹاتے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید آپ میں خدا بستا ہے، بس آپ لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دھرا کرو۔

چوچو ماما مجھ گنہگار کو اگر اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو یہ سب اس کے کرم ہیں، میں خاک پتلا ہوں کہاں وہ خدائے عظیم بے شمار صفات کا مالک اور کہاں میں مٹی کا مجسمہ تمہیں اس کی کون سی صفات بتا کہ کون سی بتائیں۔ پاگل ایسی باتیں نہیں کیا کرو کہیں لوگ یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ معظم علی کشمیری خدائی کا دعویٰ کرتا ہے اور منکرِ خدا کا لقب سے نہ نواز د یں، آئندہ ایسی باتیں نہیں کرنا۔ جاؤ اب کھاناتیار کروبہت زور سے بھوک لگی ہے۔ چوچو ماما کھانا تیار کرتا ہے جب کہ معظم علی آئینے کے سامنے اپنی مرحومہ بیوی کی تصویر ہاتھ میں لئے خود سے باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے، تمہیں تو پتہ تھا کہ تمہارے سِوا میرا کوئی نہیں۔ پھر بھی تم نے بیچ سفر میں مجھے تنہا چھوڑ دیا، مجھ سے منہ موڑ لیا آخر کیوں؟ اگر تمہیں میرا خیال نہیں آیا تو اپنے دیوانے بیٹے کا خیال کر لیتی اْسے دنیا داری کا بھی علم نہیں دنیا داری تو دور کی بات ہے بلکہ اسے تو اپنا بھی ہوش نہیں اْسے سردی گرمی کا اِحساس نہیں، وہ پیدائشی پاگل جو ٹہرا۔ تھوڑا اْس کا تو احساس کر لیتی۔

کچن سے چوچو ماما کی آواز آتی ہے۔ کھانا تیار ہے صاحب جی، آپ چھوٹے صاحب کو ڈائننگ ٹیبل پر لے آئیں میں کھانا لگا دیتا ہوں، معظم اپنے بیٹے کے ہمراہ ٹیبل پر آتا ہے جب کھانا کھانے لگتے ہیں تو چوچو ماما معظم علی کی آنکھوں میں دیکھ کر کہتا ہے.

صاحب جی آج پھر آپ کی آنکھیں نم ہیں لگتا ہے آج پھر آپ کو مالکن کی یاد آگئی؟ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ مالکن کو مرے دس سال بیت چکے ہیں آپ پھر بھی اْس کو نہیں بھولے۔ معظم علی چوچو ماما سے کہتا ہے، تمہاری مالکن تو بیوفا نکلی وہ مجھے اکیلا کر گئی۔ چوچو ماما، صاحب جی وہ بیوفا کیسے ہو سکتی ہے وہ تو آپ پر جان چھڑکتی تھی ایک پل بھی آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی، وہ تو بے بس لاچار تھی اللہ کی مرضی کے سامنے کس کی چلتی ہے موت تو سب کو آنی ہے یہ آپ کا قرآن کہتا ہے اور ہمارا بائبل بھی یہی کہتا ہے کہ موت سب کو آئے گی کسی کو پہلے کسی کو بعد میں، بس مالکن کو پہلے آنی تھی اِس لئے وہ اِس جہاں سے کْوچ کر گئی۔ چوچو ماما تم صحیح کہ رہے ہوبس کیا کروں جب بے بسی تڑپانے لگتی ہے تو خود کو سمبھال نہیں پاتا، میں اْس کی یادوں سے نجات چاہتا ہوں لیکن نجات ہے کہ ملتی ہی نہیں اور شدت پکڑتی جاتی ہے۔چوچو ماما ہماری باتیں کبھی ختم نہیں ہونگی اِس لئے تم جا کر سو جاؤ میں بھی چھوٹے صاحب کو کھانا کھلا کر سو جاؤنگا، ویسے بھی کل جمعہ ہے صبح جلدی اْٹھنا ہے۔ چوچو ماما اپنے کمرے میں جاتا ہے اور وہ مسجد کی صفائی کے لئے رات کو ہی کپڑے نکال رکھتا ہے۔

رات گزر جاتی ہے صبح معظم علی آفس جاتا ہے جب کہ چوچو ماما چھوٹے صاحب کو ناشتہ کروا کر اپنے معمول کے مطابق مسجد کی صفائی کرنے جاتا ہے اور ایک گھنٹے بعد واپس آ جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف معظم علی اپنی آفس میں کام کاج نپٹا کر سیدھا اپنے دوست رضا کے پاس اْس کی ٹائرز کی دکان پر جاتا ہے جو شہر کے پوش علاقے میں واقع ہے، رضا معظم علی کو دیکھ کر کہتا ہے، خوش آمدید۔

کیسے آنا ہوا؟ یار رضا میری عمر دن بدن ڈھلتی جا رہی ہے مجھے اپنے بیٹے کی ہر گھڑی فکر ستائے جاتی ہے کہ میرے بعد اْس کا کیا ہوگا کوئی اْس کی دیکھ بھا ل کر نے والا نہیں میرے مرنے کے بعد اْ س کاکون خیال رکھے گا، میری بیوی کو مرے بھی کافی وقت گزر چکا ہے اور دوسری بات یہ کہ یہاں کراچی میں میرا کوئی رشتے دار نہیں رہتا سب رشتے دار کشمیر میں ہیں۔ رضا معظم علی کی بات کاٹتے ہو اس سے کہتا ہے تو پھر کشمیر چلا جا۔ رضا میں کشمیر کیسے جاؤں تمہیں تو پتہ ہے کہ میرا سارا کاروبار یہاں پر ہے میں یہاں سے کیسے جاؤں؟ رضا تو پھر دوسری شادی کر لو کچھ تو تمہارا نام و نشان رہ جائے۔ معظم علی یار میں اِس عمر میں اگر شادی کروں گا لوگ کیا کہیں گے۔ رضا معظم علی سے یا تو تم لوگوں کی فکر کرو یا پھر اپنے پاگل بیٹے کی۔ معظم علی تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا ہے مگر یہ خاموشی زیادہ دیر تک نہیں رہتی معظم علی اپنی خاموشی توڑ کر۔ رضا سے کہتا ہے، یار میں شادی تو کروں مگر مجھے کون اپنی بیٹی دیگا؟ کیوں کوئی اپنی بیٹی کی زندگی برباد کریگا تمہیں علم ہے کہ میری عمر ۶۵ برس ہے اور نہ جانے کب سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے پہلے بھی دل کا دورہ پڑ چکا ہے اِ س لئے میں شادی نہیں کرتا۔ رضا اپنے دوست کی باتیں سن کر اس سے کہتا ہے ڈر ڈر کر جینا چھوڑ دو اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے کوئی رشتہ ڈھونڈ لوں۔ یہ باتیں سن کر معظم علی چپ ہو گیا اور پھر بولا کہ۔ یار مجھے تھوڑا وقت دے دو میں سوچ سمجھ کر تمہیں بتا دوں گا، ابھی اجازت دو میں گھر جا رہا ہوں۔ رضا جا سکتے ہو۔ معظم علی کے جانے کے بعد رضا اپنے گھر آتا ہے اور اپنی بیٹی کو آواز دیتا ہے۔ سلمیٰ بیٹی یہاں آؤ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔ سلمیٰ جواب دیتی ہے آئی ابو جی، کیا کہنا ہے؟ بیٹی: اگر میری بات مان لو تو پھر میں تمہیں بتاؤں ورنہ نہیں۔ ابو جی آپ بولیں تو سہی آج تک ہم نے آپ کی کوئی بات نہیں ٹھکرائی آپ جو کہیں گے میں مان لوں گی۔ بیٹی در اصل بات یہ ہے کہ میں تمہارا رشتہ کسی کو دینا چاہتا ہوں وہ لوگ بہت پیسے والے ہیں ساری عمر عیش کرو گی ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اْس کی بیٹی کی اچھے گھرانے میں شادی ہو جائے اور میری بھی دیرینہ خواہش ہے کہ تمہاری کسی اچھے گھرانے میں شادی ہو جائے۔ سلمیٰ سب خا موشی سے سنتی رہتی ہے اپنے باپ سے کچھ نہیں کہتی جب کہ اْ س کا باپ اْس کو رشتہ کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ بیٹی معظم علی کشمیری سے میں تمہاری شادی کروانا چاہتا ہوں بیٹی انکار مت کرنا اْس کے پاس بے شمار دولت ہے اس کا امپوٹ ایکسپورٹ کا بزنس ہے اس کی بیوی کو مرے کافی عرصہ گزر چکا ہے جب کہ معظم علی اب بوڑھا ہو چکا ہے اْس کو دن رات اپنے جواں سالہ پاگل بیٹے کی فکر کھائے جا رہی ہے وہ چاہتا ہے کہ اْس کے مرنے کے بعد اْس پاگل کا کوئی خیال رکھے تم ہاں کردو تو میں اْس کو ہاں کردوں بیٹی سوچ سمجھ کر جواب دینا اِس سے اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔ یہ سب باتیں سن کر سلمیٰ خاموش ہو جاتی ہے۔سلمیٰ کی خاموشی کو اْس کا باپ ہاں سمجھ کر دوسرے دن معظم علی کے گھر جاتا ہے۔ معظم علی میں نے تمہارے لیے رشتہ ڈھونڈ لیا ہے۔ میں نے سوچا ہے میں اپنی بیٹی کا رشتہ تمہیں دے دوں اور کوئی رشتہ نظر نہیں آیا تو سوچا اپنے دوست کے لیے بیٹی کو قربان کر دینگے۔ معظم علی یہ سن کر تھوڑ ا سکتے میں آ جاتا ہے اور حیران کن نظروں سے رضا کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے رضا ہوش میں تو ہو نہ یہ تم کیا کہ رہے ہو؟ ہاں میں ہوش میں ہوں مجھ سے تمہاری بے چینی نہیں دیکھی جاتی میں تمہیں ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں اِس لیے میں تمہیں اپنی بیٹی کا ہاتھ دینا چاہتا ہوں۔ تم شادی کے بعد بے فکر ہو کر اپنا کام کرتے رہنا کیوں کہ گھر پر پھر تمہاری بیوی اور میری بیٹی ہوا کریگی وہ تمہارے بیٹے کا خیال رکھے گی وہ اسکی دیکھ بھال کریگی آخر کب تک نوکروں پر چھوڑوگے کوئی تو ہو جو تمہارے مرنے کے بعد اْ س کا خیال رکھ سکے۔ چوچو ماما یہ باتیں سن کر فوراً کہتا ہے۔ صاحب جی ہاں کر دو ۔چوچو ماما تم بھی کہ رہے ہو کہ میں اِس عمر میں شادی کر لوں؟ ہاں صاحب جی کر لو کونسا آپ عیش و عشرت کے لیے کر رہے ہو آپ تو اپنے بیٹے کی وجہ سے کر رہے ہو تا کہ اْس کا کوئی خیال رکھ سکے رضا نے چوچو ماما کی بات کاٹتے ہوے کہا کہ آپ سوچ لیں ابھی میں جا رہا ہوں۔ رضا کے جانے کے بعد چوچو ماما معظم علی سے کہتا ہے صاحب جی آج کل ایسے اچھے لوگ کم ملتے ہیں جودوست کو خوش دیکھنے کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہو جائیں۔ چوچو ماما کے اِصرار پر معظم علی مان جاتا ہے اور رات کو رضا کو فون کر کے کہتا ہے۔ رضا میں تیار ہوں شادی کے لیے بس چپ چاپ نکاح ہو جائے اور کسی دعوت وغیرہ نہیں دینا جتنا ہو سکے سادگی میں نکاح ہو جائے میں چاہتا ہوں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ پہنچے ورنہ لوگ مذاق اْڑاتے ہیں، رضا کہتا ہے تم لوگوں کی فکر چھوڑ دو اْن کو جو کہنا ہے وہ کہیں گے بس پھر اِسی ہفتے نکاح کرواتے ہیں اگر بولو تو میں کسی مولوی سے نکاح کے لیے وقت لے لوں۔ ٹھیک ہے پھر اِسی اِتوار کو نکاح کروا تے ہیں۔یہ کہ کر فون رکھ دیتے ہیں، شادی کی تیاری کرنے کے لیے شادی کا جوڑا خریدنے جاتے ہیں۔چوچو ماما معظم علی سے بات کرتا ہے۔

صاحب جی اللہ تعالی آپ کو اولاد کی نعمت سے نواز دے۔ معظم علی چوچو ماما سے اِس عمر میں اب اولاد ہو بھی جائے تو کیا فائدہ۔ چوچو ماما معظم علی سے، صاحب جی اگر آپ کے اپنے بچے ہونگے تو وہ آپ کی ملکیت کے مالک بنیں گے اگر کوئی نہ ہوگا تو آپ کی ملکیت کون سنبھالے گا؟ معظم علی چوچو ماما سے جس کے نصیب میں ہوگی اْس کو ملے گی، ورنہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تمام عمر کمانے کے باوجود بھی غریب ہی رہتے ہیں اور اْن کے حصے میں صرف دھکے ہی آتے ہیں ایسا نہیں کہ مجھے، اولاد کا شوق نہیں بس یہ شکایت سی رہتی ہے کہ جس عمر میں چاہیے تھی اْس عمر میں اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں کی اگر آج میرے جواں عمر بیٹے ہوتے تو آج وہ کاروبار سنبھالتے میں آرام کرتا لیکن ابھی اِس عمر میں اولاد ہو بھی ہو جائے تو اْن کے جوان ہونے میں وقت لگے گا جب وہ جوان ہونگے تب ہم نہیں ہونگے۔
چوچو ماما معظم علی سے مخاطب ہوتے ہو کہتا ہے صاحب جی میں نے آپ کو مخلصانہ مشورہ دیا آگے آپ کی مرضی ہے۔

چوچو ماما کی بات سن کر معظم علی سامنے کہتا ہے جو اللہ کو منظور ہوگا دیکھا جائیگا۔

شادی کا جوڑا لے کر واپس آتے ہیں اور کچھ دنوں بعد انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح ہو جاتا ہے شادی کے بعد معظم علی کچھ دن تو پریشان سا رہتا ہے نئی نویلی دلہن سے کیا بات کروں۔ معظم علی ایک دن چوچو ماما سے اپنے جذبات شیئر کرتا ہے اور چوچو ماما سے پوچھتا ہے کہ یار مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اِس لڑکی سے کیا بات کروں اور کِس موضوع پر کروں؟ چوچو ماما اپنے مالک سے کہتا ہے آپ اْس سے روز کی معمولات پر بات کیا کریں کاروبار کی بات کیا اور کیا کر سکتے ہو اِس عمر میں پیار و محبت کی باتیں ذرا صحیح نہیں لگتیں چوچو ماما آج سے تمہاری باتوں پر عمل کیا جائے گا کچھ روز بعد چوچو ماما کی باتوں پر عمل کی وجہ سے اب معظم علی خوش خوش رہنے لگتا ہے اور سلمیٰ سے محبت سی ہو جاتی ہے پھرایک دن سلمیٰ سے کہتا ہے تمہا رے آنے کے بعد اب میں بے فکر ہو کر جینے لگا ہوں ورنہ مجھے ہر گھڑی اپنے پاگل بیٹے کی فکر لگی رہتی تھی کہ اِس کا کیا ہوگا تمہارے آنے سے سب ٹھیک ہو گیا ہے اور آجکل تو بزنس بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔سلمی معظم علی کو جواب دیتی ہے کہ یہ تو سب آپ کا اپنا نصیب ہے اور آپ کی محنت ہے کہ آپ کا کاروبار دن بدن کامیاب ہوتا جا رہاہے۔ معظم علی سلمیٰ کی بات کو کاٹتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے سوچا ہے ٹائیلز کی امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے ایک نیا شوروم کھولوں اصل میں اِن سب کامیابیوں کے پیچھے تمہارے باپ کا ہاتھ ہے اْس نے مجھے تم سے شادی کرنے کو قائل کیا ورنہ میں کبھی نہیں کرتا بس جیا جا رہا تھا اپنی مرحومہ بیوی کی یادوں کے سہارے۔ میں زندگی بھر تمہارے باپ کا یہ اِحسان نہیں اْتار سکوں گا۔

ہنسی خوشی شادی کو کچھ سال گزر جاتے ہیں زندگی کا کچھ پتہ نہیں چلتا سب صحیح چل رہا ہوتا ہے ایک مرتبہ سلمیٰ کو پیٹ میں درد ہوتا ہے معظم علی اْس کو ہاسپیٹل لے جاتا ہے وہاں اْسے پتہ چلتا ہے کہ سلمیٰ امید سے ہے یہ سنتے ہی معظم علی خوشی سے جھوم اْٹھتا ہے اور سب کا منہ میٹھا کرواتا ہے، اور کہتا ہے کہ میں دوبارہ باپ بننے والا ہوں ہاسپیٹل سے واپسی کے بعد سلمیٰ سے کہتا ہے آج کے بعد تم کوئی معمولی سا کام بھی نہیں کروگی تمہیں جتنے نوکر چاہیٗیں میں رکھ لوں گا بس تم سارا دن آرام کرتی رہنا میں چاہتا ہوں کہ تم صحت مند رہو مجھے تمہاری صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں اِسی طرح باتیں کرتے کرتے رات گزر جاتی ہے پھر دوسرے دن سلمیٰ فرمائش کرتی ہے کہ آج مجھے اپنے ابو کے گھر گھومنے جانا ہے آپ مجھے وہاں تک چھوڑتے جانا پھر شام میں مجھے یہاں سے لے کر جانا۔ سلمیٰ کی فرمائش پوری کرنے کے لیے معظم علی جلدی اْٹھتا ہے اور چوچو ماما سے کہتا ہے تم چھوٹے میاں کو ناشتہ تیار کر کے کھلا دینا آج میں ذرا دیر سے آؤں گا کیوں کہ واپسی پر بیگم صاحبہ کو بھی لے کر آنا ہے۔صبح میں سلمیٰ کو اپنے باپ کے گھر چھوڑ جانے کے بعد خود آفس چلا جاتا ہے آفس میں بھی سب کو مٹھائی کھلاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان بھی کرتا ہے کہ اِسی ہفتے ہم دوسرے شوروم کا بھی افتتاح کرنے جا رہے ہیں اور اِس مہینے سب کو بونس دینے کا بھی اعلان کرتا ہوں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اِس عمر میں مجھے دوبارہ باپ بننے کا موقع دیا ہے وہ کتنا مہربان ہے ہم ہی نا شکرے ہیں اگر تھوڑی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم گلہ شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ ہو گیا ہمارے ساتھ وہ ہو گیا بس اس طرح کی شکایتیں ہی ہماری زندگی اجیرن کر دیتی ہیں۔ سارا دن خوش گزارنے کے بعد شام میں اپنے دوست کے گھر جاتا ہے بغیر دروازہ کھٹکھٹائے اندر جاتا ہے، اور باپ بیٹی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتا ہے۔ بیٹی اپنے باپ سے کہہ رہی ہوتی ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ یہ بوڑھا سال ڈیڑھ کے اندر مر جائے گا لیکن اِسے تو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا او ر یہ ابھی تک زندہ ہے بلکہ دن بدن صحتمند ہوتا جا رہا ہے نہ بیمار ہو رہا ہے اور نہ ہی مر رہا ابھی تو میں اْس بوڑھے کے بچے کی ما ں بھی بننے والی ہوں اب میں کیا کروں تمہارے بچھائے ہوئے جال کے مطابق کام کرتی رہوں یا پھر اْسے تمہاری سچائی بتا دوں کہ آپ دوستی میں اْس کے ساتھ کتنا بڑا دھوکہ کر رہے ہو، جس کا اْس کو علم تک نہیں، باپ اپنی بیٹی کو جواب دیتا ہے بیٹی کچھ صبر کر لو اگر وہ مر بھی گیا تو بچے تمہارے ہونگے اور ملکیت بھی تمہاری ہوگی پھر کیوں گھبراتی ہو جو ہوگا اچھا ہوگا تم بے فکر ہو جاؤ سلمیٰ اپنے باپ کو جواب دیتی کہ ہے کہ ابو کیسے بے فکر ہو جاؤں میری زندگی برباد ہو رہی ہے اور تم کہ رہے ہو کے میں بے فکر ہو جاؤں واہ کیا باپ ہیں اپنی اولاد کی زندگی برباد کر کے بول رہے ہو کہ میں ایسے ہی چپ کر کے بیٹھ جاؤں میں نے آپ کی خوشی کے لیے اْس وقت ہاں میں ملائی لیکن اب جب سوچتی ہوں کہ جوانی میں اگر بیواہ ہو جاؤنگی تو لوگ کہیں گے منحوس لڑکی ہے پتہ نہیں اور کیا کیا طعنے کسیں گے میں زندگی کیسے گزارونگی مجھے علم نہیں جب یہ سوچتی ہوں تو حواس باختہ ہو جاتی ہوں۔ سلمیٰ یہ کہ کر چپ ہو جاتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف اپنے دوست کے مکروہ ارادے جاننے کے بعد معظم علی خاموشی سے وہاں سے سیدھا اپنے گھر آ کر سو جاتا ہے۔ سلمی سوچتی ہے کہ انہوں نے بولا تھا کہ وہ شام میں ہمیں لینے آ ئیں گے لیکن ابھی تک نہیں آئے اور پھر اپنے باپ سے کہتی ہے کہ ابو جی مجھے گھر چھوڑ آئیں شاید وہ ہمیں لے جانا بھول گئے ہیں یا پھر کام میں اتنا مصروف ہیں کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلا کہ اب رات ہو چکی ہے۔ سلمیٰ کا باپ رضا بغیر کوئی رابطہ کیے اپنی بیٹی کو اپنے دوست اور داماد کے گھر چھوڑ آتا ہے سلمیٰ اپنے گھر پہنچتے ہی چوچو ماما سے پوچھتی ہے کہ صاحب جی کہاں ہیں وہ گھر بھی آئے کہ نہیں چوچو ماما بتا تا ہے کہ وہ اندر سوئے ہوئے ہیں آج شاید اْس کی طبیعت صحیح نہیں سلمیٰ سیدھا کمرے میں جاتی ہے اور کہتی ہے کہ آپ کی طبیعت صحیح نہیں آپ نے ہمیں بتایا تک نہیں، ویسے صبح تو آپ بلکل صحتمند اور تندرست تھے یہ اچانک سے آپ کوکیا ہوا؟ معظم علی کہتا ہے عمر کا تقاضہ ہے کب کس وقت بیمار پڑ جائیں کچھ پتہ نہیں چلتا اِس عمر میں اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ رضا کافی دیر سے خاموش کھڑا رہتا ہے اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے بولتا ہے کہ یار معظم ہم بھی ہیں ہم ایسے بیمار نہیں ہوتے تم نہ شروع سے ہی اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے اِس لیے بیمار پڑ جاتے ہو۔ معظم دھیمے لہجے میں کہتا ہے آدمی جسمانی طور پر بھلے بیمار ہو لیکن جو لوگ ذہنی بیمار ہوں یا پھر ذہنی معذور ہوں اْن کا علاج ممکن نہیں یہ کہ کر چپ ہو جاتا ہے۔ رضا حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ آج تم ہوش و حواس میں تو ہو نہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو یہ کہ کر رضا اپنے دوست اور بیٹی سے اجازت لے کر چلا جاتا ہے۔ اور دوسری جانب معظم علی سلمیٰ سے کہتا ہے کہ مجھے نیند آ رہی ہے تم بھی جا کر سو جاؤ یہ کہ کر وہ اپنی آنکھیں بند کر کے تھوڑی دیر کے لیے سو جا تا ہے او ر تھوڑی ہی دیر بعد سلمیٰ بھی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے، سلمی کے جانے کے بعد معظم علی ایک گھنٹے بعد چوچو ماما کو بلاتا ہے اور ساری حقیقت بتاتا ہے کہ اْس کے دوست نے کیوں اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرائی تھی آج مجھے جان کر بہت افسوس ہوا برسوں کا یارانہ ایک ہی پل میں ختم ہو گیا دوستوں کے روپ میں دشمن چھپے ہوے ہیں آج میں بہت دلبرداشتہ ہوں سوچتا ہوں کہ کہیں سچ میں۔ میں نے بڑا گناہ تو نہیں کیا جس کی سزا اب مجھے دوبارہ ملی ہے اب جینے سے دل بھر گیا ہے اور چوچو ماما سے کہتا ہے سامنے والی شیلف میں کچھ کاغذات رکھے ہوے ہیں وہ لا کر دو میں اپنی زندگی کا بوج ہلکا کرنا چاہتا ہوں اْس میں سے کچھ کاغذات نکال کر سائن کرتا ہے اور اْن میں کچھ لکھتا ہے، پھر چوچو ماما کو اجازت دیتا ہے کہ تم بھی سو جاؤ ابھی رات بہت ہو گئی ہے بس چھوٹے صاحب کا خیال رکھنا کہیں اْسے کوئی تکلیف نہ پہنچے چوچو ماما ہاں میں ملاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ہوتے ہوئے چھوٹے صاحب کو کچھ نہیں ہوگا آپ بے فکر رہیں یہ کہ کر وہ چلا جاتا ہے اور باہر جا کر اپنے کمرے میں سو جاتا ہے۔ رات گزر جاتی ہے صبح جب سلمیٰ اٹھتی ہے اور سیدھا معظم علی کے کمرے میں چلی جاتی ہے اور وہاں معظم علی کو مردہ پا کر پریشان ہو جاتی ہے اور چیخنے چلانے لگتی ہے چوچو ماما چیخیں سن کر بھاگ کر آتا ہے اور دیکھتے ہی اْس پر بھی سکتہ طاری ہو جاتاہے اْسے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے وہ اپنی تسَلّی کے لیے معظم علی کی لاش کو ہسپتال لے جاتا ہے وہاں ڈاکٹرز چیک کرنے کے بعد اْسے مردہ قرار دیتے ہیں تب وہ بے بس ہو کر واپس آ جاتا ہے اور کفن دفن کا بندو بست کرکے دفنا آتے ہیں پھر ہر طرف سناٹہ ہی سناٹہ چھایا ہوا ہوتا ہے کچھ دنوں بعد وکیل آتا ہے اور سارے گھر کی چھان بین کرتے ہیں اور آخر کار وہ کاغذات ڈھونڈ نکالتے ہیں جن کی تلاش کے لیے رضا اوروکیل آخری آتے ہیں۔ بڑی مشکل سے وصیت نامہ مل جاتا ہے اْس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کے میرے مرنے کے بعد تمام جائداد کا مالک چوچو ماما ہے وہ چاہے اْسے جیسے خرچ کرے چوچو ماما وصیت نامہ سن کر حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیا کر دیا مالک نے مجھے اِتنی بڑی ذمہ واری دے دی میں کیسے اْس کو ادا کروں گا جب کہ رضا بھی حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اْس کے دوست نے اْس کی سوچ کے بر عکس وصیت نامہ لکھ دیا اور ساری جائداد کا مالک ایک نوکر کو بنا دیا میری بیٹی جو اْس کی اولاد کو جنم دیگی اْس کو کس کے ذمہ چھوڑا ہے اور بے شمار سوالات اسْ کے دل میں جنم لے رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ دل ہی دل میں اِحساسِ شرمندگی کا شکار بھی ہوتا ہے اِحساسِ شرمندگی کی وجہ سے وہ کسی سے کچھ کہ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔ اپنے مالک کی موت کی وجہ سے چوچو ماما بھی کافی اْداس اْداس رہنے لگتا ہے اْس کو مالک کے بغیر گھر ْسونا ْسونا سا لگتا ہے، ہر وقت وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اب اِن پیسوں کا کیا کرے آیا وہ سارے پیسے ہڑپ کر لے یا پھر اِن کو کسی نیک کام میں لگا دے پھر ایک دن اْس کو ایک تجویز ذہن میں آتی ہے کہ تمام ملکیت کو چار حصوں میں بانٹے۔

پھر وہ اِسی طرح اِن تمام حصوں کو چار حصوں میں بانٹ دیتا ہے، ایک حصہ ٹرسٹ بنانے کے لیے جو پاگل لوگوں کے لیے ہو جو صرف اْ ن کا خیال ر کھے، دوسرہ حصہ غریب بچوں کے لیے اسکول قائم کرنے کے وقف کر دیتا ہے، اور تیسرا حصہ سلمیٰ کے نام کر دیتا ہے تا کہ وہ معظم علی کے آنے والے بچے کی صحیح طریقے سے سے پرورش کر سکے، اور چوتھا حصہ اپنے نام ہی رکھتا ہے تا کہ وہ اْن پیسوں سے معظم علی کے پاگل بیٹے کا خیا ل رکھ سکے اور اِسی طرح وہ تمام ملکیت بانٹ دیتا ہے۔ چوچو ماما معاشرے کا ٹھکریا ہوا کردار ایک ایسا کام کر جاتا ہے جو پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں کرتے خود مہذب کہنے والے تو اِس کو ٹھکرا چکے تھے لیکن اس دھتکارے ہوے اِنسان کی وجہ سے کئی گھروں کے دیئے روشن ہو جاتے ہیں۔۔

Asad Lashari
About the Author: Asad Lashari Read More Articles by Asad Lashari: 17 Articles with 15649 views By profession I am student of Media studies at Sindh Madressatul Islam University Karachi .. View More