مرکزعاشقاں بریلی ہے

امام احمد رضانے اپنے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق کیا کہ جب بھی کبھی عشق کی بحث چھڑتی ہے، تو ذہن ہمیشہ امام احمد رضا ہی کی جانب منتقل ہوتاہے کہ اگر عشق کی محفل ہوگی تو اس میں امام احمد رضا کا ذکر ضرور ہوگا ۔امام احمدرضا کا ترجمہ قرآن پڑھا جائے تو اس میں عشق کی خوشبواور ان کے فتاﺅں کا مجموعہ فتاوی رضویہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عشق کی خوشبوملے گی ۔ کیوں ؟ کیوں کہ ان کتابوں کا مصنف ایک ایسا عاشق ہے کہ جس کو سید العشاق کہا جاتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

از:مولاناسیدمحمدہاشمی رضوی،پھول گلی، ممبئی۳

جان ہے عشق مصطفےٰ روزفزوں کرے خدا
جس کوہودرد کامزہ نازدوااُٹھائے کیوں

یہ حقیقت ہے کہ بریلی عشق وعرفان کی راجدھانی ہے ۔ جہاں سے عشق ومحبت کے چشمے ابلتے ہیں ۔جس سے روح ایمان اور گلشن حیات ترو تازہ ہو اٹھتا ہے ،جس کے شاداب گلابوں کی خوشبوﺅں سے ایک عالم رشک فردوس بن گیاہے اورآج بھی اس کی عطربیز خوشبوؤں سے صرف خطہ ہندوپاک ہی نہیںبلکہ عرب وعجم، حل وحرم روشن ومنورہیں۔ کیوں ؟

وہ صرف اس لئے کہ اس شہر بریلی میں ایک ایسا سچا عاشق رسول پیدا ہوا ،جو پوری زندگی دنیا کو عشق خدا اور رسول کا درس دیتا رہا ۔جس نے اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ عشق رسول میں گذاردیا ۔وہ ایسا عاشق جس نے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان پاک میں ادنیٰ سی بھی گستاخی و بے ادبی برداشت نہ کی ۔ پوری زندگی بھر پور توانائی کے ساتھ کلک رضا سے دشمنان ِخدا ورسول سے مقابلہ کرتا رہا اور گستاخانِ رسول کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔ ایک سچے عاشق کو اپنے محبوب کے لئے جتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ، وہ سب بریلی کے ایک سچے عاشق رسول امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجد د اعظم دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے پیش کردیں ۔

بایںوجہ آج پوری دنیا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںفاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ صرف ایک سچے عاشق رسول بلکہ عشق رسول کے سالارِ اعظم کی حیثیت سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔ اسی لئے تو ہر عاشق کی زباں پر یہی ایک صدا ہے کہ چودہویں صدی میں امام احمد رضافاضل بریلوی کے نام سے ایک ایسا شخص بھی گزرا ہے جو اپنے نبی کا سچاعاشق اور محب صادق تھا۔ عشق مصطفٰے اس کے رگ رگ میں رچا بسا ہوا تھا، اس حقیقت کا اعتراف اپنے تو اپنے غیربھی کرتے نظر آتے ہیں۔جیساکہ ملک غلام علی نائب ابو الاعلیٰ مودودی ارمغان حرم ص۴۱ مطبوعہ لکھنومیں لکھا: حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضاخاں صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلارہے ہیں ان کی بعض تصانیف اور فتاوے کے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی ہے وہ بہت کم علماءمیں پائی جا تی ہے اور عشق خدا ورسول تو ان کی سطر بہ سطر سے پھوٹا پڑتا ہے ۔

قارئین ! غور کریں کہ مودودوی جماعت وہ جماعت ہے جو امام احمد رضا اور انکے متبعین کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے ، لیکن اسی جماعت کے نائب ملک غلام علی کی زبان سے بر ملایہ نکلا کہ” عشق خدا ورسول تو ان کی سطر بہ سطر سے پھوٹا پڑتا ہے ۔“ آئیے آگے چلتے ہیں !اسوہ ¿ اکابر مطبوعہ دیوبند ص۸۱ میں لکھا ہے کہ اشر فعلی تھانوی کہا کرتے تھے کہ” اگر مجھ کو مولانا احمد رضا کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا ۔ میرے دل میں احمد رضا کا بے حد احترام ہے ۔مولانا اشر فعلی امام احمد رضا کے مخالفوں کی صف میں پیش پیش ہیں ، لیکن ان کے سچے عشق کو دیکھ کر اور ان کی ہمہ جہت شخصیت سے متاثر ہو کر اپنے دل میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور ایسے موقع کو غنیمت جانتے ہیں ۔

آئیے اور آگے بڑھتے ہیں ! ہندوستان کے سب سے پہلے وزیر تعلیم ابو الکلام آزادامام احمد رضا کے عشق کے بارے میں کہتے ہیں کہ’ ’مولانا امام احمد رضا خان ایک سچے عاشق رسول گزرے ہیں‘ ‘۔امام احمد رضا کا عشق جتنا اونچا تھا ، اتناہی مشہور تھا کہ دہلی کی حکومت کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا ۔ عوام وخواص حتی کہ مخالفین کو بھی معلوم تھا کہ بریلی میں ایک ایسا عاشق ہے کہ جس کے چراغ عشق سے پوری دنیا روشن ہے ۔ سر زمین ہند کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ امام احمد رضا ملت طاہرہ کے ایک ایسے وفاشعار عاشق صا دق تھے کہ انہوں نے فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق وورافتگی ہی کو اصل الاصول قرار دے کر زندگی کا لمحہ لمحہ یاد محبوب میں قربان کردیا ۔ دل ویراں کو محبوب کی یادوں سے آباد رکھنا ہی امام احمد رضا کی زندگی کا حسین مشغلہ تھا ۔ امام احمد رضا نے عشق رسول کی وہ شمع جلائی ،جس کی روشنی سے ہزاروں بھٹکے ہوئے لوگ راہ راست پر آگئے ۔ اور عشق کی دنیا ایسی آباد فرمائی کہ جس کی نظیر ماضی قریب میں ملنا بہت دشوار ہے ۔ آپ ایسے عاشق رسول تھے کہ آپ کی مجلس میں اگر کوئی شخص چند لمحے کے لئے بیٹھ جاتا تو وہ بھی عاشق بنکر اٹھتا کیونکہ امام احمد رضا صرف عاشق ہی نہیں بلکہ عاشق گر بھی تھے ۔ آپ کے ا قوال وافعال ، عادت واطوار عشق رسول سے سر شار تھے ۔ یہی وجہ کہ آج آپ کی ذات والا صفات مرکز عاشقاں بنکر عاشقوں کے لئے شمع ہدایت بن گئی ۔

طالبان شریعت وطریقت اور تشنگان عشق وعرفاں کے اذہان و قلوب میں بادئہ عشق ومحبت وجام شراب محبت اس طرح منتقل کرتے رہے کہ ان کی روح تر وتازہ اور شاداب ہوگئی اور ان کا قلب بھی ایسا صاف وشفاف ہوا کہ عشق رسول کا گنجینہ بن گیا ۔ چنانچہ رضویات کے موسس اول ملک العلما حضرت علامہ مفتی سید ظفر الدین قادری رضوی فاضل بہاری رضی اللہ عنہ حیات اعلی حضر ت میں تحریر فرماتے ہیں :
حضرت ( مولانا وصی احمد )محدث صاحب سورتی اور اعلی حضرت فاضل بریلوی کے تعلقات کو دیکھ کر ایک بار حضرت محدث صاحب کے آخری تلمیذ حضرت مولا نا سید محمد صاحب اشرفی کچھوچھوی نے پوچھا کہ آپ کو شرف بیعت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی رحمةاللہ تعالیٰ علیہ سے حاصل ہے،لیکن میں دیکھتا ہوںکہ آپ کا شوق جو اعلیٰ حضرت سے ہے وہ کسی سے نہیں ۔ اعلیٰ حضرت کی یاد ان کا تذکرہ انکے فضل وکمال کا خطبہ آپ کی زندگی کے لئے رو ح کا مقام رکھتاہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا ۔ سب سے بڑی دولت وہ علم نہیں ہے جو میں نے مولوی اسحاق صاحب محشی بخاری سے پائی اور وہ بیعت نہیں جو گنج مرادآباد میں نصیب ہوئی ، بلکہ وہ ایمان جو ندار نجات ہے ، میں نے صرف اعلی حضرت سے پایا ۔ سینے میں پوری عظمت کے ساتھ مدینے کو بسانے والے اعلی حضرت ہیں ۔اس لئے ان کے تذکرے سے میری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے ، اور ان کے ایک ایک کلمے کو میں اپنے لئے مشغل ہدایت جانتا ہوں ۔(حیات اعلی حضرت جدید مطبوعہ رضا اکیڈمی)

علم دین یقینامایہ ناز دولت ہے جو اہل علم کو فکرو نظر اور بصیرت عطا کرتی ہے اور بیعت وارشاد بھی قلب کو صیقل کرنے کا اعلی ترین ذریعہ ہے جس سے انسان ظاہر وباطن دونوں میں پاک ہو جاتا ہے ،لیکن نغمہ عشق رسول سے ایسی وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ مرد مومن کی روح جھوم اٹھتی ہے گویا کہ عاشق کے عشق کی معراج ہونے لگتی ہے اور یہی کام امام احمد رضا نے کیا کہ علم وعرفان کے خزانے تو لٹایا ہی ساتھ ہی ساتھ مردہ دلوں کو جام عشق سے سیراب کردیا ۔ امام احمد رضا کے ساتھ جو بھی رہا خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں ، محفل میں ہو یا خانقاہ میں ، جلسے میں ہو یا جلوس میں غرضیکہ ان کے ساتھ جو بھی رہا ان کو عشق کی دولت سے مالا مال کردیا ۔

آج جس سمت نگاہ اٹھاکر دیکھیں امام احمد رضا کی ہی لازوال علمی ودینی کارناموں کی بنیاد پر ایوان فکر وشعور روشن ہیں اور انہیں کے جلائے ہوئے چراغ عشق رسول سے دل جگمگا رہے ہیں ، آئیے ! امام احمد رضا کی ذات پر ایک اور تاثر ڈاکٹر علاءالدین صاحب وائس چانسلر جا معہ ہمدرد دہلیکا ملاحظہ کریں ۔ وہ لکھتے ہیں :
’مولانا احمد رضا اس شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی علمی وفنی خوبیوں کے سبب عالم اسلام میں دھوم مچادی ہے اس سر زمین پر کونسا ایسا شہر ہے جہاں سے مصطفے جان رحمت پہ لاکھوں سلام کی صدائیں نہ بلند ہوتی ہوں اور فضائے آسمانی میں نہ لہراتی ہوں ۔

جس والہانہ عقیدت میں ڈوب کر انہوں نے نعتیں لکھی ہیں، اس سے ان کے عشق بے پایا کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا احمد رضا شاعر نہیں بلکہ عاشق رسول تھے ۔ نثرہو یا نظم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ان کی جتنی تحریریں ہیں ،ان کے ایک ایک جملے سے عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پھوٹا پڑتا ہے ، کچھ لوگوں نے ان کے اس عشق کو غلو پر محمول کیا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے‘۔(پیغام رضا ۷۹۹۱)

جامعہ ہمدرد دہلی کے وائس چانسلر بھی امام احمد رضاکے عشق کا اعتراف ان جملوں سے کرتے ہیں کہ ان کے ایک ایک جملے سے عشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پھوٹا پڑتا ہے ،امام احمد رضانے اپنے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق کیا کہ جب بھی کبھی عشق کی بحث چھڑتی ہے، تو ذہن ہمیشہ امام احمد رضا ہی کی جانب منتقل ہوتاہے کہ اگر عشق کی محفل ہوگی تو اس میں امام احمد رضا کا ذکر ضرور ہوگا ۔امام احمدرضا کا ترجمہ قرآن پڑھا جائے تو اس میں عشق کی خوشبواور ان کے فتاﺅں کا مجموعہ فتاوی رضویہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عشق کی خوشبوملے گی ۔ کیوں ؟ کیوں کہ ان کتابوں کا مصنف ایک ایسا عاشق ہے کہ جس کو سید العشاق کہا جاتا ہے ۔اس نے جب اپنی قلم کو اٹھا یا تو بغیر اپنے محبوب کے ذکر کے آگے نہ بڑھا ۔
کہتے ہیں کہ عشق کی دو قسمیں ہیں !

عشق حقیقی وعشق مجازی ۔ عشق حقیقی وہ عشق ہے جو خدا ورسول سے دل وجان سے کیا جائے اور جس کے پاس عشق حقیقی ہوگا وہ دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران رہے گا ۔ عشق مجازی وہ عشق ہے جو دنیا کی مال ودولت اوردنیا کی فانی چیزوں سے کیاجائے ۔ اور جس کے پاس عشق مجازی ہوگا یعنی جس کے اندر دنیا کی محبت ہوگی وہ ہمیشہ خسارے میں رہیگا ۔

لیکن اس معاملہ میں بھی امام احمد رضااپنے ہم عصروں پر سبقت لے گئے، اس لئے کہ آپ کا عشق مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھا، یعنی اللہ ورسول سے محبت کی جس کا ثمرہ یہ ملا کہ کامیابی بھی ان کے قدم کو چومتی ہے، تو اپنی معراج سمجھتی ہے ۔آیئے دیکھتے ہیں کہ امام احمد رضا نے عشق حقیقی کیا تو کس طرح کیا ؟

محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ محب اپنے محبوب کی یاد میں ہر وقت بے چین و بے قرار رہتا ہے، اسے محبوب کو دیکھے بغیر چین نہیں آتا ۔ امام احمد رضابھی بریلی کی چٹائی پر بیٹھے خدا ورسول کی یاد میں زیارت حرمین طیبین کے واسطے تڑپ رہے ہیں اور دیار حبیب کی کشش ہے کہ کشاں کشاں ان کے جان ودل اور ہوش وخردہر ایک کو محبوب پر ور دگار کے قدموں پہ ڈال دیتی ہے ۔اسی درد بھرے لمحات میں دل کی کرب آواز سے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جان و دل ہوش خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

اے رضا! تیری جان گئی تیرا دل گیا ،تیرا ہوش گیا تیری عقل گئی حتی کہ تیرا سارا سامان گیا اور تم نہیں جاتے یہیں چٹائی پر بیٹھے تڑپ رہے ہو ۔ محبوب پروردگار نے اپنے محب پر کرم فرمایا اور امام احمد رضا کو بار گاہ اقدس کی حاضری نصیب ہو گئی ۔

جس طرح صحابہ کرام نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے رسول با وقار کا دیدار کیا تھا، اسی طرح یہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنارکھتے ہیں،اپنے محبوب کے دیدار کے لئے تڑپ رہے ہیں ، جب زیارت حرمین شریفین کے لئے مدینہ طیبہ میں حاضر ہوئے تو شوق دیدار میں روضہ حضور کے سامنے کھڑے ہو کر رورہے ہیں درود وسلام کا ہدیہ بھی پیش کر رہے ہیں اور یہ امید لگائے کھڑے ہیں کہ آج حضور ضرور نگاہ کرم فرمائیں گے، اپنی زیارت سے مشرف فرمائیں گے ،لیکن اس شب زیارت نہ ہوسکی ۔ آپ کا دل بہت ٹوٹا اور اسی ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ آپ نے ایک نعت پاک لکھی ، جس کے شروع کے چند اشعار یہ ہیں :
وہ سوئے لالہ زار پھر تے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

اس نعت پاک کے مقطع میں اپنی دلی آرزوپورا نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی عجزو انکساری کے ساتھ درد بھرے انداز میں فرماتے ہیں ۔
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں

یہ نعت لکھ کر مواجہہ شریف کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر اپنی قلبی کیفیات حضور کے سامنے عرض کردیں ۔آقا کو اپنے اس عاشق کی یہ دل شکستگی گوارا نہ ہوئی۔ پھر کرم فرمایا اور ایسا کرم فرمایا کہ عالم خواب میں نہیں بلکہ عالم مشاہدہ میں بچشم سر بیداری کے حالت میں اسی رات اپنی زیارت سے مشرف کردیا ۔اسطرح امام احمد رضاخان کے دل بیقرار کو چین آگیا ۔ آ پ نے اسی چین اور قرار کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا :
اک تیرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
انس کا انس اسی سے ہے جان کی وہی جان ہے

اعلیٰ حضرت عشق کے اس منزل پر فائز تھے کہ اپنے معشوق کے خلاف ذرہ برابربھی لب کشائی برداشت نہیںکرتے تھے، اور عشق کاتقاضہ بھی یہی ہے ۔اسی عشق کے تقاضے کے پیش نظرآپ نے گستاخان رسول کی سرکوبی کرتے ہوئے فرمایاہے کہ :
دشمن احمد پہ شدت کیجئے
ملحدو ں سے کیا مروت کیجئے
شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیے

اسی عشق مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاثمرہ ہے کہ آج ہر سنی کی زبان پر اعلیٰ حضرت کانغمہ اورترانہ رہتاہے، ارشاد خداوندی کہ ’تم میری یادکرومیں تمہاراچرچاکروںکا‘کے مصداق آج اعلیٰ حضرت کاذکر بلندسے بلندتر ہوتانظر آرہاہے اور اسی عشق کی برکت ہے کہ ان کا نام اہلسنّت وجماعت کی شناخت اورپہچان بن گیاہے یعنی مسلک اعلیٰ حضرت سنی خوش عقیدہ سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کی پہچان ہے۔
یہ علا مت سچے سنی خوش عقیدہ کے لئے
اہلسنّت کوملا ہے مسلک احمدرضا

محبوب خداصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق کاتقاضہ یہی ہے کہ ان کی شان میں ادنیٰ توہین کرنے والوں کوٹھکانے لگادیاجائے۔ مگرآج کچھ ایسے عاشق نظرآرہے ہیں جو عاشق رسول ہونے کادعویٰ توکر رہے ہیں، عشق رسول کادم توبھررہے ہیں، مگرمعشوق کے فرمان کے خلاف کام کرتے نظرآرہے ہیں،ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں کوبراتک نہیں جانتے، برابھلاکہنااورجانناتودور ان کواپنی تقریبات میںشرکت کی دعوت دیتے ہیں اور ان کی خوشامد کرتے ہیں،ہائے افسوس! خدائے تعالیٰ انہیں سمجھ عطافرمائے نہیں توہمیں ان سے دور رہنے اور اپنے آقا ومولیٰ سے سچی محبت وعقیدت رکھنے کی توفیق عطافرمائے اوراس عاشق صادق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی مرقد انورپررحمت وانوار کی بارش برسائے۔اوران کے عشق کی خوشبو سے ہمیںبھی مستفیض فرمائے۔آمین۔
ابر رحمت ان کی مرقدپر گہرباری کرے
حشرتک شانِ کریمی نازبرداری کرے
zahid razvi
About the Author: zahid razvi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.