ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں

پانچ دسمبر کو کراچی کے لوگوں نے اپنا فیصلہ دے دیا، کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو بھاری اکثریت میں کامیاب کروایا ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دو جماعتی اتحاد کو بڑی بے دردی سے مسترد کردیا ، جسکا مطلب ہے کہ کراچی کے لوگ نہ تو کوئی تبدیلی چاہتے ہیں اور نہ ہی کراچی کو استنبول بنانا چاہتے ہیں۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دیگر شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ میٹروپولیٹن شہر بھی ہے اور کاسمو پولیٹن بھی لیکن بدقسمتی سے اسکو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو اسکو ملنی چاہیے۔ پنجاب اور سندھ کے تیسرئے اور آخری مرحلے میں پانچ دسمبر 2015ء کوکراچی شہرکے چھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں 1520نشستوں کےلیے 5401 امیدواروں میں مقابلہ ہوا، اس سے پہلے اپنی انتخابی سرگرمیوں میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ کراچی میں اصل مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے دو جماعتی اتحاد کے درمیان تھا۔ اے این پی تقریباً مقابلے سے باہر تھی جبکہ پیپلزپارٹی کو بھی کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی ۔ پیپلزپارٹی کے بہت کم امیدوار تھے جس میں اُس کو اپنے گڑھ لیاری میں کل 15 میں سےصرف 6 نشستوں پر کامیابی ملی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا۔آئندہ مئیر ایم کیو ایم کا ہی ہو گا ۔ ترازو اور بلے کا اتحاد ناکام ہوگیا ۔ جیسا کہ میں نے 24 نومبر کو اپنے ایک مضمون "کراچی میں ایم کیو ایم کا ہلکا پھلکا مقابلہ" میں لکھا تھا کہ "بظاہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں صرف ایک ہی مضبوط پارٹی ایم کیو ایم ہے جسکا ہلکا پھلکا مقابلہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے ہوگا" تو بلکل ایسا ہی ہوا ہے۔

کسی ایک بھی تجزیہ نگار نے ایم کیو ایم کی شکست کا سوچا بھی نہیں، بقول ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کے کہ اُنکو توقع سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔اب تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق کراچی کی مجموعی 456 نشستوں میں سے ایم کیو ایم نے 254 نشستیں حاصل کی ہیں۔پیپلزپارٹی 39 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے، 34 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہو ئے ہیں، جبکہ دیگر جماعتوں کے 63 امیدوار کامیاب ہوئے۔ کراچی میٹروپولیٹن کی یونین کونسلوں اور یونین کمیٹیوں کی 246 نشستوں میں سے 135 ایم کیوایم، 32 پیپلزپارٹی، 8 جماعت اسلامی، 9 تحریک انصاف، 9 مسلم لیگ ن ، 3جے یو آئی، ایک اے این پی اور24 آزاد امیدواروں نے چیئرمین شپ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے ضلع وسطی میں ایم کیوایم نے مخالفین پرجھاڑو پھیردی 102نشستوں میں سے 100پر ایم کیوایم نے قبضہ جمالیا جبکہ صرف دونشستیں پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں(تمام اعداد و شمار دستیاب معلومات پر لکھے گے ہیں ان میں بعد میں کسی بھی تبدیلی کی ذمہ داری مضمون نگار پر نہیں ہوگی) ۔

ایم کیو ایم پر واضع الزامات ہیں کہ کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگیٹ کلنگ کے علاوہ بوری بند لاشوں کی بھی ذمہ دار ایم کیو ایم ہے، اس سال فروری اور مارچ میں نہ صرف ایم کیو ایم پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات لگے بلکہ اُسکے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپا بھی مارا، ایک مقامی اخبار کے سروئے کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کو 74 فیصد پاکستانیوں نے درست فیصلہ قرار دیا تھا۔ ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سے رینجرز کے چھاپے کے دوران بھاری اسلحہ برآمد ہوا تھا اور مفرور مطلوبہ افراد پکڑے گئے تھے۔ کراچی کی 85 فیصدنمایندگی کی دعویدار ایم کیو ایم پرتو اُس کی پیدایش کے وقت سے ہی الزامات لگتے رہے ہیں اور آج بھی ایم کیوایم پر ٹارگیٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات سرفہرست ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود ایم کیو ایم عام اور بلدیاتی انتخابات جیتنے کا ریکارڈ قائم کرتی چلی جارہی ہے۔ وجہ بڑی سادہ ہے کہ دو کروڑ کی آبادی اور ملک کو 70 فیصد ریونیو کما کر دینے والے اس لاوارث شہرکراچی کے عوام کی ذمہ داری نہ ہی مرکزی حکومت لیتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے، لہذا کراچی کے شہریوں اور خاص کر مہاجروں کے پاس صرف ایم کیو ایم ہوتی ہے جو مہاجروں کے نام پر دہائی دیتی رہتی ہے۔

موجودہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اور رینجرز کے درمیان کشیدگی کی زیادہ اہمیت رہی ہے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ رینجرز صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بناتی ہے، جبکہ رینجرزکا کہنا ہے کہ آپریشن کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ مبینہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے۔حالات اور واقعات کی روشنی میں سیاسی تجزیہ نگار ایم کیو ایم کی موجودہ کامیابی کو بھی ماضی جیسا ہی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اخبارات کی خبروں میں کہا جارہا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے بڑئے بڑئے برج اُلٹ گئے۔ کون سے برج حافظ نعیم الرحمنٰ اورعلی زیدی؟ کیا خدمات ہیں ان کی کراچی کے لوگوں کے لیے اور کراچی میں کتنے لوگ اُن کو جانتے ہیں، ان کی غیر مقبولیت کا حال یہ ہے کہ یہ ایسے لوگوں سے ہار گے جو ایم کیو ایم کے غیرمعروف امیدواروں تھے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن کو ایم کیو ایم کے غیرمعروف مظہرحسین نے شکست دی، مظہرحسین نے 3205اور حافظ نعیم الرحمان نے 712ووٹ حاصل کئے ، حافظ نعیم الرحمان نے اسے کھلی دھاندلی قرار دیا۔پاکستان تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا ہے رینجرز نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور یہ کہ الیکشن کمیشن بھی منصفانہ انتخابات کرانے میں ناکام رہا، جبکہ تحریک انصاف کراچی کے صدر اور میر کے ناکام امیدوار علی زیدی کا کہنا ہے جنھوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا انھیں شرم آنی چاہیے، اب آپ جواب میں یہ نہ کہیے گا کہ جو ان انتخابات کے نتایج کو تسلیم نہیں کررہے دراصل شرم اُنہیں آنی چاہیے۔

جماعت اسلامی نے این اے 246 میں اپنی ضافنت ضبط ہونے جیسے نتائج سے بچنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کے زریعے فوائد سمیٹنے کی کوشش کی۔ کیونکہ اس انتخابی اتحاد کے پیچھے جماعت اسلامی کی سوچ یہ تھی کہ اگر جماعت اسلامی کچھ حلقوں میں انتخابات نہ بھی جیت پائے تو وہ کم از کم بدترین شکست سے بچ جائے۔ جماعت اسلامی کی پوری کوشش تھی کہ وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی برتری ثابت کرسکے۔ کراچی میں جماعت اسلامی نےتمام بلدیاتی حلقوں میں توحصہ نہیں لیا لیکن آدھے شہر میں اس نے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور35 فیصد کوٹہ جماعت اسلامی کو دیا جبکہ تحریک انصاف کو پتہ تھا کہ کراچی کے شہریوں کو جماعت اسلامی کا تجربہ پہلے سے ہے۔ جماعت اسلامی کو کئی بار آزمایا جاچکا ہے، تین بار شہر کی میئرشپ بھی جماعت اسلامی کے پاس رہ چکی ہے۔کراچی کے شہری پی این اے اور دوسرے اتحادوں کی سیاست دیکھ چکے ہیں لہذا اتحادوں کی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ ویسے بھی کراچی کے شہری لبرل انداز زندگی کو پسند کرتے ہیں لہذا کراچی کے شہری طالبان دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں کو ووٹ نہیں دیتے۔ اگرچہ عمران خان بھی طالبان کے ہمدردوں میں ہی ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو لبرل بھی کہتے ہیں ،کراچی میں تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے اتحاد عمران خان کی ایک بڑی غلطی تھی جو بدترین شکست کی صورت میں اُن کے سامنے آیا ہے۔

اگرچہ تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد میں جماعت اسلامی کا حصہ زیادہ تھا لیکن جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ تحریک انصاف کا ووٹر جماعت اسلامی کےاُمیدوار کو ووٹ دے گا۔پانچ دسمبر کے بلدیاتی انتخابات میں، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد، ایم کیو ایم کے مدمقابل تھا لیکن شہر میں سیاسی منافقت کے کافی مناظر بھی دیکھے گے۔ بعض حلقوں میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) ایک دوسرے کی اتحادی تھے۔ یکم دسمبر کو جب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن میڈیا کے سامنے کراچی کے لیے اپنا پروگرام بتارہے تھے ٹھیک اُسی وقت جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ، اسٹیل مل کے علاقے گلشن حدید میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) کے مشترکہ جلسے سے خطاب کررہے تھے، مسلم لیگ(ن) سندھ کے صدر اسماعیل راہو بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں بلدیہ ٹاؤن کی یونین کونسل 34 میں جماعت اسلامی کے امیدوار کو ترازو کا نشان پوسٹر پر چھاپنے سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو اُس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی تصویر بھی عمران خان اور سراج الحق کے ساتھ چھاپ دی ۔ سب سے دلچسپ منظر اورنگی ٹاؤن کی ایک یونین کونسل میں تھا، جہاں ایم کیوایم کے مقابل انتخابی اتحاد میں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور عمران خان کی پی ٹی آئی ساتھ ساتھ موجود تھے۔

پانچ دسمبر کو کراچی کے لوگوں نے اپنا فیصلہ دے دیا، کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو بھاری اکثریت میں کامیاب کروایا ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دو جماعتی اتحاد کو بڑی بے دردی سے مسترد کردیا ، جسکا مطلب ہے کہ کراچی کے لوگ نہ تو کوئی تبدیلی چاہتے ہیں اور نہ ہی کراچی کو استنبول بنانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیں بلکل ایسے ہی جیسے اندرون سندھ والوں نے پیپلز پارٹی کو اور پنجاب والوں نےمسلم لیگ (ن) کو کامیاب کروایا ہے اور کوئی اُنکے خلاف آواز نہیں اٹھارہا ہے۔ مجھے ایم کیو ایم سے اختلاف رہتا ہے، لیکن یہ کراچی کی اکثریت کا فیصلہ ہے، جمہورت میں اکثریت ہی کا فیصلہ سب کا فیصلہ ہوتا ہے، اس لیے میں لاکھ اختلاف کروں لیکن مجھے جمہوری فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ آپکا یا میرا ایم کیو ایم سے اختلاف کوئی حیثیت نہیں رکھتا، ہمیں اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ایک چیز ذھن میں رکھیں کہ یہ جو سوشل میڈیا پر مہاجر مہاجر کے تعصب سے بھرپور تبصرئے ہورہے ہیں تو تبصرئے کرنے والوں کےلیے یہ اطلاع ہے کہ ہارنے اور جیتنے والے سب کے سب مہاجر ہیں، جن میں ایم کیو ایم کےوسیم اختر، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور تحریک انصاف کے علی زیدی بھی شامل ہیں، ویسے بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود بتاچکے ہیں کہ وہ بھی آدھے مہاجر ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایم کیو ایم کو بھرپور مبارکباد دیں۔ دل بڑا کیجیئے، ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 486342 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More