دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے

دہشت گردی ایک بار پھر دنیا بھر میں بحث کا موضوع ہے۔پیرس دھماکے نے اس بحث کو مہمیز دی ہے۔13نومبر کو ہونے والے اس دھماکے کے فوراََ بعد سے اب تک تین عالمی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں۔جس میں عالمی سربراہان نے شرکت کی ہے۔تینوں کانفرنسوں میں یہ معاملہ چھایا رہا ہے۔اقوام متحدہ نے بھی اس دوران ایک تجویز پاس کرکے دہشت گردی کے خلاف عالمی مشترکہ جنگ چھیڑے جانے پر زور دیا ہے۔حیرت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ اپنی تاسیس سے آج تک 1700گھنٹے بحث کرنے کے باوجود آج تک دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف متعین کرنے سے عاجز ہے ۔اقوام متحدہ اس سے لڑنے کے لئے تجویز پاس کررہی ہے۔سوال یہ ہے کہ جس دہشت گردی کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہی نہیں کہ دہشت گردی کسے کہتے ہیں اور کون دہشت گرد تھا اس سے جنگ کیسے لڑی جائے گی اور کون لڑے اور کس سے لڑے گا۔اب تک دہشت گرد ی کے خاتمے کے نام پر جو کچھ بھی ہواہے اس میں تو زیادہ تر بے قصور اور نہتے عوام ہی مارے گئے ہیں چاہے مبینہ دہشت گردوں کے ذریعہ کئے بم دھماکے اور خود کش حملے ہوں یا ان سے لڑنے کے خلاف افغانستان ،عراق ،لیبیا یمن میں کی جانے والی فوج کشی ہو یا اس کے خلاف گرفتار کئے جا رہے بے قصورنوجوان ہوں ان میں سے اکثر بے قصور ثابت ہوئے ہیں۔خود ہنوستان میں دہشت گردی کے نام پر جتنے نوجوان گرفتار ہوئے ان میں سے 98%بے قصور ثابت ہوئے ۔جن دو فیصد کو سزائیں ہوئیں یا پھانسی ہوئی ان پر عدالتیں جرم ثابت کرنے میں زیادہ تر کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اسی طرح بیرون ملک میں ہونے والے انتہائی جان لیوااور بیہمانہ سفاکانہ اور انسانیت کش حملے کس نے سر انجام دیئے اس پر بھی کوئی متفقہ رائے قائم نہیں کی جا سکی ہے۔ مثلاً 2011میں امریکی ٹریڈ ٹاور پر جہازمارکے زمین بوس کرنے اور اس میں پانچ ہزار لوگوں کے جانی اتلاف کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ القاعدہ نے ہی سر انجام دیئے تھے۔خود امریکی ایف بی آئی اس سلسلے میں آج تک مصروف تحقیق ہے اور کسی حتمینتیجہ کا ابھی تک انتظارہے۔اسی طرح حال ہی میں پیرس کے دھماکے کے بارے میں فوری رجحان یہیسامنے آیا ہے کہ داعش نے یہ حملے کیے ہیں ۔داعش کی جانب سے بھی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔مگر پیرس سمیت دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں بھی ابھی تک کسی آخری نتیجہ تک پہنچنے میں ناکام ہیں اور مذکورہ دونوں حملوں میں موساد کا ہاتھ ہونے سے بھی انکار نہیں کیا جا رہا ہے۔مگر یہ سب معاملات ہنوز تحقیق طلب ہونے کے باوجود ان حملوں کے خلاف انتقامی کارروائی انتہائی عجلت میں انجام دے دی گئی ۔افغانستان پر امریکی حملہ ٹریڈ ٹاور پر حملے کا انتقام تھا جس میں پورے افغانستان کے چمن زار کو ریگزار میں تبدیل کر دیا گیااور پیرس کے حملے کے دوسرے ہی دن رقہ پر حملہ کرکے سینکڑوں بے قصور شہریوں کو بم سے اڑا دیا گیا اور ساری دنیا کسی سے نہیں پوچھ رہی کہ جب جرم ثابت ہی نہیں ہوا تو سزائیں کس بات کی دی جا رہی ہیں۔محض مفروضوں کیبنیاد پر بے قصوروں کے قتل عام کی اجازت کون سا مہذب سماج دیتا ہے اور کون سے قانون کے تحت اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی موجودگی میں اس کی کون سی تجویز کے تحت یہ جنگی جرائم انجام دیئے جاتے ہیں اور کیا یہ غیر انسانی جرم کرنے والے لوگ کسی سزا کے مستحق نہیں ہیں؟

دہشت گردی پر کسی منطقی بحث کے بغیر کسیمدلل شہادت کے بغیر محض طاقت کے زعم میں کی جانے والی یہ کارروائیاں صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ جنگ دراصل دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے بلکہ کچھ عالمی طاقتوں کی جانب سے ایک خاص طبقے کے خلاف قوت کا اظہار ہے۔ایک خاص مذہب کے لوگوں کو نشان زد کرکے ان پر ایک نا معلوم دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کوصفحہ ہستی ہی سے مٹادینے کی عالمی سازش ہے۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ بجائے خود ایک دہشت گردی بن چکی ہے۔

ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ انسانیت پر ہونے والے حملے تو جاری ہیں۔ٹریڈ ٹاور ہو یا پیرس، لیبیا ہو یا لبنان ہو،دہلی ہو یا حیدر آباد مالیگاؤں ہو یا سمجھوتہ ریل دھماکہ یا اس قسم کی ہزاروں وارداتیں جن میں نہتے بچوں، مردوں ،عورتوں اور بوڑھوں کا خون نا حقتو بہر حال بہا یا گیا ہے۔اور ان تمام واقعات کے الزام جن تنظیموں اور افراد کے سر ڈالے گئیتھے وہ بھی ثابت نہ ہوسکے ۔ اس طرح مختلف حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں ناکام ثابت ہوئیں اور پہلے ہی نظر میں انسدادی کارروائی سے زیادہ انتقامی کارروائی محسوس ہوتی ہے۔دوسری جانب دنیا بھر کی ’شدت پسند ‘متحارب تنظیموں پر بھی کسی قسم کا کوئی قدغن لگانے میں یہ حکومت ناکام رہی ہیں۔بلکہ اس قسم کی تنظیمیں مزید طاقتوربھی ہو رہی ہیں اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔یہی وہ حالات ہیں جو اس بات کے متقاضیہیں کہ دہشت گردی کے تعلق سے از سر نو بحث کی جائے اقوام متحدہ اس کی متفق علیہ تعریب متعین کرے اور بے تحاشہ انسانی جانوں کے اتلاف کے مد نظر اس کے اصل ذمے داروں کو پہچانے اور ان کو انسانی سماج سے دور کرنے کی ایماندارانہ کوشش کرے۔ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں۔ان واقعات سے کن طاقتوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اور کون لوگ متاثر ہیں اس کا ایک معروضیجائزہ لیا جائے اور اگر اس میں کچھ ممالک کی حکومتیں بھی شریک ہیں توان کا محاسبہ کیا جائے۔ان کو عالمی اداروں سے باہر کیا جائے اور جانی و مالی نقصانات طے کرکے ان سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ایسا اس لئے ضروری ہے کہ حال ہی میں G20اجلاس میں روس کے سربراہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا کے کم از کم 40ممالک دہشت گردوں کیپشت پناہی کررہے ہیں۔ جن میں G-20ممالک کے کچھ ارکان بھی شامل ہیں۔اس بیان کی روشنی میں روسی سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام ممالک کے نام ظاہر کریں اور ان کے خلاف تمام قسم کے دستاویزی ثبوت دنیا کو مہیا کروائیں تاکہ ساری دنیا اپنے اور طور پر ان الزامات کی تصدیق کر سکے اور اگر ان کا الزام صحیح ہے تو ان ممالک کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کی جائے کیونکہ اگر دنیا کے 40ممالک خود دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تویقینا کسی پولس، فوج ،ایجنسی کے ذریعے اس دہشت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے حتیٰ کہ ان ممالک کو اپنی مکروہ حرکتوں سے بزور قوت روک دیا جائے اس سنگین الزام کے بعد یہ صدر روس کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ واقعی دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ ہیں تو محض ایک ملک پر فوج کشی کرکے ایک تنظیم کے خاتمے کے لئے جنگی کارروائی کرنے سے بھی یہ مسئلہ ہرگز ختم نہیں ہو سکتا ۔اس معاملے پر ان کی سنجیدگی کا امتحان یہی ہے کہ وہ بلا تاخیر ان ممالک کے نام کا انکشاف کریں تاکہ دنیا یہ جان سکے کہ کسی خاص مذہب کے ماننے والے اس جرم عظیم کے مرتکب نہیں ہیں بلکہ چند حریص لالچی اور استعمارپسند ممالک مستقبل کے اپنے ناپاک عزائم کو برؤے کارلانے کے لئے خود یہ تنظیمیں پیدا کر رہے ہیں۔ان کو ہتھیارفراہم کر رہے ہیں دولت سے نواز رہے اور پھر ان کے ذریعہ دونوں ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے ممالک کی دولت لوٹ رہے ہیں ان کی بستیاں تباہ کر رہے ہیں اور اس کے مکینوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور الزام بھی انتہائی چالاکی کے ساتھ انہیں مظلوموں پر عائد کر رہے اور بلا تحقیق و بلا ثبوت ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کررہے ہیں۔

ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے انصاف پسند حقوق انسانی میں یقین رکھنے والے لوگ اور ان کی تنظیمیں و ادارے عالمی سطح پر متحدد ہوں اور اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کے لئے عوامی تحریک کا آغاز کریں ۔ دہشت گردی کے خلاف مذمت بہت ہو چکی ہے ۔ ہم نے بھی حتی المقدور ساری دنیا میں اس کی مذمت کی ہے اور ابھی جاری ہے مذمت کرتے کرتے حلق خشک ہو گئے ہیں اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ کہتے کہتے زبانیں خشک ہو چکی ہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے گویا حقیقت سب جانتے ہیں مگر اپنے مخصوص ادرادوں کی وجہ سے کوئی اعتراف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ایسے میں اب کوئی تحریک دہشت گردی کی مذمت کرنے کے لئے کھڑا کئے جانے کی مطلق ضرورت نہیں رہی بلکہ وقت آ گیا ہے کہ مظلوم اور متاثر طبقات ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہو جائیں اور بلا خوف و خطرنڈر، بہادر اور بے باک بن کران قوتوں کے خلاف مہم کا آغاز کریں جودر اصل دہشت گردی کی پشت پناہی کرکے ساری دنیا میں اس ظلم عظیم کو عام کئے ہوئے ہیں۔دنیا بھر کے بھولے بھالے معصوم عوام جو ریڈیوں ، اخبار اور ٹی وی کی خبروں کو ہی سچ سمجھتے ہیں ان کے دروازے پر پہنچ کر بتایا جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور دنیا میں انسانیت کے اصل مجرم کون ہیں۔جب تک دہشت گردی کی پشت ثانی کرنے والوں کے خلاف ایک ملک گیر عوامی تحریک کھڑی نہیں ہوتی تب تک عوام میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں بھی موجود رہیں گی اور اصل مجرموں کے حوصلے بھی بلند رہیں گے۔ ایک بار عوام ان کی حقیقت سے روشناس ہونے لگیں گے تو یہ عالمی دباؤ خود بخود بننے لگے گا کہ ان بدمعاش اوردہشت گرد ملکوں کو حاشیے پر کھڑا کیا جائے اورباقی مہذب دنیا ا ن سے سفارتی تعلقات منقطع کرے ۔ان کا معاشی مقاطعہ کیا جائے اور ان کی اقتصادی ناکہ بندی کی جائے۔جب تک ہم ان قوتوں کو عوامی سطح پر بے نقاب کرکے ان کا عالمی بائیکاٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔تب تک دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی ہر ایک جنگ کا مقدر نا کامی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24464 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More