پاکستان میں دسمبر ہمیشہ خزاں کا موسم بن کر آیا ہے اس
مہینے سے پاکستان کی تلخ یادیں وابستہ ہیںوہ دسمبر ہی تھا جب پاکستان دو
لخت ہوا۔قائداعظم کی زیرصدارت ہم نے آزاد ریاست تو حاصل کر لی مگر بعد میں
کے نہ ہونے کی وجہ سے مشرقی و مغربی پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹرکے قریب
فاصلہ تھااور ان دونوں کو ساتھ لیکر چلنے کے قیادت کی ضرورت تھی پاکستان کے
عوام کی بدقسمتی کہ بابائے قوم کی بڑی ضرورت تھی مگر وہ جلد ہی حقیقی خالق
سے جا ملے اور آپ کے جانے کے بعد پچھے قیادت کا فقدان نظر آیا اور ملک کی
باگ دوڑ جس کے بھی ہاتھ میں آئی اس نے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیع دی
اور جہاں بنگلہ دیش بننے میں جہاں اقتدار کے حواریوں نے راہیں ہموار کی وہی
پہ بنگالیوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو بھی نہیں نظر انداز کیا جا
سکتا آخری مراحل میں حالات کو کنٹرول کرنے کے طریقے پر بھی حیرت ہوتی ہے
صرف یہ ہی نہیں بھارت کی بے جا مداخلت نے بنگالیوں کو بھڑکانے کا کام کیا
اور وہ مقام جہاں سے پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تھی وہ شہر ہم سے جدا ہو
گئے سقوط ڈھاکہ کا زخم ابھی تازہ تھا کہ 27 دسمبر2007 کی وہ بد قسمت شاپ آ
پہنچی جس نے سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی محترمہ بینظیر بھٹوں کی شخصیت کا
سورج بھی ڈبو دیا اور ہم ایک ایسے عظیم لیڈر سے جد ہوگئے جس میں ذولفقار
علی بھٹوں کی جھلک نظر آتی تھی بھٹوں صاحب نے اپنی بیٹی کی پروش ایسے ماحول
میں جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی بینظیر بھٹوں کی بد قسمتی کہ ان کے باپ
آمریت کا شکار ہو گئے اور محترمہ قیادت کے سائے سے محروم ہوگئی۔آپ کی سیاسی
زندگی عروج وزوال کا شکار رہی عرصہ دراز بیرون ملک گزانے کے بعد آپ
18اکتوبر2007 کو حب الوطنی کے جزبے سے شاہسار ہو کر وطن لوٹی اور میثاق
جمہوریت کے معاہدے کے تحت ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے کی تھان لی۔ مگر جمہوریت
کے دشمنوں کو یہ بات کب گوارہ تھی کہ آپ پاکستان کی دوبارہ وزیراعظم کے
عہدہ پر فیض ہوسکیں اور باپ کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی آبیاری
کرسکیں امن کے دشمنوں کو آپکی شہرت ایک نہ بھائی اور آپکو 27دسمبر 2007 کو
آپکو موت کے گھانٹ اتار دیا گیااور لاڑکانہ میں کروڑوں آہوں سسکیوں میں
دفنادیا گیا 2014 کے دسمبر کے ماہ بھی پاکستان کو نہ بخشا پشاور کے سکول
132پھول بچوں کو اور 9سے زائد اساتذہ کو علم وامن کے دشمنوں نے ماوں کے لخت
جگر چھین لیےاس واقعہ کے بعد پورے ملک میں سوگ کی فضا چھا گئی یہ واقعہ
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومت کا منہ بولتا ثبوت
تھا یاد رہے یہ واقعہ اسوقت پیش آیا جب پختون خواہ وزراءکنٹینر پر روقص کی
محفلیں جمائے بیٹھے تھے اور دشمن تاک لگائے بیٹھے تھے اور وہی ہوا جس کا ڈر
تھا یہ پاکستان کی تاریخ کاسیاہ ترین دن ہے تاریخ تو ہمیں یہ بھی بتاتی ہے
کہ د سمبر نے ہمارے قومی ہیروز جیسے کہ ملکہ ترنم نورجہاں،پروین شاکراور
بابائے قوم کی ہمشیرہ کو ہم سے دا کیا تھادسمبر تو یونہی پاکستان کی تاریخ
میں رہے گا مگر ضرورت اب اس بات کی ہے کہ ماضی میں دسمبر نے ہمارے ساتھ کو
بے وفائیاں کی ان سے ہم نے کتنا سبق سیکھا۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھاتو
ہم بھی ماضی کا حصہ بن جائے گےا
نہ سمجھوں گے تو مٹ جا وں گے اے ہندستان والو
داستان تک نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں |