غالب بنام کرن

شریمتی کرن جی!سناہے تم اس قلمرو سے ہرن ہورہی ہو۔ وجہ کیاسبب کیا؟یہ”پُرن یہ کوہ ودمن، یہ سیکولرچمن،یہ اچھے دنوں کالگن یہ گاؤ اوربھگوان کاملن ۔۔۔کچھ بھی بھایا؟؟ سچ بولنا عدم برداشت کے باڑ سے ڈر لگا ؟ د ھونس دھمکی دباؤ کی بجر نگی چنگھاڑ سے خوف کھایا ؟ جوبھی ہو واللہ خوش نصیب ہو کہ تمہارا بھاؤبڑھ جاوئے ہے۔۔۔ مابدولت کوکسی طفل ِ مکتب نے سوال کیا چچا ابھی تک سنگھ پریوار سناتھا ،یہ عدم برداشت کس چڑیا کا نام ہوا؟ میں نے کہا بچو! یہ چیل کوے کا نہیں روگ کانام ہے۔ جہاں منافرتوں کا گردوپیش ہو، جہاں یہ کھاؤ وہ مت کھاؤ کا آدیش ہو، جہاں یہ پہنو ہے وہ نہ پہنو کا سندیش ہو ، جہاں رام رام جپ جاؤ نہیں توپار جاؤکا اُپدیش ہو، سمجھووہاں عدم برداشت کی بیماری کا بسیرا ہے ۔ کوئی حکیم ِحاذق اس کاعلاج کرسکے نہ روگی کسی دوادارو سے شفا پاوئے۔۔۔گناہ گارکوپتہ نہ خبرعدم برداشت کے مرچ مسالے سے کونسی نئی کھچڑی سیاسی نگار خانے میں تیاربہ تیار ہے ۔ بس کانوں میں بھنک سی پڑی کرن کے شوہر نامدار فلمی اداکارعامرخان نے سربازار کہا بیگم جی کوآج کل غم کا بخاراورپریشانی کازُکام ہے،اپنے معصوم بچوں کی فکرمیں بے قرار ہے،اس کے لئے مودی سرکارساری کی ساری ذمہ دارہے، کیونکہ یہ عدم برداشت کی علمبردارہے، ڈرکیولائی پریوارہے،اقلیت کاہرفرد ِبشر لاچارہے،گھرگھرخوف کاشکارہے، بستی بستی دل فگارہے، جابجا ترشول اورتلوارہے ،شیخ حسینہ کاجیسا بچھا ہرجاتختہ دارہے،ماردھاڑ، بدنامی،کردارکشی کابیوپارہے،زعفرانیوں کی جے جے کارہے،انسانیت ذلیل وخوارہے،کرناٹک کے کلبرکی کاخونِ ناحق،اخلاق احمد کاقتلِ عمد ،زاہدبٹ کی شہادت عنادوفسادکااظہارہے،فضاشرربارہے،ماحول ناہنجار ہے،غموں کا حساب نہ دُکھوں کا شمار ہے۔۔۔ اسی لئے کرن اُمید کا سنسار چھوڑ ے مائل بہ فرار ہے۔ وہ کہتی ہے سوامی چلئے میں جوگن آپ جوگی بن جائیں ،دور گگن کی چھاؤں میں چوتارا لئے گھومیں پھریں، پردیس جائیں،جان بچائیں، بچوں کا مستقبل سنواریں، خوشیاں منائیں، دل بہلائیں، فلمیں بنائیں،خوب کمائیں ، کھائیں پئیں، موج منائیں اورکیا؟ ۔۔۔ عامر کی بولی فکر اپنی اپنی خیال اپنااپنا کا شاہ کار ہے ۔۔۔ شاہ رُخ اپنے ڈائیلاگ کارُخ تھوڑاسابدل کردولفظ صاف صاف بولاتوحافظ سعید کہلایا، کچھ زیادہ بولتا اُسامہ کاجانشین بتایاجاتا، کچھ اورمنہ کھولتا داؤد ابراہیم کا ڈبل پارٹ بن جاتا۔ یہ آج کی بات نہیں ، کل کا بھی دُکھڑا یہی تھا۔ ذراساراج کے دنوں کی کتاب کھول کے دیکھ، قائداعظم کانگریس کے باہوش قائدتھے،گاندھی نہروپٹیل کے دوش بدوش،یکایک عقل ٹھکانے آگئی اپنا کوچہ وبازاراُس وقت کے مودی دربارسے دور بساڈالا؟ شیخ ِ کشمیرمن توشدم کے گلوکار تھے، وہ کیوں رائے شماری کے نعرہ با زبن گئے؟صدام انکل سام کے نمک خوارتھے وہ بھی کیونکریک بیک راندہ دربار ہوئے؟اکبر الہ آبادی نے بجا فرمایا ہے
وہ حال ہوں کہ بیاں جس کا دل دُکھاتا ہے
وہ شکل ہوں کہ نشانی ہے درد پنہاں کی
وہ ذرہ ہوں کہ بیاباں ہے گرد جس کے حضور
وہ قطرہ ہوں کہ حقیقت نہ سمجھے طوفاں کی

کرن جی ! شوق سے ہند وستان سے مفرور ہو جاؤ، مزے سے فرنگ میں جی لینا،گھرواپسی کا من کرے شان سے واپس آئیو ۔ تم عافیہ ہو نہ آسیہ، سار اجہاں تمہارا۔ یاد ہے نا وہ برہنہ پا مصورایم ایف حسین ؟ بچارے کو عدم برداشت کے لٹھ برداروں نے ڈرایادھمکایا،وہ سہم گیا، اپنے موقلم کاسرقلم کرگیا،تصویری دنیا سے نودوگیارہ ہوا،وطن سے دُم دبا کربھاگا،اُڑتے اُڑتے قطرپہنچا،بے خوف وخطرجیا،ولایت گیا،وہیں مرگیا،معاملہ گول۔ نادان نہیں بلکہ دانا لوگ کہہ گئے جب قلب مضطرب، جگرمشقِ ستم، خیال پربریدہ ہوجائے کہ طائرلاہوتی کی پروازمیں کوتاہی آئے، وہ موت یا فرار جو بھی چاہے، اُس کے واسطے بہتر۔اسی لئے عرض کیا ہے
رہے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

آخرکوئی بھلامانس کب تلک امن سے عاری،سکون سے خالی،عزت سے محروم ،رواداری سے تہی دامن دیس کاباسی بنارہے؟جان اوروقار سے کس کو پیارنہیں؟عمردراز کے چارہی تودن ہیں،وہ بھی اگربندگان ِ خداپریوار کے خوف اورسینا کے ڈرمیں بِتانے لگیں تویہ کاہے کی لذتِ آرزوکدھرکی شیرینی انتظارہوئی؟۔۔۔ اِن دنوں دانش ور بے باک،شاعر بے چین،ارون دھتی باغی،منوررانارنجیدہ خاطر،مرغوب بانہالی خوب کار،غلام نبی خیال آمادہ پیکارخواہ مخواہ نہیں،مگریہ سوالیہ نشان بھی لگا یہ کس جنترمنتر کاجادوئے اثردارہے؟ سوال یہ بھی ہے اپنے گیان پیٹھ کادھیان بغاوت کی اس گھاٹی کی طرف کیوں نہیں جاتا؟خیرشاہ رُخ کا دُکھ،عامر کی تشویش،بالی وُڈکااحتجاج سمجھ میں آوئے توآوئے مگر یہ انوپم کھیرعدم برداشت کے چولہے پہ نوٹنکی بازی کی خالی ہانڈی اُبالے شکم سیرہواچاہتا ہے؟ یہ بات کچھ ہضم نہ ہوجاوئے۔اُس بے بال وپرکودیکھ کر بڑے بزرگوں کی ماننا پڑے گی کہ ساون کے اندھے کو ہریالی ہی ہریالی نظر آوئے ۔اعتبارساجد کی یہ چوٹ بھی بے مطلب نہیں
اے خرِ بے پیر! اب اپنی حقیقت کھول دے
جو بھی کچھ ہے دل میں تیرے اپنے منہ سے بول دے

میڈم!توبہ توبہ سر کی اِن آنکھوں سے شروفساددیکھے،گوروں کی کالی کرتوتوں سے آمناسامناہوا۔چھی چھی چھی!انسان کی حیوانیت اور انتقام کاجوش دیکھاتوہوش اُڑگئے،اسی دردوابتلاءکے عالم میں مرثیے کہے،نوحہ پڑھے کہ غزل سرائی بھول گیا۔زمانے کے جنگ وجدل دیکھ کر کس سنگِ سیاہ کادل اُچاٹ نہ جائے؟جینے کی آس کیوں نہ چھوٹ جائے؟ انگریزاغیار،عدم برداشت کے پروردہ بیمارفکراربا ِبِ اقتدار، غرورورعونت کے مشعل بردار، مظالم ڈھا نے پرہمیشہ تیارمگر بہت جلد کف ِ افسو س مل کربے ریار ومدد گار ہو کر رہ گئے ۔۔۔ کیونکہ ظلم کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔۔۔ کیجروال اورلالو کی قسمت اسی لئے چمکی۔ ۔۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ تمہارا جہاں جی کرے وہاں جا ۔

رہے مشکلاتِ زمانہ و مصائب ِ دہران اُس کے لئے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا فارمولہ اپناؤ۔ اور جوبھی گھرسے بھاگ جاتاہے کچھ کرکے ہی لوٹتاہے۔ اپنے ڈاکٹر فاروق سرپرپیر رکھ کرکشمیر سے رفو چکر ہوا،کبھی پیچھے مڑ کر بھی دیکھا نہیں، مگر وطن لوٹاتواپنی کرسی کا جاہ وحشمت بحال کرکے ہی ۔ واہ !مان گئے اُستاد۔ کرسی تھی تو پاکستان پر بمباری کی وکالت ، کرسی گئی تو اُدھر کا کشمیر اُن کے لئے اِدھر کا کشمیر اپنے لئے ! ہاں ، یاد آیا وہ جو لندن والا مملکت خددا دکا موٹا فربہ فراری ہے نا، جورُشدی کی طرح گوروں کی چھتر چھایا میں پلتارہاہے، سانڈ کی طرح ٹی وی پہ منہ کھولتا ہے اور بولتا ہے تو گدھے سے زیادہ بد صوت دِکھتاہے ، اس کی جیسی خود ساختہ جلاوطنی خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کر ے ۔ اسے ہی کہتے ہیں بھاڑ سے نکالابھٹی میں جھونکا۔ تم مشرف کی طرح بھی اپنی گھر واپسی کر کے جگ ہنسائی نہ کروانا کہ عدالتیں اور مقدمے ننھی جان لے کر رہیں۔ناچیز کی صلاح ہے بے نظیر اور نواز شریف کی طرح اُس دیار ِ غیر میں جانا جہاں سے باعزت واپسی کے لئے قومی مصالحتی ایکٹ شایان ِشان استقبال میں چشم براہ ہو ، سرکاری طیارے میں اُڑان بھر کر تم سیدھے کروفر اور جاہ وجلال کے نصف النہار پر براجمان ہو جاؤ۔۔۔ا ور دُنیا میں امن وامان حرمین کے بغیر ہر جگہ ناپید ہے ، اس لئے پیرس جانا نہ یورپ ، عرب جا نانہ عجم ،مغرب جانا نہ مشرق بلکہ اپنے لئے مٹی کا حرم ستاروں کے آگے والے جہاں میں بنا نا، جہاں عدم رواداری نہ ہو، عدم مساوات نہ ہو، بدامنی نہ ہو ،بد دماغی نہ ہو۔ وہاں جاکر بے کار نہ بیٹھنا،عامر خان کو ایک نئی فلم بنانے پر لگانا ،فلم کا نام ”ایک مودی سو کرودھی“ رکھیو ۔ اس میں بابری مسجد کا قصہ، گجرات کا المیہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ، گودھرا،احسان جعفری کی د لدوزکہانی،اخلاق احمد کی صدمہ خیز سرگزشت، زاہد بٹ کی اشکبار حزنیہ ،یہ سب کچھ ڈالنا، اس کا موگومبو ٹائپ ویلن اور ودسرے اداکار سب مودی سرکار کے وزراءہوں تو سونے پہ سہاگہ، اور جوکر وں کی ٹولی کی ضرورت پڑے تو کشمیر کے اُن حاکمین اعلیٰ کو ضرور بُک کر لینا جو ان دنوں” ایک پھول دومالی “ کا فلاپ شو کر کے زمانے کی تختی پہ مودی دربار کی قصیدہ گوئی لکھ رہے ہیں ۔ کوئی جوکروں کی اور ٹولی درکارہو تو بندے کولکھ دینا ، ایک سے بڑھ ایک قائد نما جوکر دوں گا ۔ نئی فلم کے لئے یہ چنڈال بھی اپنے چندے کی پیش کش کرتاہے۔ کرن جی ! فلم کا بے صبری سے انتظار رہے گا۔
نئی فلم کا طالب
غالب
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.