عبدالصمد انصاری

عبدالصمد انصاری دنیا ئے لائبریری سائنس کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ دھیما لہجہ، ہلکی سی مسکراہت، خوش باش، جیو اور جینے دو کے مقولہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ کم و بیش چالیس سال سے لائبریرین شپ کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ یہ طویل سفر کیسے جاری رہا اس کا جائزہ لینے کے لئے جب ان سے استدعا کی تو پہلے تو متفق نہیں تھےپھر ہمارے اصرار پر کچھ باتیں کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ ذیل میں ان سے محاکمہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات سلسلہ وار درج کی جا رہی ہیں تاکہ قارئین اندازہ کر سکیں کہ انہوں نے اپنا سفر حیات کیسے جاری رکھاہے۔

س۔ اپنے وطن ،تاریخ پیدائش اور خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالئے؟
ج۔ میں نے ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۴ء کو ریاست گوالیار لشکر میں آنکھ کھولی۔ آباء و اجداد کا تعلق بلند شہر کے قصبہ جیور اورٹپل قاضی خاندان سے ہے اور سلسلہ نصب ابو ایوب انصاری سے ملتا ہے۔ نام کا آخری جزو اسی نسبت کی عکاسی کرتا ہے۔ والد محترم [مرحوم ]انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے۔ شاید اسی لئے میانہ روی میرے مزاج میں شامل ہو گئی ۔درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ اسی وجہ سے اولاد اور خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔انکا انتقال ۱۹۶۳ء میں ہوا۔ تعزیت کے لئے جو بھی آیا مرحوم سے اپنے خصوصی تعلقات کا ذکر کرتا۔ ۱۹۴۷ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور ایک اسکول قائم کیا۔ والدہ سادہ لوح اور شفیق خاتون تھیں۔ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنا ان کا اولین فرض تھا۔ والدہ کو فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار حفظ تھے۔ شاعری کا ذوق والدہ کی وجہ سے ہی پیدا ہوا۔ والدہ کا انتقال ۱۹۷۶ء میں ہو گیا تھا۔

میرے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔بڑے بھائی عبد الاحد انصاری نے انگریزی و فارسی میں ایم اے کیا۔ اکاونٹ آفیسر تھے۔ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انکا انتقال ۲۰۰۱ء میں ہوا۔ دوسرے بھائی عبد الوہاب انصاری
پاکستان ٹور زم ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائر ہوئے۔ بہن حبیبہ انصاری نے پہلے اردو ادب میں اور پھر لائبریری سائنس میں ۱۹۷۰ء میں ایم اے کیا۔ انہی کی وجہ سے میں لائبریری سائنس میں آیا۔ میری شادی رشتہ داروں میں ہوئی۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بڑی بیٹی فائزہ نے فزیالوجی میں ایم ایس سی کیا۔ شادی ہو کر لاہور گئیں ایک بیٹے کی والدہ ہیں۔ چھوٹی بیٹی مدیحہ نے لندن یونیورسٹی سے بی بی اے کیا۔ شادی کے بعد لندن میں مقیم ہیں۔ان کے دو بیٹے ہیں۔ میرے بیٹے سعود انصاری نے این ای ڈی یونی ورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں بی ای کیا۔ یونی لیور زمیں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اب اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن میں مقیم ہیں۔

س۔ تعلیمی کوائف کیا ہیں؟ کن موضوعات میں دلچسپی رہی؟
ج۔ اسلامیہ کالج سے ۱۹۷۲ء میں بی ایس سی کیا۔ پھر جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں اول درجہ میں ایم اے ۱۹۷۴ء میں کیا۔ میرا شمار پہلے دس بہترین طلباء میں ہوا۔ ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان میں سر ٹیفیکٹ کورس بھی جامعہ کراچی سے ہی کیا۔

س۔ آپکی دلچسپی کن موضوعات میں تھی اور شعبہ میں جب داخلہ لیا تو اس وقت شعبہ کس حال میں تھا؟
ج۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ مجھے انجینئر بننا چاہئے لیکن مجھے ریاضی کبھی پسند نہیں تھی۔ مجھے آرٹس کے مضامین خصوصا ادب و صحافت میں دلچسپی تھی۔ میری بہن حبیبہ انصاری نے اردو اور لائبریری سائنس میں ایم اے کیا تھا لائبریری سائنس میں آنے کی انھوں نے ترغیب دلائی۔

جب میں شعبہ میں ۱۹۷۳ء میں داخل ہوا تو اس وقت یہ شعبہ لائبریری کی پانچویں منزل پر واقع تھا۔ وہاں میری ملاقات بابائے لائبریری سائنس ڈاکٹر عبدالمعید اور شعبہ کے مشیر امور طلبہ ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری سے ہوئی۔

ڈاکٹر سبزواری اس وقت سر اکرم اور اکرم صاحب کہلاتے تھے۔ اس وقت شعبہ کا معیار بلند اور نظم و ضبط لاثانی تھا۔ شعبہ کی باگ ڈور ان اساتذہ کے ہاتھوں میں تھی جن کا شمار مضمون کے اولین اساتذہ میں تھا۔ یہ حضرات پاکستان میں لائبریری پیشہ کے رہنماءوں میں سے تھے۔ان کے شاگردوں نے دوسری جامعات میں لائبریری سائنس کے شعبہ قائم کیے۔ اساتذہ میں ڈاکٹر معید، ڈاکٹر انیس خورشید، محمد عادل عثمانی، ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری، اظہار الحق ضیاء اور اختر حنیف لائبریری سائنس کے افق پر جگمگاتے ستارے سمجھے جاتے تھے۔ یہ حضرات اپنے کام کی مقبولیت اور اولیت کے باعث نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔

س۔ آپ نے کئی ملازمتیں کیں کچھ انکا احوال بتائیے؟
ج۔ ایم اے لائبریری سائنس کا رزلٹ ابھی صرف شعبہ کے نوٹس بورڈ ہی پر آویزاں ہوا تھا کہ ڈاکٹر سبزواری [صدر شعبہ] نے مجھے اور میرے دوست صمید بیگ کو بلایا اور کہا کہ اگر آپ لوگوں کو یونی ورسٹی لائبریری میں ملازمت کرنی ہو تو آپ فورا عادل عثمانی صاحب [لائبریرین] سے ملاقات کریں۔ہم دونوں دوسرے دن صبح عادل عثمانی کے پاس گئے اور اکرم سبزواری کا حوالہ دیا۔ انہوں نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور ایک سینیئر ماتحت کو بلا کر کہا کہ ان دونوں کا ٹیسٹ لے کر میرے پاس بجھوا دو۔ ہمارا ٹیسٹ لیا گیا اور ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھ کر دوسرے دن آنے کی ہدایت کی۔کراچی یونی ورسٹی لائبریری [موجودہ ڈاکٹر محمود حسین لائبریری] میں بطور کیٹلاگر تقرر ہوا۔ یہاں بہت کچھ اپنے بڑوں سے سیکھا۔ شیخ ابراہیم عظیم قادری، عبدالحلیم چشتی، عبیداللہ قدسی، مولانا عبد الرحمن جیسے رفقاء میسئر آئے۔

عادل عثمانی کی مہربانی سے مجھے تمام شعبہ جات میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیں بلا کر مختلف کاموں کی تفصیل اور اہمیت بتایا کرتے تھے۔ خصوصا درجہ بندی جو میرا پسندیدہ مضمون تھا اس میں مہارت حاصل کی اور اسی تجربہ کی بنیاد پر مجھے شعبہ لائبریری سائنس میں جز وقتی لکچرار کے طور پر پڑھانے کا موقع ملا۔
۱۹۷۸ء میں ہمارے ایک دوست انوار احمد سعودی عرب چلے گئے۔ انکا اصرار تھا کہ مجھے اور صمید بیگ کو بھی باہر نکلنا چاہئے۔ بات میں وزن تھا۔ چنانچہ پہلے صمید بیگ اور پھر میں دمام سعودی عربیہ چلے گئے۔ پیشہ ورانہ خدمت کا موقع تو نہیں ملا البتہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کی اور ۱۹۷۹ء میں واپس کراچی آگیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز میں بطورچیف لائبریرین ۱۹۸۱ء تک رہا۔

۱۹۸۱ء سے ہی پاکستان ببلیو گرافیکل ورکنگ گروپ اور علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں لکچرار ہوا اور ان دونوں اداروں سے ابھی تک رابطہ بحال ہے اور علم کی ترویج جاری ہے-

س۔ پی بی ڈبلیو جی اور علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے علاوہ کن کن اداروں کی خدمت کی ؟
ج۔ الحمداللہ مجھے زندگی میں کبھی چیزوں کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ مواقع خود بخود سامنے آتے رہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ مجھے سندھ پبلک سروس کمیشن نے بطور لائبریرین ۱۷ گریڈ میں منتخب کر لیا تھا۔یہ ۱۹۸۱ء کی بات ہے کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ میری تقرری نبی باغ ضیاالدین میموریل کالج میں منظور ہوئی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ریڈیو پاکستان کراچی کے عقب میں یہ کالج اپنی ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں بڑا مقبول تھا یہاں جوش ملیح آبادی جیسے شعراء مشاعروں میں شریک ہوتے تھے اور پروفیسر فائق اور خواجہ آشکار جیسے اساتذہ پڑھاتے تھے۔ ایک اور سرگرمی جسکا ذکر ضروری ہے کہ یہاں شام کے وقت شاہ صاحب کی نگرانی میں لائبریری سرٹیفکیٹ کورس بھی ہوتا تھا۔ بہت اچھا وقت اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان گذرا۔ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں ریٹائر ہونے کے بعد کئی مواقع سامنے آئے لیکن میں نے گھر کے نزدیک گلشن اقبال میں ورکس کوآپریٹو سوسائٹی کی لائبریری کو ترجیح دی۔

یہ لائبریری ۲۰۰۴ء میں قائم ہوئی تھی ذخیرہ نہ ہونے کے برابرتھا۔ ۵ سال کے عرصے میں اسکو ایک مضبوط ذخیرہ مہیا کیا۔ عملہ کی تربیت کی اور جدید سوفٹ ویئر کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کیا۔ شام کی شفٹ میں تبادلہ کی وجہ سے مشکلات در پیش تھیں۔ فی الوقت معاہداتی بنیادوں پر ٹرنٹی گرلز ڈگری کالج کی لائبریری میں خدمات انجام دے رہا ہوں۔

جامعہ کے کتب خانہ، خصوصی کتب خانہ، کالج کے کتب خانہ اور عوامی کتب خانہ کا کئی سال کا تجربہ ہوا۔

س۔ پیشہ ورانہ فرائض کے علاوہ آپکے ہم نصابی اور علمی و ادبی دیگر مشاغل کیا رہے؟
ج۔ زمانہ طالبعلمی میں شعبہ لائبریری سائنس کی سوسائٹی کا صدر منتخب ہوا۔ سیمی نار، کانفرنس، اسٹڈی ٹور کا اور تفریحی پروگراموں کا انعقاد کروایا۔اسکے علاوا فوٹو گرافی، موسیقی، شاعری کا شوق رہا۔ میرے منجھلے بھائی عبدالوہاب انصاری نے اردو و انگریزی کے رسائل گھر پر منگوانے شروع کئے تو مطالعہ کا شوق پروان چڑھا۔ نقوش، ادب لطیف، ٹائم لائف، ریڈر ڈائجسٹ، فلم فیئر، اسکرین اور کھلونا نئی دہلی اسی زمانے میں پڑھے۔ بچوں کےلئے نظمیں لکھیں جو جنگ اور حریت میں شائع ہوئیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشغلے بھی پروان چڑھتے رہے۔

س۔ فی الحال آپ کے علمی و ادبی مشاغل کیا ہیں؟
ج۔ میں بزم اکرم کے بانی ممبران میں سے ایک ہوں۔ یہ لائبریرین اور ادبی شخصیات کی مشترک انجمن ہے۔ ۱۹۷۶ء میں اسکا خازن تھا۔ اب صدر ہوں۔لائبریری پروموشن بیورو کی ادارتی ٹیم میں عرصہ دراز سے شامل ہوں۔ کتابی تبصرے کئے، خبریں مرتب کیں، کراچی یونی ورسٹی میں ملازمت کے دوران ایک نیوز لیٹر نکالا۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن، اسپل اور کلسا میں شرکت کی۔

س۔ آپکی طبیعت میں خوش دلی اور مزاح کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ کیا آپ کی تخلیقات نثر و نظم میں بھی یہ رمق پائی جاتی ہے؟
ج۔میں زندگی کو خوش دلی سے برتنے کا قائل ہوں۔ میانہ روی مجھے پسند ہے اسکا اظہار تحریروں میں بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ تحریر بھی ایک شخصی عکس ہی ہوتاہے۔ میں نے بعض غزلیات پر پیروڈی لکھی۔ لطیفے مجھے بھائے میں نے سنائے، سنجیدہ غزلیں ، ادب و کتب خانہ اور اکرم کے مجلہ میں شائع ہوئیں۔ میں نے پابند شاعری کی ساتھ ساتھ آزاد شاعری بھی کی اور وہ شائع بھی ہوئی۔ادبی شوق مجھے ورثہ میں ملا۔

۱۹۷۴ء میں اکرم صاحب کی خدمت میں" گلہائے عقیدت" پیش کئے۔ میرے شوق کو عادل عثمانی نے مہمیز کیا لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں نے سنجیدگی سے زندگی کے امور پر فکر نہیں کی۔پاکستان اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل میں عرصہ دراز سے نیوز اینڈ ویوز مرتب کرتا رہا۔ اس کے علاوہ اپنے پسندیدہ استاد کے ساتھ دو کتابوں ہواز ہو اور اسکول کے کتب خانے: نظم، ترتیب و خدمات میں شریک مصنف رہا۔ بزم اکرم کے مجلہ ادب و کتب خانہ میں شامل رہا۔شاعری کا مطالعہ بھی کیا اور تنقید بھی کی۔

س۔ آجکل درس و تدریس اور کتب خانہ کی ذمہ داریوں کے علاوہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ کیا ہے؟
ج۔" ہماری ویب" پر شاعری شائع ہوئی۔"ادب و کتب خانہ "میں مضامین شائع ہوئے۔ اقبال الرحمن فاروقی قمر پر ایک محاکمہ ۲۰۱۶ء کے شمارہ میں آرہا ہے۔اس کے علاوہ میں نے اپنے ملک کے ہم پیشہ دانش وروں کے انٹر ویوز پر مبنی ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ تین ہوچکے ہیں۔ آجکل ڈاکٹر محمد فاضل خاں پر کام کر رہا ہوں۔ جو اردو انگریزی کے شاعر بھی ہیں اور جنہوں نے کئی لائبریری سائنس کے شعبہ جات کی صدارت کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہوا ہے۔ خیال یہ ہے کہ ان ڈاکٹرز کے انٹرویوز سے ہماری آئندہ نسل مستفیض ہو گی اور انکے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریگی۔

س۔ آپ کو کتابیں ذخیرہ کرنے کا شوق بھی رہا کیا آپکا ذخیرہ محفوظ ہے؟ اور کہاں ہے؟
ج۔گھر میں علمی ماحول ہونے کی وجہ سے کتابیں اور رسالے ہمیشہ تمام بہن بھائیوں کی دسترس میں رہے لیکن وقت کے ساتھ جو کتاب بھی کسی نے لی پھر واپس نہیں آئی اب گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے کتابوں کی مناسب دیکھ بھال ممکن نہیں لہذا اکثر کتابوں کو کتب خانوں کو بطور تحفہ بھیج رہا ہوں۔

س۔ لائبریری پروموشن بیورو لائبریری ناشر کی حیثیت سےکیا کردار ادا کر رہا ہے؟
ج۔ ایل پی بی کا کردار اسکے کام کے لحاظ سے بہت معروف ہے۔دنیائے لائبریری سائنس میں سب پر عیاں ہے شاید ہی کوئی اس سے انکار کرسکے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مزید تحقیقی مضامین اور نئے لکھنے والوں کی شمولیت کا اہتمام کیا جائے۔

س۔ پاکستان میں کتب خانوی مواد کی فراہمی میں اس ادارہ کا کتنا حصہ ہے؟
ج۔ یہ وہ واحد ادارہ ہےجس نے مواد کی فراہمی کے تسلسل کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ جس کے نتیجہ میں لوگوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق مزید بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں لائبریرین شپ کی راہیں نہ صرف ہموار ہو رہی ہیں بلکہ ترقی کی طرف گامزن ہیں۔

س۔ آپ بزم اکرم کے صدر ہیں اس حوالہ سے بزم کے سلسلہ میں کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
ج۔ بزم اکرم اور اسکا سالانہ مجلہ"ادب و کتب خانہ" انتہائی معتبر ہاتھوں میں پروان چڑھ رہا ہے اور اسکا معیار روز بروز بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ تسلسل قائم و دائم رہے۔

س۔ اسکول آف لائبریرین شپ، پاکستان ببلیو گرافیکل ورکنگ گروپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اسکول کی بہتری کے لئے آپ کی تجاویز کیا ہیں؟
ج۔ گذشتہ دنوں طلبا کی تعداد میں اضافہ پر زور دیا گیاہے۔ اسکے بجائے تعلیمی معیار اور رجسٹرڈ طلبا کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ مقدار کے بجائے معیار کی شدید ضرورت ہے۔

س۔ نئی نسل کے لئے آپکا پیغام کیا ہے؟
ج۔ وہی قائداعظم والا پیغام ہے۔ کام، کام اور کام ۔ کامیابی آپ کے قدم خود چومے گی۔ محنت کریں۔ مطالعہ اور فروغ مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ تعلیم حاصل کریں۔ علم کے لئے نہ کہ ملازمتوں کے حصول کے لئے۔ملازمتیں اور کامیابی خود آپ کے سامنے آجائیں گی۔