جمہوری نظام کی تکمیل کے لیئے ایک موثر
مقامی حکومتوں کا قیام ضروری ہوتاہے جس میں نہ صرف عوام اقتدارمیں شرکت
کرتی ہے بلکہ گلی ‘محلہ کے مسائل بھی بڑی حدتک حل ہوجاتے ہیں۔پاکستان کی
گلیاں ‘محلے اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق جرنیل کے دورمیں ہونے والے بلدیاتی
انتخابات میں جو گلیاں اورسڑکیں تعمیرہوئی تھیں اس کے بعد سے ابتک نچلی سطح
پر کوئی خاص کام دیکھنے میں نہیں آیاجس نے محلوں کی صورت حال کوبدلاہو۔یہ
سب اس لیئے ہواکہ جمہورپسند جماعتوں نے ’’نہ معلوم قومی مصلحتوں‘‘کی بنیاد
پربلدیاتی انتخابات کو نظراندازکیئے رکھا۔
پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کی نسبت کسی حدتک یہ انتخابات بہترثابت
ہوئے‘کم جانی نقصان ہوامگربے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں اورکچھ مقامات پر
غلط نشانات چھپنے اورمختلف مسائل کی بنیاد پر الیکشن ملتوی کرنے پڑے۔پی ٹی
آئی اورن لیگ کے حامیوں کاآمناسامناپھرایک دلخراش واقعہ رقم کرگیا۔
19نومبرکومنعقدہونے والے یہ انتخابات کامیابی کے تناسب سے پہلے مرحلے کا ری
پلے ثابت ہوئے جبکہ سندھ اورخصوصاپنجاب میں آزادامیدواروں کی جیت نے بھی
سوالیہ نشان کھڑے کردیئے۔آزادامیدوارکی کامیابی جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ
الیکشن کا نظام بڑی حد تک ترقی کرچکاہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ
ملک کی بڑی جماعتوں سے لوگ نالاں ہیں یاپھرسیاست کے شاطرکھلاڑی دگنی قیمت
پر کسی جماعت میں شامل ہوں گے۔مسلم لیگ ن سمیت تحریک انصاف اورسندھ سے پی
پی پی پی کے ناراض اراکین نے بھی الیکشن لڑاجس میں پنجاب میں
آزادامیدواردوسرے نمبرپر جبکہ سندھ میں ڈاکٹرذوالفقارمرزانے بدین شہرمیں پی
پی پی کو شکست سے دوچارکیا۔
دوسرے مرحلے میں پنجاب کی 2399نشستوں میں سے غیرسرکاری وغیرحتمی نتائج کے
مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے 1105‘آزاد امیدواروں نے 920‘تحریک انصاف
نے332‘مسلم لیگ ق نے18‘پیپلزپارٹی نے 15نشستیں حاصل کیں۔سندھ میں حکمران
جماعت پیپلزپارٹی نے 1448نشستیں حاصل کرکے سندھ میں اپنی گہری جڑیں ہونے
کاثبوت دیا‘آزادامیدوار117جبکہ 114نشستوں پر ایم کیوایم نے کامیابی حاصل
کیں‘ن لیگ 111‘فنکشنل لیگ 43‘عوامی اتحاد 33اورتحریک انصاف کے مقدرمیں محض
آٹھ نشستیں آئیں جبکہ بدین کے شہرسے ڈاکٹرذوالفقارمرزانے میدان مارکرپی پی
پی کو ایک بڑا دھچکادیاہے ‘بلاول زرداری کیلئے بھی بدین کی شہری نشستیں
ہارناکوئی اچھاشگون نہیں کیونکہ انہوں نے بنفس نفیس نہ صرف خود الیکشن میں
حصہ لیابلکہ بدین میں جلسہ بھی کیا۔دوسری جانب پی پی پی کے حامیوں کاکہناہے
کہ ڈاکٹرذوالفقارمرزا نے بی بی کے نام پرووٹ حاصل کیئے اوراس طرح ان کے ڈبے
میں اینٹی زرداری ووٹ بھی شامل ہوگیا۔
دوسرے مرحلے کی تکمیل اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی
اورمسلم لیگ ن پرانی جماعتیں ہونے کے ناطے الیکشن کے تمام ترحربے جانتی ہیں
اورووٹ کو کس طرح گھرسے اٹھاکرڈبے میں ڈالناہے یہ گران کے بائیں ہاتھ
کاکھیل ہے۔الیکشن نے ثابت کیاکہ پنجاب میں مسلم لیگ کاتنظیمی ڈھانچہ نچلی
سطح تک مضبوط ہے اوراس کی میڈیاٹیم نے بھی بہترین کارکردگی کامظاہرہ
کیاگوکہ اسوقت مسلم لیگ ایک روایتی جماعت ہونے کے ناطے ایسے افرادکی
کثیرتعداداپنے اندرسموئے ہوئے ہے جوبذات خود جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
لیکن اس کی سیاسی عصبیت پیداکرنے کی صلاحیت سے بھی انکارممکن نہیں۔بلدیاتی
انتخابات میں فیصل آباد سمیت مختلف اضلاع میں مسلم لیگ کے اندرموجود متحارب
گروپوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ امیدوارکھڑے کیئے مگرجماعت کے اندران کی
موجودگی اس بات کاثبوت ہے کہ رہنماؤں کی گرفت مضبوط ہے۔
پنجاب کی سطح پر ن لیگ نے تحریک انصاف کولوہے کے چنے چبانے پرمجبورکردیاہے
اورخان صاحب کی الیکشن مہم کوبھی ان کے سیاسی حلقوں تک ہی محدودرکھا۔ضلع
میانوالی کی تحصیل عیسی خیل جو کپتان کاآبائی حلقہ ہے اس میں تحریک انصاف
کا سترہ میں سے پندرہ نشستیں ہارجانا اس کیلئے سوچنے کامقام ہے۔مجموعی
طورپر ن لیگ کومیانوالی میں انداز دس ‘تحریک انصاف کو اکیس اورآزاد
امیدواروں کو 18نشستیں ملیں۔اس طرح اگر آزادامیدوارن لیگ کے ساتھ شامل ہوتے
ہیں تو پھر تحریک کیلئے اپنے ہی ضلع میں مشکل صورتحال پیداہوجائے گی۔نئے
لوگوں کی آمدسے تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن ناراض ہیں‘ٹکٹس کی تقسیم پر
بھی کچھ لوگوں کے من پسند افرادکونوازنے کی داستانیں تحریک کی ناکامی
کارونارورہی ہیں ‘اسکے علاوہ جس طرح ن لیگ الیکشن ڈے کو منظم انداز میں
گزارتی ہوئی کامیاب نتائج سمیٹی ہے اس طرح کی حکمت عملی کا تحریک میں فقدان
نظرآتاہے۔خان صاحب کواپنی حکمت عملی‘نظریاتی کارکنوں کی حوصلہ افزائی‘گراس
روٹ لیول تک مربوط ومنظم تنظیمی ڈھانچہ اورملک گیر سیاسی مہم چلاناہوگی
وگرنہ دوسری صورت میں تنزلی میں اضافہ ہوسکتاہے‘تحریک نے بلدیاتی انتخابات
میں بے ضابطگیوں پر خیبرپختونخواہ میں کاروائی کرتے ہوئے ایک ممبراسمبلی کو
گھر بھیجالیکن کیاپنجاب کے اثرورسوخ اورروایتی سیاسی پسِ منظررکھنے والوں
کے خلاف بھی ایساکچھ ہوگا؟یہ وقت بتائے گا۔۔گوکہ بلدیاتی انتخابات اورجنرل
الیکشن میں ووٹراپنے امیدوارکومختلف پیمانوں پرپرکھتاہے لیکن بلدیاتی
انتخابات بھی ایک فضاضرورقائم کرتے ہیں ‘جسے ہم احتساب کے پیمانے پربھی
شاید تول پائیں۔ناقدین کاکہناہے کہ تحریک اسوقت مختلف نظریات رکھنے والوں
سے مالامال ہے اورآدھاتیترآدھابٹیرکی کیفیت سے گزررہی ہے ‘اس حقیقت سے مخلص
ارکان بھی پریشان ہیں اورپی ٹی آئی کی ہزیمت پر پرامید ہیں کہ خان صاحب
جماعت میں سے ’’گند‘‘صاف کرتے ہوئے ان سخت الفاظ اوربے ربط تقریروں کابھی
ازالہ کریں گے جو دھرنوں کی صورت میں لائیونشرہوکرسنجیدہ لوگوں کے دلوں
پرنشترچلاتی رہیں۔
ن لیگ نے اپنی پرانی ساکھ بحال رکھتے ہوئی دوبارہ پنجاب میں پہلی پوزیشن تو
بحال رکھی مگر پنجاب میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواران اس کیلئے بھی
الارمنگ پوزیشن رکھتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آزاد امیدوار ن لیگ کی بی
ٹیم ہیں مگر کیااس حقیقت سے انکارممکن ہے کہ ان آزادامیدواران کو جماعت میں
شامل کرنے کیلئے بیشترمقامات پر ن لیگ کو ان کی طرف جاناہوگا۔دوم سندھ میں
ن لیگ نے ایک سوگیارہ نشستیں حاصل کیں ہیں مگراندرون سندھ اس نے اپنے
امیدواریاتوکھڑے نہیں کیئے یاپھر بھرپورسیاسی مہم نہیں چلائی گئی ۔اس سب
صورتحال کوسامنے رکھ کردیکھاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ پنجاب ‘سندھ
‘کراچی ‘بلوچستان وخیبرپختونخواہ میں اثررکھنے والی کوئی بھی جماعت اسوقت
منظرعام پرنہیں ۔ہرجماعت اس علاقے تک محدود ہوچکی ہے جہاں اسکی صوبائی
حکومت ہے ۔یہ وہ پوزیشن ہے جوملکی مفادمیں نہیں ۔ان جماعتوں کوچاہیئے کہ
پورے ملک میں اپنی سیاسی مہم چلائیں وگرنہ یہ علاقائی جماعتیں بنیں گی
اورآزادامیدواروں کے گینگ پھر انھیں بلیک میل کرتے پھریں گے۔کسی زمانے میں
پی پی کو ملک کی زنجیرکہاجاتاتھامگر اب وہ اندرون سندھ تک محدود ہوچکی ہے ۔بلاول
زرداری اگرپورے اختیارات کے ساتھ جلوہ گرہوں اورسندھ میں اپنی ساکھ
کوبہتربنالیں توآتے الیکشن میں انھیں بہترنتائج مل سکتے ہیں‘اسی طرح تحریک
انصاف کے مستقبل کافیصلہ ایک بہترخیبرپختونخواہ ہے کرے گا۔قوی امید ہے کہ
تیسرے فیز کے انتخابات میں کوئی انہونی نہ ہوگی اورایم کیوایم سمیت تمام
جماعتیں اپنے ہی حصارمیں مقید رہیں گی اوررہے 2018کے انتخابات میں تبدیلی
کے آثارتووہ کسی نئی دبنگ سیاسی جماعت کی آمدسے ہی ممکن ہیں یاپھر پرانی
جماعتیں نئی روش اختیارکریں وگرنہ پرانے کارتوسوں سے کہاں نئے محاذجیتے
جاسکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کوجمہوریت کی نرسری کہاجاتاہے ‘اگربنظرغائرجائزہ لیاجائے
تومعلوم ہوتاہے کہ ہم اس نرسری کولگاتے ہوئے برادری‘نسلی‘علاقائی‘لسانی
اورمختلف قسم کے تعصبات کاسہارالیتے ہیں۔کیاایسی نرسری لگاتے ہوئے ہم نے
اندازہ لگایاہے کہ ان پودوں سے کیسے خارداردرخت پرورش پاکرمعاشرے کوکس
قدرلہولہان کریں گے؟؟؟۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پنجاب وسندھ ان عوامی
کہلانے والے نمائندوں کوکتنے اختیارات سے نوازتی ہیں۔شنیدہے کہ
خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی نمائندے اپنے حقوق کیلئے سراپااحتجاج ہیں
اگرپنجاب میں بھی یہی طرزعمل دھرایاگیاتوپھر ادھربھی ایساہی
ہوتانظرآتاہے۔امیدہے دونوں جب بہتری لائے جائے گی اوراپنے آپ کوجمہوری کہنے
والی جماعتیں آمروں جتنے نہ سہی ‘برائے نام سے کچھ زیادہ حقوق ان نمائندوں
کو عنایت کریں گی۔
الیکشن کی دوسری بساط پر تبصرہ کرتے ہوئے فافن کے عہدیداروں کاکہناتھاکہ
الیکشن میں بڑے پیمانے پربے ضابطگیاں ہوئیں۔فافن نے الزام عائد کیا کہ ناقص
انتظامات ‘حکومتی امیدواروں کی کامیابی اورالیکشن آبزرورز کوکارڈ کے حصول
میں مشکلات نے الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگادیاہے۔فری اینڈفئیرنیٹ
ورک کی جانب سے یہ بھی دعوی کیا گیاکہ اکثر اضلاع کے ڈی آراوز نے الیکشن
کمیشن کے احکامات ماننے سے انکار کردیا‘عملہ میں تربیت کی کمی تھی‘ضلع بدین
میں ان کے آبزرورز کوڈرایا دھمکایاگیا‘پولنگ سٹیشنز پر پولنگ سکیم کی کمی
کی وجہ سے بھی ووٹرز کو مشکلات کاسامناکرناپڑا۔خواتین کو ووٹ نہ دینے کی
اطلاعات اورریٹرننگ آفیسرز کی جانب سے بعض افراد کوفائدہ پہنچانے کیلئے
امیدواروں کے کاغذات مسترد کرنابھی شامل ہے ۔جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن
نے کہاہے کہ غلط پرنٹنگ اورقوانین کی خلاف ورزی سمیت تمام بے قاعدگیوں کے
ذمہ داران کے خلاف کاروائی عمل میں لائے جائے گی اوراس کے نتیجے میں انہیں
چھ ماہ جیل کی سزایاملازمت سے برطرف بھی کیاجاسکتاہے۔
تیسرے مرحلے میں کراچی میں پی پی پی کے ووٹ بینک پر
ڈاکٹرذوالفقارکادھاوااورایم کیوایم کی پوزیشن ہاٹ ایشوہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ
کراچی میں سیاسی عصبیت اورلسانی تقسیم اس قدرواضح ہے کہ ایم کیوایم کا
کارکن جماعت سے نکلتے ہوئے اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتاہے‘ا س
بنیادپرکہاجاسکتاہے کہ وہ اپنے حلقوں میں پھربھاری اکثریت سے جیتے گی۔تحریک
انصاف کو اگراس کامقابلہ کرناہے تو اسے اپنی کراچی کی صفوں میں مصطفی کمال
بھی پیداکرناہوگااورتنظیمی ڈھانچہ بھی ایم کیوایم سے بڑھ کرترتیب دیناہوگا
۔ذرائع کے مطابق اب آئندہ آنے والے دوتین ماہ میں ممکن ہے ایم کیوایم میں
بڑے پیمانے پرتبدیلیاں رونماہوں ۔اس طرح تیسرامرحلہ اورآنے والے چندماہ ایم
کیوایم‘پی پی پی کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہوں گے اورتحریک انصاف
اگراپنی کوتاہیوں کونہ جان سکی اوراسی حالت میں اپنے آپ کو نوجوانوں کی
پہلی ترجیح سمجھتی رہی تو وہ دن دورنہیں جب پرندے کسی اورشاخ پرجابیٹھیں گے
اورنئی قوتیں میدانِ عمل میں پاکستان کی سیاسی بساط میں تبدیلیاں لے آئیں
گی۔ |