انتخاب کا فلسفہ

مذہبی لحاظ سے ووٹ ایک امانت ہے،جس کی مکمل دیانت کے ساتھ اہلِ امانت کو ادائیگی فرض قرار دی گئی ہے،اس میں کوتاہی اور لاپرواہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،یہاں تک کہ امانت میں خیانت کوعلاماتِ قیامت میں سے شمار کیاگیا ہے،بعض حوالوں سے امانتداروں کو انبیأ،شہدأ اورصالحین کے ساتھ اٹھائے جانے کا ذکر ہے،جبکہ خیانت کرنے والوں کو بے دین وبے ایمان بتایاگیا ہے،ووٹ ایک تائیدی آوازہے،گویا یہ قولی امانت ہے،اس کا تعلق اگرچہ اجناس سے نہیں ہے، مگر اجناس وحقوق کی صحیح تقسیم اور اصحابِ حق تک ان کے حقوق کی رسائی کا ذریعہ ہے،اس ذریعے کا انتخاب اور چناؤ ووٹ دینے والا صرف اپنی ذات کے لئے نہیں معاشرے کے دیگر افراد واداروں کے لئے بھی کرتاہے،لہذا اپنی ذات وجماعت سے بالاتر ہوکر سب کے لئے مفید ونافع ذریعے(شخص ہو یا ادارہ) کو منتخب کرنا ایک دینی،اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے،نیزانتخاب میں امیدوار کی قوت اور طاقت کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے،کل کو وہ شخص آپ کے حقوق وصول بھی تو کرسکتاہو،ایسے آدمی کا الصادق القوی الامین ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے،اب اگر کوئی امانتدار ہے، پر آپ کے حقوق دستی یا زبردستی اوپر والوں سے حاصل نہیں کرسکتا،تو اس لاشے کا انتخاب کرکے نہ صرف آپ اپنے حق میں بلکہ پوری سوسائٹی کے حقوق میں کوتاہی کے مرتکب ہوںگے۔

ووٹ ایک گواھی بھی ہے، گواہی میں تقصیر کو کوئی مذہب برداشت نہیں کرتا،جھوٹ عمومی طورپر بڑا قبیح عمل ہے، کوئی بھی شریف آدمی جھوٹ اورجھوٹے کو پسند نہیں کرتا، اورتواور،جھوٹا بھی جھوٹے سے نفرت کرتاہے،پھر خاص کر گواہی دینے میں کذب بیانی سے کام لینا جھوٹ کی بد ترین قسم ہے،بد قسمتی سے ہمارے یہاں جھوٹ ویسے بھی عام اور مروَّج ہے،ووٹ کے استعمال میں یہاں کذب بیانی کارواج کچھ زیادہ ہی ہے،سب ہی اپنی ذات اور اپنے امیدوار کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں اور مخالفین پر بہتان تراشیاں،تہمتیں اور قسم قسم کے الزامات لگاتے ہیں،حالانکہ ایسے لوگوں کی شریعت میں گواہی اور رائے دہی ہمیشہ کے لئے مسترد ومردود ہے:(ولاَ تَقبَلُوا لَہُم شَہاَدَۃً اَبَداً)،پراس سنگین مسئلے کا کوئی آسان حل بظاہر ہمارے معاشرے میں دوردور تک نظر نہیں آتا۔

فراڈ،دھوکے اور دھاندلی کے انداز میں رائے دہی یا رائے گیری ووٹ کی صورت میں اپنی ایک طاقت کا بے جا استعمال ہے، اس طاقت سے لوگوں اور سیاسی شخصیات وپارٹیوں کو اٹھایا بھی جاسکتاہے اورعروج سے زوال کے گہرے کھڈے یا طاقِ نسیان میں گرایا بھی جاسکتا ہے،لیکن یہ تب ہے جب انتخابات کا عمل شفاف ہو،طاغوت کو لوگوں پر مسلط کرنا خود طاغوت کے ساتھ اس کے جرائم،زیادتیوں،مظالم اور قومی خیانتوں میں شرکت ہے،خائن ہویا ظالم اپنی رائے کے ذریعے سے اس کی تائید ایک بڑا جرم ہے،اس کے متعلق میڈیا اورحکومتی سطح پر قومی شعور اجاگرکرنے کی شدید ضرورت ہے،ذاتی زندگی میں از روئے اعمال ہم سب ہی مفلس ہیں،اوپر سے ہم قومی زندگی میں بھی رائے دہی کی حد تک خیانتوں کا ارتکاب باربار اور دھڑلے سے کریں گے ،تو ہم ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ تو کجا ان کے قریب جانے کا نہیں سوچ سکتے، عظیم قوموں اور عظیم شخصیات کا دارومدار ان کے موقف پر ہوتاہے کہ برمحل وہ کیا موقف اختیار کرتے ہیں،مایوسی تو کفر ہے لیکن ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم صحیح تجزیہ کرنے اور صحیح موقف اپنانے میں چوکتے ہیں،جس کا خمیازہ ہمیں بعدمیں بھگتنا پڑتا ہے،قومی اور بین الاقوامی معاملات میں پوری امت اور ہم پاکستانی اس وقت تجزیہ وانتخاب میں اپنی غلطیوں کی سزائیں ایک عرصے سے کاٹ رہے ہیں۔

عربی زبان کے ایک مشہورومستند شاعر کا اپنا شعری مجموعہ’’دیوان ابی تمام‘‘بہت کم لوگ جانتے ہیں،مگر ان کے منتخبات کا مجموعہ ’’دیوان الحماسۃ‘‘ عربی ادب سے مناسبت رکھنے والا ہر کوئی جانتاہےاور کہاجاتاہے’’ابوتمام اشعر فی انتخابہ من شعرہ‘‘کہ ابو تمام اپنے شعروں سے زیادہ اپنے انتخاب کردہ ابیاتِ شعرأ میں بڑے شاعر نظر آتے ہیں،انہوں نے اپنی طرف سے قائم کردہ مختلف عناوین کے لئے زمانۂ جاہلیت و اسلام کے متعددشاعروں کے قصائد واشعار کا ایساحسین چناؤ عمل میں لایاہے کہ دس بارہ صدیوں سے ان کی یہ کتاب ’’دیوان الحماسۃ‘‘ عرب وعجم میں جا بجا شامل نصاب ہے،یہی حُسن انتخاب ہمیں بھی آج کےزمانے میں ہر سطح پر درکارہے،آدمی کی شخصیت کا اندازہ اُس کے اچھے یا برے انتخاب سے کیا جاسکتا ہے،بیشتر طورپرہمارے یہاں عوام جب اپنے نمائندوں اور لیڈروں کا انتخاب کرتے ہوں یاخواص جب اپنے ماتحت وزیروں، مشیروں،منتظموں اور جانشینوں کو نامزد کرتے ہوں،کہیں بھی حُسن انتخاب یا سوئے انتخاب کے اس بنیادی فلسفے یا فارمولےکو مدنظر نہیں رکھاجاتا،اس لئے اس کے بہترین نتائج برآمد نہیں ہوتے،کسی کی اُفتادِ طبع،میدانِ کار،اسپیشلائزیشن،تجربات کو ہم انتخاب ونامزدگی میں ملحوظ نہیں رکھتے،اہلیت اور ٹیلٰنٹ نہیں کچھ خاص مفادات وتعلقات یا رشوتوں وچاپلوسیوں کی بِنا پر یہ سب ہوجاتاہے،پھر وہ لوگ جو گل کھلاتے ہیں، وہ سب کے سامنے کی چیز ہوتی ہے۔

سب سے بڑی خرابی موجودہ جمہوریت یا انتخابات کی یہ ہے کہ اسے کاروبار بنایا گیا ہے، اس پر لوگ خطیر رقم خرچ کرتے ہیں،اس لئے کہ آنے والے وقت میں اس کے ذریعے وہ ڈبل شاہ بن جائیں گے اور بالفعل بنتے بھی ہیں،اس تناظر میں جب آپ امیدواروں کو دیکھیں گے،تو معلوم ہوگا،کہ ان میں ملک وملت کا درد یا نظریہ لئے آنے والے لوگوں کی فیصد صفر ہوتی ہے،کیونکہ کاروبارایک بے رحمانہ کھیل ہے،جس کا سبق یہ حضرات پہلے ہی پڑھ کر آتے ہیں،ایسے میں کاروبار کے علاوہ آپ اُن سے کیا امید رکھ سکتے ہیں؟حالانکہ اسلامی شریعت میں حاکم وقت یا کوئی بھی سربراہ اپنے ہی ماتحتوں سے تجارت کرنے سے ممنوع ہے،وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں کون ایسا شخص ہوسکتاہے جو ادارے کے مالک یاملک کے حکمراں کی پروڈوکٹ چھوڑکر کسی ایرے غیرے سےلین دین کرے گا۔

اوپر سےیہ ظالم سیاسی لوگ مک مکا اور باریاں بھی لگا لیتے ہیں،گویا ووٹ دینے میں فراڈ پرآج عام ووٹر ویسے بھی مجبور ہےاور ستم بالائے ستم یہ کہ فراڈ میں بھی فراڈ کے لئے مک مکا،باریاں،انتخابی عملے کی خریدوفروخت،اسٹبلیشمنٹ کی پسند ناپسند، ووٹر لسٹوں میں تبدیلیاں اورمختلف ایوانوں کے ممبران کی ہارس ٹریڈینگ والے کالے کرتوت’’کریلا اور نیم چڑھا‘‘ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818478 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More