ارشاد جالندھری پسرام پور ضلع جالندھر 1945
ء میں پیدا ہوئے، نام ارشاد علی رکھا گیا ۔بعد اپنے نام کے ساتھ جالندھری
لکھنے لگے ۔دو سال کی عمر تھی، جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو لاکھوں
لٹے پٹے مہاجروں کے ساتھ اس کے والدین بھی ہجرت کر کے پاکستان کبیر والا
ضلع خانیوال کے ایک قصبہ نڑھال میں آ گئے ۔ارشاد جالندھری نے بچپن اور
جوانی کے ایام وہاں ہی گزارے ۔صرف مڈل تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد سکول
چھوڑ دیا ۔آپ کا شاعری کا شوق چرایا تو ڈاکٹر بیدل حیدری کی شاگردی کی
۔رواج کے مطابق اپنے استاد کو ٹافیاں دیں اور شاگردی کی درخواست کی جو قبول
کر لی گئی ۔ارشاد جالندھری نے شعر استاد کی نظر کیا ۔
ڈگمگاتی پھر رہی تھی حسرتوں کی ناؤ بھی
مل گئے ہیں آپ تو مجھ کو کنارا مل گیا
ڈاکٹر بیدل حیدری اردو ادب کا ایک روشن ترین باب ہیں کہ جنہوں نے ادبی منظر
نامے پر اپنی زندہ شاعری کے ذریعے ایسے نقوش چھوڑے ہیں۔ڈاکٹر بیدل حیدری
ایک مکتب و دبستان کا مقام رکھتے تھے ،انہوں نے سیکٹروں نوجوانوں کوفن
شاعری میں ماہر ہونے اور شعر کو فن عروض کے معیارات پر کہنے کا سلیقہ
سکھایا۔ڈاکٹر بیدل حیدری نوجوان شعرا ء کی ہمہ وقت تربیت اور رہنمائی کے
لئے متحرک اور فعال رہتے تھے ۔
ڈاکٹر بیدل حیدری کے ہاں ادبی محفلوں کا چرچاتھا ۔استاد سخن حضرت بیدل
حیدری کے ہاں فیض احمد فیض ،احمد فراز،احمد ندیم قاسمی ،ارشد ملتانی ،مقبول
تنویر ،ملتان سے علامہ ذوقی مظفر نگری اور دیگر بے شمار لوگ آتے جاتے تھے
۔ایسے ایسے اساتذہ فن کے پاس بیٹھنے، ان کو سننے کا شرف ارشاد جالندھری کو
حاصل ہوا ۔انہوں نے اس قدر شعری مشق کی کہ بیدل حیدری کو جالندھری صاحب پہ
ناز ہونے لگا ۔ ویسے بھی ارشاد جالندھری کواستاد شاعر بیدل حیدری (مرحوم)
کے پہلے شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل تھا ۔ استادِ محترم نے اپنے شاگرد ارجمند
کو باقاعدہ امتحان لے کر فارغ التحصیل کیا۔
جوان ہوئے تو، اپنے ماموں کے ہاں 4/14-L کسووال میں شادی ہوئی ،بارات
کبیروالا سے آئی ۔اس دوران روزگار کے سلسلے میں مختلف کام کرتے رہے ۔انہوں
نے غربت و افلاس کے باوجود کبھی خود پر اپنے حالات طاری نہیں کیے اور ان کی
سوچ و فکر، انداز گفتگو اور احباب سے میل ملاپ کے وہی رنگ ڈھنگ رہے ۔حالات
سے لڑتے لڑتے وہ کسووال میں مستقل رہنے لگے ۔یہاں آکر انہوں نے پان سگریٹ
کی دکان کی ،مگر وہ اتنی دیر چل نہ سکی ۔دکان پر سارا دن ادبی دوستوں کا
دکان پر تانا بندھا رہتا تھا ۔غربت انہیں شکست نہ دی سکی چہرے سے مسکراہٹ
نہ چھین سکی ۔ وہ خود ہی کہتے ہیں ،
اس بڑھ کر خوشی نصیبی اور ہوگی کیا بھلا
ہوگئی ہے دوستی جو گردش ایام سے
حالات انہیں کبھی شکست نہیں دے سکے اور بہادر انسان کی طرح ان کا مقابلہ
کرتے رہے اور زندگی کو زندہ دلی سے گزارتے رہے ۔اس دوران ان کے شاگردو ں
اور اولاد میں اضافہ ہوتا رہا ۔اوپر تلے پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا
۔1981 ء ارشاد جالندھری نے اپنے شاگردوں سے مل کر کسووال میں مشاعروں کا
اہتمام کرنا شروع کر دیا ۔بزم شاہین ادب بنائی، جس کا نام بیدل حیدری
’’کارواں ادب ‘‘رکھ دیا ۔کاروان ادب کسووال کے سرپرست اعلی اور صدر کی
حیثیت سے استاد ارشاد جالندھری نے پورے پاکستان میں اپنے آپ کو منوایا
۔دوسری طرف مالی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا
،ایک بیٹی گلشن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں جن کے آپ واحد کفیل تھے ۔دکھ کی
بات یہ ہے کہ آپ کا بیٹا بیمار ہوگیا ،آپ اس کا علاج نہ کروا سکے اور واحد
سہارا بھی خالق حقیقی سے جا ملا ،بیٹے کی وفات کے بعد آپ غموں کے پہاڑ تلے
دب گئے ۔چہرے سے رونق ختم ہو گئی ،اداسی نے ڈیرے ڈال دئیے ۔لیکن وہ ہمیشہ
کی طرح کہتے رہے ۔
ہر درد کی ٹیسوں کو میں نے سینے میں چھپانا سیکھ لیا
چہرے پہ مرے ان ٹیسوں کے احساس کی بھی تحریر نہیں
جنھیں ہم روگ سمجھے تھے وہی مشکل میں کام آئے
دکھوں نے میرے دکھ بانٹے غموں نے غمگساری کی
ضرورت اس امر کی ہے، ان کے شاگرد اور ادبی ادارے خاص کراکیڈمی ادبیات کوئی
تقریب رکھیں تاکہ جس نے زندگی بھر ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا،
ادب کی خدمت کی ، انہیں خراج تحسین پیش کیا جاسکے ۔
مزدور شاعر ارشاد جالندھری نے قلم و قرطاس پر لفظوں کے جوفن پارے تخلیق کئے
ہیں،وہ بکھرے پڑے ہیں، ان کی شاعری کو ایک جگہ جمع کیا جانا بہت ضروری ہے
ایسا اگر نہیں کیا گیا تو جس جس کے پاس ان کے جو جو فن پارے ہیں ،وہ اپنے
نام کر لیں گے ۔میری ارشاد جالندھری کے شاگردوں سے اپیل ہے کہ وہ سب مل کر
ان کا کلام اکھٹا کریں اور کتابی شکل میں دینے کے لیے ایک تحریک چلائیں،فنڈ
اکھٹا کریں ۔ ان کی کتابوں کو پبلش کروایا جائے تاکہ اس سے ملنے والی آمدنی
سے ان کے بچوں کی کفالت کا کوئی سلسلہ جاری رہ سکے ۔اور ان کا کلام بھی
چوری سے محفوظ رہ سکے ۔
انہیں استاد الشعرا ء ہونے کا استاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ہڑپہ شہر کے ایک
نوجوان شاعر سرفراز تبسم آپ کے پہلے شاگرد ہوئے ۔اس کے بعد محمود الحسن
عابد نے 1980 ء میں آپ کی شاگردی کی ۔ اس کے بعد وحید رضا عاجز،اکرم سعید
اکرم ،سید وصی عباس صفی ،عرفان محمود گوہر ،سلیم قدرت ،ملک علی احمد ،وقاص
انجم ،اقرار مصطفے ،سرفراز احمد ،کاشف حنیف ،محترمہ نازیہ رحمان ناز،محترمہ
نجمہ شاہین، کے علاوہ درجنوں شاگرد مختلف شہروں مثلاََ کبیر والا،بورے
والا،ملتان ،گوجرہ،میاں چنوں ،دنیا پور ،ساہیوال ،خانیوال ،وہاڑی
،میلسی،وغیرہ میں آپ کے شاگرد موجود ہیں ۔
معروف شاعر اور ادیب ارشاد جالندھری دل کے عارضہ میں مبتلا تھے اور آخر کار
اکتوبر کی 30 تاریخ کو علم و ادب کا، کسووال شہر کو پہچان عطا کرنے والا یہ
ستارہ 70 برس کی عمر میں اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا ۔
’’کچھ بول میر کارواں‘‘ آپ کی شہرہ آفاق نظم ہے ،کالم کے آخر میں اس نظم کے
چند بند بطور تبرکا شامل کیے ہیں۔
جب لٹ رہا ہو گلستاں
جب جل رہے ہوآشیاں
جب گر رہی ہو بجلیاں
جب فضاؤں میں ہو دھواں
جب شہر ہو آتش فشاں
جب لٹ جائے کون ومکاں
کچھ بول میر کارواں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں
کیا خوب ہے یہ رہبری
ہر وقت کنبہ پروری
صد حیف ایسی لیڈری
ذہنوں کی یوں سودا گری
اک دوسرے پر برتری
کیوں بک رہے ہیں پاسباں
کچھ بول میرِ کارواں
ہم ہو رہے ہیں بدگماں |