جواہر لال نہرو کا قبائلی علاقوں کا ناکام دورہ

مقامی قبائل نے نہرو کی آمد سے قبل آنیوالے جہاز پر فائرنگ بھی کی تھی اس وقت ساوتھ وزیرستان کے پولٹیکل ایجنٹ رابن ہڈسن تھے جو وہاں پر ہونیوالی تقریب میں موجود تھے اور نہرو کی تقریر کے گواہ بھی ہیں - رابن ہڈسن کا موقف ہے کہ نہرو بجائے اس کے میرے بات کا انتظار کرتے اور میں انہیں کہتا کہ وہ جرگے سے بات کرے- بجائے سیٹ پر بیٹھنے کے نہرو نے اس طرح تقریر کرنا شروع کردی جیسے وہ کسی سیاسی اجتماع سے خطاب کررہے ہو - بقول رابن ہڈسن کے نہرو تقریر کے دوران ہاتھوں سے اشارے بھی کررہا تھا- پولٹیکل ایجنٹ ساؤتھ وزیرستان رابن ہڈسن کے مطابق یہ ایک روایت ہے کہ جرگہ کے دوران سب لوگ زمین پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور اس میں بیٹھے سب برابر ہوتے ہیں تاہم نہرو کیلئے وہاں پر کرسی رکھی تھی تاکہ وہ قبائلیوں سے بات کرسکیں-لیکن قبائلی نہرو کے اس عمل سے ناخوش دکھائی دے رہے تھے

ملک مہر دل محسود نے اپنی چھتری اٹھائی اور نہرو کی جانب آنے کی کوشش کی اس وقت چھتری کی نوک نہرو کی جانب تھی

سولہ اکتوبر 1946ء کو کانگریس کے رہنما اور اس وقت وزیر جواہر لال نہرو نے قبائل کا دورہ کرنا چاہا- جس کیلئے اسے خان عبدالفغار خان نے کہا تھا -جواہر لال نہرو کے دورے صوبہ سرحد کا مقصد اپنی پارٹی کانگریس کیلئے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے سمیت فرنٹیئر میں پارٹی کو مزید پروان چڑھانا بھی شامل تھا-حالانکہ اس وقت کے گورنر سر اولف کوری سمیت وائسرائے نے انہیں اس دورے سے منع کیا تھا اور باقاعدہ ایڈوائس بھی دی تھی -جب جواہر لال نہروپشاور کے ائیرپورٹ پر ہوائی جہاز سے اترے تو اس وقت ان کے خلاف بڑا احتجاج ہورہا تھا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی جارہی تھی اسی بناء پر انتظامیہ نے نہرو کو چوری چھپے وہاں سے نکال دیا - حالانکہ اس وقت پانچ سو سے زائد مسلم لیگی رضاکار جھنڈے لیکر کھڑے تھے-لیکن وہ مخالفت میں ہونیوالے نعروں کا جواب نہیں دے سکے-

خان عبدالغفار خان نے اپنی رہائش گاہ پر نہرو کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے آغاز میں خان عبدالغفار خان نے کہا کہ قبائلیوں کو محبت سے جیتا جاسکتا ہے نہ کہ زور سے-جس کے بعد نہرو نے قبائلی علاقوں کے دورے کا آغاز کیا-ہندو رہنما جواہر لال نہرو نے سب سے پہلے قبائلی علاقے میران شاہ کا دورہ کیا جہاں پر اسے جرگہ سے خطاب کرنا تھا تاہم اسے وہاں پر بھی پذیرائی نہیں ملی - وہ پذیرائی جس کی توقع نہرو کررہے تھے برطانوی تاریخ دانوں کے مطابق اتمانزئی وزیر قوم جو وہاں پر ہونیوالے جرگے میں موجود تھے وہ نہرو کے اس بیان پر مطمئن نہیں تھے جس میں نہرو نے کہا کہ وہ قبائل کو آزاد کرائیں گے جرگے کے دوران اتمانزئی وزیر قوم کے رہنماؤں سے ان سے سوال کیا کہ وہ پشتو میں کیوں بات نہیں کرتے - اسی دوران جرگے میں ہندوستان واپس چلے جاؤ کی آوازیں سنائی دی جانے لگی اور تقریبا یہی صورتحال نہرو کے رزمک میں ہونیوالے استقبالیہ تقریب کی بھی تھی-

مقامی قبائل نے نہرو کی آمد سے قبل آنیوالے جہاز پر فائرنگ بھی کی تھی اس وقت ساوتھ وزیرستان کے پولٹیکل ایجنٹ رابن ہڈسن تھے جو وہاں پر ہونیوالی تقریب میں موجود تھے اور نہرو کی تقریر کے گواہ بھی ہیں - رابن ہڈسن کا موقف ہے کہ نہرو بجائے اس کے میرے بات کا انتظار کرتے اور میں انہیں کہتا کہ وہ جرگے سے بات کرے- بجائے سیٹ پر بیٹھنے کے نہرو نے اس طرح تقریر کرنا شروع کردی جیسے وہ کسی سیاسی اجتماع سے خطاب کررہے ہو - بقول رابن ہڈسن کے نہرو تقریر کے دوران ہاتھوں سے اشارے بھی کررہا تھا- پولٹیکل ایجنٹ ساؤتھ وزیرستان رابن ہڈسن کے مطابق یہ ایک روایت ہے کہ جرگہ کے دوران سب لوگ زمین پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور اس میں بیٹھے سب برابر ہوتے ہیں تاہم نہرو کیلئے وہاں پر کرسی رکھی تھی تاکہ وہ قبائلیوں سے بات کرسکیں-لیکن قبائلی نہرو کے اس عمل سے ناخوش دکھائی دے رہے تھے-

جرگے سے خطاب کے دوران قبائل کو خطاب کرتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کہا کہ وہ قبائلیوں کو برطانوی راج سے نجات دلائیں گے اور برٹش کی غلامی سے قبائل کی جان چھوٹ جائیگی-لیکن اس کا جواب نہرو کا بھی بہت سخت آیا- قبائلیوں نے اردو میں ہی نہرو کو جواب دیا تاکہ اسے سمجھ آئے ' قبائلیوں نے کہا کہ ہم برطانیہ کے غلام نہیں اور نہ ہی ہم تمھارے غلام بننے کیلئے تیار ہیں-جس کے بعد قبائلیوں نے ہندوستانیوں کیلئے قابل اعتراض لفظ بھی بول دیا یعنی " تور کنی" - جرگے میں شامل کچھ قبائلیوں نے نہرو کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا کہ اگر انہوں نے ڈیل بھی کرنی ہوگی تو وہ لازما جناح سے ہی ڈیل کرینگے-جس کے بعد یہ جرگہ بھی بدنظمی کا شکار ہوگیا جرگے کے دوران ایک موقع پرملک مہر دل محسود نے اپنی چھتری اٹھائی اور نہرو کی جانب آنے کی کوشش کی اس وقت چھتری کی نوک نہرو کی جانب تھی-تاہم اس موقع پر وہاں پر موجود پولٹیکل ایجنٹ رابن ہڈسن سامنے آئے اور اس نے نہرو کو چھتری کی نوک کی وار سے بچایا-بعد میں رابن ہڈسن آل انڈیا ریڈیو پر یہ خبر سن کر بہت حیران و پریشان ہوا جس میں بتایا گیا کہ پولٹیکل افسران نے نہرو کے خلاف لوگوں کو جمع کیا اور مظاہرہ کروایا حالانکہ اس وقت انگریز پولٹیکل ایجنٹ رابن ہڈسن نے جواہر لال نہرو کو چھتری کے وار سے بچایا تھا- قبائلی دورے کے دوران وانا میں بھی احمد زئی قبائل نے نہرو کیساتھ ملاقات سے انکار کیا - حالانکہ اس وقت جواہر لال نہرو کے ساتھ عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب بھی موجود تھے-

کانگریس کے رہنماجواہر لال نہرو نے قبائلی علاقوں کے دورے کے دوران ٹانک اور جنڈولہ کا بھی دورہ کیا جہاں وہ چھوٹے قبائل سے ملے وہاں پر آنیوالے چھوٹے قبائل کے نمائندوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور نہرو کی خدمت میں کالی بھیڑ بھی پیش کی-اس وقت بھی خان عبدالغفار خان جواہر لال نہرو کے ساتھے - اس دورے کے بعد نہرو کیساتھ آنیوالے وفد نے پشاور کا رخ کیا - نہرو کا اگلا دورہ خیبر پاس کی طرف تھا تاہم ان کے دورے سے قبل آفریدی قبائل نے قبائلی ذمہ داری کے تحت نہرو کے قافلے کو تحفظ دینے سے معذوری ظاہر کردی جس کے بعد انتظامیہ نے اس وقت نئے بننے والے خیبر رائفلز کو طلب کیا تاکہ وہ نہرو کے دورہ خیبر پاس کے دوران انہیں تحفظ فراہم کرسکیں ا ور نہرو کو فائرنگ یا پتھراؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے- جس کا اس وقت خدشہ تھا-جواہر لال نہرو کے دورے کے بارے میں مکمل معلومات ساؤتھ وزیرستان کے اس وقت کے پولٹیکل ایجنٹ رابن ہڈسن کے اس خط سے لی جاسکتی ہیں جو اس نے اپنی بیگم کو لکھا تھا اور اس میں نہرو کیساتھ پیش آنیوالے واقعات کی صحیح منظر کشی کی گئی ( خط میں لکھا گیا ہے کہ عبدالغفار خان نے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا اور وزیر قبائل کو کہا کہ عظیم نہرو فرنگیوں کے مظالم کو دیکھنے کیلئے آئے ہیں اور اس کیساتھ یہ تحقیقات بھی کرینگے کہ وہ قبائلیوں کی حالت زار کا پتہ چلائیں اس لئے وہ یہاں پر آئے ہیں-کیونکہ یہ بہت غریب ہے اس لئے نئی انڈین حکومت ان کیلئے سکول کھولے گی جہاں پر وہ مذہب بھی سیکھ سکیں گے-او ر ہسپتال بھی تعمیر ہونگے جہاں پر ان کا علاج ہوگا-جس پر وزیر قبائل کے ترجمان نے ان سے زیادہ تیز آواز اور غصے میں جواب دیاکہ عبدالغفار خان سب کچھ غلط بتا رہے ہیں-ترجمان نے کہا کہ اتمانزئی قبائل کسی کے دباؤ کا شکارنہیں او رنہ ہی انہیں کسی ایسے شخص سے اسلام کے بارے میں معلومات لینے کی ضرورت ہے جس کے اپنے بیٹے نے پارسی سے شادی کی ہو اور جس کی بھتیجی )ڈاکٹر خان صاحب کی بیٹی مریم( نے عیسائی سے شادی کی ہو- ان جملوں پر ڈاکٹر خان صاحب بھی غصے میں آگئے-اور انہوں نے جرگہ ممبران کو کہہ دیا کہ وہ پولٹیکل ایجنٹ کے تنخواہ دار ملازم ہیں جس پر جرگے میں بیٹھے افراد اٹھ گئے اور انہوں نے احتجاج شروع کردیا-اسی صورتحال کے پیش نظرنہرو کیساتھ آنیوالا وفد محسود قبائل سے ملنے کیلئے چلا گیا اس وقت محسود قبائل کا جرگہ ریذیڈنسی گارڈن میں ہورہا تھا - جس میں نہرو پہنچ گئے اور اس نے اردو میں تقریر شروع کردی- جرگے میں شامل بیشتر محسود اردو زبان کی سمجھ نہیں رکھتے تھے -اس موقع پر نہرو نے کہاکہ قبائل نافرمان ہیں جس پر محسود قبیلے کے میربادشاہ کے والد غصے میں اٹھ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ہندو اگر برطانوی ہمیں پیسے دیتے ہیں تو اس کی بھی ایک اچھی وجہ ہے ) ناقابل اشاعت الفاظ( جس کے بعدوہ وہاں سے روانہ ہوگیا پولٹیکل ایجنٹ سے اسے روکنے کی کوشش کی تاہم وہ نہ روکے- حالات کے پیش نظر پولٹیکل ایجنٹ سے نہرو کو بتایا کہ وہ مزید اپنا دورہ منسوخ کریں لیکن باچا خان نے نہرو کو منت کی کہ وہ اپنا دورہ جاری رکھیں-اسی دوران حالات بے قابو ہوگئے اور وہاں پر لوگوں نے نہرو کی گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا جس سے نہرو کی گاڑی کا شیشہ بھی ٹوٹ گیا- اس واقع میں جواہر لال نہرو کیساتھ آنیوالے دو رہنما بھی زخمی ہوگئے تھے-

جواہر لال نہرو نے ملاکنڈ کا پروگرام بنایا جس پر خان عبدالغفار خان نے اسے کہا کہ وہ حالات ٹھیک نہیں تاہم ڈاکٹر خان صاحب نے کہاکہ پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں تاہم رسالپور تک پہنچنے کے بعد خان عبدالغفار خان کو پتہ چلا کہ کوئی سیکورٹی اہلکار موجود نہیں تھے تاہم پختون میزبان ہونے کے ناطے اس نے اپنا سفر جاری رکھا- خان عبدالغفار خان بھی جواہر لال نہرو کے ساتھ تھے اور ملاکنڈ کے پولٹیکل ایجنٹ شیخ محبوب علی نے انکی میزبانی کی-جنہوں نے عبدالغفار خان کو کہا کہ آپ میرے والد کی جگہ ہیں کچھ بھی نہیں ہوگا -رات گزرنے کے بعد اگلے روز وہاں پر بھی لوگوں نے پتھروں سے قافلے کا استقبال کیااور استہ روکا گیا-جس کے دوران خان عبدالغفار خان بھی پتھر لگنے سے زخمی ہوگئے-ایک موقع پر ڈاکٹر خان صاحب نے سیکورٹی اہلکار سے ریوالور چھین لیا اور کہا کہ راستہ چھوڑ دو ورنہ میں گولی ماد ونگا جس کے بعد ہجوم الگ تھلگ ہوگیا اور خان صاحب نے ڈرائیور کو کہا کہ ٹرک کو سائیڈ پر کرو-اور ریوالور نے کام کر دکھایا-اس موقع پر خان عبدالغفار خان نے بتایا کہ اس نے اپنے بھائی کو کہا تھا کہ دو ٹرک ساتھ ہو جس میں ایک میں لاٹھی بردار ہوں جو کہ کار کے پیچھے آئے اور دوسرے ٹرک میں اسلحہ ہو -درگئی کے مقام پرقافلے پرا یک مرتبہ پھر پتھراؤ کیا گیا اور پھر بہت مشکل سے یہ قافلہ واپس پشاور پہنچا- اکیس اکتوبر 1946 ء کو سردریاب کے مقام پر عبدالغفار خان نے نہرو کیلئے شام کے وقت پروگرام ترتیب دیا جہاں پر مقامی افراد نے سیکورٹی کے فرائض سرانجام دئیے حالانکہ اس وقت عبدالغفار خان کو بتایا گیا تھا کہ اگر ضرورت ہے تو برطانوی فوجی وہاں بھیجے جاسکتے ہیں-اس موقع پر تقریر میں خان عبدالغفار خان نے کہا کہ جیسے پہلے تھا اب بھی ویسے ہمیں رہنا چاہئیے اور وفاقی حکومت کو قبائلی علاقوں کی لوگوں کی حالت زار پر توجہ دینی چاہئیے-اس موقع پر خان عبدالغفار خان نے وائسرائے اور گورنر پر تنقید کی اور کہاکہ انہوں نے غلط طریقہ استعمال کیا اور قبائلیوں کو اکسایا کہ پتھر ماریں-ایک برطانوی سول سرونٹ جی ایل مالم نے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں نہرو کا دورہ قبائل غلط تھا او ر اس کے دورے کے بعد عام لوگوں نے مسلم لیگ کا رخ کیا-

مضمون کی تیاری میں ٹرائبل لیڈر شپ ‘ بریٹن ان دی ورلڈ ‘ دی پٹھان ان آرمڈ ‘ اور راج موہن گاندھی کی کتاب غفار خان سے مدد لی گئی ہیں-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 424963 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More