حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے فرمایا نبی پاکﷺ نے جب ایک
مومن مسلمان وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو جو گناہ اسکی آنکھوں سے سرزد
ہوئے ہیں(مثلاً کسی غلط جگہ نگاہ ڈالی یا کسی غیر محرم کو دیکھا وغیرہ) وہ
چہرہ سے پانی گرتے ہی یا پانی کا آخری قطرہ گرتے ہی دھل جاتے ہیں اور جب وہ
اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو جو گناہ اسکے ہاتھوں سے سرزد ہوئے ہیں وہ ہاتھ دھونے
سے یاہاتھوں سے پانی کا آخری قطرہ گرتے ہی دھل جاتے ہیں، اسی طرح جب وہ
اپنے پاؤں دھوتا ہے تو جو گناہ اسکے پاؤں سے صادر ہوئے ہیں مثلاً وہ کسی
غلط جگہ چل کر گیا اور کسی غیرشرعی کام کو کرنے گیا تو اسکے وہ گناہ پاؤں
دھونے سے یا پاؤں سے پانی کاآخری قطرہ گرتے ہی معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح
مسلم)
حضرت عثمانؓ سے روایت ہے آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے نماز کی
ادائیگی کیلئے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا تو گناہ اسکے بدن سے نکل
جاتے ہیں (معاف ہو جاتے ہیں) حتی کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی۔(صحیح مسلم)
وضو کرنے سے گناہوں کا دھل جانا یہ ایک مسلمان کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ
کی بڑی رحمت اور اسکا انعام ہے مگر ان سے گناہ صغیرہ مراد ہیں اور جہاں تک
گناہ کبیرہ کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔مثلاً اللہ تبارک و
تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا یعنی شرک کا ارتکاب کرنا،والدین
کی نافرمانی کرنا، کسی کو نا حق قتل کردینا اور جھوٹی قسم کھانا وغیرہ گناہ
کبیرہ ہیں جو بغیرتوبہ کئے معاف نہیں ہوتے۔
اس حدیث شریف کی وجہ سے بعض لوگ گناہ صغیرہ کرتے ہی رہتے ہیں اور ان کی
کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ تو وضو کرنے کی وجہ سے معاف
ہو جاتے ہیں حالانکہ یک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تبارک و
تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان سے بچنے کی پوری کوشش
کرے۔ حدیث شریف کے مطابق ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے ، یعنی اللہ
تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا ڈر بھی ہو اور اسکی رحمت کی امید بھی ہو۔
بہر حال ان احادیث مبارکہ کی وجہ اس بات کی قوی امید ہے کہ اللہ تبارک و
تعالیٰ ہر نمازی مسلمان کے گناہ صغیرہ کو معاف فرمائیں گے اوردیگر گناہوں
سے بچے کی بھی توفیق عطا فرمائیں گے۔آمین!! |