کیلی فورنیامیں فائرنگ کی چھان بین،اوباما کاخطاب اورلیہ کی عوام

امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہرسان برناڈینومیں پولیس کاکہنا ہے کہ معذوروں کے لیے قائم ایک سوشل سروس سنٹرمیں چودہ افرادکی ہلاکت میں مبینہ طورپرملوث دومشتبہ افرادکی شناخت کرلی گئی ہے۔خاتون کاتعلق پاکستان سے ہے۔لاس اینجلس میں ذہنی مسائل اوربیماریوں کاشکارافرادکی مددکے مرکزپربدھ کی صبح ہونے والے حملے میں سترہ افرادزخمی بھی ہوئے تھے۔پولیس کاکہنا ہے کہ ان مشتبہ افرادمیں اٹھائیس سالہ سیّدرضوان فاروقی اوران کی اہلیہ ستائیس سالہ تاشفین ملک شامل ہیں۔امریکہ کے دفاعی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کاکہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اوردہشت گردی کے اقدامات کوفی الحال مستردنہیں کیاجاسکتا۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے مقامی پولیس کے سربراہ جیرڈبرگوان نے بتایا کہ ابتدائی اندازوں کے برعکس حملہ آوروں کی تعداددوہی تھی۔یہ دونوں افرادخودکارریفلوں سے مسلح اورجنگی لباس میں ملبوس تھے اورانہوں نے سینٹرکی عمارت میں دوپائپ بم بھی نصب کیے تھے جنہیں ناکارہ بنادیا گیا ہے۔پولیس افسرکاکہنا ہے کہ حملے کچھ دیربعد پولیس نے تعاقب کے بعدفائرنگ کے تبادلے میں جن دومشتبہ افرادکوہلاک کیاان میں اٹھائیس سالہ رضوان فاروقی امریکہ ہی میں پیداہوئے تھے۔ایف بی آئی حکام کاکہنا ہے کہ اٹھائیس سالہ رضوان فاروقی اوران کی ستائیس سالہ بیوی تاشفین ملک کادہشت گردوں سے تعلق تھا اورحملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاشفین ملک کاتعلق ضلع لیہ کی تحصیل کرورلعل عیسن سے ہے۔جوپچیس سال قبل سعودی عرب منتقل ہوگئی تھی اورقانون نافذکرنے والے اداروں نے اس کے رشتہ داروں سے رابطہ کرلیا ہے۔اورجبکہ تاشفین پاکستان سے نہیں سعودی عرب سے امریکہ گئی تھی۔جبکہ امریکی خبررساں ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ تاشفین ملک داعش سے وابستہ تھی۔اوراس نے داعش میں شمولیت کے لیے بیعت کی تھی۔یہ دعویٰ تحقیقاتی حکام کی جانب سے کیا گیا ہے جس کاکہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات پریقین کرنے کے لیے شواہدہیں کہ تاشفین داعش کاحصہ تھی تاہم مقامی مسجدکے امام کاکہنا ہے کہ انہوں نے رضوان فاروقی میں انتہاپسندی کی علامات نہیں دیکھیں۔تاہم ایف بی آئی جورضوان فاروقی کے فون ریکارڈاورکمپیوٹرہارڈویئرسے معلومات حاصل کررہی ہے کہا کہنا ہے کہ چندسال پیشتررضوان فاروقی کے ملک کے اندراورباہرانتہاپسندوں سے رابطے تھے۔یہ بات لاس اینجلس ٹائمزنے تحقیقات پربریفنگ لینے والے کانگریس حکام کے حوالے سے بتائی۔حکام مشتبہ حملہ آورمیاں بیوی سے متعلق معلومات جمع کرنے کے علاوہ حملے کے محرکات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔رضوان فارقی کے والدکاتعلق پاکستان سے ہے جبکہ وہ خودامریکہ میں ہی پیداہوااوریہیں ا س نے پرورش پائی۔تاشفین کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کاکہنا ہے کہ اسے کے ون ویزہ اسلام آبادسے جاری کیاگیا۔دفاعی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے تفتیشی افسرڈیوڈبوڈچ کاکہناہے کہ رضوان فاروقی بیرون ملک گیا اوروہاں سے تاشفین کے ساتھ جولائی دوہزارچودہ میں واپس آیا۔جس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔کیلفورنیامیں فائرنگ کے ملزم رضوان فاروق کی فیملی کے وکلاء نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تفتیشی حکام رضوان فاروق اورتاشفین ملک کاتعلق کسی بڑے دہشت گروپ سے ثابت نہیں کرسکے۔انہوں نے بتایا کہ ایف بی آئی حکام نے رضوان کی والدہ کوسات گھنٹے حراست میں رکھا ۔رضوان کے بھائی بہنوں سمیت گھروالوں سے چارگھنٹے تفتیش کی گئی۔وکیل نے کہا کہ فیس بک اکاؤنٹ کسی اورنام سے تھا تواسے تاشفین کے ساتھ کیسے جوڑاجاسکتا ہے۔رضوان فاروق کے انتہاپسندی یاجارحانہ مزاج سے متعلق شواہدابھی تک سامنے نہیں آئے۔وکیل نے میڈیاکے کردارپرسوال اٹھایااورکہاکہ لوراڈومیں فائرنگ کاملزم عیسائی تھالیکن اس کے مذہب کاکہیں ذکرنہیں کیاگیااب میڈیاکیلیفورنیافائرنگ کے واقعے میں رضوان فاروق کومسلم انتہاپسندکہہ کرہیڈلائنزدے رہا ہے۔پنجاب ہاؤس اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ کچھ غیرملکی عناصرکیلفورنیاواقعہ پرپاکستان کانام اچھالناچاہتے ہیں۔جس میں کچھ ہمسایہ ممالک بھی پیش پیش ہیں۔انہوں نے درست ہی کہا ہے کہ کسی ایک شخص کی غلطی پرڈیڑھ ارب لوگوں کوذمہ دارنہیں ٹھہرایاجاسکتا۔اس طرح کے واقعات کی وجہ سے مغربی دنیامیں اسلام فوبیاپھیل رہا ہے۔پاکستان نے امریکی حکام کوہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔تاشفین کاخاندان ڈیرہ غازی خان سے کئی سال پہلے سعودی عرب منتقل ہوگیاتھا۔گزشتہ پچیس سال سے یہ خاندان سعودی عرب میں مقیم ہے۔تاشفین کی سامنے آنے والی تصاویرزیادہ ترجعلی ہیں۔تاشفین آخری مرتبہ دوہزارتیرہ میں پاکستان آئیں۔مغربی میڈیاکی من گھڑت خبروں کے پیچھے ایک خاص مقصدہے۔ان کاکہناتھا کہ برطانیہ میں وزیراعظم نوازشریف وزیراعلیٰ شہبازشریف سے کسی امریکی وفدسے ملاقات نہیں کی۔وزیراعظم سے امریکی وفدکی ملاقات کی خبربالکل بے بنیاداورمن گھڑت ہے۔پاکستانی میڈیامغربی میڈیاکی من گھڑت خبروں پرکان نہ دھرے۔رضوان فاوق کے والدجوکہ کاؤنٹی کی ایجنسی کے ساتھکام کرتے ہیں نے کہا ہے کہ میں یہ سب سن کرحیران ہواکہ اورمجھے دھچکالگاکہ فاروق نے یہ سب کیاہے۔انہوں نے کہاکہ میں نے آج تک اس کے بارے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی۔وہ مذہبی تھانمازپڑھتاتھا کام پرجاتا تھا۔وہاں سے آنانمازپڑھنی اورگھرواپس آنااس کے معمولات تھے۔فاروق کے ساتھ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والی ایک لڑکی گریسلڈانے بتایا ہے کہ وہ ہائے ہیلوسے زیادہ کسی سے بات نہیں کرتاتھا۔رضوان فاروق کے اہل خانہ نے امریکہ کی کونسل آف اسلامک ریلیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں واقعے کی شدیدمذمت کیفاروق کے برادرنسبتی فرحان خان نے واقعے پرحیرت کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انفرادی فعل ہے اوراس کامسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔رضوان فاروق کی بہن نے بی بی سی نیوزکوبتایا کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے بھائی اوربھابھی ایساکرسکتے ہیں ۔بطورخاص ایسے حالات میں جب ان کی شادی خوش وخرم تھی۔واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے امریکی صدرباراک اوباما نے ریاست کیلیفورنیاکے علاقے سان برناڈینومیں فائرنگ کے حالیہ واقعے کودہشت گردی کی واردات قراردیا۔تاہم ان کاکہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوامریکہ اوراسلام کی جنگ کے طورپرنہیں دیکھاجاناچاہیے۔امریکی صدرکاکہناتھا کہ آزادی خوف سے کہیں زیادہ طاقتورہے۔اپنی تقریرمیں صدراوبامانے کہا کہ اس بات کاکوئی اشارہ نہیں ملاکہ کیلیفورنیاکے حملہ آورکسی غیرملکی شدت پسندتنظیم کے اشارے پرکام کررہے تھے۔صدراوبامانے کہا شدت پسندامریکی معاشرے میں موجوامتیازکافائدہ اٹھارہے ہیں۔ان کہاکہناتھا کہ امریکہ دہشت گردی کے اس بڑھتے ہوئے خطرے پرقابوپالے گا۔لیکن امریکیوں کواس جنگ کواسلام اورامریکہ کے درمیان نہیں سمجھناچاہیے اورنہ ہی ایک دوسرے کے خلاف ہوناچاہیے۔امریکی صدرنے کہا کہ اگرہم دہشت گردی کوشکست دیناچاہتے ہیں توہمیں مسلم کمیونٹی کواپنے مضبوط ترین اتحادی کے طورپرساتھ رکھناہوگانہ کہ ہم انہیں شک اورنفرت کاشکاربناکردوردھکیل دیں۔ان کاکہناتھا کہ امریکی عوام کااپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف ہوجانا ہی وہ اصل چیزہے جوداعش کے شدت پسندچاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ داعش اسلام کی ترجمان نہیں۔اورامریکہ اس شدت پسندتنظیم سے لڑنے کے لیے اپنی ہرممکن طاقت استعمال کرے گا۔ امریکی صدرنے کہا کہ داعش کااسلام سے کوئی تعلق نہیں دنیامیں کثیرتعدادمیں مسلمان آبادی معتدل خیالات کی مالک ہے۔مسلمانوں کونفرت کانشانہ بناکرالگ نہ کیاجائے ۔ داعش کے ٹھکانوں پرپوری قوت سے حملے کرناہوں گے۔امریکی فوج نے بیرون ملک بھی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کاپیچھاجاری رکھاہوا ہے۔جب تک مسلم ممالک اپنے گھروں سے شدت پسندی کاخاتمہ نہیں کردیتے۔اس وقت تک ڈومورکامطالبہ کرتے رہیں گے۔قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اس شدت پسندگروہ کوشکست دے کررہے گا۔انہوں نے کیلی فورنیاواقعے کاتفصیلی ذکرکرتے ہوئے نئی موثرحکمت عملی کااعلان کیا۔اعلان کردہ حکمت عملی میں منگتیرویزہ پروگرام پرنظرثانی،ہوائی اڈوں پراضافی سکریننگ کاآغازاورداعش کے محفوظ ٹھکانوں پرزوردارحملے جاری رکھناہے۔صدرنے امریکی کانگریس پرزوردیا کہ گن کنٹرول کے حوالے سے فوری قانون سازی کااقدام کیاجائے جس سے حملوں میں استعمال ہونے والے خطرناک نوعیت کے ہتھیاروں تک عام شہری کی رسائی باقی نہ رہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں دہشت گردخطرات سے نمتنے کے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔انہوں نے واضح کیاکہ امریکی فوج کوکسی سرزمین پرپیررکھنے کی ضرورت نہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ موثراورزوردارفضائی کارروائیوں کے ذریعے متعین اہداف حاصل کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ داعش کاشدت پسندگروہ یہی چاہتا ہے کہ امریکی بری فوج کوالجھایاجائے۔تاہم دشمن کے عزائم کوخاک میں ملایاجائے گا۔اپنی تقریرمیں صدراوبامانے مسلمان برادری کی بہادری اورحب الوطنی کی تریف کی۔جوامریکہ کی ترقی اورخوشحالی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے اپنے ایک بیان میں صدراوبامانے کہا کہ امریکہ میں عام فائرنگ کے ایسے واقعات رونماہورہے ہیں۔جن کی دنیامیں کہیں اورمثال نہیں ملتی۔ امریکہ اوراسرائیل سے تعلقات پرتھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی صدارتی امیداورہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اسلام کوشدت پسندمذہب کہنامسلمانوں کی اکثریت سے ناانصافی ہوگی۔ان کاکہناتھا کہ اسلام پرامن مذہب ہے۔مسلمانوں کی اکثریت کاشدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔محض ایک یادوافرادکے عمل سے اسلام کوشدت پسندمذہب کہنا درست نہیں ہوگا۔امریکی اراکین کانگریس اوردیگرمنتخب حکام نے کیلی فورنیافائرنگ کیس کے بعدملک بھرمیں پیش آنے والے بعض حالیہ نفرت انگیزواقعات کے بعدامریکی مسلمانوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اسلام فوبیاکے شکارعناصرکی مذمت کی ہے۔وائس آف امریکہ اردوسروس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کانگریس کے رکن ڈون ہائرنے کہا کہ امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے خلاف کوئی نفرت انگیزجرم امریکہ کے خلاف جرم تصورکیاجائے گا۔انہوں نے مسلم کمیونٹی کوپیغام دیاکہ وہ عدم رواداری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ان کاکہناتھا کہ بیشترامریکی اپنے مسلم بھائیوں کااحترام کرتے ہیں۔جوکچھ سان برناڈینومیں ہوااس سے مسلمانوں اوراسلامی عقیدے کاکوئی تعلق نہیں۔

پیرس میں حملوں کے بعدیہ دوسراواقعہ ہے جس کومسلمانوں کودہشت گردثابت کرنے اوراس کاتعلق اسلام سے جوڑنے کی بھرپورکوشش ہورہی ہے۔زبانی طورامریکی صدرباراک اوباما، صدارتی امیدوارہیلری کلنٹن اورکانگریس کے بعض ارکان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کااسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کونفرت کانشانہ نہ بنایاجائے۔ انہوں نے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کی تعریف بھی کی۔پھرکیاوجہ ہے کہ مغربی میڈیا کیلی فورنیافائرنگ واقعہ کواسلام اورپاکستان سے منسوب کرنے میں مصروف ہے۔اوباما نے قوم سے اپنے خطاب میں امریکی میڈیاکونہیں کہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف زہراگلناچھوڑدے۔ اس نے اپنے میڈیاکونہیں کہا کہ وہ کسی ایک شخص کی کارروائی کواس کی تمام کمیونٹی کوذمہ دارنہ ٹھہرائے۔جب سب تسلیم کررہے ہیں کہ یہ ایک انفرادی فعل ہے۔ رضوان فاروقی کے والدین ، اہل خانہ ، رشتہ داروں اوردیگرافرادنے بھی جب اس واقعہ کی مذمت کی ہے توپھرکیلی فورنیا سے لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن تک چھان بین کس لیے ہورہی ہے۔جولوگ پاکستان سے پچیس سال پہلے چلے گئے۔ ان کی چھان بین یہاں کس مقصدکے تحت کی جارہی ہے۔جس امریکی معاشرہ میں انہوں نے پرورش پائی اوررہ رہے ہیں وہاں اس طرح کی چھان بین کیوں نہیں کی جاتی اس معاشرہ میں رہتے ہوئے ملزمان نے ایساکیوں کیا۔امریکی حکام اورمیڈیاکواپنے معاشرے کاجائزہ لیناچاہیے کہ جس شدت پسندی اوردہشت گردی کوختم کرنے کے لیے وہ جنگ کررہے ہیں کہیں وہ ان کے ہی معاشرے سے تونہیں پھوٹ رہی۔امریکہ واقعی مسلمانوں کے خلاف نفرت ختم کرناچاہتا ہے تواسے سب سے پہلے اپنے میڈیاکوروکناہوگا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانابند کردے بعدازاں ایسے اقدامات کرناہوں گے جس سے ثابت ہوکہ اب امریکی حکام نہ تومسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اورنہ ہی انہیں دہشت گردسمجھتے ہیں۔مزیدیہ کہ لیہ کے باسی ملن نثار، مہمان نواز، محبتیں تقسیم کرنے والے، خوش اخلاق اورخوش مزاج ہیں۔ یہ امن اورسکون کے ساتھ رہ رہے ہیں۔لیہ کی عوام کوکیلی فورنیافائرنگ واقعہ کی کڑیاں ملاکرخوف زدہ نہ کیاجائے۔وزیراعظم نوازشریف لیہ سمیت جنوبی پنجاب کودہشت گردی کے خلاف جنگ کانشانہ بنانے کی کوششوں کوناکام بنانے کے لیے اپناکرداراداکریں اورامریکی حکام سے خصوصی بات کریں ۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351489 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.