تجربے نے جیتنا تھا

گزشتہ روز کے ٹو ٹی وی کے الیکشن ٹرانسمیشن کے خصوصی پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں عرض کیاکہ الیکشن کمیشن کی جانبداری اور نون لیگ کی تجربہ کاری کے سامنے کون کیسے جیت سکتا ہے کہ جب اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے حلقوں کی تقسیم جولائی میں ہوئی تھی اس کے مطابق 38حلقے اسلام آباد کیپٹل جبکہ 40حلقے دیہی علاقوں کے ہوں گے۔ نون لیگ کے تجربہ کاروں نے اس کو بھی تبدیل کیا اور الیکشن سے پہلے ٹوٹل پچاس حلقے بنائے گئے جس میں 12حلقے اسلام آباد کے شہری علاقے جس کو لوگ اسلام آباد کہتے ہیں جبکہ 38حلقے یونین کونسلز دیہی علاقوں میں دیے گئے۔ ایک دوست نے پروگرام دیکھ کر فون کیا اور تفصیل پوچھی تو بتا یا کہ جناب الیکشن کمیشن کی جانبداری اور نون لیگ کی تجربہ کاری کے سامنے پی ٹی آئی والے بچے ہیں۔ نون لیگ کے ایم این اے طارق فضل چوہدری کو انتخابات سے چند دن پہلے وزارت دی گئی جن کی سیٹ اور ووٹ بنک دیہی علاقوں میں ہے۔ اسلام آبادشہر میں تحر یک انصاف کا ووٹ بنک ہے جس کو کم کرنے کے لیے نون لیگ نے یہ حربہ استعمال کیا کہ شہری علاقوں کی سیٹیں ہی کم کردی جائے جو اگر ساری بھی پی ٹی آئی جیت جائے تو اسلام آباد کا میئر نہ بنا سکیں۔ نون لیگ کی تجربہ کاری دیکھیں کہ شہری علاقوں کے یونین کونسلز کو 30اور35ہزارووٹوں میں تقسیم کیا جبکہ دیہی علاقوں کو تین اورپانچ ہزار میں تقسیم کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ یونین کونسلز بنائے جاسکیں۔ یہ سب کچھ نون لیگ حکومت اور الیکشن کمیشن نے کیا۔اس کے باوجود اسلام آباد میں نون لیگ نے 20اورپی ٹی آئی نے 16چیئرمین منتخب کیے جبکہ 14آزاد بھی کامیاب ہوئے۔

اس طرح دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات کے تیسری اور آخری مرحلے میں جوکچھ پنجاب اور کراچی میں ہوا جو محدود پیمانے پر ٹی وی چینلز نے دکھایا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جوبھی حکومت ہو گی اس کی مرضی جس طرح چاہے انتخابات میں دھاندلی یا ہیرا پھیری کریں۔پنجاب کے ایک یونین کونسل میں پریذایٹنگ آفسر کو رنگے ہاتھوں پکڑا کیا جو نون لیگ کے امیدوار کو شیر پر مہر لگا رہے تھے جن کے قبضے سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بھی برآمد ہوئے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس آفسر نے اس وقت یہ رقم لی تھی۔ اسی طرح ایک اور پولنگ اسٹیشن میں نون کے کار کنوں نے پولیس ایس ایچ او کو مارا جوان کو شاید خوتین پولنگ اسٹیشن میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ بہت کچھ کیمرے کے آنکھ نے محفوظ کیا ہوا ہے۔کیمرے کے بغیر جوکچھ ہوا اس کی داستان الگ ہے۔ اسی طرح کراچی کے ایک پولنگ اسٹیشن میں پریذاٹینگ آفسر پیپلز پارٹی کے لیے مہریں لگا رہا تھا جس کو رینجرز نے پکڑا ۔بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ بھی اسی طرح دھاندلی، لڑائی جھگڑوں اور مار پیٹ میں اختتام پذیر ہواجس میں کئی لوگ جان سے گئے اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ اس پورے پراسس پر چار ارب روپے خرچ ہوئے ،دھاندلی، بضبطگیاں ،مار پیٹ اور قتل وغارت کے باوجود الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ انتخابات پہلے سے اچھے ہوئے۔

دوسری جانب کراچی کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر ایم کیوایم جیت گئی ۔ ایم کیوایم نے ثابت گیا کہ ان کا ووٹ بنک کوئی نہیں لے سکتا ۔ آج بھی ایم کیوایم کراچی میں بڑی پارٹی ہے۔ اب ایم کیوایم کو بھی چاہیے کہ وہ کراچی کا خیال کرتے ہوئے اپنے صفوں میں کرمنل عناصر کو ختم کریں اور رینجرزآپریشن میں تعاون کریں تاکہ دوسری سیاسی جماعتوں میں موجود جرائم پیشہ افراد پر بھی ہاتھ ڈالا جاسکیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو ایم کیوایم سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح اپنے ووٹرز کو نکالتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔ کراچی کے پورے نظام میں ایم کیوایم بہت مضبوط ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے ایم کیوایم حکومت میں ہو یا نہ ہو ۔ کراچی کے نظام اور اداروں میں ایم کیوایم کا سکہ چلتا ہے۔ تحر یک انصاف اگر کراچی ،سندھ اور پنجاب میں جیتنا چاہتی ہے تو اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا پڑے گا ۔تحریک انصاف جس سوچ سے آئی تھی اس سوچا کو آگے لانا پڑے گا۔ میرے خیال میں اب بھی تحریک انصاف کی پوزیشن بہت بہتر ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت ہی جیتی ہے کیونکہ تمام وسائل ان کے پاس موجود ہوتے ہیں۔

میرے خیال میں چار ارب روپے اس بے مقصد ایکسرسائز پر خراب کرنے کی بجائے حکمران جماعت کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ اپنے صوبے میں جس کو چاہے چیئرمین اور نائب چیئرمین منتخب کریں اور بلدیاتی نظام کو قائم کریں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تمام ایکسر سائز میں حکمران جماعت ہی جیتی ہے وہ وسائل استعمال کرتے ہیں۔ دھاندلی کرتے ہیں اور آزاد کو مل کر میئر منتخب کر جاتے ہیں۔ اس کے بہت سے فوائد میں سے ایک دو یہ بھی ہے کہ کم ازکم لوگ تو ایک دوسرے کو ماریں گے نہیں۔دشمنیاں تو پیدا نہیں ہوگی۔ اربوں روپے تو ضائع نہیں ہوں اور سب سے بڑا کر حکمران جماعت کل یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمارے پاس موقع نہیں تھا کہ ہم عوام کاکام کرتے اور عوام کے مسائل ان کے دہلیز پرحل کرتے۔ اب اگر دیکھا جائے تو سندھ ،بلوچستان اور پنجاب میں کوئی اختیارات ان نمائندوں کے پاس نہیں۔ سپر یم کورٹ کا حکم تھا جس کو خانہ پوری کے لیے عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی اعلانات تو کیے گئے کہ بلدیاتی نمائندوں کو 30فیصد ترقیاتی فنڈز دیں گے ۔ سکول اور ہسپتالوں کا نظام بھی بلدیاتی نمائندہ چیک کیا کر یں گے لیکن اس کے باوجود اب تک عمل نہیں کیا گیا، جو فنڈز دیے گئے ہیں اس میں تقریباً70فیصد ان بلدیاتی نمائندوں کی تنخواہوں اور دوسرے اخراجات پر خرچ ہوں گے اور باقی تیس فی صد عوام پر خرچ کیے جائیں گے۔ تو اس صورت حال میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات یا نظام جمہوریت کی بنیاد ہے اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں جب نمائندے بے اختیار ہو ۔ فنڈز ان کو نہ دیے جائے ۔الیکشن میں میرٹ نہ ہو بلکہ تجربے سے دھاندلی کی کامیابی ہو تو اس سے بہتر ہے کہ حکمران جماعت ہی براہ راست ان لوگوں کو منتخب کر یں اور بلدیاتی نظام کو قائم کریں۔ 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 227012 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More