امریکہ حملہ کس نے کیا؟حقائق کیا ہیں؟

چند دن قبل پاکستان نزاد ایک مسلمان امریکی دوست سے ملاقات ہوئی، امریکہ کی عمومی اور مسلمانوں کی خصوصی صورتحال پر گفتگو ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ" دنیا جیسی سمجھتی ہے کہ امریکہ میں غربت اور جرائم کاتصور نہیں ہے اور لوگ انتہائی ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں،دنیا کی یہ محض غلط فہمی ہے۔روزانہ کتنے لوگ مرتے ہیں،کتنی ڈکیٹیاں،لوٹ مار،ریپ جیسے جرائم ہوتے ہیں،اس کی حقیقت دنیا کو کبھی نہیں بتائی جاتی،کیوں کہ یہاں کا میڈیا بظاہر آزاد دکھتا ہے،لیکن درحقیقت وہ آزاد نہیں پروپیگنڈہ کا بادشاہ ہے۔"یہ باتیں اس شخص کی ہیں جو امریکہ میں پیدا ہوا اور امریکی ماحول میں پروان چڑھا۔

حقیقت یہی ہے کہ امریکی میڈیا سچ سے زیادہ پروپینگڈے اور جھوٹ کا ماہرہے۔بدقسمتی سے پروپیگنڈے پر مبنی جو سوچ امریکی میڈیا دیتاہے پوری دنیا کا میڈیا اس کی نقالی کرتاہے۔اس کا اندازہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر"سان برنارڈینو" میں ہونے والے حالیہ حملہ سے باآسانی لگایاجاسکتاہے۔یہ واقعہ 2 دسسمبر 2015بدھ کے روز پیش آیا،معذور افراد کی دیکھ بال کرنے والے سنٹر میں ایک پارٹی جاری تھی کہ وہاں فائرنگ کردی گئی ،جس کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔امریکی میڈیا کے مطابق بروقت پولیس نے کاروائی کرکے فائرنگ کرنے والے دو دہشت گردوں سیدرضوان فاروق اور تاشفین ملک کو ہلاک کردیا۔

28 سالہ سید رضوان فاروقامریکی شہری تھا،امریکہ کی ریاست شکاگو میں پیداہوا،تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکی ریاست کیلی فورنیا کے سان برنارڈینو شہر میںمحکمہ صحت میں پچھلے چارسالوں سے سرکاری جاب کررہا تھا۔2سال قبل سید رضوان فاروق نے پاکستانی خاتون تاشفین ملک سے شادی کی۔27پسالہ تاشفین ملک کا تعلق صوبہ پنجاب ضلع لیہ سے تھا،تاشفین اپنی فیملی کے ساتھ 25 سال قبل سعودی عرب سیٹل ہوگئی تھی،تاشفین نے اپنی تعلیم بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے مکمل کی۔جولائی 2014 میں تاشفین ملک امریکہ سید رضوان فاروق سے شادی کرنےگئیں۔امریکی قوانین کے مطابق اگر کوئی امریکی شہری سے شادی کرنا چاہے تو 90 دن کاعارضی ویزہ لے کر امریکہ جاسکتاہے۔تاشفین ملک بھی اسی ویزے کے ذریعے امریکہ پہنچیں۔اگست میں تاشفین ملک اور سید رضوان فاروق کی شادی ہوگئی۔

امریکی میڈیا کےمطابقدہشت گردی کا یہ حملہ ان دونوں نے کیا۔حملے میں ملوث تاشفین ملک نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی سے بذریعہ انٹرنیٹ بیعت کررکھی تھی،سوشل میڈیا پر مختلف نام سے اکاؤنٹ بنائے ہوئے تھے اور دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھی،امریکی میڈیا نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ تاشفین ملک کے خطیب لال مسجد مولاناعبدالعزیز سے بھی روابط تھے،ان کے ساتھ ان کی تصویریں بھی برآمد ہوئی ہیں۔امریکی انویسٹی گیشن ادارے(ایف بی آئی) کے مطابق سید رضوان فاروق اور تاشفین ملک نے حملہ کے وقت حفاظت کے لیے جیکٹس پہن رکھی تھیں،ان کے پاس پائپ بم،رائفل،پستول بھی تھا،جب کہ ان کے گھر سے5ہزارگولیاں، 12 پائپ بم،پستول،اور دھماکہ خیز مواد برآمد ہواہے۔دوسری طرف ایف بی آئی انویسٹی گیٹرنے پریس کانفرنس میں کہا کہ فی الحال کوئی واضح اشارہ نہیں ملا کہ یہ دونوں دہشت گرد کسی گروپ یا تنظیم کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔

ایک طرف ایف بی آئی اور امریکی میڈیا کی یہ کہانی ہے دوسری طرف امریکہ کے سب سے بڑے نیوز چینل (سی این این)کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے سید رضوان فارق کے وکلاء سے 4دسمبر کولیا۔سید رضوان فاروق کے وکلاءکا کہنا تھا کہ تاشفین ملک اور سید رضوان فاروق کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرانا انتہائی مشکوک ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ 90 پاؤنڈ وزن رکھنی والی پرامن خاتون جسے گولی چلانے کا پتہ تک نہیں، پائپ بم،حفاظتی جیکٹس،رائفل،پستول جیسے اسلحہ سے مسلح ہوکر بہادری سے لوگوں پر گولیاں چلائے،جب کہ وہ چھ ماہ کی چھوٹی سی بچی کی ماں بھی ہو؟انہوں نے کہا اس حملے میں ان دونوں کو ملوث قراردینا اس بنا پر بھی مشکوک ہے کہ دونوں میاں بیوی کی لاشیں ہتھکڑیاں لگے ہوئے ایک ٹرک میں رکھی ہوئی پائی گئیں۔اگر واقعی وہ حملہ آور ،پائب بم اور اسلحہ سے مسلح تھیں تو ان کو ہتھکڑیاں کیسے اور کب لگائی گئیں؟ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ واقعی دہشت گرد تھے،تو ان کے خاندان کو یہ حادثہ سن کر حیرت کیوں ہوئی؟سید فاروق کی بہن اوران کے بہنوئی نے میڈیا پر آکر یہ کیوں کہا کہ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کا بھائی اس طرح کا حملہ کرے گا۔

یہ تو تھیں سید رضوان فاروق کے وکلا ء کی باتیں،اس کے علاوہ سید فاروق کے ہمسایوں سمیت اس کے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں اور دوستوں نے میڈیا کو بتایا کہ سید رضوان فاروق ہنس مکھ،ایماندار آدمی تھا،دین سے بہت قریب تھا،نماز روزہ کاپابند تھا،پچھلے سال حج کی سعادت بھی حاصل کی،خود امریکی میڈیا نے اس بات کا اقرار کیا ہےکہ دونوں پر اس سے پہلے کوئی مقدمہ نہیں تھا،اگرواقعی سید فاروق مجرم ہوتا توضرور اس سے پہلے کسی نہ کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث ہوتا۔اس واقعہ میں سید فاروق اور تاشفین کو مجرم ٹھہرانا اس لیے بھی مشکوک ہوتاہے کہ امریکی حکام کے مطابق ان کے گھر سے پائپ بم اور اسلحہ برآمد ہواہے،سوال یہ ہے کہ یہ اسلحہ انہوں نے گھر میں کس لیے چھوڑا؟جب کہ خود ایف بی آئی چئیرمین کہہ چکے ہیں کہ ان کا کسی تنظیم یا گروہ سے تعلق نہیں تھا اور نہ ان دوکے علاوہ کوئی اور حملہ پکڑا گیا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اگر واقعی تافشین ملک کا داعش سے کوئی رابطہ تھا یا ابوبکر البغدادی سے بیعت کررکھی تھی،تو اس کے شواہد دنیا کو دکھائی جاتے؟محض فرضی کہانیاں گھڑ کر دنیا کو یہ باور کرانا کہ دراصل مسلمان ہی دہشت گرد ہیں کہاں کا انصاف ہے؟

پیرس کے بعد امریکہ میں ہونے والے حالیہ حملے کے پیچھے خفیہ سازش اور پوشیدہ عزائم کارفرماہیں،جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو دہشت گرد ڈیکلئر کرکے انہیں تہس نہس کرناہے،اس کے علاوہ یورپ،امریکا،کینڈا میں بسنے والے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے انہیں رسوااوردربدرکرناہے،جس کا اندازہ پیرس حملے کے بعد فرانس کے حالیہ مسلمان دشمن اقدامات سے باآسانی لگایا جاسکتاہے۔غورکیا جائے تو حالیہ امریکہ حملے میں عافیہ صدیقی کے بعد تاشفین ملک جیسی خاتون کو حملہ آور قراردینے کے پیچھے گہری سازش ہے،جس کا اظہار تاشفین ملک کا مولانا عبدالعزیز کے ساتھ تعلقات کی افواہ اڑا کر کردیا گیا ہے،تاکہ لال مسجد جیسے سانحہ پھر رونما کردیا جائے،حالاںکہ مولانا اس کی تردید بھی کرچکے۔مزید یہ کہ تاشفین ملک چوں کہ سعودی عرب میں رہتی تھی،اس طرح داعش کا تعلق سعودی عرب سے جوڑ کراس پروپینگڈے کو بھی عام کرنا ہے کہ دراصل سعودی عرب بھی دہشت گردوں کی پناگاہ ہے،تاکہ سعودیہ عرب میں خانہ جنگی کاجواز مل سکے۔پیرس حملے کے بعد یورپی میڈیا اس کا پہلے ہی اظہار کرچکی ہے کہ داعش کا تعلق سلفیت اور وہابیت سے ہے،جس کی سعودیہ عرب نے سختی سے تردید کی تھی۔

بہرحال عالم اسلام بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے یہ انتہائی نازک وقت ہے۔مسلمانوں کو باہمی خانہ جنگیوں،فرقہ ورانہ فسادات اورنام نہاد دہشت گردانہ کاروائیوں میں الجھاکر عالم کفر اپنے دیرنہ خواب کی تکمیل چاہتاہے،شام میں جاری خانہ جنگی،روس،ترکی سعودیہ عرب اور ایران کی باہمی چپقلش اور فتنہ داعش کے پیچھے خفیہ ہاتھ انہیں کفریہ طاقتوں کاہے۔بقول سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم"مسلمانوں کے مقابلے میں سارے یہودی،عیسائی اورہندو وغیرہ سب غیرمسلم متحد ہیں"۔اس موقع پرمسلمانوں کو بھی باہمی اختلافات اور رنجشیں بھلاکر ایک ہونے کی ضرورت ہے،مسلمان چاہے پاکستان کا ہو یا امریکہ یا فرانس کا اسے اپنا بھائی سمجھ کر اس کی مدد کی ضرورت ہے۔ 
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32240 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.