اک واری فیر
(Shahzad Hussain Bhatti, )
ماڈل اور اب اداکارہ(مستبقل قریب) کی
محترمہ ایان علی صاحبہ،کیوں کہ وہ وقت دور نہیں جب کچھ ایسے ہی لاحقے ان کے
نام کے ساتھ بھی لگے ہوں گے،کو پاسپورٹ واپس کر دیا گیا ہے اور خبری خبریں
دے رہے ہیں کہ وہ پیا دیس ۔۔۔ اوہ ۔۔ بہت معذرت کے ساتھ غیر دیس روانہ ہونے
کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اب یہ دیارِ غیر شیوخ کی فیوض و برکات والا خطہ
ہو گا یوتھ کلب و شباب کی آماجگاہ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اور شاید بعد از
وقت بھی کچھ نہ کہا جا سکے کیوں کہ تب تک تو شاید ماڈل کے نام کے ساتھ
لاحقے لگ چکے ہوں۔ اور جن کے نام کے ساتھ لاحقے لگ چکے ہوں انہیں تو کچھ
کہا جا سکتا نہیں۔
ماڈل کو جب سے پاسپورٹ واپس کیا گیا ہے تب سے ایک نئی بحث نے جنم لے لیا
کچھ کا کہنا ہے کہ اسے بھی ملک سے باہر جانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا اُن کو
تھا جو واپس بھی نہیں لوٹے اور کچھ کہتے ہیں کہ جب تک کیس ختم نہ ہو جائے
تب تک اسے باہر نہ جانے دیا جائے۔ کیوں کہ جو جاتے ہیں وہ لوٹ کے کب آتے
ہیں ۔ وہ آپ نے اپنے حقانی جی کے بارے میں تو سنا ہو گا جو وعدہ کر کے گئے
تھے کہ ہم لوٹیں گے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو جائے وہ گئے ضرور لیکن
لوٹ کر نہیں آئے۔ خبری کہتے ہیں کہ وہ گئے تھے !انہیں جانا تھا۔ وہ آئیں گے
نہیں نہ وہ آئے کیوں کہ انہوں نے آنا تو تھا ہی نہیں۔ اب پتا نہیں ان کے
آقاؤں نے ان کو بلایا یا ان کے آقاؤں نے ان کو آنے سے روکا۔ لیکن اس بات
میں حقیقت ضرور ہے کہ لے جانے والے اور واپسی سے منع کرنے والوں میں دونوں
صورتوں میں آقاؤں کا عمل دخل تو بہر حال ضرور تھا۔
ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ وطن عزیز میں اتنی بریکنگ نیوز آتی ہیں کہ
لکھنے بیٹھیں تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ ایک تو عوام ہماری نہایت
ہی بے وقوف ہیں۔۔۔۔ جی ہاں بہت زیادہ بے وقوف وہ ایویں ہی فضول میں زرداری
صاحب کی بریت اور حسینہ کو پاسپورٹ کی واپسی کا تعلق جوڑ رہے ہیں۔ جو حقیقت
میں اس بات کا کوئی واسطہ نہیں کہ ایک ہی موقع پر بریت بھی ہوئی اور
پاسپورٹ حوالگی بھی دور دور تک تعلق ثابت نہیں۔ اب یہ دُور کہیں جا کہ مل
جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اب بھلا حسینہ نے کوئی دھمکی تھوڑی دی ہو گی
خود کو بچانے کے لیے کہ ـ " میں نام لے دوں گی" ۔ وہ تو ایویں ہم لوگ تعلق
کو کہاں سے کہا ں پہنچا دیتے ہیں۔ عرصہ گزرا کے لندن سے بوریاں بھر بھر کر
ثبوت آئے۔ دیکھا جاتا تھا کہ ایک گاڑی میں بھر بھر کر کاغذ ٹھونسے جا رہے
ہیں۔ ایک تو اس بے وقوف عوام سے کوئی پوچھے کہ وہ تو صرف کاغذ تھے۔ ثبوت
تھوڑی ہی تھے۔ ارے بھئی ان پہ کوئی مہر تھوڑا ہی ثبت تھی کہ وہ ثبوت ہیں۔
یہ تھوڑا کہا گیا تھا کہ فلاں فلاں وقت، فلاں فلاں جگہ، فلاں فلاں لمحات
میں۔ پتا نہیں صرف کاغذوں کو ثبوت سمجھتے ہیں لوگ۔ دیوانے کی بڑھکیں شاید
پاکستانی عوام کی بے وقوفی پہ ہی کہا گیا تھا۔ جی جی دیوانے کی بڑھکیں وہی
ضرب المثل والی ۔ ضرب المثل تو صادق بھی پاکستانی قوم پہ ہی آتی ہیں نا۔
ارے کیا کہا آپ نے؟ اخراجات کا سوال ؟ مقدمات پہ اٹھنے والے سرکاری خزانے
سے اخراجات؟ توبہ توبہ، یہ کیا کہہ دیا آپ نے ۔ اجی اگر دستاویزات گوروں کے
دیس سے پاکستان لانے میں اگر اخراجات آئے ہیں تو حکومتی خزانہ ہوتا کس لیے
ہے۔ یہی تو تصر ف ہوتا ہے حکومتی خزانے کا۔ یہی تو وجہ ہوتی ہے خزانہ بھرنے
کی کہ بوقت ضرورت کام آوے اور سند رہے۔ جی ہاں تصدیق کی جا سکے کہ فلاں وقت
میں، فلاں کیس کے لیے، فلاں جگہ سے، فلاں فلاں ثبوت ،نہیں نہیں فلاں فلاں
کاغذ لائے گئے ۔۔۔ بری الذمہ قرار دینے کے لیے۔ جی ہاں یہ ہی تو سب سے اہم
کام ہوتا ہے حکومتی ایوانوں میں ۔۔۔ میں گھسیٹوں گا۔ ۔۔ یہ ایویں ایک نعرہ
یاد آ گیا۔ ۔۔۔ بری کر دیا گیا۔۔۔ بری تو ہونا تھا۔ کیوں کہ اس ملک کی بھاگ
دوڑ جو سنبھالنی ہے۔ فکر نہ کریں عوام کو کسی مشکل میں نہیں ڈالا جائے گا
نہ ہی کسی قسم کی تبدیلی آئے گی ۔ اگر تبدیلی آئے گی تو عوام کو نئے سرے سے
تمام لوازمات پورے کرنا ہوں گے۔ کن نئے چوروں،،،، اوہ معذرت خواہ ہوں۔ کن
نئے سیاستدانوں کو منتخب کریں۔ پھر رشوت دینے کے لیے نئے افسروں کو ڈھونڈیں
اور کب اپنے کام کروائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہی پرانا نظام رہے، وہی
پرانے لوگ رہیں، وہی پرانے سیاستدان رہیں۔ تا کہ عوام کو رشوت بہم پہنچانے
کے لیے آسانی رہے۔ کیو کہ رشوت فوری طور پر پہنچانے کے لیے سب کچھ پرانا
ہونا نہایت ضروری ہے۔ |
|