عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
(Ghulam Ibn-e- Sultan, Jhang)
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے
ہیں
کہ یہ ٹُوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
علامہ اقبال نے اپنے افکار میں اس بات پر زور دیاہے کہ فطرت خود بہ خود ہر
لمحہ اور ہر گام لالے کی حنا بندی میں جس انہماک کا مظاہر ہ کر رہی ہے اس
کے پس ِپردہ یہ حقیقت کا رفرما ہے کہ آدمِ خاکی ہی فطرت کے عظیم مقاصد کی
نگہبانی کی استعداد رکھتا ہے۔جب اس خاک کے تودے یعنی انگارۂ خاکی میں یقیں
پیدا ہو جاتا ہے تو یہ روح الامیں کے بال و پر کی صلاحیتوں سے متمتع ہو کر
سرحدِ ادراک سے بھی آگے بلند پروازی پرقادر ہو جاتا ہے اور پُورا گردوں
عالم ِ بشریت کی زد میں آ جاتا ہے ۔عروسِ جہاں کی تزئین کے لیے قبائے گُل
کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن انسان نے اپنی محنت ،لگن اور مستعدی سے
رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو اپنے ذہن و ذکاوت کے تابع
کر کے ہر شعبۂ زندگی میں جو محیر العقول کارنامے انجا م دئیے ہیں وہ اپنی
مثال آپ ہیں۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عروجِ آدم ِ خاکی ہی
در اصل مقصودِ فطرت ہے۔خالق ِ کائنات کو اپنی تخلیق یعنی انسان کا عروج اور
سر بلندی اس لیے مطلوب ہے کہ انسان جس کی تخلیق مسجود ملائک کی حیثیت سے
پیش کی گئی ہر اعتبار سے دنیا میں معزز و مفتخر ہو ۔مخلو ق کی عزت و تکریم
میں اضافہ در اصل اس کے خالق کی عظمت کو چا رچاند لگا دیتا ہے ۔ لوح ِ جہاں
پرخالقِ کائنات کی عظمت کے انمٹ نقوش ثبت کرنے کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ
اس کی احسن التقویم مخلوق یعنی انسان مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ
ثریا ثابت ہو۔اگر انسانی افکار کی بلند پروازیوں اور ضیاپاشیوں کا یہ عظیم
الشان سلسلہ جاری رہتا ہے تو صفحۂ دہر سے سفاک ظلمتیں کا فور ہو جائیں گی
اور اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ منور ہو جائے گا۔آدمِ خاکی کا عروج در اصل
توحید کی عظمت اور خالق ِ کائنات کی قدرت و حکمت کا منھ بو لتا ثبوت ہے ۔اس
حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نوعِ انساں کا زوال اس کے خالق کو کبھی
قبول نہیں ۔اسی لیے علامہ اقبا ل نے بر ملا کہا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیر اہے یا میرا
انسان کی ایک جست زمین و آسمان کی بے کرانی کا قصہ تما م کر دیتی ہے ۔یہ
انسان ہی ہے جو بے خطر آتش نمرود میں کُود پڑتا ہے اور عقل آج تک محو تما
شا ئے لبِ با م دکھائی دیتی ہے۔ اپنے اِسی محبوب انسا ن کی خا طر پروردگارِ
عالم نے نارِ نمرود کو گل زار میں بدل دیا ۔ موسیٰؑ کوساحلِ عافیت پر پہنچا
کر اور فرعون کی رعونت کو دریائے نیل میں غرقاب کرکے خالقِ کائنات نے انسان
کی عظمت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ اسی انسان کی عظمت ہے کہ وہ زیر تیغ کلمہ
ٔ توحید بلند کرتا ہے اورمشیت ایزدی کی خا طر صبر و رضا کا پیکر بن کر کر
بلا کے دشتِ نینوا میں سارا گھر قربان کر دیتا ہے ۔ اسی لیے شا عر نے کہا
تھا
یہ شہا دت ہے اس انسا ں کی کہ اب حشر تلک
آسما نوں سے صدا آئے گی انساں انساں
آدم خاکی کے عروج کی درخشاں مثالیں صد ق خلیلؑ، صبر حسینؑ ، اور معرکہ ٔ
وجود میں خندق ، خیبر ، اور بدر و حنین میں دیکھی جاسکتی ہے۔آدمِ خاکی کے
اس فقید المثا ل عروج کو دیکھ کر افلاک کی وسعت میں ہر طر ف انسان کی شان
اور جا ہ و جلال کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔انسان ستاروں پر کمند ڈال چُکا ہے
اورسورج کی شعاعوں کو اپنا تابع بنا کر زندگی کے تیرہ و تار شبستاں کی سفاک
ظلمتوں کو کافور کرنے میں بڑی حد تک کام یاب ہو گیا ہے۔ انسان نے نمُو،
رنگ،رعنائی اور عطر بیزی سے محروم صحراؤں،ویرانوں اورریگستانوں کو اپنی
محنت شاقہ سے نخلستانوں اور گلستانوں میں بدل دیا ہے ۔نخیلِ زیست میں ان
مقامات پر جب ہم اثمار و اشجار اور بُور لدے چھتناردیکھتے ہیں توقلب میں
ایساسوز پیدا ہوتا ہے جو روح کو طمانیت کے احساس سے سرشار کر دیتا ہے۔انسان
کے سوزِ دروں نے آج گرمی ٔ محفل کی صورت میں دلوں کو مرکز ِ مہرو وفا کر کے
انھیں حریمِ کبریا سے آ شنا کر دیا ہے ۔نانِ جویں پر گزر اوقات کرنے والوں
نے بھی بازوئے حیدر ؑکی قوت کی مثال ہمیشہ پیش ِنظر رکھی ہے۔فطرتِ انساں نے
صبر و استقامت کی روایت میں یاس و ہراس،خوف واضطراب،پس ماندگی اور اضمحلال
اور جبرو استبداد کی زنجیروں کو توڑ ڈالا ہے اورخورشید کا سامانِ سفر تازہ
کرنے کے عزائم کو سینے میں بیدار کر لیا ہے ۔انسان کے دل میں ایک ولولۂ
تازہ پیدا ہوچُکا ہے ۔انسان نے نئی بستیاں آباد کرنے کی اُمنگ دِل میں لے
کر اورافکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سر گرمِ سفر رہنے کا
جوپیمان وفا باندھ رکھا ہے وہ اس کی جفا کشی اور خطر پسند طبع کا حقیقی
رُوپ سامنے لاتا ہے۔
عروسِ لالہ انسان کی سعیٔ پیہم ،عزمِ صمیم ،محنت ِ شاقہ اورکمالِ فن پر
نازاں ہے۔نسیم سحر کو انسان کے افکار کی تازگی پرفخر ہے ۔ انسان کی حریتِ
فکر کی پیکار اورضمیر کی للکار نے ملوکیت کے فسطائی جبر کے ایوانوں پر لرزہ
طاری کر دیاہے۔انسان کی جرأت آموزتابِ سخن نے ہمیشہ اسوۂ شبیری ؑ کوزادِ
راہ بنایا ہے۔آج کاانسان ایک ایسا شاہین بن چکاہے جس کی فضاؤں میں بلند
پروازی اور شان سے خائف ہو کر زاغ وزغن ،بُوم و شِپر اور چغد و کرگس در بہ
در اور خاک بہ سر ہوچُکے ہیں۔انسان نے آتش کدۂ ایراں کو ٹھنڈا کر کے توحیدو
رسالت کے ایمان افروزاور روح پرور ذکر سے دلوں کو جس تمازت اور تاب و تواں
سے آشناکیا اس کے اعجاز سے صفحۂ دہر سے باطل کا نام و نشاں نا پید ہو گیا۔
انسان نے تاریخ کے ہر دور میں اپنے خالق کوپہچانتے ہوئے محتاج ملوک بننے کے
بجائے عزتِ نفس اور انا کا پرچم بلند رکھا اور صرف اپنے خالق کے حضور سر
تسلیم خم کیا ۔
آدم ِخاکی کا عروج در اصل خالقِ کائنات کی عظمت ،قوت ،ہیبت اورابد آشنا
حکمت و حکومت کا ثبوت ہے۔آج انسان اﷲ کی دی گئی صلاحیتوں کو رو بہ عمل لا
کر اپنے خالق کی توحید کا دوام لوح ِ جہان پر ثبت کر چُکا ہے ۔زندگی میں
کام یابی کی دلیل یہ ہے انسان اپنی تسبیح ِ روز و شب کے دانے دانے کا حساب
کرے اور کو شمار کر کے مثبت طرزِ عمل اپنانا اپنا شعار بنائے۔سائنس اور
ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں انسان نے علوم و فنون کے شعبے میں
جو ترقی کی ہے اس نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے۔مواصلات ،طب ،تعلیم اور
ابلاغیات کی دنیا میں جو صد رنگ کیفیت پیدا ہو چکی ہے وہ انسان کے مہ ِ
کامل ہونے کی جانب ایک بڑا قدم ہے ۔جب علامہ اقبال نے یہ کہا تھا کہ اہلِ
نظر تازہ بستیاں آباد کریں گے تو انھوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ ان کی
نظر کوفہ اور بغداد جیسی روایتی بستیوں پر نہیں۔اہلِ نظر سے یہ حقیقت مخفی
نہیں کہ انسان خلا کو مسخر کر چُکا ہے ۔مستقبل قریب میں اس بات کا امکان ہے
کہ انسان افلاک کی وسعت میں کوئی نئی بستی بسا کر اپنے مہِ کامل ہونے کا
ثبوت دے۔
رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے اور انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پرہے اور نہ ہی اس
کا پاؤں رکاب میں ہے ۔انسان کو یہ معلوم نہیں کہ کس مقام پر زندگی کا یہ
سفر اپنے اختتام کو پہنچ جائے ۔اپنی حباب کی سی ہستی اور اس عالم ِ آب و
گِل کی سراب کی سی نمائش کے سب راز جاننے کے باوجود انسان ایام کا مرکب
نہیں بنتا بل کہ وہ ایام کا راکب بن کر مہر و مہ و انجم کا احتساب کر نے کی
استعداد سے متمتع ہے ۔وہ جا نتا ہے کہ فراخی ٔ افلاک میں خوار و زبوں
ستاروں کا اس کے مقدر کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔انسان نے اپنی
زندگی کے سفر میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور اپنی تقدیر خود سنوارنے کی
تمنا کو اپنے دل میں جگہ دے کر خوب سے خوب تر کی جانب اپناسفر جاری رکھا ہے
۔اس کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ وہ ستاروں سے آگے موجود جہانوں کی جستجو میں
پیہم مصرو ف ِعمل ہے ۔پرِ زمانہ کی رفتار اب پروازِ نُور سے کہیں بڑھ چُکی
ہے۔موجودہ دور میں انسان اپنی بصیرت کے اعجاز سے عطربیز فضاؤں سے معمور ایک
حسین اور دل کش ماحول تیار کر چُکا ہے اور اس کی کامرانیوں کے چرچے کُو بہ
کُو پھیل گئے ہیں۔جدیددور کاانسان جب عہدِ ماضی کو ڈُوبتے سورج کی شعاعوں
کے چیتھڑے اوڑھے نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتے سُوئے عدم کُوچ کرتے دیکھتا
ہے تو ماضی کی تہی دامنی اورآئینۂ ایّام میں اپنی اداؤں پر غور کرنے کے بعد
وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ دِن دُورنہیں جب وہ زمین و آسمان و کرسیٔ و
عرش کے سب رازوں کی گرہ کشائی کر سکے گا۔
سلطانی ٔ جمہورکی بادِ نسیم کے عطر بیز جھونکے گُلشنِ ہستی سے آمریت ،جنگ و
جدال اور مہم جُوئی کے خار وخس اُڑ ا لے گئے ہیں۔آج گلزارِ ہست و بُود کے
عنادل چمن میں ہر سُو انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے نغمے الاپ رہے
ہیں۔خو ف و دہشت کی نشانیوں کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے اوراوہام کے
تارِ عنکبوت ہٹانے کی مساعی رنگ لا رہی ہیں۔
آج ہرطرف انسان کی عظمت اور قوت کا ڈنکا بج رہا ہے ۔انسان کی ورق ورق ہستیٔ
نا پائیدار کی داستان کو اگر حرف حرف بیان کیا جائے تو اس کا خلاصہ یہی ہے
آج کے تعلیم یافتہ اور متمدن انسان کے افکار کی مہک نے بلند فضاؤں میں
بادلوں کا ہاتھ تھام کر گردشِ حالات کے مسموم بگولوں اورآلامِ روزگار کے
مہیب طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے
کہ آج قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کی صلاحیتوں سے متمتع انسان کی ہیبت
سے دریاؤ کا دِ ل دہل جاتا ہے اور آدمِ خاکی کے اس عروج کو دیکھ کر آسمان
کے ستارے بھی خوف سے لرزاں ہیں۔ |
|