شہر ہوں یا دیہات پھیری لگا کر خوانچے اٹھا کر
کچھ نہ کچھ بیچنے والوں کی پھیریاں اکثر سنائی دیتی رہتی ہیں۔ دیہاتوں میں
گلی گلی پھیری لگانے سے کہیں بہتر سمجھا جا تا ہے کہ’’ پھیرو‘‘ مسجد میں جا
کر اعلان کر وا دے اور سارا پِنڈ اعلان سن کر اکھٹا ہو کر خریداری کرنے
پہنچ جاتا ہے۔حتٰی کہ پنڈ کے قصائی کٹا ذبحہ کرکے بھی مساجد سے اعلان
کرواتے ہیں۔لیکن شہروں میں حالات قدرے مختلف ہوتے ہیں۔یہاں پر کُلفی ، آئس
کریم ، پاپ کارن ، آلو چھولے اور چھلی ، حتی کہ کلچے۔ ہر چیز گلی میں آکر
بکتی ہے۔ بچپن میں ہماری گلی میں اکثر آواز آتی تھی۔
’’منجی پیڑی ٹھکا لو ۔۔ٹُٹے نویں بنا لو ‘‘۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے صحن
میں سونا چھوڑ دیا ۔کمروں میں بیڈ پہلے سے پڑے تھے۔ یوں منجی کِتھے ڈھانواں
کا کلچر ختم ہوگیا۔۔ پِیڑی کو رسوئی سے باہر نکال کر ہم ڈائننگ ٹیبل پر شفٹ
ہو گئے۔ یوں پھیری کی آواز یں کہیں اور چلی گئیں ۔انہی دنوں محلوں میں
’’پانڈے قلعی کر ا لو ۔بالٹیاں دے تھلے لوا ۔لو۔پرانے نویں بنا لو۔ ‘‘ کی
آوازیں بھی گونجتی تھیں ۔ تب گھروں میں عموما پیتل کے برتن ہی ہو تے تھے
جو استعمال کے بعد حبشی رنگے ہو جاتے ۔ انہیں قلعی کرنے کے لئے محلے کے بڑے
چوراہے پر میلہ نما ٹھیلا لگتا ۔ہر گھر سے پیتل کی پراتیں،ہانڈیاں، گلاس،
بالٹیاں ،پلیٹ، جگ اور لوٹے باہر نکال آتے ۔قلعی گر کے سامنے ہر گھرکے
برتنوں کی الگ لائن لگ جاتی ۔لیکن پیتل کی جگہ پلاسٹک،شیشے اور پتھر کے
برتنوں نے لی ۔یوں دوسری آواز کا تو جیسا گلا ہی بیٹھ گیا۔پھر نئی صد ا کی
بازگشت آنے لگی۔’’چولہے ٹھیک کرالو، پریشرکُکر کی ربڑ بدلا ۔لو۔ کولر کو
ٹونٹی لگوا لو، استری ، واشنگ مشین اور سلائی مشین ٹھیک کروا لو۔ نیا
کاریگر ترکھان اور قلعی گر سے زیادہ کاری گر تھا۔ بالکل ہر فن مولا ۔ اس کی
مہارت نے مجھے مجبور کیا کہ میں گلی سے باہر نکل کرعمروعیار کی وہ زنبیل کو
دیکھوں جس میں ہر رسوئی مسئلے کا حل موجود تھا۔یوں موچھے سے میری ملاقات ہو
گئی۔
موچھے کے لئے ہر کام بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ دائیاں اس کا تھوڑا کمزور
تھا۔پھر موچھے نے میرے گھر کے کئی بگڑے کام مزید بگاڑ دئیے ۔کولر سارا سیزن
لیک کرتا رہا، واشنگ مشین نے واش کرنا چھوڑ دیا ، کُکر کی ربڑ کا سائز غلط
نکل آیا اور سلائی مشین بخیے مارنے لگی۔سڑک پر فقیر لنگڑاتا جا رہا تھا ۔
لنگ دیکھ کر سامنےسےآنے والے تین ڈاکٹر اندازے لگا رہے تھے ۔
پہلاڈاکٹر: اسے پولیو ہوا تھا
دوسراڈاکٹر : نہیں یار۔ مجھے توفالج زدہ لگتا ہے۔
تیسراڈاکٹر:تم دونوں غلط ہو۔بھکاری کی ٹانگ ٹوٹی ہے۔
ڈاکٹر بھکاری کے پاس چلے گئے اور پوچھا تم لنگڑا کر کیوں چلتے ہیں۔؟
بھکاری:میری جوتی ٹوٹی ہے۔
یہ ڈاکٹر بھی کچھ موچھا ٹائپ ہی تھے۔ کہتے ہیں کہ رونا اور گانا تو ہر کسی
کو آتا ہے۔لیکن میرا ماننا ہے کہ کنوارے گاتے ہیں اور شادی شدہ کا گانا
نکل جاتا ہے۔ جسے لوگ رونا سمجھتے ہیں۔ رونے کا گانے سے وہی تعلق ہے ۔جو
کنوارے کا شادی شدہ سے ہوتا ہے۔ کنوارے گلیوں بازاروں میں گاتے ہیں اور
شادی شدہ bath room singing کرتے ہیں میرا تعلق بعد الذکر جاتی سے ہے اسی
لئے میرا ’’گانا‘‘بھی اکثر نکل جاتا ہے۔سُننے میں میرا گانا کچھ موکری جیسا
ہو تا ہے۔ عین الیقین کی حد تک یہ درست ہے کہ میرا گلا سُریلا نہیں ہے لیکن
کان کافی سُریلے ہیں۔آنکھیں تو بہت ہی زیادہ سُریلی ۔اچھی چیز دکھائی دے
تو’’ سا‘‘سے لے کر’’نی‘‘ تک سارے سات سُربجنے لگتے ہیں اورکئی بار تو مسلسل
سانی سانی ہوتا رہتا ہے۔اور اگر بُری چیز سنائی دے تو کیفیت ایسی ہوتی ہے
گویا کسی نے ۔۔ موبائل فون کمپنی کے ٹی وی اشتہار ’’تیری مہربانی ‘‘ والا
جملہ کھینچ کے مارا ہو ۔۔
آج کل موکری کی تازہ شکل ٹی وی چینلز پر چلنے والے گانے ہیں۔وہی تینوں’’
ڈاکٹرز‘‘ جو فقیر کی لنگڑا۔۔ شناسی پر مامور تھے ۔موک اسٹوڈیو میں کام کرنے
لگے ہیں۔ پرانی دھنوں اور سدا بہار گانوں کی جراحی پرانہیں تعینات کر دیا
گیا ہے۔جراحت کے لئے نئے آلات موسیقی اور نئے گلوکار ان کے حوالے کر دئیے
گئے ہیں۔کئی عطائی گلوکار موک اسٹوڈیو کے سیزن 9 کے لئے کام پر ’’اترے ‘‘
ہوئے ہیں۔ان شوقینوں نےسُریلے معاشرے میں راگ ’’خود کُش ‘‘چھیڑ دیا
ہے۔مہندی حسن ، نور جہاں اور نصرت فتح علی خان سمیت نامور گلوکاروں کے گائے
ہوئے گانے موک اسٹوڈیو میں لاشے بنے پڑے ہیں۔ٹی وی کی آواز بند کرکے سنوں
تو مجھے بھی نئے گانے کافی اچھے دکھتے ہیں۔لیکن آواز کھولتے ہی لگتا ہے ہر
گانا ٹی وی کمرشل ’’تیری مہربانی‘‘جیسا لگتا ہے ۔
موک اسٹوڈیو سیزن 9 جار ی ہے ۔ ڈی سی او فیصل آباد نو رالامین مینگل بھی
آڈیشن میں شریک ہیں ۔جواد کلب میں پرائیویٹ اسکولوں کے بچوں کے لئے منعقد
ہونے والے ایک شو میں انہوں نے گانا سنایا۔ حاضرین چونکہ سکولوں کی
رجسٹریشن منسوخ ہونے سے خوفز دہ تھے اس لئے انہوں نے کافی enjoy کیا۔گانے
کے بول تھے ’’جب کوئی بات بگڑ جائے جب کوئی مشکل پڑ جائے۔ تم دینا ساتھ
میرا ۔ او ہمنوا‘‘۔
آڈیشن کے دوران ڈی سی او فیصل آباد کے سُر کافی بگڑے لگ رہے تھے ۔لیکن
بڑی بات ہے انہوں نے ہمت کی۔ ہم دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ جو گانا
انہوں نے گا یا و ہ سُننا مجھے بہت پسند ہے۔ میرے کان چونکہ سُریلے ہیں اس
لئے مجھے اوریجنل والا پسند ہے۔لیکن میں گا نہیں سکتا میرا گانا نکل جاتا
ہے۔اُن کےپاس عمر و عیار کے زنبیل ہے۔ یا پھر ڈوری مون کا gadget ہے۔ پتہ
نہیں۔؟ لیکن کچھ ہے۔جس میں سے وہ ۔جو چاہیں اور جب چاہیں نکل آتا ہے۔ان کے
لئے ہر کام بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ویسے تو وہ پبلک سرونٹ ہیں لیکن پی ٹی
آئی اور پیپلزپارٹی انہیں’’ شریف‘‘سرونٹ سمجھتے ہیں۔ من پسند افسران کی
تعیناتی اور نا پسند کی ٹرانسفر ان کے کھبے ہاتھ کا کام ہے۔تلاش گُل ان کا
پسندیدہ مشغلہ ہے۔اینٹی ڈینگی مہم کو فیسٹول میں بدلنے کا گُر انہیں آتا
ہے۔عمران خان کے جلسے کے مقابلے میں ہنس راج، ملکو اور حوریہ کا ’’جلسہ‘‘کروانا
وہ بخوبی جانتے ہیں۔کرکٹ، بیڈمنٹن، سائیکلنگ ، شوٹنگ اور کراٹے سمیت ہر
کھیل میں ’’ڈاکٹر‘‘ ہیں۔ذوق ایسا کہ شہر کے بڑے ہوٹلوں کو دم پُخت شروع
کرنا پڑا۔فیصل آباد میں بہت سے ترقیاتی’’ فیسٹول‘‘ ان کا اہم کارنامہ
ہیں۔شہرکے بے نام چوراہوں کو شناخت انہوں دی ۔قیام پاکستان سے 2014 تک
ریلوے اسٹیشن چوک گمنامی میں ڈوبا ہوا تھا ۔شہریوں کو مبارک ہو اس کا نیا
نام بشیر نظامی چوک رکھ دیا گیا ہے۔ یہ ترقی اُس تبدیلی کی جانب واضح اشارہ
ہے جس کاچرچہ عمران خان کرتے ہیں۔لیکن ن لیگ کے بعض ممبران اسمبلی کو جانے
کیا چِڑ ہے کبھی وہ نوٹوں بھری گاڑی غائب ہونے کا الزام لگاتے ہیں اورکبھی
ٹرانسفر کرانے کا شوشہ چھوڑتے ہیں اور کبھی کرپشن کی بے وقت راگنی۔ لیکن ڈی
سی او اسلحہ شناس بھی ہیں اور مردم شناس بھی۔ وہ تقریباتین سال سے فیصل
آباد میں تعینات ہیں اور ہم تین سالوں میں دو تین بار ہی ملے ہیں۔کیونکہ
ملنے کی رعایت چند خاص لوگوں کوہی حاصل ہے اور میں مینگو آدمی ہوں۔ایک بات
طے ہے کہ وہ بلا کے پر اعتماد ہیں۔ میرا پسندیدہ گانا گا کر انہوں نے تو
مجھے لا جواب کر دیا ہے ۔اس لا جوابی کے جواب میں میرے پاس پطرس بخاری کا
ایک قصہ ہے۔ پطرس بخاری کی گھڑی ایک بار خراب ہو گئی۔وہ بازار گئے پھر
دکاندار سے مقالمہ ہو ا ۔
پطرس :میری گھڑی خراب ہے۔ ٹھیک کر دیں
دکاندار :ہم گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے
پطرس:اچھا ۔تو پھر آپ کیا کرتے ہیں۔ ؟
دکاندار: جی ہم ختنے کرتے ہیں
پطرس:تو باہر گھڑیاں کیوں لٹکائی ہیں ۔؟
دکاندار : آپ بتا دیں پھر کیا لٹکائیں۔ ؟
شہر میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ چلڈرن ہسپتال، ساہیانوالہ
ایکسپریس وے اور جھال چوک انڈر پاس سمیت بہت سے اور بھی ۔
لیکن مجھے گلی سے پھرموچھے کی آواز آرہی ہے۔اس نے کاروبار بدل لیا ہے۔اس
بار وہ ڈاکٹر بن کر آیا ہے۔صدا کچھ اس طرح کی ہے۔۔ کان صاف کروا لو ۔ ! |