اینٹی کرپشن ڈے
(M Tahir Tabassum Durrani, Lahore)
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو کسی بھی مضبو ط
سے مضبوط عمارت کی بنیادوں کو اُکھاڑ کر رکھ دیتا ہے اور جس معاشرے میں اس
کی جڑیں جتنی مضبو ط ہوتی جاتی ہیں اس معاشرے میں بگاڑ،بے چینی اضطراب عام
ہو جاتا ہے لڑائی جھگڑے قتل و غارت معمول بن جاتاہے ماؤں بہنوں کی عصمتیں
تار تار ہوجاتی ہیں بچوں کے مستقبل تاریک ہو جاتے ہیں اور ایک دن ایسی
قومیں اپنے نقطء انجام تک پہنچ کر نیست و نا بود ہو جاتی ہیں اور تاریخ کا
حصہ بن کر رہ جاتی ہیں اور جو قومیں اس سے سبق حاصل کر لیتی ہیں وہ دنیا پر
حکمرانی کرتی نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر میں 9دسمبر کو اینٹی کرپشن کا دن منایا
جاتا ہے اور اس دن کو ہفتہ بھر کسی بھی دن منایا جا سکتا ہے ۔عام طور پر
سمجھا جاتا ہے کرپشن صرف روپے پیسے کو ناجائز طریقے سے حاصل کرنا ہے لیکن
اہلِ فکر اہلِ علم و دانش اس کی تعریف یہ نہیں کرتے ، وہ کہتے ہیں جھوٹ
بولنا ، کسی کا حق مارنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے اپنی نوکری کے دوران
غیرضروری سرگرمیوں میں مصروف رہنا بھی کرپشن میں آتا ہے ، مختلف سماجی
ادارے ، تعلمی ادارے ، نیب(نیشنل اکاونٹبیلٹی بیورو)اس موقع پرسیمنار منعقد
کر کے لو گوں میں آگاہی پید ا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں ہم
نے اپنا فرض پورا کردیالیکن ایسا نہیں ہم ایک مایئکرو پلیس۔چھوٹی سی جگہ پر
بیٹھ کر چند لوگ اکھٹے ہو کر بھاشن دے کر اپنی زمہ داری سے بری زمہ ہو جاتے
ہیں بس آخر میں کھایا پیا ایک دوسرے کے الفاظوں کی تعریف کی اور چلتے بنے
ایسا کرنے سے کرپشن ہر گز ہرگز ختم نہیں ہونے والی۔
پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ نے تعاون سے آج ورچوئل یونیورسٹی آف
پاکستان نے انٹی کرپشن کے حوالے سے ایک سیمنار کا انعکاد کیا جس میں مُلک
کے نامور شخصیات نے شرکت کی جس میں جناب سجاد میر، رؤف طاہر اور ڈاکٹر اجمل
نیازی نے شرکت کی پروگرام کا آغاز حسب روایت تلاوت کلامِ پاک سے ہوئی تلاوت
کا شرف جناب مسعود ثانی نے حاصل کیا، سٹیچ پر پروفیسر رضوان سلیم سندھو
صاحب نے اپنی الفاظوں کا خوب جادو جگایا۔ سب سے پہلے مقرر ڈاکٹر نواز
ایڈوائزر وی یو نے خطاب کیا انہوں نے کرپشن کو ختم کرنے پر بات کرتے ہوے
فرمایا کہ انسان کی تربیت کی کمی کی وجہ سے انسا ن ایسے گھناونے جرم کا
مرتکب بنتا ہے انہوں نے کہا انسان کی تربیت کی اصل جگہ ماں کی گود ہے انہوں
نے اپنا بچپن کا واقعہ سناتے کہا کہ بچپن میں ابو کی جیب سے کچھ پیسے چرائے
ماں نے پوچھا تو بتایا ہم تو ایسا کر ہی نہیں سکتے ، اگلے دن جب محلے کی
دکان پر کچھ خرید رہے تھے تب کچھ جوتوں کی بوچھاڑ میں ہم گھر آئے یہ ماں کے
جوتے تھے جو اس جھوٹ کی وجہ سے پڑے اگر ماں اس دن چھوڑ دیتی تو آج ہم میں
بھی عیب ہوتے ایک اور بہت خوبصورت بات بتائی کہ جنا ب عبدالستار ایدھی صاحب
کو بچپن میں دو آنے ملتے تھے ایک ایدھی صاحب کی پاکٹ منی اور ایک کسی ضرورت
مند کی مدد کے لیئے یعنی بچپن سے ہی ان کی تربیت میں لوگوں کی مدد کرنا
شامل تھا اور آج وہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مثال ہیں۔
اس کے بعد سجادمیر صاحب نے اپنے انداز میں کرپشن کو ختم کرنے کے گُر بتائے
انہوں نے یہاں میڈیا پر بھی زور دیا کہ میڈیا اپنا کردار صحیح معنوں میں
ادا نہیں کر رہا وہ ہر خبر کو اس انداز میں پیش نہ کرے جس سے معاشرے میں
بگاڑ پیدا ہو اس کے بعد رؤف طاہر صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں
نے انتہائی سادگی کے ساتھ اپنے الفاظوں کو لوگوں تک پہنچایا ، انہوں نے اس
بات پر زور دیا کرپشن ایک اکیلے بندے کا نام نہیں اس میں ہم سب کو مل کر اس
زہرِقاتل سے نجا ت حاصل کرنا ہو گی اور اس میں سب سے زیادہ اہم رول کردار
اساتذہ کرام او ر ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان جیسے ادارے ادا کرسکتے ہیں،
کیونکہ یہاں نئی نسل کو علم سکھایا جاتا ہے اس کے بعد ڈاکٹر مہدی حسن صا حب
نے خطاب کیا نہوں نے کہا کہ آج کل ادارے روبورٹ پیدا کر رہے ہیں ہیں انسان
نہیں وہ ایم بی اے یا ڈاکٹر تو بن جاتے ہیں لیکن اندر سے انسان نہیں بناتے
، ادروں پر بھی لازم ہے کہ کروڑ پتی ارب پتی بننے کی بجائے قوم کے معماروں
کی صحیح رہنمائی کریں ، کمپیوٹر سائینس نہ پڑھاءں بلکہ انسانیت کا درس دیں
مذہب کو جمہوریت سے دُور رکھیں، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا آج کے
نوجوان کو تاریخ پڑھائی جائے ان کو بتایا جائے پاکستان کتنی محنت اور
قربانیوں سے آزاد ہوا، اس آزادی میں اور ہجرت کرنے والوں نے اپنی جانوں کے
نذرانے کیسے پیش کیئے تقریبنا پچاس ہزار خواتین کو اغواہ کر لیا گیا تب جا
کر ہم اس آزاد ملک کے شہری بنے اگر آج کا نوجوان صرف تاریک ہی پڑھ لے تو
آدھی سے زیادہ کرپشن خودبخود ختم ہو جائے گی-
اس کے بعد جناب ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے اپنے مخصوص انداز ، مزاح مزاح میں
بہت سی ایسی باتیں کیں جن سے کرپشن کو ختم کیا جا سکتا ہے انہوں نے میٹھے
اور دھیمے انداز میں نیب کی بھی کلاس لی اور مذاق مذاق میں کہا اب یہ ادارہ
انٹی کرپشن نہیں بلکہ ایک آنٹی کرپشن انہوں نے اپنے بچپن کا واقعہ بتاتے ہو
ئے اپنے اساتذہ کرام کا بھی ذکر کیا اور کہا ہمارا سکول آسمان کی چھت کے
نیچے ہوا کرتا تھا بیٹھنے کی لیئے ڈیسک نہیں بلکہ ٹاٹ بھی نہیں ہوا کرتے
تھے ہم زمین پر بیٹھا کرتے تھے ہمارے محترم استاد کے لیئے جو کرُسی ہوا
کرتی تھی وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی تھی ، سکول کی عمارتیں کچی جبکہ
استاد بڑے پکے ہوا کرتے تھے اُ ن ساتذہ کرام کو اپنے لیے کچھ ملے یا نہ ملے
وہ اپنے طالبعلم کی روشن مستقبل کے خواہاں ہو ا کرتے تھے وہ ہر غلطی پر سزا
دیتے تھے اور آج ان کی سزا کی وجہ سے ہم معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے
جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں اس وقت سے ڈنڈے کھا رہے ہیں اور آج کا نوجوان ڈنڈی
مار رہاہے جو اس ڈنڈے سے زیادہ خطرناک ہے ہم اپنے اساتذہ کرام سے کھاتے تھے
انہوں نے ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان اور جنات شہزاد چوہدری چئرمین پی ایف
یو سی کا بھی شکریہ ادا کیا اور شہزاد چوہدری صاحب کی محنت کو سراہا، اور
کہا ایسے سیمنا ر منعقد ہوتے رہنے چاہیے لیکن افوس مجھے نہیں لگتا اس مُلک
سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکے کیوں کہ جب تک ہم ایک ایک اپنے آپ کو درست نہیں
کر یں گے چہرے بدلنے یا ادارے بنانے سے کو ئی فرق نہیں پڑنے والا اس لیئے
ہم سب کو ذاتی طور پر ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے آخر میں صدرِ محفل عزت ماٰب
ڈاکٹر نوید اے ملک صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں ایک چھوٹی سی بات پر
اختتام کیا کہ ہم سب کو پتہ ہے کیا غلط کیا درست ہے بس رات کو سوتے وقت
اپنا احتساب کر لیا کریں تو ساری کی ساری کرپشن خود ہی ختم ہو جائی گی۔ آخر
میں ڈاکٹر صاحب نے تما م مہمانوں آنے والے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور خوب
صورت ہائی ٹی سے مہمانوں کی تواضع کی۔
میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں شہزاد چوہدری صاحب ، فرخ شہباز ورایچ صاحب ،
جناب بابر صاحب پروگرام منیجر وی ٹی وی اور ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان کے
تمام انتظامیہ کا جنہوں نے اس پروگرام کو خوب سے خوب بنانے میں اپنا کردار
ادا کیا۔ |
|